اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان
علیہ الرحمہ کے تجدیدی کارنامے اور علوم و فنون کی فہرست
علم تاریخ نے اپنے دامن میں اچھی اور برُی ہر دوصفت کی حامل شخصیات کو سمیٹ
کر پناہ دی ہے اس طرح انہیں زمانے کی دست برد اور شکستگی سے محفوظ کردیا ہے
تاکہ آئینہ تاریخ میں ماضی کے عکس و نقش کا مشاہدہ حال و استقبال کو جاندار
اور شاندار بنانے میں معاون ہو۔ لیکن بعض شخصیات کا پیکرِ احساس اتنا
جاندار و شاندار ہوتا ہے کہ جنہیں تاریخ محفوظ رکھنے کا اہتمام کرے یا نہ
کرے وہ شخصیات اپنی تاریخ آپ مرتب کرلیتی ہیں اس لئے کہ وہ عہد ساز اور
تاریخ ساز ہستیاں ہوتی ہیں یہ شخصیات اپنی پہچان کیلئے مؤرخ کی محتاج نہیں
ہوتیں بلکہ ان نادر زمن ہستیوں کے خوبصورت تذکرے کو تاریخ اپنے صفحات کی
زینت بنانے کیلئے خود محتاج ہے اور مؤرخ ان کے تذکرے لکھ کر خود کو متعارف
کرانے کا محتاج ہوتا ہے۔ ایسی ہی عہد ساز ہستیوں میں ایک مہر درخشاں وہ بھی
ہے جسے شرق تا غرب شیخ الاسلام و المسلمین، محدث عصر، فقیہہ دہر، مجدد دین
و ملت ، حامی سنّت، قاطع بدعت، اعلیٰ حضرت وغیر ہم القابات و خطابات سے
پہچانا جاتا ہے ۔ امام احمد رضا فاضل و محدث بریلوی علیہ الرحمۃ کے اسم
گرامی کے اعزاز و اکرام کے بارے میں علامہ ہدایت اللہ بن محمود سندھی حنفی
قادری مہاجر مدنی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں۔
"وہ (امام احمد رضا علیہ الرحمۃ) اس کے اہل ہیں کہ ان کے نام سے قبل اور
بعد میں کوئی بھی فضیلت کا خطاب لگایا جائے۔"(معارف رضا 1986ء ، صفحہ102)
مجدداسلام اما م احمد رضا علیہ الرحمۃ علم و فضل کا وہ خورشیدِدرخشاں ہیں
کہ جس کی جلوہ گری انیسویں صدی عیسویں کے نصف آخر تا بیسویں صدی کے ربع
اوّل کے عرصہ کو محیط ہے، آپ کا سن ولادت 1372ھ /1856ء اور سالِ وصال
1340ھ/1921ء ہے ۔ آپ کی زندگی کا یہ دور جس قدر پر آشوب تھا بلاد اسلامیہ
میں کوئی دور بھی ایسا نہیں گذرا، فتنوں کی بیخ کنی اور فسادِ اُمت کے ذمہ
دار مفسدین کو بے نقاب کرنے کیلئے امام احمد رضا نے فقہی بصیرت اور مدبرانہ
فراست کے ذریعے ملت کی راہنمائی کا جو فریضہ انجام دیا وہ صرف آپ ہی کا
خاصہ تھا۔ آپ نے جو شمع عشق رسالت فروزاں کی وہ آج بھی ملتِ اسلامیہ کیلئے
مینارۂ نورکی حیثیت رکھتی ہے۔ اور آئندہ بھی اس کی چمک دمک ماند نہیں پڑے
گی۔ (انشاء اللہ جل مجدہ، و الرّسول علیہ الصلوٰۃ والسلام)
امام احمد رضا کا سینہ علوم و معارف کا خزینہ اور دماغ فکر و شعور کا
گنجینہ تھا، اپنے بیگانے سب ہی معترف ہیں کہ شخصی جامعیت، اعلیٰ اخلاق و
کردار، قدیم و جدید وعلوم و فنون میں مہارت ، تصانیف کی کثرت ، فقہی بصیرت
، احیاے سنت کی تڑپ، قوانین شریعت کی محافظت، زہد و عبادت اور روحانیت کے
علاوہ سب سے بڑھ کر قیمتی متاع و سرمایہ عشق ختمی مرتبت (علیہ الصلوٰۃ
والتسلیم) میں ان کے معاصرین میں ان کا کوئی ہم پلہ نہ تھا اور غالباً
نہیں، بلکہ یقیناً۔اور بعد میں آج تک سطور بالا صفات میں عالم اسلام میں
امام احمد رضا کا ہمسر کوئی پیدا نہیں ہوا۔ آپ کی اسی انفرادیت کے بارے میں
سید ریاست علی قادری علیہ الرحمۃ کہتے ہیں:
"امام احمد رضا کی شخصیت میں بیک وقت کئی سائنس داں گم تھے ، ایک طرف ان
میں ابن الہیثم جیسی فکری بصارت اور علمی روشنی تھی تو دوسری طرف جابر بن
حیان جیسی صلاحیت، الخوارزمی اور یعقوب الکندی جیسی کہنہ مشقی تھی، تو
دوسری طرف الطبری ، رازی اور بو علی سینا جیسی دانشمندی، فارابی ، البیرونی
، عمر بن خیام، امام غزالی اور ابن رُشد جیسی خداداد ذہانت تھی۔ دوسری طرف
امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے فیض سے فقیہانہ وسیع النظری اور غوث الاعظم
شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ سے روحانی وابستگی اور لگاؤ کے تحت عالی
ظرف امام احمد رضا کا ہر رخ ایک مستقل علم و فن کا منبع تھا ان کی ذہانت
میں کتنے ہی علم و عالم گُم تھے۔"(معارف رضا جلد ششم صفحہ124)
شمسی تقویم کی بیسویں صدی عیسوی اور قمری تقویم کی چودھویں صدی ہجری میں
شانِ تجدّد اور محی ملت و دین کی حامل ذات امام احمد رضا کے سوا کسی اور کی
قرار نہیں دی جاسکتی، اور اس صدی کو جیسے مجدّد و مصلح کی ضرورت تھی وہ
تمام کمالات و اوصاف بدرجہ اتم اعلیٰ حضرت میں نظر آتے ہیں۔ دین اسلام کی
اساسیات اور ایمان کی جملہ فروعات و جُزئیات پر بیک وقت مشرق و مغرب سے
حملے ہورہے تھے ، ایسے موقع پر ضرورت تھی کہ مشرق میں فتنہ اُٹھانے والے
مُنافقین کا مقابلہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لازوال ہتھیار سے
کیا جائے اور مغرب کے مُلحد سائنس دانوں کے کائنات سے متعلق گمراہ کن
نظریات کا مقابلہ کلامِ الٰہی کی شایانِ شان تفسیر، ''لَا تَبْدِیْلَ
لِکَلِمَاتِ اللّٰہ'' کی بَدیہیات و یقینیات کے اجالے میں کیا جائے۔
چودھویں صدی ہجری میں ملت اسلامیہ کی اصلاح کیلئے جن علمی گوشوں اور شعبہ
ہائے حیات میں قولاً و عملاً کام کی ضرورت تھی وہ تمام تقاضے امام احمد رضا
علیہ الرحمۃ نے پورے کئے ایک ایک علم پر لکھا ۔۔۔۔۔۔ اور ایک ایک فن پر
لکھا ۔۔۔۔۔۔ اور لکھتے ہی چلے گئے ۔۔۔۔۔۔ مردہ علوم کو کئی صدیوں بعد زندہ
کیا، بعض علوم اپنی اختراعات سے خود ایجاد فرمائے۔ امام کے اسلوب تحریر میں
امام اعظم سے لے کر دیگر علماء و دانشور اور ہئیت دانوں کے کارناموں سے
مزین دوسری صدی تا ساتویں صدی ہجری کی تصویر نظر آنے لگی، اسلامیان ہند ہی
نے نہیں بلادِ عرب ومغرب اور افریقہ نے بھی اپنے اسلاف کے ماضی کو جیتا
جاگتا محسوس کیا، تہذیب و تمدنِ اسلامی کے تابناک دور کی روشنی امام احمد
رضا کی تحریروں سے پھوٹتی محسوس ہوئی ہے۔
ماہر رضویات ، پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعوداحمد مظہری نقش بندی مجدّدی ایجاد و
اختراع کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:
"ایجاد و اختراع کا دار و مدار فکر و خیا ل پر ہے، خیال کو اساسی حیثیت
حاصل ہے ، قرآن کریم میں خیالوں کی ایک دنیا آباد ہے اور عالم یہ ہے کہ
مجبور یک نظر آ، مختار صد نظر جا!
ہر خیال اپنے دامن میں صدیوں کے تجربات و مشاہدات سمیٹے ہوئے ہے ، جس نے
قرآن کی بات مانی اس نے مختصر زندگی میں صدیوں کی کمائی کمالی۔ امام احمد
رضا انہیں سعادت مندوں میں سے تھے جنہوں نے سب کچھ قرآن سے پایا، وہ قرآن
کا زندہ معجزہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو علم لدّنی اور فیض سماوی سے نوازا
تھا" (امام احمد رضا اور علوم جدیدہ و قدیمہ ، مطبوعہ اداریہ مسعودیہ
کراچی، صفحہ ۷/۸)
زمانہ طالب علمی میں ایک مرتبہ امام احمد رضا کو جیومیٹری کی گتھیاں
سلجھاتے ہوئے دیکھ کر والد گرامی حضرت مولانا نقی علی خان نے فرمایا، "بیٹا
!یہ تمام علوم تو ذیلی و ضمنی ہیں تم علوم دینیہ کی طرف متوجہ رہو، بارگاہِ
رسالت سے یہ علوم تمہیں خود عطا کر دیے جائیں گے۔" پھر واقعی دنیا نے دیکھا
کہ کسی کالج و یونیورسٹی اور کسی سائنسی علوم میں ماہر کی شاگردی کے بغیر
تمام سائنسی علوم عقلیہ و نقلیہ حاصل ہوئے اور ایسے مشاق ہوگئے کہ تحقیق و
ریسرچ کے مطابق صرف سائنسی علوم میں آپ کی کتابوں کی تعداد 150 کے قریب
پہنچتی ہے (امام احمدرضا اور سائنس ، از: پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری
،کراچی یونی ورسٹی)
اعلیٰ حضرت نے علوم سائنس میں اپنی خداداد مشاقی کی بنیاد پران علوم کی قد
آور شخصیات بابائے طبعیات ڈیمو قریطس (٣٧٠ قبل مسیح) بطلمیوس (قبل مسیح) ،
ابن سینا (٩٨٠ تا ١٠٣٧ء) نصیر الدین طوسی (متوفی ٦٧٢ء) ، کوپر نیکس (١٤٧٣ء
تا ١٥٤٢ء) کپلر (١٥٧١ ء تا ١٦٣٠ء) ، ولیم ہر شل (سترہویں صدی عیسویں) ،
نیوٹن (متوفی ١٧٢٧ء) ملا جونپوری (متوفی ١٦٥٢ء) گلیلیو (١٦٤٢ء) آئن اسٹائن
(١٨٧٩ تا ١٩٥٦ء) اور البرٹ ایف پورٹا (١٩١٩ء) کے نظریات کا ردّ اور ان کا
تعاقب کیا ہے ، جبکہ ارشمیدس (متوفی ٢١٢ ق۔م) کے نظریہ وزن ، حجم و کمیت ،
محمد بن موسیٰ خوارزمی (٢١٥ھ/٨٣١ء ) کی مساوات الجبراء اور اشکال جیومیٹری،
یعقوب الکندی (٢٣٥ھ /٨٥٠ء) ، امام غزالی (٤٥٠ھ تا ٥٠٥ھ/١٠٥٩ء تا ١١١٢ء)،
امام رازی (٥٤٤ھ تا ٦٠٦ھ /١١٤٩ء تا ١٢١٠ء) کے فلسفہ الہٰیات، ابو ریحان
البیرونی (٣٥١ھ تا ٤٤٠ھ/٩٧٣ء تا ١٠٤٨ء) ، ابن الہیثم (٤٣٠ھ/١٠٣٩ء) ، عمر
الخیام (٥١٧ھ /١١٢٣ء) کے نظریاتِ ہیّت و جغرافیہ، ڈیمو قریطس کے نظریہ ایٹم
اور جے جے ٹامس کے نظریات کی تائید کی اور دلائل عقلیہ سے پہلے آیات قرآنیہ
پیش کیں۔جس کا مشاہد ہ امام احمدرضا کی ان علوم پر لکھی گئی کتابوں میں کیا
جاسکتا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ امام احمد رضا نے علومِ دینیہ کے ہر شعبے کے علاوہ
صرف سائنسی علوم و فنون سے متعلق جو کتابیں تصنیف کیں ان کی تعداد 150 تک
پہنچتی ہے۔جو آپ کی منفرد قوتِ متخیلہ اور مہتم بالشان تحقیقی ذہن کی نشان
دہی کرتی ہیں ۔ مثلاً فزکس ، کیمسٹری ، بیالوجی، میتھس، جیومیٹری ،
لوگارتھم، ٹوپولوجی، سائکولوجی، پیراسائکولوجی، فونیٹکس، فونالوجی،
اسٹرالوجی ، اسٹرا نومی وغیرہ وغیرہ علوم و فنون پر آپ کی تصانیف مشتمل
ہیں۔
ایٹم کے انشقاق Nuclear Fission سے متعلق آٹو ہان نے 1938ء میں جب کہ امام
احمدرضا نے 1919ء میں اس موضوع پر اپنی کتاب الکلمۃ الملہمہ فی الحکمۃ
المحکمہ میں کافی تفصیل سے بحث کی ہے۔ کوویلنٹ بانڈ سے متعلق جی این لیوِس
نے 1916ء میں جب کہ امام احمد رضا نے 1919ء میں کوویلنٹ بانڈ کے ساتھ ساتھ
لونِزڈ بانڈ کے بارے میں بھی کافی کچھ تحریر فرمایا ہے۔
طاعون ، جذام کے علاوہ میڈیکل ایمبریالوجی گیسٹروائن ٹیسٹی نَل فزیولوجی سے
متعلق اپنی کتاب مقامع الحدید علیٰ خد لمنطق الجدید میں خوب صورتی اور دلکش
اسلوب میں بحث کی ہے ۔اسی طرح امام احمد رضا پہلے مسلم مفکر ہیں جنھوں نے
اپنی کتاب الصمصام علیٰ مشکک فی آیۃ علوم الارحام 1896ء میں الٹرا ساونڈ
مشین کا فارمولا بیان کیا۔ ماڈرن کمیونیکیشن سسٹم ، آڈیٹری تھیوری ، wave
sound وغیرہ سے متعلق آپ کی کتاب الکشف الشافیہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
امام احمد رضا پر یہ عطا ۔۔۔۔۔۔ یہ نوازش ۔۔۔۔۔۔ یہ کرم ۔۔۔۔۔۔ یہ عنایت
۔۔۔۔۔۔ یہ التفات ۔۔۔۔۔۔ یہ فیض ۔۔۔۔۔۔ سب کچھ محض اس بنا پر تھا کہ اعلیٰ
حضرت کو اسلام کی عظیم انقلابی قوت جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حاصل تھا اور اسی والہانہ عشق سے مسلمانوں کی دینی ترقی ، سیاسی کامیابی ،
علم کی ترویج ، معاشی و عمرانی استحکام اور ثقافتی و تمدنی الغرض ہر سطح کی
کامیابیاں و کامرانیاں وابستہ ہیں حقیقت ہے کہ جسے محبت رسول کا صادق جذبہ
ہاتھ آگیا دین و دنیا کی تما م دولت اسی کے دامن میں آکر سمٹ جاتی ہیں ،
امام احمد رضا کا یہی تجدیدی کارنامہ ہے جس کے سب ہی معترف ہیں۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی غلبہ دین اسلام یا احیاء اسلامی کی تحریکیں اٹھی
ہیں وہ عشق رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مرہونِ منت رہی ہیں انگلستان کے
ایک مشہور مستشرق پروفیسر ایچ ۔ اے گب نے اپنی کتاب اسلامک کلچر میں لکھا
ہے،
"تاریخ اسلام میں بارہا ایسے مواقع آئے ہیں کہ اسلام کے کلچر کا شدت سے
مقابلہ کیاگیا ہے لیکن بایں ہمہ مغلوب نہ ہوسکا اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ
صوفیہ کا اندازِ فکر فوراً اس کی مدد کو آجاتا تھا اور اس کو اتنی قوت و
توانائی بخش دیتاتھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہ کرسکتی تھی۔" (اسلامک
کلچر ، صفحہ ٢٦٥، مطبوعہ لندن ١٩٤٢ء)
صوفیہ کا یہی پیغام"محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" تھا کہ جسے اعلیٰ
حضرت نے اپنی تمام زندگی اپنا کر اپنی تصنیفات و تالیفات کی روشنائی کے
ذریعے ملت اسلامیہ کو منور کیا، آپکو معلوم تھا کہ اگر مسلمانوں کے دل عشق
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہوگئے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی
نہ تو انہیں اپنی کھوئی عظمت واپس دلاسکتی ہے اور نہ اصلاح و تجدید کی
ہزاروں تحریکیں انہیں اپنی منزل مراد تک پہنچا سکتی ہیں۔ مغربی استعمار کی
مذمو م سازش یہی تھی کہ مسلمانوں میں سے جذبہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کو نکال دیا جائے، جس کی طرف شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے بھی یوں اشارہ کیا
ہے:۔
یہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
اعلیٰ حضرت کا یہ تجدیدی کارنامہ ہے کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے بشری و انسانی اوصاف و کمالات کے ساتھ ساتھ معجزاتی و نورانی
پہلوؤں کے بلند و بالاکمالات نبوت اور فضائل و شمائل کو احاطہ تحریر میں
لاکر ملت اسلامیہ کی روحانی اقدار کو تنزلی کا شکار ہونے سے بچالیا ، آپ نے
اپنی علمی درسگاہ اور روحانی خانقاہ بریلی سے ، اس پر فتن دور میں ملتِ
اسلامیہ کے سفینے کو ساحل مراد تک پہنچانے کیلئے جو کچھ ضروری تھا وہ
اقدامات کیے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ امام احمد رضا کے تمام مجددانہ کمالات جذبہ عشق رسول میں
مضمر ہیں۔
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
امام احمد رضا کی لگ بھگ ایک ہزار تصنیفات (مطبوعہ و غیر مطبوعہ) کے جائزہ
کے بعد محققین کی قطعی جدید تحقیق کے مطابق یہ بات پورے وثوق سے کہی جا
سکتی ہے کہ ایک سو بیس١٢٠ قدیم و جدید، دینی ، ادبی، اور سائنسی علوم پر
امام احمد رضا علیہ الرحمۃ کو دسترس حاصل تھی۔ ناچیز نے زیر نظر مضمون کے
آخر میں ١٢٠ علوم و فنون کا شماریاتی جدول دے دیا ہے تاکہ کوئی اس تعداد کو
مبالغہ نہ سمجھے۔
١٢٠ علوم میں ٤٠ یا اس سے زائد کا تعلق دینی علوم کی اساس و فروع سے ہے
جبکہ ادب سے متعلق ١٠ روحانیت سے متعلق ٨ تنقیدات و تجزیہ و موازنہ سے
متعلق ٦ اور طب و ادویات سے متعلق ٢ علوم کے علاوہ بقایا ٥٤ علوم کا تعلق
علوم عقلیہ (سائنس) سے ہے ۔ امام احمد رضا محدث و مجدد بریلوی کی سائنسی
علوم پر کتب و رسائل کی تعداد ایک سو پچاس سے زائد ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر مجید
اللہ قادری صاحب لکھتے ہیں:
"امام احمد رضا نے یہ رسائل (جدید علوم و سائنس) اُردو، فارسی، اور عربی
تینوں زبانوں میں تحریر فرمائے ہیں۔ بعض رسائل و کُتب کی ضخامت سو صفحات سے
بھی زیادہ ہے۔" (دیباچہ حاشیہ جامع الافکار ، صفحہ ٣)
اعلیٰ حضرت کے علوم کی فہرست سماعت کرنے سے قبل سامعین کے علم میں یہ بات
ضرور ہونی چاہئے کہ محدث بریلوی علیہ الرحمۃ نے حافظ کتب الحرم شیخ اسماعیل
خلیل مکی کو جو عربی میں سند اجازت دی ہے اس میںخوداپنے قلم سے اُن 55 علوم
و فنون کا ذکر فرمایا ہے جن میں آپ کو مکمل عبور حاصل تھا۔ محدث بریلوی کے
اپنے قلم فیض رقم سے مندرجہ 55 علوم و فنون کی فہرست نہایت جامع ہے جس میں
بعض علوم فی زمانہ متعدد شاخوں و شعبوں میں تقسیم ہوگئے ہیں اور ان کی
شناخت کیلئے علیحدہ عنوانات ماہرینِ تعلیم مختص کر چکے ہیں۔ امام احمد رضا
کی تصنیفات میں مرقوم مضامین ان علوم سے بھی بحث کرتے نظر آتے ہیں کہ جن کا
تذکرہ امام احمد رضا نے اپنے علوم کی فہرست میں نہیں کیا ہے آپ کو ان پر
دسترس حاصل تھی مثلاً ، معیشت اور اس کے ضمنی علوم تجارت، بینکاری،
اقتصادیات اور مالیات کا اعلیٰ حضرت نے شمار نہیں کیا لیکن اسلامیان ہند کی
فلاح کیلئے تدابیر بیان کرتے ہوئے مجدد اعظم کی ذات میں ماہر بنکار، وزیر
خزانہ و مالیات اور معلم اقتصادیات کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ امام احمد رضا
علیہ الرحمۃ کے بیان کردہ علوم کی ترتیب یوں ہے۔
"(١) علم القران (٢) حدیث (٣) اصول حدیث (٤) فقہ حنفی (٥) کتب فقہ جملہ
مذاہب (٦) اصولِ فقہ (٧) جدل مہذب (٨) علم تفسیر (٩) عقائد و کلام (١٠) نحو
(١١) صرف (١٢)معانی (١٣) بیان (١٤) بدیع (١٥) منطق (١٦) مناظرہ (١٧) فلسفہ
(١٨) تکسیر (١٩) ھئیات (٢٠) حساب (٢١) ہندسہ (٢٢) قرأت (٢٣) تجوید (٢٤)
تصوف (٢٥) سلوک (٢٦) اخلاق (٢٧) اسماء الرجال (٢٨) سیر (٢٩) تاریخ (٣٠) لغت
(٣١) ادب معہ جملہ فنون (٣٢) ارثما طیقی (٣٣) جبر و مقابلہ (٣٤) حساب سینی
(٣٥) لوگارثمات (٣٦) توقیت (٣٧) مناظرہ مرایا (٣٨) علم الاکر (٣٩) زیجات
(٤٠) مثلث کروی (٤١) مثلث سطح (٤٢) ہیاۃ جدیدہ (٤٣) مربعات (٤٤) جفر (٤٥)
زائرچہ (٤٦) نظم عربی (٤٧) نظم فارسی (٤٨) نظم ہندی (٤٩) نثر عربی (٥٠) نثر
فارسی (٥١) نثر ہندی (٥٢) خط نسخ (٥٣) نستعلیق (٥٤) تلاوت مع تجوید (٥٥)
علم الفرائض [الاجازۃ الرضویہ]"
آج پوری دنیا میں جدید دانشگاہوں کے پروفیسر ز اور اساتذہ امام احمد رضا کی
طرف متوجہ ہوچکے ہیں اور آپ کی تصنیفات و تالیفات پر سرعت رفتاری کے ساتھ
تحقیق و ریسرچ جاری ہے ۔ حتیٰ کے بیشتر کتابیں ایسی ہیں جن کے کئی زبانوں
میں تراجم بھی ہوچکے ہیں ۔ جدید ریسرچ کے مطابق دنیا بھر کی یونیورسٹیز میں
اما م احمد رضا کی جامع الصفات اور گوناگوں شخصیت کے مختلف النوع پہلووں
کااحاطہ کرتے ہوئے اب ڈی لٹ ، پی ایچ ڈی ، ایم ایس اور ایم فل لیول کے
مقالات کی تعداد 66 سے متجاوز کرچکی ہے۔ واضح ہوکہ یہ مقالہ جات عربی ،
اردو ، فارسی ، انگریزی، سندھی ، بنگلہ وغیرہ زبانوں میں پیش کیے گئے ہیں ۔
اس امر سے امام احمد رضا کی شہرۂ آفاق علمی مقبولیت کا اندازہ بھی لگایا
جاسکتاہے ۔
اب آپ ١٢٠ علوم کی مفصل فہرست ملاحظہ فرمائیں جسے محققین نے تصانیفِ رضا سے
استدراک کرکے مرتب کیا ہے۔
امام احمد رضا کی علمی و تحقیقی کہکشاں کے ١٢٠ ستاروں کی فہرست
قرأت، تجوید، تفسیر، اصولِ تفسیر، رسم الخط القرآن، علم حدیث، اصول حدیث،
اسانید حدیث، اسماء الرجال، جرح و تعدیل، تخریج احادیث، لغت حدیث، فقہ،
اصول فقہ، رسم المفتی، علم الفرائض، علم الکلام، علم العقائد، علم البیان،
علم المعانی، علم البلاغت، علم المباحث، مناظرہ، علم الصرف، علم النحو، علم
الادب، علم العروض، علم البرو البحر، علم الحساب، ریاضی، زیجات، تکسیر، علم
الہندسہ، جبر ومقابلہ (الجبراء)، مثلثات (مسطح وکروی)،ارثما طیقی، علم
تقویم، لوگارتھم، علم جفر، رمل، توقیت، اوفاق (علم الوفق)، نجوم، فلکیات،
ارضیات، علم مساحت الارض، جغرافیہ، طبیعات،کیمیا، معدنیات، طب و حکمت،
ادویات، نباتات، شماریات، اقتصادیات، معاشیات، مالیات، تجارت، بنکاری،
زراعت، صوتیات، ماحولیات، سیاسیات، موسمیات، علم الاوزان، شہریات، علم
عملیات، سیرت نگاریحاشیہ نگاری، نثر نگاری، تعلیقات، تشریحات، تحقیقات،
تنقیدات، ردّات، شاعری، حمدو نعت، فلسفہ (قدیم و جدید)، منطق، تاریخ گوئی،
علم الایام، تعبیر الرویاء، رسم الخط نستعلیق، شکستہ و مستقیم، استعارات،
خطبات، مکتوبات |