’’پاکستان کا مستقبل تابناک ہے
مایوسیاں پھیلانے والوں کو منہ کی کھانی پڑے گی‘‘
ایک لمحے کو تو میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا میں افتخار عارف صاحب کے سامنے
بیٹھنے کا اہل ہوں وہ کہاں اور میں کہاں لیکن چند ہی لمحے بعد خیال آیا کہ
اہل علم لوگوں کے پاس بیٹھ کر ہی تو سیکھا جاتا ہے ۔سچ پوچھیں تو میں
انٹرویو کرنے نہیں بلکہ ان سے چند لمحموں میں ڈھیر ساری نصیحیتں سمیٹنے
گیاتھا ۔مجھے ان کی غزل یاد آرہی تھی جس کو پڑھنے کے بعد ان سے اُنس پید ا
ہواْ
’’شاخ زیتون پر کم سخن فاختاؤ ں کے اتنے بسیرے اجاڑے گئے ،
اور ہوا چب رہی ،
بے کراں آسمانوں کی پہنائیاں بے نشمین شکستہ پروں کے تگ و تازپر بین کرتی
رہی ،
اور ہوا چپ رہی ‘‘
میں نے افتخار صاحب سے کال ملائی دوسری جانب سے رعب دار آواز آئی لیکن لہجے
کی شیرینی نے ان سے ملنے کے لیے اور بے چین کر دیا۔ اپنا تعارف کروانے کے
بعد میں نے وقت مانگا تو توقع کے برعکس انہوں نے مجھے فوری وقت دے دیامیں
ذرا سی تاخیر ،ان کی رہائش گاہ پر پہنچا۔ وہ پہلے ہی سے انتظار میں موجو د
تھے بڑی گرم جوشی سے ملے ۔وقت کی اہمیت پر کچھ نصیحت فرمائی۔ تھوڑی دیر میں
ہی ان کا لہجہ دوستانہ تھااور مجھ پر کھلا کہ ان کے چاہنے والوں کی تعداد
نے شمار کیوں۔ میرے سامنے کرسی پر بیٹھا شخض ایک عام سا آدمی معلوم ہوتا
تھا ،شلوار قمیص میں ملبوس ،سادہ طبع،شیریں گفتارزبان سے جاری ذکر خدواندی،
کہیں سے معلوم نہیں پڑتا تھا یہ وہ شخض ہے جسے لوگ افتخار عارف کے نام سے
جانتے ہیں۔قرۃ العین حیدر نے گردش رنگ چمن میں ایک بزرگ سلطان محمد عارفؒ
کا ذکر کیا ہے ۔ان کے تذکرے کا آغاز افتخار عارف کے مصرعے:غبار دشت طلب
زیادہ ہے ،تو جنوں میں زیادہ ہو جا۔۔۔۔سے ہوتا ہے حضرت سلطان عارف نے شعور
کی ابتدائی منزلیں طے کیں،تو افتخار حسین عارف لکھنا شروع کر دیا،
یونیورسٹی آف لکھنو سے جاری ہونے والی بی اے اور ایم اے کی اسناد پر افتخار
عارف اور میرٹ سرٹیفکٹس پر افتخار عارف ردج ہے ۔ادب کی دنیا میں انہوں نے
اپنے قلمی نام افتخار عارف سے لکھنا شروع کیا افتخار عارف کے والد گرامی کا
نام بی پی بخش اور والدہ محترمہ کا نام آمنہ خاتون تھا ان کا تعلق ایک
متوسط مذہبی گھرانے سے ہے ان کے سلسلے کے بزرگ بابا مہرؒ علی شاہ ہیں
۔’’سچے سائیں ہمارئے حضرت مہر علی شاہؒ،
بابا ہم نے تم کو نہیں دیکھا بہت دنوں سے‘‘
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے بقول ’’افتخار عارف کے لاشعور میں ظلم و تعدی ،بے
زمینی ، بے گھری ،بے حرمتی ، تباہی اور بربادی ،نیز منافقت،مصلحت اندیشی
اور الم و مدہ کی سچائی و اصلیت کا سارا منظر نامہ اپنی گوناگوں استعاری و
علامتی کیفیات کے ساتھ اس حد تک پیوست ہے کہ ان کا پورا احساس اظہار اس میں
ڈوبا ہوا ہے‘‘افتخار عارف ایک شخصیت ایک فن میں عبد العزیز ساحر لکھتے ہیں
۔ـ’’افتخار عارف ہمارے معاصر ادبی اور فکری منظرنامے کا اہم ترین نام ہے
۔انہوں نے غزلیں بھی کہیں اور نظمیں بھی۔کبھی کبھار وہ نثر کی وادی میں بھی
جلوہ گر ہوئے مگر ان کا اصل عنوان شاعری رہا۔ان کی غزلوں اور نظموں میں
ہماری دینی ،تہذیبی،اور فکری زندگی کے اتنے رنگ اوررس موجود ہیں کہ ان کا
کلام بیک وقت ہمارئے تابناک ماضی کی روایت کا امین بھی ہے اور لمحہ موجود
میں ہمارے عصری رویوں کا ترجمان بھی۔خواب ،خیال اور خاک کے استعاری فن کدے
میں نمو پذیر ہوتی ان کی شاعری مدینہ و نجف و کربلا کے منظروں، اور موسموں
کی آئینہ دار ہے ان کی علامیتں،استعارے اور امیجز(Images)ہمارے ماضی کی
تہذیبی زندگی اور ہمارئے خوابوں کی سرزمینوں سے پھوٹتے ہیں۔ان کا تہذیبی
شعور اس صداقت احساس سے منعکس ہوتا ہے جو ہمارئے عقائد،تہذیب اور ثقافت سے
وابستہ ہے ‘‘ افتخار عارف صاحب سے ہوئی نشست کا احوال قارئین کی نذرہے
س: اپنی زندگی میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر روشنی ڈالیں؟
برصغیر جنوبی ایشیا میں جو طبقاتی معاشرہ ہے اس میں سب جگہ کے غریب گھرانے
ایک طرح کے ہوتے ہیں۔ میرا آبائی شہر لکھنو ہے میں 21مارچ 1943کو پیدا ہوا۔
میرا گھرانا مذہبی تھا یہی وجہ ہے کہ جب شعور کی ابتدائی سیڑھیاں چڑھنا
شروع کیں تو مجھے نظام الدین انصاریؒ کے مدرسہ نظامیہ فرنگی محلہ میں درس
نظامی کے لیے داخل کروا دیا گیا۔ اس کے بعد لکھنو کے اچھے سکول میں پڑھائی
شروع کر دی ۔چھٹی جماعت سے لکھنو کے جوبلی سکول میں داخل ہو گئے۔ لکھنو سے
میڑک کرنے کے بعد جوبلی کالج سے ایف اے کیا بی اے کا امتحان یونیورسٹی آف
لکھنو سے سوشیالوجی میں پاس کیا۔ والد پھلوں کا کاروبار کرتے تھے کھاتے
پیتے گھرانے سے تعلق تھا انہوں نے جب دوسری شادی کی تو مجھے میرے سوتیلے
نانا اپنے ہاں لے آئے ان ہی نے میری پرورش کی۔ وہ مزدور پیشہ آدمی تھے
محاوراً والے مزدور نہیں بلکہ وہ حقیقی مزدور ۔پرودگار عالم نے انتظام کر
رکھا تھا ان کو کتابوں سے بے حد دلچسپی تھی حالانکہ پڑھے لکھے بھی نہیں تھے
نہ ہی زیادہ مذہب سے زیادہ لگاؤ تھا لیکن مجھے ہر وقت پڑھنے کی ترغیب دیا
کرتے تھے ۔پچپن میں خراب معاشی حالات کیوجہ سے جو مجبوری تھی اﷲ رب العزت
نے اسی میں ایک نعمت رکھ دی تھی ،میں دیے کی روشنی میں پڑھتا تھا۔ مغرب کی
نماز کے بعد جلدی کھانا کھا لیا جاتا تھا بابا سو جاتے تھے میں اپنی کتابیں
لے کر بیٹھ جاتا ،آدھی رات کے قریب دیا بجھ جاتا نیند اُڑ چکی ہوتی، جتنی
دیر میں جاگتا جو پڑھا اسے دہرا تارہتا ۔سویرے لوگ اپنی سائیکلوں،رکشوں
،گاڑیوں سے سکول یونیورسٹی جاتے، میں پیدل جایا کرتا تھا۔ سارے راستے میں
جو رات میں سبق یاد کیاہوتا، اسے دہراتا رہتا ، اس عمل کیوجہ سے میرا حافظہ
بھی اچھا ہو گیاتھا۔گرمیوں کی چھٹیاں ہوتیں، بچے اپنے والدین کے ساتھ شملے
وغیرہ جاتے ہمارے پاس پیسے نہیں ہوتے سو ہم گرمیوں میں گھر میں ہی رہتے اور
زیادہ وقت لائیبریوں میں گذارتے تھے ۔اس زمانے میں غیر نصابی سرگرمیوں پر
انعام میں زیادہ تر کتابیں دی جاتی تھیں۔ میں ہر طرح کی کتابیں پڑھتا چھوٹی
کلاسوں میں ہی تھا گھر میں میرے مسئلے حل کرنے والا کو ئی بھی نہیں تھا
لہذاڈکشنری اور انسائکلوپیڈیا کی طرف رجحان شروع ہی سے تھا۔جو میری کامیابی
کا باعث بھی تھا۔
اعدادوشمار،حساب کتاب، کمپیوٹر میری سمجھ سے بالاتر ہیں، ٹیکنالوجی سے
ناآشنا ہوں گاڑی میں نہیں چلا سکتا۔ بچپن میں ایک ہی کھانا میسر تھا شاید
یہی وجہ کہ آج بھی صرف ایک ڈش ہی کھا تا ہوں۔ لیکن ہاں قہقہ لگاتے ہوئے
،لباس کا خصوصی اہتمام کرتا ہوں اس کی بھی دلچسپ تاریخ ہے۔ بچپن میں میرے
ساتھ دھوبیوں کے سکول پڑھتے تھے وہ پانچویں کے بعد سکول چھوڑ گئے اور کام
پر لگ گئے میرے اچھے دوست تھے ۔جب وہ کام پر جاتے تو میرے کپڑے لے جاتے تھے
اوردوسرے دن دے جاتے مجید اور راشد وغیرہ ،مجھ سے پیسے نہیں لیتے تھے یہی
وجہ ہے کہ آج بھی میں لباس کا اہتمام کرتا ہوں مشاعروں میں اکثر قیمص شلوار
ہی پہنتا ہوں ۔میرے نزدیک صاحب استطاعت کو لباس کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے
میرایمان ہے رب باری تعالی دعا ضرور سنتے ہیں اور میں دعا ضرور مانگتا ہوں
دورد شریف زیادہ پڑھتا ہوں روزے بھی رکھتا ہوں شاید ہی کوئی روزہ بیماری کی
و جہ سے رہ گیا ہو ۔ اﷲ رب العزت کبھی بھی کسی شخض کے دل میں ایسی آرزو
پیدا نہیں کرتے جس کی آپ میں پوری کرنے کے صلاحیت نہ ہو، دعا کے حوالے سے
دیکھیں تو بدر کے دن حضرت محمدﷺ دعا بھی مانگ رہے تھے اور صفیں بھی برابر
کر رہے تھے، اﷲ کی غیرت یہ قبول نہیں کرتی کہ اس کا بندہ اس سے مانگے اور
وہ اسے رد کر دے۔
دلوں کو جوڑتی ہے،سلسلہ بناتی ہے
ہر امتحاں میں دعا راستہ بناتی ہے
س: آپ کا پسندیدہ شاعر کون سا ہے؟
میر،غالب اور اقبال میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔
س:اپنی تصانیف کے بارے میں بتائیں؟
میری پہلی کتاب مہردونیم ہے اس کے بعد حرف باریاب،جہاں معلوم ، شہر علم کے
دروازے پر، کتاب دل و دنیا، اس کے علاوہ میں اپنی سوانح حیات رات کے دوسرے
کنا رے پر کام کر رہا ہوں۔
س:عشق پر یقین رکھتے ہیں،زندگی میں کبھی اس مرحلے سے گزرے؟
میں نے عشق نہیں کیامیرے خیال میں عشق کیا نہیں جاتا بلکہ ہو جاتاہے ۔زندگی
میں اور مسائل اتنے تھے کہ عشق میر ی ترجیح میں شامل نہیں رہا۔لوگ اچھے لگے
لیکن کوئی اتنا اچھا نہیں لگا کہ دنیا کو چھوڑ کر اس کے پیچھے پڑ جاتا۔
اکثر پروگراموں میں مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ فلاں شعر آپ نے کس کے لیے لکھا
تو میرا ایک ہی جواب ہے کہ مثال کے طور پر اگر میں نے کسی سے عشق کیا بھی
ہے تو اب کیا میں اس کے بارے میں بتاتے ہوئے اچھا لگتا ہوں؟میری پوتیاں اور
نواسے کیا سوچھیں گے دادا یا نانا یہ کیا کرتے رہے ہیں۔
س:ازدواجی زندگی کے بارے میں بتائیں؟
میری شادی 22اکتوبر1967میں والدہ کی خالہ زاد بہن کی بیٹی سے کراچی میں
انجام پائی الحمد اﷲ ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے دونوں شادی شدہ ہیں اور بیٹی
کے لیے مہردونیم میں ایک نظم لکھی تھی اسے پیار سے گیتی کہتا ہوں
’’مالک!میری گڑیا کے سب رنگ سلامت رکھنا
مجھ کو ڈر لگتا ہے
کچے رنگ تو بارش کی ہلکی سی پھوہار میں بہہ جاتے ہیں
ایک ذرا سی دھوپ پڑتے تو اڑ جاتے ہیں
مالک! میری گڑیا کے سب رنگ سلامت رکھنا
س:عملی زندگی کا آغاز کب اور کہاں سے کیا؟
میں نے 1965 سے ریڈیو پاکستان سے کام کا آغاز کیا اس کے بعد تبدیلیاں ہوتی
رہیں 1967سینئر پروڈیوسر،سکرپٹ رائٹر (پاکستان ٹیلی وژن)،1977 ایگزیکٹو
تعلقات عامہ،بنک آف کریڈٹ اینڈ کامرس(بی سی سی آئی)لندن،1981ایگزیکٹونچار ج
ا ردو مرکزلندن،1991ڈائریکٹر جنرل اکادمی ادبیات پاکستان،1995صدر نشین
مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد،1994ڈائریکٹر جنرل فاؤنڈیشن برائے پاکستانی
اہل علم و قلم،2000 چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان،2005مینجینگ
ڈائریکٹر،نیشنل بُک فاؤنڈیشن 2009سے تاحال صدر نشین مقتدرہ قومی زبان
ہیں۔زندگی کی پہلی نوکری میں نے کراچی میں کی۔ریڈیو پاکستان میں خبریں
پڑھنے سے میرے میڈیا کئیریر کا آغاز ہوا۔
س:ادب سے ذوق و شوق کب اور کیسے پیدا ہوا؟
شعر تو میں بچپن سے کہہ لیتا تھا مگر اس کو آپ سمجھیے کہ ایک طرح کی موزوں
طبعی تھی۔ بیت بازی کے لیے ہزاروں اشعاراساتذہ سے لے کر اپنے عہد تک کے کے
یاد تھے ایسی صورت میں کوئی بھی شخض خود بہ خود وزن سے،ردیف اور قافیے
وغیرہ کے ابتدائی مسائل سے واقف ہو جاتاہے مگر اصل شاعری میرے نزدیک کچھ
اور ہوتی ہے اسکول اور کالج کے زمانے میں میگرینوں میں میرا کلام شائع ہوتا
تھا۔ طالب علم درجہ ہفتم کا عہد کی ایک میگزین میرے ریکارڈ میں ہے جس میں
میری ایک نہایت پھیکی سی غزل شائع ہو ئی تھی ۔میرے اساتذہ کہتے تھے کہ اور
طالب علم یا تو بزرگوں سے لکھوا کر لے آتے ہیں یا پھر اصلاح وغیرہ کے لیے
شائع کروا دیتے ہیں ۔میں نے اپنی بوگس غزل خودہی لکھی تھی اور اصلاح کے
بغیر دی تھی یونیورسٹی کے زمانے میں بھی مشاعروں اور شعر گوئی کے مقابلوں
میں ،میں شعر پڑھتا تھا ۔ بزرگوں کے ساتھ شرکت کی ،میرے وسیلۂ رزق کے سارے
راستے کتابوں سے ہو کر گذرتے رہے میرا دل اور میرا دماغ ،دونوں تمام
ہنگاموں کے باوجود پلٹ پلٹ کر کتاب ہی کی طرف آتے رہے۔
س:کسوٹی پروگرام کس کا آئیڈیا تھا اور یہ تجربہ کیسا رہا؟
ملک میں جب ٹی وی آیا،تو سیلم گیلانی نے کسوٹی کا تعارف اسلم اظہر صاحب کی
وساطت سے کرایا جو اس زمانے میں پی ٹی وی کراچی کے جی ایم تھے ۔اسلم اظہر
صاحب نے عبید اﷲ بیگ اور قریش پور کا باقاعدہ امتحان لیا اور اسی دن ہی
کسوٹی کا آغاز ہو گیا،کسوٹی کے کئی ادوار ہوئے شاید دس برس کا عرصہ ہوگا۔
،اگر یہ کہا جائے کہ شاید ہی کوئی ذہنی آزمائش کا پروگرام ایسا ہوگا جو ٹی
وی سکرین سے نکل کر گھروں اور دفتروں کی زندگیوں میں شامل ہو گیا ہو۔ لوگ
خود آپس میں کسوٹی کسوٹی کھیلتے رہتے تھے ۔جب میری عمر بائیس برس تھی تب یہ
پروگرام شروع ہوا اب میں عمر کے 67برس پورے کر چکا ہوں۔ مگر شاید ہی کوئی
ہفتہ ایسا ہو گا کہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی اس کا ذکر نہ کرتا ہو کسوٹی
پروگرام کا آئیڈیا مکمل طور پر عبید اﷲ بیگ کا تھا میری Contribuationاس
میں صفر تھی میں تو ان تینوں میں سے صفرتھا۔
س:آپ کو کونسے اعزازت سے نوازا گیا ؟
مجھے ملنے والے تمام اعزازت ،عہدے،اختیارات اور انعامات اپنی جگہ،لیکن اگر
میرا لکھا ہوا حرف میرے بعد بھی دس سال ،پچاس سال،سو سال تک زندہ رہتا ہے
،تو یہ میرے لیے سب سے بڑا اعزاز ہو گا۔بڑا فن کار وہ ہوتا ہے جو وقت کو
شکست دے، کس نے کتنی کامیاب زندگی گزاری اس کا فیصلہ اس کی موت کے بعد ہوتا
ہے مجھے جو عزازت ملے ۔ان سے ہلال امتیاز،ستارہ امتیاز،صدراتی تمغہ برائے
حسن کارگرئی،پاکستان رائٹرزگلڈ ،آدم جی ادبی ایوارڈ،قومی ہجرہ ایوارڈ(ڈاکٹر
علامہ محمد اقبال ایوارڈ برائے شاعری) فیض انٹرنیشنل ایوارڈ(شاعری ۔عالمی
اردو کانفرنس بھارت) نقوش ایوارڈ،وثیقۂ اعتراف ،بابائے اردو مولوی عبد الحق
ایوارڈ،قومی ہجرہ ایواراڈ پاکستان کرسیئچن ایوارڈ،خواجہ غلام فرید
ایوارڈشامل ہیں۔
س:اردو زبان کے لیے اس کے نام پر بننے والے ادارے کیا کام کر رہے ہیں؟
اردو کے نام پر بننے والے ادارے اپنے محدود وسائل میں اس سے زیادہ کچھ نہیں
کر سکتے ،جو انہوں نے کیا پارلیمان اراکین اردو کو سرکاری زبان بنانے کا
اعلان کریں ۔ کوئی سیاسی جماعت اس پر یقین رکھتی نہ کسی حکومت نے اردو کے
لیے کام کیا صرف اور صرف قائداعظم محمد علی جنا ح ا ور حکیم لاامت نے اس کے
لیے کام کیا اور ذوالفقار علی بھٹونے دستور میں شامل کر کے بہت بڑا کام
کیا۔
س:اردو زبان کی ترویج کے لیے اس وقت کس امر کی اشد ضرورت ہے؟
اردو کو جب تک ٹیکنالوجی سے جوڑا نہ جائے گاوہ ترقی نہیں کر سکتی کمپیوٹر
اور دیگر کو اردو کے ساتھ جوڑا جائے اور ٹیکنالوجی میں ڈھلا جائے تو یہ
ترقی کر سکتی ہے۔
س:کیا پاکستان میں اردو زبان معدوم ہو رہی ہے؟
بالکل نہیں پہلے کے مقابلے میں زیادہ بولی جا رہی ہے اور لکھی بھی یہ بات
نہیں ہے کہ یہ معدوم ہو رہی ہے۔
س:اردو رسم الخط کو درپیش خطرات؟
اردو رسم الخط کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہیں۔
س:ایک زبان کو اس کے فطری رسم الخط سے محروم کر دیا جائے تو کیا زبان کی
روح قائم رہ سکتی ہے؟
بالکل قائم نہیں رہ سکتی زبان میں رسم الخط قلب اور جان کی حیثیت رکھتا ہے
اگر اس کو اس سے محروم کر دیا جائے تو وہ کیونکر قائم رہ سکے گی مہاتما
گاندھی کہا کرتے تھے یہ قرآنی زبان ہے لہذا یہ مسلمانوں کی زبان ہے۔
س:ہمارے ہاں روداری،صبر،برداشت کا کلچر ختم ہو تا جا رہا ہے آ پ کی نظر میں
اس کی بڑی وجہ کیا ہے؟
اخلاقی طور پر اعلیٰ انسانی موافقی ہے،معاشرہ ایک کام پر لگا دیا گیا ہے
کامیاب آدمی وہی ہے جس کے پاس پیسہ ہے اور جس کے پاس پیسہ ہے وہ طاقت کی
دوڑ میں ہے ہم سب کچھ بھول بیٹھے ہیں ۔اخلاق،قدریں روداری یہ سب اب قصے
کہانیاں ہیں۔
س:نوجوانو ں کے لیے کوئی اہم پیغام،پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کیا رائے
ہے؟
نوجوان ہی پاکستان کا مستقبل ہیں اور وہ بہتری کے لیے اہم کردار ادا کر
سکتے ہیں انہیں جگانا ہو گا۔ اور مایوسی کی فضاء سے باہر آنا ہو گا کیوں کہ
الحمد اﷲ پاکستان کا مستقبل روشن اور تابناک ہے لیکن پاکستان بننے کے بعد
اﷲ کے شکر گزار بندوں پر ناشکرے غالب آ گئے تھے اور آج بھی منظر وہی ہے
پاکستان کے خلاف زیادہ بولنے والے امیر لوگ ہیں جن کو اﷲ نے سب کچھ دے رکھ
ہے کوئی غریب آدمی پاکستان کے خلاف نہیں بولتا اور وہ مایوس بھی نہیں ہیں۔
مری زمین مرا آخری حوالہ ہے
سو میں رہوں نہ رہوں اس کو بارور کر دے
س:زندگی سے مطمئن ہیں ؟
جی ہاں زندگی سے مکمل طور پر مطمئن ہوں۔ اﷲ رب العزت اگر مجھے ایک اورزندگی
عطا فرمائیں تو ایسے ہی گزارنا پسند کروں گا۔اپنے ماضی کو دیکھتے ہوئے اپنے
آپ کو بہتر سمجھتا ہوں کیوں کہ اﷲ سبحانہ تعالی کی بارگاہ میں ایک شکر گزار
بندے کے طور پر پیش ہوں گا، الحمد اﷲ اس پر بھی خوش ہو، کہ جو ملا اس پر رب
تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں۔
نوٹ:آپ مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیںwww.facebook.com/umer.rehman99
،0334-5020195 |