ایک عرصے سے روشنیوں کا شہر
کراچی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔جو شہر کبھی عروس البلاد کے نام سے مشہور
تھا، آج ”شہروں کی دلہن“ زخموں سے چوراور لہولہان ہے، ہر آنے والا دن ان
زخموں میں اضافہ اور آتش فشاں بننے کی نوید سناتا ہے۔ اس کی سوگوار فضائیں
آہ و بکا اور سسکیوں سے گونج رہی ہیں، آشیانے ویران ہورہے ہیں، بچے یتیم،
بیویاں بیوہ اور ماﺅں کی آنکھیں گریہ وبکا سے بے نور ہورہی ہیں، بھتہ مافیا
اور لینڈ مافیا کا راج ہے، ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں بے شمار گھروں کے چراغ
گل ہوچکے ہیں۔ کراچی میں انسانی جان سمندر کے ساحل پہ بکھری ریت کے ذروں سے
بھی ارزاں ہو چکی ہے۔ لاشیں خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گر رہی ہیں۔ اس وقت
صورتحال اس قدر ابتر اور ناگفتہ بہ ہوچکی ہے کہ مختلف بستیاں صرف لسانی
بنیادوں پر قائم ہیں۔کراچی میں اس وقت مختلف مافیاﺅں کی غیر قانونی
سرگرمیوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے شہر پر قبضے کے رجحان نے بھی اس
شہر کو بے اماں کردیاہے۔
کراچی کے حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں لیکن ان کو سدھارنے کی کوشش ہی
نہیں کی جاتی، کبھی کہا جاتا ہے کہ کراچی میں طالبان حالات خراب کررہے ہیں
اور کبھی کراچی کے حالات کا رخ فرقہ وارانہ تصادم کی طرف موڑ دیا جاتا
ہے۔اصل وجہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اسی
حوالے سے گزشتہ روز نوٹس لیتے ہوئے پولیس و رینجر کے سربراہان کو کہا ہے کہ
آپ لوگوں کوتحفظ فراہم کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ کراچی میں فرقہ وارانہ فساد
نہیں طاقت کی رسہ کشی ہے۔ آپ کی پولیس فورس پر کچھ لوگوں کا قبضہ ہے۔ سپریم
کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت
شروع کی تو عدالت نے سابق آئی جی سندھ فیاض لغاری کو طلب کرلیا۔ رینجرز آئی
بی اوراسپیشل برانچ اور سیکرٹری سروسز نے بدامنی کے حوالے سے رپورٹیں پیش
کیں۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ اور چیف سیکرٹری کے رپورٹ پیش نہ کرنے پر
برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیے کہ ہم جس افسر کے
خلاف آرڈر کرتے ہیں اس کو تمغہ لگا دیا جاتاہے۔ چیف جسٹس نے قائم مقام آئی
جی سندھ سے سوال کیا کہ رینجرز نے ہمیں کچھ یقین دلایا ہے کہ آپ کراچی میں
امن کے لیے کیا یقین دلائیں گے۔ قائم مقام آئی جی نے کہا کہ میں ہاؤس آرڈر
کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نہیں کرسکتے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا
کہ آپ کی آواز اور باڈی لینگویج سے لگتا ہے کہ کچھ نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس
نے کہا کہ پولیس والا مرتا ہے تفتیشی افسر کہتا ہے کہ پیسے دو ورنہ سی کلاس
کردو ں گا۔ جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس دیے کہ نجومی اور جوتشی بننے کی
ضرورت نہیں عمومی صورتحال دیکھ کر ایسی رپورٹ ہم بھی بناسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ آپ جائیں لوگوں کوتحفظ فراہم کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
کراچی میں فرقہ وارانہ فساد نہیں طاقت کی رسہ کشی ہے۔ آپ کی پولیس فورس پر
کچھ لوگوں کا قبضہ ہے۔ کون سا ملک ہے جہاں ہشت گردی کو کنٹرول نہیں کیا
گیا۔جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ کراچی میں 40لاکھ تارکین وطن ہیں جو
ہمارے آئین و قانون کے پابند نہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سیکرٹری داخلہ
سندھ کی رپورٹ کہاں ہے؟۔ جسٹس جواد خواجہ نے وزیر اعلیٰ سندھ اور ایڈووکیٹ
جنرل سندھ کے دلائل کے دوران ریمارکس دیے کہ آپ ان سانحات کو ناکامی نہیں
مانتے؟ یہ بتائیں کہ 5کی جگہ 45، اور 50 کی جگہ 500، 5 ہزار یا 5 کڑور
افراد مریں گے تو آپ اس کو ناکامی تسلیم کریں گے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم
نے کل بھی کہا تھا کہ ہم وزیر اعلیٰ کا احترام کرتے ہیں لیکن وہ کچھ جانتے
ہی نہیں ہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیے کہ لیاری آپریشن کی کہانی
بار بار دھرائی جا چکی ہے اب اس کو کوئی نہیں مانتا۔ 2011ءمیں ہم نے نو گو
ایریاز ختم کرنے کا حکم دیا تھا اس کا کیا ہوا؟۔ چیف جسٹس نے کمشنر کراچی
سے سوال کیا کہ اگر ہمارے ملک میں حملہ ہو رہا ہو تو کیا ہم انتظار کریں گے
کہ پورے ملک پر قبضہ ہوجائے؟۔ لارجربینچ نے سانحہ عباس ٹاو ¿ن کے تفتیشی
افسر کی طرف سے کسی سوال کا جواب نہ ملنے پر برہمی کا اظہار کیا۔جسٹس خلجی
عارف حسین نے کہا کہ جن لوگوں کو شامل تفتیش کرنا تھا انہیں شامل نہیں کیا
گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کے حکم پر گھر گھر تلاشی ہوجاتی تو
آج کراچی کے حالات بہتر ہوتے۔
جو کوئی بھی کراچی کے حالات پرنظررکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ کراچی میں مسئلہ
کس قسم کا ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی کی معروف سیاسی تجزیہ کار اور انسٹیٹوٹ آف
بزنس ایڈمنسٹریشن کی پروفیسر، ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا تھاکہ کراچی کے بہت
سے مسائل کے ساتھ ساتھ اب سیاسی اختلافات بھی منسلک ہوگئے ہیں۔اِس ضمن میں،
ہما بقائی نے نئی آبادیوں، نئے انتخابی حلقوں اور لینڈ مافیا کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے مضافات میں جو بھی ہے ، وہ بنیادی طور پر سیاسی
اکائیوں کا معاملہ ہے، جِن کی آپس میں رسہ کشی ہے۔ کراچی کے جو بہت سارے
مسائل ہیں اور اس کے ساتھ جو کراچی کی آبادی کی سیاسی تقسیم ہے وہ، آپس میں
ج ±ڑ گئی ہے۔ ہما بقائی کے بقول، کراچی میں جو جماعتیں سیاست کرتی ہیں وہ
جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی کرتی ہیں اور ان کے بل پر سیاست کرتی ہیں،
اور یہ جماعتیں اِن عناصر پر واضح کنٹرول رکھتی ہیں اور تشدد کی فضا
پھیلاتی ہیں۔ انھوں نے اِس بات کی طرف بھی نشاندہی کی کہ کراچی کی جتنی بھی
سیاسی جماعتیں ہیں ان سب کے ’لڑاکا وِنگ ‘ ہیں جو اپنے ’اسکور سیٹلنگ‘کے
لیے پارلیمان کو نہیں بلکہ ’اسٹریٹ‘ کو استعمال کرتی ہیں۔ ان کے الفاظ میں:
’کراچی میں وہ طاقت ور ہے جو کراچی کا امن تباہ کرسکتا ہے۔‘ ہما بقائی نے
کہاکہ کراچی کے مسئلے کا حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سیاسی جماعتیں اپنا
وطیرہ نہیں بدلتیں اور اپنی اسکور سیٹلنگ سڑکوں پر نہیں کرتیں۔ ہما بقائی
نے کہا کہ کراچی کا مسئلہ ا ±س وقت تک حل نہیں ہوگا جب تک عام ووٹرز کھل کر
کراچی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنے ووٹ کی طاقت استعمال نہیں کریں
گے۔ادھر پاکستان انسٹی ٹیوٹ فور ڈولیپمنٹ اکانامکس کے سربراہ ڈاکٹر ظفر
معین کا کہنا تھا کہ کراچی جو پاکستان کا اقتصادی گڑھ ہے، وہاں امن و امان
کی خراب صورتِ حال سے کراچی کی معیشت ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی معیشت متاثر
ہوتی ہے اور بین الاقوامی طور پر بھی ایک غلط سگنل جاتا ہے۔ ان کے بقول
سیاسی لیڈروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اِس طرح کی صورتِ حال نہ پیدا ہو اور
اگر پیدا ہو بھی رہی ہو تو اس کو مناسب طریقے سے طے کیا جائے، تاکہ کراچی
جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے وہاں حالات سازگار رہیں۔
اسی قسم کا تجزیہ فرانس کے ایک سیاسی مبصر نے بھی کیا تھا۔فرانس کے ایک
سیاسی مبصر نے خدشہ ظاہر کیا کہ سیاسی تشدد، نسلی تفریق اور سیاسی تنظیمیوں
کی سرپرستی میں چلنے والی دہشت گرد تنظیموں کے باعث کراچی نیا بیروت بنتا
جا رہا ہے۔ پاکستان کے دورے پر آئے فرانسیسی پولیٹیکل سائنسدان لارینٹ گیئر
کا کہنا تھا کہ ملک کا سب سے بڑا شہر لاقانونیت، ٹارگٹ کلنگ کی صورت میں
پہلے ہی عذاب جھیل رہا تھا تاہم اب سیاسی جماعتوں میں بھتہ مافیا کی صف
بندیوں اور اس میدان میں نئے کھلاڑیوں کی آمد سے کراچی کی تاجر وصنعت کار
برادری کی زندگی جہنم بن گئی ہے۔لارینٹ نے بتایا کہ شہر کی تاجر برادری
ویسے تو زندہ رہنے اور کاروبار کرنے کے لیے گزشتہ دو دہائیوں سے بھتہ دے
رہی ہے لیکن حالیہ سالوں میں بھتہ خوروں کے مطالبات گنجائش سے زیادہ بڑھ
گئے ہیں۔ لارینٹ نے اپنی تحقیق میں کراچی کو ممبئی سے تشبیہ دیتے ہوئے
دعویٰ کیا کہ کراچی میں بھی علاقائی سیاسی جماعتوں کے اپنے مسلح گروپ موجود
ہیں۔ ‘تاہم پڑوسی ملک افغانستان میں جنگ کی وجہ سے ممبئی کے مقابلے میں
کراچی میں تشدد کہیں زیادہ ہے’۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت کراچی میں جدید
اسلحہ کی بھرمار ہے، جسے تمام ہی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال
کر رہی ہیں۔ شہر میں تقریباً تمام ہی سیاسی اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کے لیے
تشدد کی راہ اختیار کرتی ہیں،جس کی وجہ سے شہر کے امور چلانا انتہائی مشکل
ہو گیا ہے’۔فرانسیسی محقق کے مطابق، جس طرح کراچی مین تشدد اپنی شکل و صورت
تبدیل کر رہا ہے، لوگوں کے لیے اسے کنٹرول کرنا مشکل ہورہا ہے۔ وزیر داخلہ
عبدالرحمن اس بات کا کئی بات اقرار بھی کرچکے ہیں کہ کراچی کے حالات کی ذمہ
دار سیاسی جماعتیں ہیں، سب کے پاس لڑاکا گروپ ہیں۔یہ بات تو سب کو معلوم ہے
کہ کراچی میں حالات کون خراب کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود کوئی اس قوت کا
نام لینے کی جرات نہیں کرتا، بلکہ وہ ہمیشہ نامعلوم ہی رہتا ہے۔ اس حوالے
سے دو روز قبل مختلف تجزیہ کاروں نے اپنے تاثرات کا اظہار کچھ اس طرح سے
کیا۔ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا ’نامعلوم نام کراچی میں آج کل سب سے زیادہ
مشہور ہے، مسٹر نامعلوم، نامعلوم بچہ، نامعلوم والد، نامعلوم محترمہ،
نامعلوم حکومت وغیرہ وغیرہ‘۔ہارون رشید نے ٹویٹ کی کہ ’اس سارے معاملے میں
جو واحد نامعلوم ہے وہ حکومت سندھ ہے‘۔ سوہا خان آغا نے کہا ’کراچی شہر کا
بند ہونا سب سے تیز بند ہونا تھا،اس کا سہرا ہے نامعلوم افراد کے سر۔‘
مشہور صحافی غازی صلاح الدین نے ٹویٹ کی ’کراچی پولیس کو ان نامعلوم افراد
کو بھرتی کرنا چاہیے جو شہر کو دو منٹ میں بند کروا سکتے ہیں کیونکہ پولیس
دھماکے کی جگہ پر تین گھنٹے تک نہیں پہنچ سکتی۔‘ باسط اوپائی ٹویٹ کرتے
ہوئے کہتے ہیں ’اور نامعلوم افراد نے تمام اہل اقتدار کو بتا دیا ہے کہ
کراچی شہر کا مالک اصل میں کون ہے۔‘حنا صفدر نے ٹویٹ کی کہ ’نامعلوم افراد
حرکت میں ہیں جبکہ معلوم افراد پوشیدہ ہیں۔‘
دوسری طرف یہ بھی خیال رہے کہ وقت کے ساتھ عالمی طاقتوں کے مفادات بھی
کراچی سے وابستہ ہو گئے ہیں۔کراچی اس وقت افغانستان میں موجود نیٹو کی
افواج کو توانائی اور خوراک پہنچانے کے لیے ہب کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا
اور اس کے اتحادی چاہتے ہیںکہ کراچی میں اس طرح کا امن ہو جو انہیں مشکلات
سے دوچار نہ کرے۔ مغربی ممالک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کراچی کا کنٹرول
اگر ان کے پروردہ لوگوں کے پاس ہو تو انہیں آسانی ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں
کہ کراچی اور کوئٹہ میں ہونے والی خونریزی گوادر پورٹ چین کو دیے جانے کا
رد عمل ہے۔ تخریب کاری کے تمام واقعات میں ایک ہی قسم کا مواد استعمال
ہورہا ہے۔ ان کاروائیوں کے پیچھے ”را“ اور دوسری ملک دشمن ایجنسیاں شرپسند
عناصر کی معاونت کررہی ہیں۔ |