الجزائر کے عوام ایک اسلام
پسند قائد سے محروم
لیجئے شاذ لی بن جدید بھی جانے والوں میں شامل ہوگئے!الجزائر کو اپنے تیرہ
سالہ عہد صدارت میں تعلیمی واقتصادی ترقی سے آشنا کرنے والے اسلام پسند
قائد شاذ لی بن جدید اب قدیم ہوگئے، دنیا ایک دام خیال ہے یافریب کا جال ہے،
جب تک رگوں میں خون رواں ہے، زندگی کاتب وتاب قائم ہے، روح کا رشتہ جسم سے
ٹوٹا اور زندگی کے تماشے اور کارنامے ایک پردہ کے پیچھے گئے، لیکن اپنی قوم
اور ملت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والے قائدین کبھی بھلائے نہیں جاتے،
تراسی سال کی عمر پاکر ہم سے رخصت ہونے والے شاذ لی بن جدید بھی ایسے ہی
قائدین میں تھے جن کو یہ کہنے کا حق تھا کہ :
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ِ ما
شاذلی 14اپریل 1929ءکو ریاست ”طارف“ کے ایک شہر ”بوتلجہ“ میں پیدا ہوئے،
اور ابھی گزشتہ۶اکتوبر 2012ءکو ایک بھر پور سیاسی زندگی گذارنے کے بعدآخرت
کا سفر کیا،بیماری دل نے ان کا کام تمام کیا،اور بساط حیات لپیٹ دی گئی،
فرانسیسی استعمار کے تاریک دور کا جب خاتمہ ہوا اور ساڑھے سات سال مسلسل
جاری رہنے والے حریت وآزادی کے انقلاب کے بعد الجزائر آزاد ہوا تو ملک
حقیقی جمہوریت کی جانب بڑھا، اس طرح پندرہ لاکھ شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں
گیا جو ملک کی آزادی کی خاطر بہایا گیا تھا، اور اسی پس منظر میں اس ملک کا
ایک لقب ” بلد الملیون ونصف الملیون شہید“ لوگوںمیں عام ہوا تھا، 132 سالوں
بعد1962ءمیں ملک آزاد ہوا اور پہلے صدر کی حیثیت سے احمد بن بلّہ کا انتخاب
ہوا، پھر بومدین اوراس کے بعد بیطاط عہدہ صدارت پر آئے، ملک کے چوتھے صدر
کی حیثیت سے شاذلی ۹فروری 1979ءکومنتخب ہوئے، شاذلی ایک اعتبار سے ملک کے
تیسرے صدر تھے چونکہ رابح بیطاط تواصلاً پارلیمانی صدر تھے، اور ملکی قانون
کے اعتبار سے عبوری دور میں صدارتی ذمہ داری بھی انہوں نے سنبھال رکھی تھی،
لیکن باضابطہ انتخاب سے بومدین کے بعد شاذلی ہی صدارت کے عہدہ پر آئے ،دوبارہ
1984ءمیں اور تیسری بار 1988ءمیں پہر صدر منتخب ہوئے، 14 جنوری 1992ءکو
شاذلی بعض ناگزیر سیاسی حالات کے زیر اثر سبکدوش ہوئے، اور ملک ایک طویل
خونی معرکہ میں داخل ہوا، بوضیاف ان کے بعد صدار ت کی کرسی پر آئے، اور
ادھر بیس سالوں میں بوضیاف کے بعد علی کافی ،امین زروال اور عبدالعزیز بو
تفلیقہ یکے بعد دیگرے صدر ہوئے، آخر الذکر تا حال اس عہدہ پر فائز ہیں۔
الجزائر (Algeria)ایک ایسا خوش قسمت ملک ہے جو تاریخ کے ہردور میں اسلام کے
دامن سے وابستہ رہا،رستمی اباضی ہوں یا خاندان بنی حماد ، یا خلافت حمادیہ
و عثمانیہ، سب اسی امت واحدہ کی مختلف شاخوں سے نکلے تھے، حتی کہ فرانسیسی
استعمار کے درمیان بھی اس ملک کے غیور مسلمانوں نے اپنی اسلامی شناخت باقی
رکھی اور اس کو ”ارض اسلام“(سرزمین ِاسلام) کہنے والوں نے اس کی اسی خصوصیت
کو دیکھ کر کہا ، اندلس اور افریقہ کے بڑے حصہ میں اسی پاک سرزمین سے
فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا، یاقوت حموی اورمحمد بن محمد ادریسی جیسے تاریخ
وجغرافیہ کے قدیم ماہرین نے اس ملک کا مفصل تعارف ”معجم البلدان“اور”نزہة
المشتاق فی اخبار الآفاق“ میں کیاہے، آج بھی یہاں تقریبا 99.9% مسلمان
ہیں،گنتی کے آرتھوڈوکس عیسائی اور یہودی ہیں،گو یہاں کے اصل باشندے
”امازیغ“ (بربر) ہیں، لیکن اسلام کے رشتہ نے فینقیوں، رومانیوں، بازنطینیوں
اور عرب وترک سب کو شیر وشکر کردیا، مسلمانوں کی اکثریت سنی اور مسلک مالکی
پر کاربند ہے، خلافت عثمانیہ کی وسیع الظرفی دیکھئے کہ فقہ حنفی اگر چہ اس
کی سرکاری فقہ کی حیثیت رکھتی تھی،لیکن الجزائر کے مسلمانوں کو فقہ مالکی
پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی، صرف ترکی النسل لوگ مذہب حنفی
پرقائم رہے۔
یہ ملک آب وہوا اور مزاج ومذاق دونوں اعتبار سے ایک معتدل ملک ہے،اس کے
شمال میںبحر ابیض، مشرق میں تیونس اور لیبیا،جنوب میں مالے اور
نائجیریا،اور مغرب میں مراقش اور موریتانیہ جیسے قدرتی ذخائر سے مالامال
ممالک ہیں، خود الجزائر بھی زر سیاہ (پٹرول) اورقدرتی گیس کے ساتھ ساتھ سنگ
مرمر، یاقوت والماس، سیسہ،سونا اور یورینیم کامخزن ہے،اس کا صدر مقام بھی
الجزائر ہی کہلاتا ہے،اس طے علاوہ وہران،قسطنطینہ،اور عنابہ یہاں کے بڑے
شہر ہیں، ملک کی سرکاری زبان عربی ہے، یہاں 69% فیصد خواندگی ہے، جزائری
دینار(DZD ) بھی ایک معتدل قوت خرید رکھنے والی کرنسی ہے، 2011ءکے اعداد
وشمار کے مطابق اس کی آبادی 34 ملین سے متجاوز ہے، اس طرح یہ افریقہ کا سب
سے بڑا اور دنیا کا دسواں بڑا ملک ہے، اس ملک کواقوام متحدہ، عرب لیگ اور
تنظیم اسلامی کانفرنس کی بھی رکنیت حاصل ہے۔
بر اعظم افریقہ کے شمال مغرب میں واقع یہ ملک ہر دور میں مردم خیزبھی رہا،
اسی سرزمین سے بشیر ابراہیمی،فضیل ورتلانی، صوفی امیرعبدالقادر،
محمدموکرانی،مشہور مفکر مالک بن نبی اور بیسویں صدی کے دوسرے دہے میں شیخ
عبدالحمید بن بادیس جیسے ہوش مند قائدین اور علماءومصلحین پیدا ہوئے، یہیں
شیخ بن بادیس کے ایک شاگردشیخ احمد سحنون اور ان کے رفقاءنے 1989ءمیں
”الجبہة السلامیة للنقاذ“ (اسلامی محاذ برائے نجات ِوطن،FIS ) جیسی تحریک
شروع کی، بنیادی طور پر اس تحریک کا انتساب جمعیة العلماءالجزائر کی طرف
تھا جسے بن بادیس نے جمعیة علماءہند کے طرز پر شیخ الاسلام مولانا حسین
احمد مدنیؒ کے مشورہ سے قائم کیا تھا، فرانسیسی سامراج کو ملک سے ختم کرنے
میں اہم کردار انہیں دینی اور سیاسی جماعتوں نے ادا کیا۔
شاذلی بن جدید ایک اسلام پسند قائداور مجاہد تھے، انہوں نے ہواری بومدین کے
اشتراکی نظام حکومت کے ملبے پر ایک آزاد، لبرل اور سرمایہ دارانہ شبیہ
رکھنے والی حکومت کی عمارت اٹھائی تھی،وہ پہلے عرب فرمانروا تھے جنہوں نے
اسلامی سرگرمیوں کو میدان سیاست میں بھی آگے بڑھایا، اور تحریک اسلامی کو
اس کا حق دیا،وہ صحیح اسلامی فکر کے حامل تھے اور اسلام کی حکمرانی کی جڑیں
دلوں کی زمین اور زمین کے سینوں میں پیوست کرنا چاہتے تھے، اسی لئے مشہور
اسلامی مفکر محمد الغزالی نے ان کو ”فارس السلام“( شہسوارِاسلام ) کا خطاب
دیا تھا، غزالی نے چھ سال الجزائر کے مشہور شہرقسطنطینہ میں قائم امیر
عبدالقادر یونیورسٹی میں کام کے دوران ان کو قریب سے دیکھا تھا اور اپنی
بالغ نظری سے ان کے بارے میں یہ رائے قائم کی تھی، یہ یونیورسٹی شاذلی نے
ہی قائم کی تھی،ڈاکٹر یوسف قرضاوی اور شیخ رمضان بوطی وغیرہ نے محمد
الغزالی سے اسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی تھی۔
شاذلی بن جدید فرانسیسی فوج میں ایک جانباز سپاہی کی حیثیت سے ابھرے تھے،گو
بعض حضرات اسے شاذلی کی ابتدئی زندگی کے بارے میں ایک تاریخی مغالطہ قرار
دیتے ہیں،اور سختی سے اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ انہوں نے کبھی فرانسیسی
فوج میں کام کیا تھا، 1964ءمیں ان کی نمایاں خدمات کو دیکھتے ہوئے الجزائر
کی ریاست” وہران“ کے فوجی دستہ کی اہم قیادت ان کے سپرد کی گئی، 1964ءمیں
عقید (کرنل) بنائے گئے، 1978ءمیں ملک کے وزیر دفاع ہوئے، اور1979ءمیں
بومدین کے انتقال کے بعد ملک کے صدر ہوئے،وہ خلاف توقع ایسے نازک حالات میں
ملک کے صدر منتخب ہوئے جب عبد العزیز بو تفلیقہ اور محمد صالح یحیاوی کے
درمیان کرسی صدارت کی جنگ شباب پر تھی، جبکہ شاذلی کا تعارف یورپ کے حق میں
نرم گوشہ رکھنے والی شخصیت کے طور پر تھا لیکن عوام کی محبت اور وفاداری ان
کے ساتھ رہی۔
شاذلی نے اپنے دور میں’ ’جبہة التحریر الوطنی“ (آزاد· وطن محاذ،FLN) کا ملک
پر 26سالہ قدیم دبدبہ ختم کیا، اور آزادی کی فضا عام کی اور تکثیری آئین
مرتب کیا جس میں ایک سے زائدسیاسی پارٹیوں نے حصہ لیا ، صدر منتخب ہونے کے
فوراً بعد سابق جزائری صدر احمدبن بلہ کورہا کرنے کا حکم دیا جن کو بومدین
نے 1963ءمیں نظر بند کردیا تھا، شاذلی نے کئی ایسے جرات مندانہ اقدامات کئے
جن کو ہم بلاشبہ خطر پسندی سے تعبیر کرسکتے ہیں، ملک کی اقتصادی ترقی کے
لئے اشتراکی ملک روس سے روابط قائم کئے،مغرب کی طرف رخ کیا،تاریخی دشمن
فرانس کا سفر کیا،اس طرح وہ الجزائری پروٹوکول کی خلاف ورزی کے بھی مرتکب
ہوئے، لیکن انہوں نے ملکی ترقی کے لئے ہرطرح کی مخالفت گوارہ کی،چونکہ ملک
کے لئے قرض لینا اس وقت ناگزیر تھا، گو کہ قرض کے بوجھ سے بعد میں ملک کو
کافی نقصان اٹھانا پڑا اورایک مرحلہ میں فقر وبے روزگاری عام ہوئی۔
شاذلی نے اپنے سابق صدر کے برخلاف فوج کا دبدبہ ملک سے ختم کرنے میں بڑی
کامیابی حاصل کی، بومدین کے دور میں سیاسی نظام کا نام فوج اور فوج کا نام
سیاسی نظام تھا،بومدین خود صدر، خود وزیر اعظم اور خود وزیر دفاع تھے، اس
کے زمانہ میں فوج کی خفیہ ایجنسی بھی سرگرم تھی،ان دونوں محاذوں کے تعاون
کے بغیر کسی شخص کا صدارت کی کرسی تک پہونچنا ایک حیرت انگیز امر تھا،
شاذلی اس وقت ایک غیر معروف شخص کا نام تھا، الجزائر کے بہت سے باشندوں نے
ان کا نام بھی نہیں سنا تھا، لیکن ہوشمند حلقہ ان کی سیاسی صلاحیتوں سے
واقف تھا، اور اسی کے ووٹ سے ان کے لیے اس مقام تک پہونچنے کی راہ ہموار
ہوئی،شاذلی نے سب سے اہم کام یہ کیا کہ ”الجبہة السلامیة للنقاذ“کو ایک
معتدل اسلام پسند پارٹی سمجھتے ہوئے بڑی حکمت سے اس کا ساتھ دیا،اور اس کو
آگے بڑھایا ،جس کے نتیجہ میں پہلے بلدیاتی انتخابات میں اس کی فتح ہوئی،اس
کے بعد جبہہ کے نمائندے پارلیمانی انتخاب میں بھاری اکثریت سے کامیاب
ہوئے،اس کو 188 سیٹیں حاصل ہوئیں، انہوں نے بڑے پیمانہ پر مسلمانوںکی ہونے
والی گرفتاری کو روکا، افسوس کے جبہة کی فتح کسی سے دیکھی نہ گئی، فوج نے
دوبارہ ملک میں غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی، جب عوام اس کے لئے تیار نہ ہوئے
تو جنگ چھڑی اور لاکھوں جانیں اس کی نذر ہوگئیں، اور سینکڑوں ملین ڈالر
ضائع ہوئے،شاذلی ان نازک حالات میں برطرف ہوگئے، جبہة پر پابندی لگی اور
فوج نے پارلیمانی انتخابات پر روک لگائی، یہ الجزائر کا سیاہ دن تھا کہ
بوضیاف جسے ملک کے لئے خطرہ قرار دے کر تیس سال کے لئے جلا وطن کیا گیا تھا
اس کو ملک کا صدر بنادیا گیا،اس نے ملک کو نئے رخ پر لے جانے کے اپنے عزم
کا اظہار کیاتھا، لیکن چھ سات ہی مہینوں میںوہ خودانقلابیوں کے نشانہ پر
آگیا ،اس کے علاوہ آج تک قتل وخونریزی کا سلسلہ جاری ہے،شاذلی اس کے بعد
20سال زندہ رہے، لیکن پردہ خفا میں اور امراض سے دوچار، شاذلی نے وفات سے
کچھ دنوں قبل اپنی وہ ڈائری مکمل کی تھی جس میں انہوں نے اپنی سیاسی زندگی
کے حالات قلمبند کئے ہیں ، وہ ان کے پس مرگ شائع ہوسکی۔
شاذلی رخصت ہوگئے لیکن الجزائر کے عوام آج بھی کسی ایسے ہی قائد کے منتظر
ہیں جو انہیں ظلم وجور کے دور سے نکال کر حقیقی آزادی سے ہمکنار کرسکے۔
٭استاذ المعہدالعالی الاسلامی ،حیدرآباد |