دور حاضر کے سسی پس

57 اسلامی ممالک کی واحد نمائندہ تنظیمoic کا بارہواں اجلاس مصر کے کیپٹل قاہرہ میں سات فروری کو منعقد ہوا۔oic پر خامہ فرسائی سے پہلے میرے زہن کے صفحہ قرطاس پر زمانہ قدیم کے یونانی بادشاہ کی تاریخ الفاظ کی صورت میں ابھر ی۔یونانی ہسٹری کے اس شہنشاہ کا نام سسی پس تھا جو لعنت زدہ بادشاہ کے نام سے مقبول ہوا۔ دیوتاوں نے اسے سزا سنائی کہ وہ ایک بھاری پتھر اٹھا کر پہاڑ کی چوٹی تک پہنچائے۔سسی پس پتھر اٹھا کر پہاڑ کی چوٹی کے نذدیک پہنچتا تو لڑکھڑا جاتا اور پتھر ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر آگرتا۔بادشاہ نیچے آکر دوبارہ طبع آزمائی کرتا مگر چوٹی تک رسائی سے پہلے پتھر زمین پر آجاتا اور بادشاہ کو یہی مشق ستم بار بار دہرانی پڑتی۔یوں بادشاہ نہ تو پتھر چوٹی تک پہنچا سکا اور نہ ہی اس پر برسائی جانیوالی لعنت کا خاتمہ ہوا۔یونانی اسطور نامے کی یہی داستان امت مسلمہ کا ماجرا ہے۔کیا دائروں کے دیرینہ سفر نیزے اور سر کے پرانے کھیل میں ہمارا حال بھی سسی پس جیسا نہیں؟ او آئی سی کے اجلاس میں مسئلہ فلسطین تنازہ مالی اور مسئلہ شام اور امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر گفتگو ہوتی رہی۔ اجلاس کے اختتامی سیشن سے مصری صدر مرسی نے خطاب کرتے ہوئے کہا مسلم ممالک متحد ہوجائیں۔ حکمران بیدار ہوں۔ مسلم ممالک تعلیم پر زور دیں۔ سائنسی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کو یقینی بنایا جائے۔مرسی نے شرکائے کانفرنس کی توجہ بار بار ایک نقطے کی جانب مبذول کروائی کہ امت مسلمہ کا اتحاد ہی سب سے بڑی قوت ہے۔ مسلمان اتحاد و یکجہتی کی قوت سے دنیا کے سامنے عظیم تہذیب کی شکل میں سامنے آسکتے ہیں جو دنیاوی مسائل حل کروانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ کانفرنس میں مسئلہ شام چھایا رہا۔مصری صدر نے شام کے خونی انتشار کے خاتمے کی خاطر مصالحتی کمیٹی کی تجویز دی۔سعودی شہنشاہ شاہ عبداللہ نے کانفرنس کے شرکا کو ایک پیغام بھجوایا کہ uno کی سلامتی کونسل تنازعہ شام حل کروانے میں ناکام ہوچکی ہے۔اسی لئےoic شامی بحران کی گھمبیرتا سلجھائے۔ مسلمانوں کو چپ کا روزہ توڑ کر میدان میں اترنا چاہیے۔ مسئلہ شام پر یہ پہلی کانفرنس نہیں بلکہ اس سے قبل شام کی مدد کے لئے کویت میں کانفرنس منعقد ہوئی۔کویت نے شام کو تین سو ملین ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا تھا۔کویت کانفرنس میں امریکہ روس چین برطانیہ فرانس اور جرمنی نے شرکت کی تھی۔ شام کے لئے عالمی برادری کے نمائندے خضر ابراہیمی نے جنوری میں جنیوا میں روس اور امریکہ کے senior سفارت کاروں سے تنازعے کے حل کی خاطر ممکنہ اقدامات پر بحث و مباحث کی۔شام کا مسئلہ23 ماہ سے حل نہیں ہوسکا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون نے سابق ہم منصب کوفی عنان کو اپنا ایلچی مقرر کیا تھا مگر وہ کچھ کرنے میں ناکام رہے۔ ترکی مصر اور عرب لیگ شام میں ہونیوالی خانہ جنگی کا ملبہ شامی صدر بشار الاسد پر ڈال چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اور مغرب شامی تنازعے کے خاتمے میں دلچسپی نہیں لیتے۔2012 میں uno کی سلامتی کونسل نے بشار الاسد کے خلاف قراداد منظور کی تھی جسے روس اور چین نے ویٹو کردیا۔ عرب ممالک نے روس اور چین کے ویٹو پر سخت ردعمل شو کیا تھا۔ امریکہ اسرائیل کو مشرق وسطی کا چوہدری بنانا چاہتا ہے۔مشرق وسطی میں عراق شام اور ایران سامراجی طاقتوں اور یہودیوں کے مذموم مقاصد کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ عراق کو نیست و نابود کرکے اسرائیل کے ایک دشمن کو راستے سے ہٹادیا گیا ہے۔امریکہ نے شام اور ایران کو برائی کے محور کا درجہ دیا تھا۔ شام کی خانہ جنگی میں یہود و ہنود باغیوں کو دھڑا دھڑا اسلحہ فراہم کررہے ہیں۔ شام میں ہونے والی خون ریزی اور خانہ جنگی امریکہ اور اسرائیل کے مفاد میں ہے مگر امریکہ کے مرغان دست اموز بنے ہوئے عرب حکمران بشار الاسد کو وائٹ ہاؤس کی خوشنودی کی خاطر راندہ درگاہ بنانا چاہتے ہیں۔ oic نے تو پچھلے سال شام کی رکنیت ختم کرکے نہ صرف امریکہ کے ساتھ وفاداری کا عہد نبھایا بلکہ یونانی دور کے شہنشاہوں کی یاد تازہ کردی۔oicمیں ہمارے بادشاہ حکومتی اصحاب کہف ہر سال الفاظ کی ہیرا پھیری اور شعلہ بیانی سے امت مسلمہ کو بیوقوف بنانے کی اداکاری و ہدایت کاری کے جوہر دکھاتے ہیں ۔ اگرoic کی سابقہ ہسٹری کو مدنظر رکھ کر کارکردگی کا زائچہ بنایا جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ oicکے حکمرانوں نے اپنی منظور کردہ قرار دادوں کو عملی شکل میں ڈھالنے کی زحمت نہیں کی۔oicدو روزہ سرکس شو ہے جو ہر سال بڑی خوبصورتی سے سجایا جاتا ہے۔ شو میں57 ہدایت کار اپنی فنکاری کے کمالات دکھاتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ گپیں ہانک کر بے نیل و مرام واپس لوٹ جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شام کے ساتھ ساتھ غریب ترین ملک مالی میں مسلمانوں پر توڑی جانیوالی ظلمت کے خاتمے کی تدبیر سوچی جاتی مگر عقل سلیم سے عاری او آئی سی نے لیپا پوتی کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔مالی دنیا کے25 پسماندہ ترین ملکوں میں شامل ہے مگر قدرتی معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے۔مالی میں سونے کا 3 بڑا زخیرہ ہے۔مالی کے علاقے فیلیا کی زمین نے اپنے دامن میں پانچ ہزار ٹن کا یورینیم چھپا رکھا ہے۔ الجزائر آئی ری کوسٹ سینیگال اور نائجیرین سرحدوں کے سنٹر میں موجود مالی براعظم افریقہ کا 7 اور دنیا کا 24 واں بڑا ملک ہے۔ازادی سے پہلے مالی فرنچ سوڈان کا حصہ تھا۔ ماضی میں یہ فرانس کی نو آبادی تھی۔ مالی میں1880 میں فرانسیسی کالونی کی بنیاد رکھی گئی۔اکتوبر1989 میں کالونی سسٹم غرق ہوا تو10 صوبے عالمی نقشے پر ابھرے۔اکتوبر1958 میں فرنچ سوڈان فرانسیسی کیمونٹی کا رکن بن گیا۔اپریل1959 میں فرانسیسی سوڈان نے سینیگال سے اتحاد کرکے مالی فیڈریش کی بنیاد رکھی۔1960 میں سینیگال فیڈریشن سے الگ ہوگیا۔22 ستمبر1960 میں فرانسیسی سوڈان نے جمہوریہ مالی کی بنیاد رکھی۔ کالونیل دور میں فرانس نے عیسائی روحانی لیڈروں کو دولت سے نہادیا کہ مسلمانوں کو اقلیت میں بدلا جائے۔ مسلمانوں کو عیسائیت کی چھتری تلے اکٹھا کرنے کی خاطر دھونس دھاندلی اور سرکاری ڈنڈے کا بے دریغ استعمال کیا گیا مگر مسلمانوں کی استقامت کے سامنے سب شیطانی منصوبے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ مالی کی 90٪ اکثریت مسلمان ہے۔ مالی کا شمار افریقہ کی اچھی جمہوریتوں میں ہوتا تھا تاہم کبھی فوجیوں نے حکومتی لگام تھام لی تو کبھی عیسائی تنظیموں نے صدارتی محل کا چارج سنبھال لیا۔ مسلمانوں نے بھی شمالی علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ مسلمانوں نے اس فتح کے بعد کیپٹل بماکو کی جانب پیش قدمی شروع کردی جس پر فرانسیسی بروفراختہ ہوگئے اور مسلمانوں پر چڑھائی کردی۔مسلمانوں پر فرانسیسی فورسز نے چنگیزی مظالم مسلط کررکھے ہیں۔مسلمانوں پر آتش و اہن کا سلسلہ جاری ہے۔ مغرب کی ڈکشنری میں اسلامک سسٹم کی اواز بلند کرنے والوں کو شدت پسند سمجھا جاتا ہے جو انسانیت کے زمرے میں نہیں آتے اس لئے جہاں ملیں مار دو کسی عمارت میں انکی موجودگی کے آثار ہوں تو عمارت کو بارود سے اڑادو۔ مغربی میڈیا نے پروپگنڈہ کیا کہ مالی شدت پسندوں کے قبضے میں جارہا ہے اگر ایسا ہوا تو خطے کا امن و سکون تباہ ہوجائیگا۔ فرانسیسی فورسز اور اتحادیوں نے اسی پروپگنڈے کو بنیاد بنا کر مالی کے مسلمانوں پر فوجی چڑھائی کردی۔خون مسلم بہہ رہا ہے کسی کو کوئی پرواہ نہیں ظلم تو یہ ہے کہ امت مسلمہ نے بھی آنکھیں موند رکھی ہیں۔ ناٹو نے سنٹرل ایشیائی ریاستوں کی معدنی دولت تک رسائی کے لئے افغانستان پر قبضہ کیا تھا بعین اسی طرح فرانسیسی فورسز نے مالی کے سونے یورینیم کے وسیع زخائر اور دیگر معدنیات پر ہاتھ صاف کرنے اور مسلمانوں کو دوبارہ اپنا باجگزار بنانے کی خاطر مالی کے مسلمانوں پر ہلہ بول رکھا ہے۔ او آئی سی مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔110 کروڑ افراد پر مشتعمل ملت اسلامیہ شکست و ریخت کا شکار ہے۔کشمیر سے فلسطین اور مالی سے میانمار تک مسلمان زیر عتاب ہیں۔ او آئی سی میں مصری صدر کے چشم کشا خطاب میں چند جملے قابل فکر و عمل ہیں۔ مصری صدر نے کہا تھا کہ اتحاد بین المسلمین اور مشترکہ قوت سے ہم دنیا میں نئی تہذیبی شناخت کے ساتھ ہر مشکل کا سامنا کرسکتے ہیں۔ او آئی سی کے امریکن نواز حکمران صدر مرسی کے فکر انگیز خطاب کی تقلید کریں۔ اگر اب بھی شہنشاہوں اور مسلم خطوں کے تخت نشین حاکمان وقت نے اتحاد و اتفاق باہمی الفت و یگانگت صداقت و یکجہتی کا مظاہرہ نہ کیا تو یاد رہے تاریخ کے اوراق پر انکا زکر سسی پس ایسے لعنت زدہ بادشاہوں تک محدود ہوجائیگا۔ بحرف اخرoic فوری طور پر شام کی رکنیت بحال کرے اور شام کے کشت و قتل میں معرکہ ارا دونوں فریقین کو خانہ جنگی اور جنگ بندی پر قائل کیا جائے۔شام کا میدان جنگ روز بروز گریٹر اسرائیل کے تصور کو تقویت دے رہا ہے۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140636 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.