سمندر کی گہرائی ناپنے کیلئے
ضروری ہے کہ ہم سمندر کی تہہ تک جائیں ،اُس میں غوطہ زن ہوں۔عین اِسی طرح
ہم خود اپنے اندر جھانکے بنا اپنی خطاﺅں ، اپنی غلطیوں،اپنی گستاخیوں پر
نظر ثانی کِس طرح کر سکتے ہیں ۔بلاشبہ دورِ حاضر میں حدِ نگاہ سے لیکر سوچ
کی انتہاتک اور خفیہ سے لیکر ظاہر تک ،خود پرستی اور انا کے سوا کچھ بھی
نظر نہیں آتا ۔موجودہ حالات میں غریب ،غریب سے غریب تر اور امیر، امیر سے
امیر تر ہوتا چلا جا رہا ہے ۔دورِ موجودمیں ظاہر کو تو آئینہ سب ہی دکھاتے
ہیں مگرباطن کی جانب کوئی بھی آئینے کا رُخ نہیں کرنا چاہتا۔سب کو اپنے
معدہ کی فکر ہے ،بس اپنے گھر میںموجودآٹے کا کنستر بھرا ہونا چاہیے۔کوئی
بھوکا ہے تو ہمیں اِس سے کیا ہم کیا پیٹ پوجا کروانے کے ٹھیکیدار ہیں ۔
تالی ہمیشہ دو ہاتھوں کے ملاپ سے وجود میں آتی ہے ۔اگر حکمرانوں کے وعدوں ،اور
کارکردگی میں ملاوٹ ہے تو عوام بھی خالص نہیں ۔مگر رہ سہے کر خیال ایک ہی
آتا ہے کہ اور ممالک کی وزارتیں ،حکومتیں بھی تو ہیں اُن کے نظامِ معاشرت
بھی تو کامیابیوں کی منزلیں طے کر رہے ہیں ۔وزیر و مشیربھی تو اُسی گندم کا
آٹا کھاتے ہیں جو ایک غریب کے پیٹ کی آگ کو بجھاتی ہے ۔امیر اور غریب کے
خواب بھی جدا جدا نہیں،مخمل اور فرش دونوں پر نیند ایک ہی ہے نیند کی کوئی
دوسری برانچ نہیں ،گوشت پوست اور خالق و مالک بھی جدا جدا نہیں ۔پھر یہ
بظاہری شان و شوکت پرمسندِ اقتدارکے Extra اخراجات کیوں ؟؟ لاکھوں بلکہ
کروڑوں کا پروٹو کول کیوں ؟کیا اِسی طرح کے بہت سے اخراجات بچا کر ہزاروں
گھروں کے مسلسل بجھے ہوئے چولہلے نہیں جلائے جا سکتے ؟کچھ نئے پراجیکٹ ،کنسٹریکشن
شروع کرکے سینکڑوں نوجوانوں کو روزگار مہیا کر کے خودکشی جیسے گھناﺅنے فیل
سے روکا جاسکتاہے؟
جمہوریت کے معنی ہیں کہ حکمران نہ صرف عوام کے چنے ہوئے ہوںبلکہ عوام کے
سامنے جوابدہ بھی ہوں۔ مگر آج ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔ کون کیا کر رہا ہے؟
کِس کو کیا جواب دے رہا ہے اور کون کِس طرح منتخب کیا جا رہا ہے کِسی کو
کچھ خبر نہیں تو پھر جمہوریت کے دعویداروسریلے گلوکار آخر ہیں کہاں؟ ؟ کِسی
دانشور نے کہا تھا کہ: ”حکومت ایک امانت ہے اور حکومت کے تمام عہدیدار ،افسران
و اہل کارامانت دار ہیں اور عوام کی فلاح کے لیے پیدا کئے گئے ہیں “۔آج
امانت میں خیانت نہیں خیانتیں ہو رہی ہیں۔
عوام کو اب جاگناپڑے گااپنے فیصلوں اور سوچ کو صحت مند بنانا ہوگا۔جمہوریت
دیارِ غیر سے بذریعہ ڈاک یا کِسی کبوتر کے ذریعے نہیں آنی ۔ملک قوم کے
نواجوانوں کو میدانِ عمل میں گھوڑے دوڑانا ہونگے۔ دولت اورسرمایہ کی فانی
محبت کو دِلوں سے نکلوانا ہوگا ۔بلاشبہ بے جا دولت ،سرمایا اور شہرت انسان
کی نگاہوں کے سامنے حوس اورخود غرضی کی ایسی مضبوط دیوار کھڑی کر دیتے ہیں
جِس کے آگے انسان کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔مگر ثابت قدم خواہ وہ امیر ہوں
یا غریب اور خوفِ خدا سے لرزنے والوں کوکبھی اِس دیوار کا سامنا نہیں کرنا
پڑتا کیونکہ یہ اپنے حال پہ قناعت کرنا جانتے ہیں ۔ول ڈیورانٹ کا قول ہے کہ
: ”جہاں دولت اور سرمایا ہی آمریت اور جمہوریت ہو وہاں نا انصافی اور افلاس
کو کیسے زوال آسکتا ہے“۔
دورِ موجود کی یہی جمہوریت ہے کیا ؟ پیزا تو 15منٹ میں آجاتا ہے مگر اپلائی
کی گئی نوکریوں کے Joining Letterمہینوں ،سالوں میں تو کیامرتے دم تک آتے
ہی نہیں ۔ ہفتہ بعد ملنے والی C.N.Gکی قطاریں ابھی حدِ نگاہ تک پھیلی ہی
ہوتیں ہیں کہ C.N.G کا وقتِ قلیل اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔اور بچارے ڈرائیور
دھکے مار مار کر گاڑی کو منزلِ مقصود تک پہنچاتے ہیں۔سٹوڈنٹ ابھی کتاب کھول
کر فہرست پر نظر ڈالتے ہی ہیں کہ نگاہوں کے سامنے تاریکی چھا جاتی ہے بجلی
کی آنکھ مچولی ہونہار سٹوڈنٹس کی بد ترین دشمن ہے۔گھریلوں گیس کی بندش کی
بدولت ماہ بھی کی مخصوص آمدنی ہوٹل والوں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔آمدنی میں
اضافہ ہوتا نہیں مہنگائی روز قد بڑھا لیتی ہے۔دِن بہ دِن دسترخوان پر
روٹیوں کی تعداد کم ہوتی چلی جا رہی ہے مگر اہلِ خانہ کی گنتی میں برکت ہو
رہی ہے۔عوام بس اب اِسی آخری اُمید پر جی رہے ہیں کہ جہاں مرغ نہیں ہوتا
صبح کی کرنیں تو وہاں بھی پھوٹتی ہیں ۔سچ تو یہی ہے کہ اب تو کچھ بچا ہی
نہیں ہے سوائے صبر اور اُمید کے اور اب یہی دونوں بیساکھیاں لڑکھڑاتی معزور
عوام کا سہارا ہیں۔کہنے سننے کو تو ہم مملکتِ جمہوریہ پاکستان کے باعزت
شہری ہیں مگر....
یہ کیسی جمہوریت ہے؟ C.N.Gنہیں....پکانے کیلئے گیس نہیں....بجلی
نہیں....پانی نہیں....کچھ سستا نہیں....بہت کچھ ملتا نہیں....پیٹرول
نہیں....ٹرینیں نہیں....ثابت سڑکیں نہیں....کرپشن سے انکاری نہیں....لفظوں
میں سچائی نہیں....دواﺅں میں دوائی نہیں....مسجدوں ،مزاروں میں امن
نہیں....بازاروں میں ریٹ لسٹیں نہیں....فروٹ غریب سے راضی نہیں....آٹا ،گھی
،چینی،پتی سستی نہیں....کرائیوں میں کمی نہیں....ملازمت ملتی
نہیں....ملازموں کی تنخواہیں بڑھتی نہیں ....اگر کچھ ہے تو وہ صرف جمہوریت،
جمہوریت کے نعرے ہیں وہ بھی صرف لبوں کی گولائیوں میں یا قلم کی نوک کے
نیچے۔ |