بھارت میں انتخابات اور بھارتی مسلمانوں کی نمائندگی

سیکولرازم کے نعرے کے ذریعے دنیا کو فریب دینے والے بھارت کا اصلی چہرہ
انتخابی دنگل میں مسلمانوں کو نمائندگی سے محروم رکھنے کی سازش
لوک سبھا انتخابات میں مسلم امیدواروں کی تعداد انتہائی محدود
بھارت کی کسی بھی سیاسی جماعت کو بھارتی پارلیمنٹ اور اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی منظور نہیں !
بھارتی خفیہ ایجنسی ”را “ کی ہدایت پر گزشتہ بیس برسوں سے بھارت کی تمام سیکولر جماعتیں ایک غیر تحریری دستور پر عمل کررہی ہیں
بھارتی سیاسی جماعتوں کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی سے دور رکھا جائے تاکہ مسلم مسائل پر کوئی آواز نہ اٹھائی جاسکے ۔
گزشتہ دو عشروں کے دوران بھارت میں ہونے والے ہر انتخاب میں مسلم امیدواروں کی تعداد کو کم سے کم کرکے غیر محسوس انداز میں بھارتی مسلمانوں کو نمائندگی کے حق سے محروم کیا جارہا ہے

ایک آرٹیکل ان کے لئے جو یہ سوچتے ہیں کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے جہاں اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ کوئی امتیازی رویہ اختیار نہیں کیا جاتا اور بھارت میں موجود مسلمان چین و سکون میں ہیں

بھارت میں انتخابات کا زور شور ہے اور انتخابی گہما گہمی اس قدر عروج پر پہنچ چکی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت مسلمانوں کو غدار قرار دے کر ہندو ووٹوں کے حصول کے لئے مسلمانوں کے گلے کاٹنے کا اعلان کررہی ہے تو کوئی مسلمانوں سے ہمدردی جتا کر ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے ۔ مختلف سیاسی جماعتیں رائے دہندگان کو مختلف طریقوں ‘ نعروں ‘ وعدوں اور دعووں سے رجھانے کی کوشش کررہی ہیں۔ مسلم دشمنی کے حوالے سے شہرت پانے اور بھارت میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردینے کے حوالے سے مشہور و معروف شیو سینا، بی جے پی اور اسی قبیل کی دیگر سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر بقیہ سیاسی جماعتیں اپنے سیکولر ہونے کا جس زور و شور سے ڈھنڈورا پیٹ رہی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں مذہب و مسلک کوئی اہمیت نہیں رکھتا جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے لئے سرکاری سرپرستی میں اقلیتوں کے ساتھ جو مظالم ڈھائے گئے اور آج بھی ہندو جنونی مسلمانوں کا قتل عام کرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری سطح پر ان کا جس طرح سے استحصال کیا جارہا ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے ۔ جنتا دل (اے ٹو زیڈ)سے لے کر کانگریس تک ‘ حزب مخالف سے حزب اقتدار تک ہر بھارتی جماعت سیکولر ہونے کی دعویدار ہے اور یہ نام نہاد سیکولر جماعتیں ،مسلمانوں کو بار بار انتباہ دے رہی ہیں، ڈرا رہی ہیں خوف دکھلا رہی ہیں کہ وہ متحد ہو کر انہی کو ووٹ دیں۔ اور ہر سیکولر کہلانے والی سیاسی جماعتیں دوسری سیکولر جماعتوں پر فرقہ پرستی کا الزام عائد کررہی ہیں جبکہ جوابی الزامات کا سلسلہ بھی جارہی ہے جس کی وجہ سے بھارت کا عام مسلمان شش وپنج کا شکار ہے کہ وہ اس سیاسی جنگل میں کدھر جائے ۔ کل تک مسلمانوں کے خون کی پیاسی بھارت کی ساری سیاسی جماعتیں یکایک مسلمانوں کا دم بھرنے لگی ہیں۔ ان کے مسائل گنا رہی ہیں۔ ان پر کئے گئے کاغذی احسانات کی یاد دلا رہی ہیں۔ مسلمانوں کی بھلائی کی ترقی کی بہبود کی باتیں کہیں جارہی ہیں۔ لیکن کوئی سیاسی جماعت اور بالخصوص کوئی سیکولر جماعت یہ بتانے کے لئے تیار نہیں کہ وہ کتنے مسلمانوں کو پارلیمنٹ میں نمائندہ بنا کر بھیج رہی ہے۔ ساری سیکولر جماعتیں ایک غیر تحریری دستور پر عمل کررہی ہیں کہ مسلمانوں کی پارلیمنٹ و اسمبلی میں سے نمائندگی کو کم سے کم کیا جائے۔ تاکہ مسلمانوں کو دل خوش وعدوں کے ذریعہ آئندہ برسوں تک بہلایا جائے اور ان کے ووٹوں پر حکمرانی کی جائے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را “ کی ہدایت پر گزشتہ بیس برسوں سے بھارت کی تمام سیکولر جماعتیں ایک غیر تحریری دستور پر عمل کر رہی ہیں جس کی وجہ سے بھارتی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بھارت کے مسلمانوں نے ووٹ دینے سے پہلے کبھی اس پہلو پر سوچنا بھی گوارہ نہیں کیا کہ وہ جس سیکولر پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دے رہا ہے وہ ہندو ہے یا مسلم۔ مسلمانوں نے امیدوار کو کبھی فرقہ وارانہ طورپر نہیں دیکھا۔ وہ صرف سیکولر ازم کے جھانسے میں آ کر پارلیمنٹ اور اسمبلی میں اپنی نمائندگی کم کرتا چلا آرہا ہے۔ کیا یہ بات بھارت کے سیکولرازم کے منافقانہ اور ڈھونگ ہونے کا ثبوت نہیں کہ بھارت کی کسی بھی قومی علاقائی سیکولر جماعت کے مسلم امیدوار کو ہندو ووٹ نہیں ملتے جبکہ مسلمان اس رخ پر سوچنے کا تصور بھی نہیں کرتے۔ ستم کی بات یہ ہے کہ مسلم ووٹ کے ذریعے برسرِ اقتدار آنے والی سیاسی جماعتیں ہی بھارتی مسلمانوں کی وفاداری پر شبہات کے اظہار کے ساتھ ساتھ ان کا استحصال بھی کرتی ہیں اور انتہا پرست ہندو تنظیموں کو مسلمانوں کے قتل عام کی چھوٹ دے کر مسلمانوں کی نسل کشی میں اپنا غیرمرئی کردار بھی ادا کرتی ہیں جبکہ استحصال کا شکار مسلمانوں پر ہی یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ وہ وفادار نہیں ہوتے ہیں اور فرقہ پرستی کو ترجیح دیتے ہیں اگر واقعی بھارتی مسلمان بھارت سے وفادار نہیں ہوتے یا فرقہ پرستی کو ترجیح دیتے تو بھارتی پارلیمنٹ اور اسمبلی میں مسلم نمائندوں کی تعداد یقینی طور پر ان کی آبادی کے تناسب سے ہوتی یا پھر ہر ایک بھارتی سیاسی جماعتوں کو مسلم ووٹوں کے حصول کے لئے مسلم اکثریتی علاقوں سے مسلمان امیدوار کو ٹکٹ دینا پڑتا مگر ایسا نہیں ہے ۔

واضح رہے کہ بھارت کا ایک دانشور طبقہ اسی لیے سیاست میں مسلمانوں کے لئے تحفظات کا مطالبہ کررہا ہے کہ اس طرح پارلیمنٹ و اسمبلی میں ان کی نمائندگی ہوسکے۔ لیکن سیکولرازم کے تمام تر دعووں کے باوجود کانگریس، راشٹر وادی کانگریس، بہوجن سماج پارٹی، لوک جن شکتی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل جیسی جماعتیں مسلمانوں کو سیاسی تحفظات دیے جانے کے مطالبہ پر اندھی، بہری، گونگی ہوجاتی ہیں۔ تقریباً تمام سیاسی سیکولر جماعتوں کو مسلمانوں کے ووٹ درکار ہیں مگر کوئی بھی مسلمانوں کو نمائندگی کا حق دینے کے لئے تیار نہیں !

قارئین کو یہ جان کر دکھ اور تعجب بھی ہوگا کہ بھارت کی 41ویں پارلیمان میں مسلم ارکان پارلیمنٹ کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ یعنی صرف35ممبران پارلیمنٹ مسلمان ہیں۔ جب کہ بھارت میںمسلمانوں کی آبادی کے اعتبار سے پارلیمنٹ میں70مسلم ممبران پارلےمنٹ ہونے چاہئیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر اس کے لئے کون ذمہ دار ہے۔ کیا اس کے ذمہ دار مسلمان نہیں؟ کیا اس کے لئے وہ سیاسی جماعتیں ذمہ دار نہیں جن کو مسلمانوں سے ہمدردی کا دعویٰ ہے اور جو مسلم مفادات کے نگراں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مسلمانوں نے اس ملک میں کبھی اپنی اہمیت کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ انہیں اپنی حالت بدلنے کا خیال ہی نہیں آتا۔ اگر کبھی بھولے بھٹکے ایسا خیال آ بھی جائے تو نام نہاد مسلم قیادت کے منہ پر اس خوف سے تالے لگ جاتے ہیں کہ اگر ایسی کوئی بات کہہ دی جائے تو ان پر فرقہ پرستی کا الزام لگ جائے گا۔ فرقہ پرستی کی مخالفت تو سب کرتے ہیں لیکن اسی فرقہ پرستی پر سبھی سیکولر جماعتیں دل کی گہرائیوں سے عمل بھی کرتی ہیں۔ اگر ہماری بات جھوٹ ہے، الزام ہے بہتان ہے تو کوئی ہمیں بتائے کہ بھارتی پارلیمنٹ میں اور بھارت کی مختلف ریاستوں کی اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی تیزی سے کیوں گھٹ رہی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی اپنی کوششوں میں اس حد تک تو کامیاب ہوچکی ہے کہ اس نے بھارت کے ہر ہندو کی اس حد تک ذہن سازی ضرور کردی ہے کہ آج بھارت کا ہر ہندو خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو بھارت سے اقلیتوں کا وجود مٹا دینے کا خواہشمند ہے اور یہی خواہش انتخابات کے موقع پر اس وقت کھل کر سامنے آجاتی ہے جب بھارت کی ہر سیاسی جماعت مسلم ہمدردی کا دم بھر کر خود کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش تو ضرور کرتی ہے اور مسلمانوں کے ووٹ سے اقتدار میں آنے کی خواہشمند بھی ہوتی ہے مگر مسلمانوں کی نمائندگی کو مؤثر بنانے کے لئے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینا کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے قابل قبول نہیں ہوتا ۔

کیا یہ المیہ نہیں کہ خود کو بھارت کی سب سے قدیم اور سب سے زیادہ سیکولر کہلانے والی پارٹی نے مہاراشٹر میں صرف ایک مسلم امیدوار کو میدان انتخاب میں اتارا ہے۔ جب کہ مہاراشٹر میں مسلمانوں کی آبادی کے اعتبار سے 3مسلم ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوسکتے ہیں۔ ہم اسے اعداد و شمار کی روشنی میں بتلاتے ہیں کہ مہاراشٹر کی کل آباد 10کروڑ 39لاکھ 28ہزار 945 ہے۔ ان میں مسلمانوں کی تعداد 1,08,36,832ہے یعنی ایک کروڑ سے زائد اور ایک کروڑ مسلم آبادی والے مہاراشٹر سے صرف ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوا ہے۔ جو عبدالرحمن انتولے ہیں۔ آبادی کے اعتبار سے مسلمان مہاراشٹر میں10اعشاری 45 فیصد ہیں اور اس فیصد کے لحاظ سے پارلیمنٹ میں مہاراشٹر کے 5مسلم ممبران پارلیمنٹ ہونے چاہئیں لیکن صرف ایک ممبر پارلیمنٹ ہے ، کیا یہ مہاراشٹر کے مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہے۔
آندھرا پردیش میں مسلمانوں کی آبادی 48لاکھ21ہزار 51ہے۔ کل آبادی کا یہ10اعشاریہ 83 فیصد حصہ ہے۔ اس اعتبار سے آندھراپردیش سے 4مسلم ممبران پارلیمنٹ منتخب ہونے چاہئیں لیکن صرف2مسلمان آندھرا کے مسلمانوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کرتے ہیں۔ بھارت کی 6 ریاستیں ہیں جہاں سے کم ازکم ایک اور زیادہ سے زیادہ 2مسلم ممبران پارلیمنٹ منتخب ہونے چاہئیں لیکن ان 6ریاستوں سے کوئی مسلم پارلیمنٹ کا رکن نہیں ہے۔

مہاراشٹر میں پارلےمنٹ کی 84نشستیں ہیں ،یعنی مہاراشٹر سے84 ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوتے ہیں۔ان میں صرف ایک مسلم ہے۔ جب کہ آبادی کے اعتبار سے پانچ مسلم ممبران پارلیمنٹ ہونے چاہئیں۔ مہاراشٹر میں سماجوادی پارٹی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ بی ایس پی کی نمائندگی صفر ہے۔ جنتا دل آنجہانی ہوچکی ہے ، آرجے ڈی کائی اتا پتا نہیں ہے۔ لے دے کے دو پارٹیاں ہیں اور دونوں کو بھی سیکولرازم پر صدق دل سے عمل آوری کا دعویٰ ہے۔ان میں ایک کانگریس ہے تو دوسری راشٹروادی کانگریس پارٹی ہے۔ مہاراشٹر کے ایک کروڑ 8 لاکھ 23ہزار 238 مسلمانوں سے دونوں کانگریس پارٹیاں ووٹ طلب کررہی ہیں کہ ان دونوں سیاسی جماعتوں نے مہاراشٹر کی84 پارلیمانی نشستوں کو باہمی طور پر 22-62 کے اعتبار سے تقسیم کرلیا ہے۔ راشٹر وادی کانگریس پارٹی کو 22 پارلیمانی حلقوں میں کوئی مسلم قائد نہیں ملا جسے وہ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے روانہ کرواتی۔ حالانکہ شردپوار کے لئے یہ بات ناممکنات میں سے نہیں کہ وہ اپنے کونے کی 22پارلیمانی نشستوں پر سے کسی ایک نشست پر مسلم امیدوار کو کامیاب بنائیں۔ شردپوار سیاست میں مرد آہن قرار دیئے جاتے ہیں۔ مہاراشٹر کے ایک بڑے علاقہ میں ان کا طوطی بولتا ہے۔ ان کے پارلیمانی حلقہ انتخاب بارہ متی میں ہی اگر کسی مسلمان کو شرد پوار امیدوار بناتے تو بارہ متی کے رائے دہندگان بہر صورت شردپوار کے نامزد مسلم امیدوار کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرواتے۔ تاہم شرد پوار کو مسلمانوں سے ظاہری ہمدردی ہونے کی وجہ سے انہوں نے بارہ متی کی سیٹ اپنی دختر کے لئے چھوڑ دی اور خود نئے پارلیمانی حلقہ ماڈھا سے قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ کیا راشٹروادی کانگریس پارٹی میں کوئی ایسا قد آور مسلم لیڈر نہیں ہے جو پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرسکے۔ بالفرض ایسا کوئی قائد این سی پی میں نہیں تھا تو شرد پوار اپنے رفیق آل انڈیا مسلم اوبی سی آرگنائزیشن کے قومی صدر شبیر احمد انصاری کو ہی بارہ متی سے امیدوار بناتے اور شردپوار چاہتے تو شبیر انصاری ریکارڈ اکثریت سے پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہوتے۔ اس کے باوجود شرد پوار نے کسی مسلم امیدوار کو انتخابی میدان میں اتارنا پسند نہیں کیا۔ تو کیا اس سے این سی پی اور شرد پوار کے سیکولر ہونے کے ڈھونگ کا پردہ فاش نہیں ہوتا ۔ یہی صورت حال کانگریس کے تعلق سے کہی جاسکتی ہے کہ کانگریس تو سیکولرازم کی سب سے بڑی دعویدار ہے۔ مسلمانوں سے اس کی ہمدردی کی باتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ پر آٹھ آٹھ آنسو بہانے والی کانگریس کو دعویٰ ہے کہ وہ ملک کی واحد سیاسی پارٹی ہے جو مسلمانوں کے مفادات کی نگراں ہے اور ان کی بھلائی چاہتی ہے۔ مسلمانوں سے اظہار یگانگت کا کوئی موقع کانگریس ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ تاہم پارلیمنٹ اور اسمبلی میں مسلمانوں کی موجودگی کانگریس کو بھی پسند نہیں ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ مسلمان پارلیمنٹ اور اسمبلی میں پہنچیں۔ ہم سارے بھارت کی بات نہیں کریں گے صرف مہاراشٹر کی بات کریں گے۔ جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ مسلمان مہاراشٹر کی کل آبادی کا 10.53 فیصد ہیں اور اس اعتبار سے مہاراشٹر سے 5 مسلم ممبران پارلیمنٹ کسی بھی صورت میں منتخب ہونے چاہئیں۔ کانگریس، این سی پی نے مہاراشٹر کی 84نشستوں کے لئے اتحاد کیا ہے۔ کانگریس کے حصہ میں 62نشستیں آئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان 62 نشستوں میں سے کانگریس 3 نشستیں مسلمانوں کے لئے مختص نہیں کرسکتی تھیں۔ بالکل کرسکتی تھی کیونکہ کانگریس ریاست کے ایک کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کو نظرانداز نہیں کرسکتی ۔ لیکن 62 نشستوں کے امیدواروں پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ کانگریس نے مسلمانوں کو نظرانداز کیا اور بری طرح نظرانداز کیا۔ کانگریس نے شرڈی پارلیمانی حلقہ رام داس آٹھولے کے لئے چھوڑ دیا۔ کیا کانگریس ایسے ہی مہاراشٹر کے تین پارلیمانی حلقے مسلمانوں کے لئے نہیں چھوڑ سکتی تھی۔ ایسے حلقوں کی تلاش کانگریس کے لئے مشکل بھی نہ تھی۔ ناسک، ممبئی کا کوئی ایک حلقہ اور اورنگ آباد سے کانگریس مسلم امیدوار کو پوری طاقت سے کامیاب کرواسکتی تھی۔ لیکن اس کی فہرست میں صرف واحد نام عبدالرحمن انتولے کا ہے۔ اس تفصیلی جائزہ سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ کانگریس ہویا راشٹروادی کانگریس یا سیکولرازم کا دم بھرنے والی کوئی اور بھارتی سیاسی جماعت انہیں بھارتی پارلیمنٹ اوراسمبلی میں مسلمان اور ان کی نمائندگی منظور نہیں البتہ انہیں مسلم ووٹ ضرور درکار ہیں ‘ وہ یہ نہیں چاہتی ہیں کہ مسلمانوں کے نمائندے پارلیمنٹ کے ایوانوں میں پہنچیں اور مسلم مسائل پر آواز اٹھائیں۔ دونوں جماعتیں خود کو سیکولر کہلاتی ہیں اور جب سیکولرازم کے عملی مظاہرہ کا وقت آتا ہے تب ان کو ڈرایا جاتا ہے دھمکایا جاتا ہے، خوف دلایا جاتا ہے، فرقہ پرست جماعتوں سے فرقہ پرست قائدین سے۔ کہ کانگریس کو منتخب نہیں کیا گیا تو ”گجرات“ بنیں گے۔ زیرنظر آرٹیکل جذباتی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ غیر جانبدارانہ طریقہ سے ان کے لئے قلم بند کیا گیا ہے جو یہ سوچتے ہیں کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے جہاں اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ کوئی امتیازی رویہ اختیار نہیں کیا جارہا ہے۔

 
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 63 Articles with 67478 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.