شیخ المشائخ حضرت غوث اعظم شیخ
عبدالقادر جیلانی ؒ عالم اسلام کے بہت بڑے ولی اور اپنے وقت کے بڑے بزرگ
گذرے ہیں۔ آپ کے فیوض و برکات اور کرامات بے شمار ہیں۔ آپ نے پیغمبر اسلام
حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شریعت مطہر ہ کو زندہ اور روشن کیا۔ اور آپﷺ کی نیابت
کا پورا حق ادا کیا۔ ذیل میں حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے
مختصر حالات زندگی ان کی کتاب غنیة الطالیبین سے پیش کئے جارہے ہیں۔
نام و نسب: آپ کا اسم گرامی عبدالقادر لقب محی الدین کنیت ابو محمد اور
عرفیت غوث اعظم ہے ۔والد کا نام سید ابو صالح موسیٰ جنگی اور والدہ کا نام
ام الخیر امةالجبار فاطمہ بنت سید عبد اللہ الصومعی الزاہد تھا۔ آپ کے
والدین کا واقعہ مشہور ہے کہ دریا سے سیب اٹھاکر کھانے کے بعد آپ کے والد
نے سید عبداللہ صومعی کی شرائط کے تحت باغ میں خدمت کی تھی اور بعد میں ان
کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ جن کے بارے میں ان کے والد نے کہا تھا کہ میری
بیٹی اندھی لولی بہری اور لنگڑی ہے۔ بعد میں شادی کے بعد پتہ چلا کہ
خوبصورت حسین و جمیل خاتون نے اپنی آنکھ کان ہاتھ پیر اور زبان سے کوئی
گناہ نہیں کیا تھا۔ اس طرح بزرگ والدین کا اثر ان کے بیٹے حضرت غوث اعظم
شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ میں نمایاں ہوا۔جس وقت آپ کی ولادت ہوئی اس وقت ان
کی والدہ کی عمر ساٹھ سال تھی۔
ولادت: حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی ولادت اےک چھوٹے سے قصبے
گیلان میں ہوئی۔ تاریخ ولادت میں اختلاف ہے۔ بعض 470ہجری اور بعض471ہجری
کہتے ہیں۔ آپ کے والد بزرگوار سید ابو صالح کو جنگ سے بہت رغبت تھی ۔ اس
لئے انہیں جنگی دوست کے لقب سے یاد کیا جاتاہے۔ وہ نہایت صالح بزرگ تھے۔ آپ
کی والدہ بھی بہت نیک اور متقی خاتون تھیں۔ اپنا ذیادہ وقت تلاوت قران میں
گذارا کرتی تھیں۔
بچپن: حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ مادر زاد ولی تھے۔ اس کی شہادت
اس بات سے ملتی ہے کہ آپ کی والدہ ماجدہ کہتی تھیں کہ جس وقت عبدالقادر
پیدا ہوئے تو اس وقت رمضان المبارک شروع ہوا تھا۔ اس مقدس مہینے میں دن کے
وقت ےہ میر ا دودھ نہیں پیتے تھے۔ اتفاقاً ایک دفعہ ابر کے باعث ہلال رمضان
کے بارے میں لوگوں کو شبہ ہوا بعض لوگوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ تمہیں
رویت ہلال کی صحیح خبر ہے؟ میں نے کہا آج میرے عبدا لقادر نے دن کو دودھ
نہیں پیا۔ اس لئے میں سمجھتی ہوں کے آج رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ہے۔
تعلیم و تربیت: حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے ہوش سنبھالنے سے
قبل آپ کے والد بذرگوار اس دار فانی سے کوچ کر چکے تھے۔ چنانچہ آپ کے نانا
عبداللہ صومعی نے آپ کی پرورش کی۔ آپ بچوں کے ساتھ نہیں کھیلتے تھے۔ جب بھی
وہ کھیلنے کے لئے جاتے تو انہیں آوام آتی کہ ” اے اللہ کے بندے میں نے تجھے
اپنے لئے پیدا کیا ہے کھیلنے کے لئے نہیں۔ ےہ آواز سن کر وہ اپنی والدہ کی
گود میں جا بیٹھتے۔ دس برس کی عمر میں آپ نے شہر کے مدرسے میں تعلیم حاصل
کی۔جب مکتب کو جاتے تو انہیں محسوس ہوتا کہ فرشتے ان کے پیچھے آرہے ہیں اور
وہ ےہ کہتے کہ اللہ کے ولی کو بیٹھنے کے لئے جگہ دو۔جب آپ کے دل میں تعلیم
کا شوق بڑھا تو آپ نے والدہ سے اجازت طلب کی کہ شریعت و طریقت کی اعلیٰ
تعلیم کے لئے وہ بغداد کا سفر کرنا چاہتے ہیں۔آپ کی والدہ نے 80اشرفیاں
دیں۔ آپ نے صرف 40اشرفیاں لیں اور باقی اپنے بھائی کے لئے چھوڑدیں۔ آپ کی
والدہ نے یہ اشرفیاں آپ کے لباس میں سی دیں اور یہ ہدایت کی کہ کبھی جھوٹ
نہیں بولنا۔ سفر میں ڈاکوﺅں والا قصہ پیش آیا ۔ آپ نے والدہ کی ہدایت کے
مطابق سچ کہہ دیا کہ اشرفیاں لباس میں سلی ہو ئی ہیں۔ ڈاکوﺅں کا سردار آپ
کی سچ گوئی سے متاثر ہوا ۔ اس نے کہا کہ افسوس تم نے اپنی ماں کا عہد نہیں
توڑا اور میں اتنی مدت سے اپنے اللہ کا عہد توڑ رہاہوں۔ یہ کہہ کر وہ ان کے
قدموں میں گر پڑا اور گناہوں سے توبہ کی۔ اس کے ساتھی ڈاکو بھی بدل گئے اور
سب نے توبہ کرتے ہوئے قافلے کالوٹا ہوا سامان واپس کردیا۔ یہ سب حضرت غوث
اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے حق گوئی سے ہوا۔
حصول علم: حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے چار سو میل کا سف طے
کیا اور بغداد پہونچے۔ وہاں علمائے کرام سے شریعت کے علوم حاصل کرنے لگے
تھے۔ آپ پیدائیش سے ہی قران پاک کا بہت سے حصہ یاد کئے ہوئے تھے۔ اور بچپن
سے ہی حافظ قران تھے۔قران کے رموز سیکھے۔ علم فقہ کی تعلیم حاصل کی۔اساتذہ
سے قران حدیث فقہ اور ادب کی تعلیم حاصل کی۔
مشقت اور ریاضت: علم سیکھنے کے دوران حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ
نے کافی مشقت اور ریاضت کاسامنا کیا۔ والدہ کے دئے ہوئے دینا جلد ہی ختم
ہوگئے تھے۔ اےک وقت ایسا آیا کہ بیس دن تک فاقہ کرنا پڑا۔ ایک کھنڈر گئے تو
وہا ں ان کے جیسے ستر لوگ بھوکے نظر آئے وہا ں سے بغدا د چلے آئے تو ایک
شخص نے ایک سونے کا تکڑا دیا اور کہا کہ تمہاری والد ہ نے تمہارے لئے بھیجا
ہے۔آپ نے اس کا ایک حصہ کیا اور اس کے پیسے کھنڈر میں بیٹھے غریب لوگوں کے
کھانے پر خرچ کئے دوسرے تکڑے سے خود کے لئے اور دیگر مساکین کے لئے کھانے
کا انتظام کیا۔مشائخ اور اساتذہ سے سبق پڑھنے کے بعد عمامہ باندھے جنگل کی
طرف نکل جاتے تھے اور دریا کے کنارے ملنے والی سبزی ترکاری کھا کر گذارا کر
لیتے تھے۔علم کے حصول کے لئے انہوں نے بڑی ریاضتےں کےں۔ علم تفسیر‘علم
قرائت‘علم حدیث‘علم فقہ‘علم کلام‘علم لغت‘علم ادب‘علم نحو‘علم مناظرہ‘علم
عروض‘علم تاریخ‘علم فراست وغیرہ مےں انہوں نے کمال پیدا کیا اور وہ شہر ت
پائی کہ تمام علمائے کرام میں سبقت لے گئے۔حضرت غوث اعظم ؒ نے بغداد میں
حضرت ابوالخیر حماد بن مسلم وہاس ؒ سے علم طریقت سیکھا۔
بیعت: حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے جملہ علوم میں مہارت اور
شریعت و طریقت میں کمال حاصل کرنے کے بعد اپنے پیر بزرگ حضرت شیخ ابو سعید
مبارک مخرمی ؒ سے بیعت کی۔ اور ان کے حلقہ ارادت میںشامل ہوگئے۔ شیخ نے
انہیں اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا۔ حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی
ؒفرماتے ہیں کہ شیخ کے ہاتھ سے جو لقمہ میرے پیٹ میں جاتا وہ میرے اندر نور
بھر دیتا۔شیخ نے خرقہ ولایت عطا کرتے وقت فرمایا۔ اے عبدالقادر ےہ وہی خرقہ
ہے جو آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ کو عطا فرمایا۔ان سے حضرت حسن بصری ؒ کو ملا
بعد ان سے مجھ تک پہونچا۔
درس و تدریس: ولایت کے حصول کے بعد حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی
ؒلوگوں کے درس و تدریس میں لگ گئے۔ بغداد میں مسند ارشا د قائم کیا۔ آپ کا
مقصد ےہ تھا کہ بھٹکے ہوﺅں کو راہ ہدایت دکھائیں۔ گناہ گاروں کو گناہ کی
تاریکیوں سے نکال کر ہدایت اور نیکی کی روشن منز ل تک پہونچائیں۔بیماریوں
کا علاج کریں اور مردہ دلوں کو زندگی عطا کریں۔آپ کی مجلس میں لوگ اس کثرت
سے آنے لگے کہ مدرسہ کی جگہ ناکافی ہوگئی۔ 528ہجری میں مدرسہ کی عالی شان
عمارت تعمیر کی گئی۔دور دراز ممالک سے لوگ آپ کی مجلس میں آتے اور فیض کے
حصول کے بعد واپس جاتے۔کہا جاتا ہے کہ آپ کی مجلس میں ایک ایک وقت میں ستر
ہزار لوگ شرکت کرتے جس میں علمائے کرام اور مشائخ بھی شامل ہوتے تھے۔
فتاویٰ: حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒامام شافعی ؒ اور امام احمد
بن حنبل ؒ کے مذہب پر فتوے دیا کرتے تھے آپ نے چالیس سال تک لوگوں کو وعظ
فرمایا اور تینتیس سال تک درس و تدریس اور افتا کے کام میں مشغول رہے۔
شادی: حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒنے چار شادیاں کیں۔ آپ کی تمام
ازواج آپ کے روحانی فیوض و کمالات سے فیضیاب ہوئیں۔چنانچہ آپ کے صاحبزادے
شیخ عبدا لجبار ؒ اپنی والدہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب میری والدہ کسی کے
مکان میں داخل ہوتیں تو اس میں شمع کی طرح روشنی دکھائی دیتی ۔
اولاد: حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکی چار ازواج سے انہیں انچاس
بچے پیدا ہوئے۔ بیس لڑکے اور باقی لڑکیاں۔ آپ کے سے سے بڑے صاحبزادے کانام
شیخ عبدالوہاب تھا۔ جنہوں نے اپنے والد بزرگوار کے ساتھ مدرسہ میں درس و
تدریس کا کام کیا۔ ان کے اےک فرزند حافظ عبد الرزاق بلند پایہ کے عالم تھے۔
لباس: حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ لباس کے بارے میں بڑے نفاست
پسند تھے اور عالم یہ تھا کہ ہر روز نیا لباس تبدیل کرتے اور اتارا ہوا
لباس مساکین اور محتاجوں میں بطور خیرات دے دیتے تھے۔ آپ کی پوشاک کے لئے
دور دراز سے نفیس کپڑا آتا تھا۔ روز مرہ کی تبدیلی غالباً مساکین کو خیرات
کرنے کا بہانہ تھی آپ کی طبیعیت نفاست پسند تھی اس لئے بہت اچھی خوشبو کا
بھی استعمال کرتے تھے ہر جمعہ کو جوتے بھی تبدیل کرتے تھے اور اتارا
ہواجوتا مسحتق کو خیرات کردیتے تھے۔
غذا: حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒنہایت سادہ غذا ستعمال کرتے تھے۔
رومانہ چار پانچ چپاتیاں مغرب کے وقت آپ کی خدمت میں پیش جاتی تھیں۔اول آپ
روٹیوں کے تکڑے کر لیتے اور بعد میں کچھ غربا میں تقسیم کر لیتے تھوڑی سی
اپنے لئے رکھ لیتے اکثر اوقات دن میں صرف ایک ہی مرتبہ کھانا کھاتے گوشت
گھی اور دودھ کا استعمال کرتے تھے۔
سراپا: حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒدرمیانے قد کے تھے۔ رنگ
گندمی‘سینہ کشادہ‘ریش مبارک بہت گنجان بھنویں باریک اور ملی ہوئیں چہر ہ
نورانی اور پرشوکت تھا اور آپ کی آواز بہت بلند تھی۔
اخلاق و عادات: حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒاعلی ٰ اخلاق کا نمونہ
تھے۔ خاموشی کو ذیادہ پسند کرتے تھے۔ اپنے مدرسے سے صرف جمعہ کو باہر نکلتے
تھے۔اور اسی روز جامعہ مسجد اور مسافر خانہ کی طرف تشریف لے جاتے تھے۔حق
بات کہنے میں دریغ نہیں کرتے تھے چاہے وہ وقت کے بادشاہ کے خلاف ہی کیوں نہ
ہو۔امرا‘وزرا اور دنیا داروں کی تعظیم کے لئے کبھی نہیں کھڑے ہوتے تھے۔
بلکہ ایسے لوگ آتے تو سامنے سے ہٹ جاتے تھے۔مال دنیا سے محبت نہیں تھی۔
اولاد اور بیویوں سے بھی اس حد تک محبت رکھتے تھے کہ دین کے کام میں رکاوٹ
نہ ہو۔مسکینوں اور غریبوں کا بہت خیا ل رکھتے تھے اور ان پر ہمیشہ شفقت کا
معاملہ کرتے تھے۔ خلاف شرع کام کرنے والے سے بیزاری کا اظہار کرتے تھے۔اپنے
گھر کے لئے ضروری سامان بازارسے خود ہی لے آتے۔ سفر میں اپنے ہاتھ سے آٹا
گوندھ کر روٹی پکاتے۔اہلیہ بیمار ہوئی تو گھر کے کام کرتے۔ اور اس میں کوئی
ہرج نہیں سمجھتے تھے۔ ذاتی معاملات میں کبھی کسی پر غصہ نہیں کرتے تھے۔
عادات اور خصائل میں نبی اکرم ﷺ کی پوری اطاعت کرتے تھے۔
تصانیف: حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکی تصانیف میں غنیة الطالبین
کے علاوہ فتوح الغیب‘فتح ربانی‘قصیدہ غوثیہ وغیرہ مشہور ہیں۔
عبادات: حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒبڑے مجاہد اور عبادت گذار
تھے۔ نفس کشی کرتے روزے رکھتے۔ راتوں کو جاگ کر عبادت کرتے۔ہر رات دوسو کے
قریب نفل نمازیں پڑھتے اور رکعتوں میں سورہ رحمٰن اور سورہ مزمل کی تلاوت
کرتے۔ سورہ اخلاص ایک ایک رکعت میں سو سو مرتبہ پڑھتے۔ہمیشہ باوضور رہتے۔
بڑھاپے میں بھی ساری رات قران کی تلاوت اور رکوع و سجود میں رہتے۔صبح کی
نماز کے بعد طالب علموں خادموں اور صوفیا کو شریعت کی تعلیم دیتے۔زندگی کے
آخری لمحات تک فرائض سے کبھی غفلت نہیں برتی۔
وصال: حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒنے زندگی کے ابتدائی سترہ سال
اپنے وطن میں گذارے۔ نو سال بغداد میں رہ کر علوم ظاہری و باطنی حاصل
کئے۔چالیس سال تک لوگوں میں دین کو عام کرتے رہے۔ رشد و ہدایت ‘اصلاح خلق
اور اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے کام کیا۔ نوے سال کی عمر پائی اور 11ربیع
الاول561ہجری کو داعی اجل کو لبیک کہا۔بغداد میں آپ کا روضہ مرجع خلائق بنا
ہوا ہے۔
یہ تھے ولی کامل پیران پیرحضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکے حالات
زندگی۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اولیا اللہ کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں
لائیں اور نیک بنیں۔ |