مولانا بجلی گھر پشتو نُطق وخطابت کا تاجدار

انسان مناطقہ کے یہاں دیگر حیوانات سے وصف تکلم کے ذریعے ممتاز ہوتاہے ،ورنہ دیگر تمام اوصافِ انسانیت حیوانوں میں بھی کسی نہ کسی درجے میں پائے جاتے ہیں ، اکل وشرب ، مصاحبت ،شعور ، الم ودرد ،خوشی ومسرت ،نشونما ،اعضاء اور باہمی مودّت ومحبت جیسی صفات انسان کے امتیازات واختصاصات نہیں ہیں ، نطق و کلام اور معلومات ِمُدرکہ میں غور وفکر کر کے انہیں ترتیب دے کر ان کا تجزیہ کر کے ،وہ بعض مجہولات تک رسائی حاصل کر تاہے ، ان میں سے کچھ کا تعلق ماضی سے ، کچھ کا حال سے اور کچھ کا استقبال سے ہوتاہے ،فکر کے ان نتائج کو جب وہ زبانِ قال سے بیان کرتاہے یالکھتاہے ،تو ایسے شخص کو مُدرِک ، ناطق ،متکلم ،مفکر اور خطیب کہاجاتاہے ،خطابت وتکلم کا وصف اعلی یا ادنی ہر انسان میں مِن حیثُ الانسان پایاجانا اہل منطق وفلسفہ کے یہاں بالاتِّفاق مسلَّم ہے ۔

انسان ،شیطان اور جن کو باری تعالی نے اس عظیم الشان وصف سے نواز کر اپنے ساتھ اور اپنی نورانی مخلوق فرشتوں کے ساتھ اظہار بیان میں شریک کیا، فرشتے ہمہ وقت تسبیح وتقدیس میں مشغول ہیں ، ابلیس شیطانی اور نافرمانی کا پیکرہے ، رسالت ونبوت میں جن انسان کے تابع ہیں ، جبکہ انسان ملائک کی خیر اور شیاطین کے شر دونوں کا فطری طور پر علَم بردار ہے ،خیر کی قوتیں انہیں اپنی طرف کھینچ سکتی ہیں ،شر کی قوتیں اسے بدی کی دعوت دیتی ہیں ، دونوں کی دعوت غیر اجباری اور غیر محسوس ہے ۔

لہذا محسوس اور مشاھدے کے انداز میں بھی انسان کو رہنما کی ضرورت تھی ، اس کیلئے حق تعالی نے مرسلین وانبیاء کا سلسلہ وحی کے رابطے سے شروع فرمایا، جس کا اختتام جناب سرور کائنات محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر کیاگیا ،اب سوال پیدا ہوتاہے کہ انسانیت تاقیامت موجود اور اَوامرِ الہی کی مکلَّف ہے ، جبکہ رہنماؤں کا انتظام ختم کردیا گیا ،تو اس کیلئے کلّی یا جزئی تمام اقوام وازمان یا خاص قوموں اور زبانوں کیلئے مجدّدین اور مجتھدین کاہر صدی اور ہزار یئے میں بندوبست کیاگیا، جوانسانیت کواﷲ تعالی کے پیغامات کی تذکیر ویاددہانی کے فرائض زبان وقلم سے دیتے رہینگے ،انسانیت کی تفہیم وفہمائش ان کی ذمہ داری ہوگی ، وعظ،خطاب ، تقریر ، دعوت وتبلیغ ، اور تبشیر وتخویف میں جُتے ہوں گے ، ان کا یہ کام زیادہ تر نطق وکلام ’’ لساناً وقلماً‘‘ کے ذریعے ہو گا، یہ اﷲ جل شانہ کی حکمت بالغہ کے طفیل انسانیت کیلئے اتمام حجت ہے ۔

انسان حواسِ خمسہ سے بھی ایما نیات کا ادراک کر سکتاہے ، عقل سے بھی ، لیکن وحی چونکہ قطعی اور اٹل ہے ،اس لئے کلیات کیلئے اسے مدار بنایاگیا ،مذکورہ طویل تمہید سے یہ بات معلوم ہوئی کہ انسان کی تخلیق کچھ مقاصد جلیلہ کیلئے ہے ،اور ان مقاصہ کی سمجھ نطق وکلام پر منحصر ہے ،جو انسان کا وصف امتیازی اور خاصّہ ہے ، اب اس وصف میں جو ممتاز ہوگا وہ انسانیت میں بھی ممتاز ہوگا ، انسانیت پر اس کے کلام کے نیک وبد اثرات کی پرچھا ئیاں ابد تک یا دیر تک قائم رہینگی ۔

چنانچہ تاریخ انسانی پر جب آپ طائرانہ ہی سہی نگاہ ڈال تے ہیں،تو اس میدان ِتخاطب کے عباقرہ کی فہرست اﷲ تعالی کے فرستادہ انبیاء کے علاوہ بھی بہت طویل ومدید ہے : فلیپ،سکندر اعظم ، قُس بن ساعدہ الایادی ،عمروبن معدیکرب الزبیدی ، ھانی بن قبیصہ الشیبانی عبدالمطلب،عمرفاروق،علی مرتضی ، سحبان بن وائل ، حجاج بن یوسف ، طارق بن زیاد ،زیاد بن أبی سفیان ، نپولین کا استاذ فیختہ ، داؤد بن علی ، شبیب بن شبہ، عبد اﷲ ندیم ، مصطفی کامل ، سعد زغلول ، جمال عبد الناصر ، شاہ فیصل ، ابوالکلام آزاد ، محمد علی جوہر ، شوکت علی جوہر ، عطاء اﷲ شاہ بخاری ، شورش کا شمیری ،جون ایف کنڈی ، مالکم ایکس ، ذوالفقار علی بھٹو ، صدام حسین ، نیلسن منڈیلا ، الطاف حسین ، مولانا فضل الرحمن ،طاہر القادری ، طارق جمیل اور مولانا محمد امیر بجلی گھران میں سے ہیں ۔

بجلی گھر مرحوم پشتو خطابت میں لاثانی تھے ، گردشِ ایام نے پشتو میں ان جیسا باکمال جوشیلا،حاضرین کے جذبات سے کھیل کرہنسانے رولانے والا،شیریں بیان ،جری ، بذلہ سنج ، پر کیف اور پوری دنیا کے پٹھانوں میں مشہورخطیب کبھی بھی نہیں دیکھا، رحمان وخوشحال اگر پشتو شعر کے شہنشاہ ہیں ،تو مولانا بجلی گھر پشتونطق وکلام اور خطابت کے تاجدار تھے،زندگی کے مختلف میدانوں میں متعدد لوگ صحرانوردیاں کرتے اورخاک چھانتے ہیں ،امر ہونا کسی کسی کی نصیب میں ہوتاہے،وہ خوش قسمت تھے کہ کارزارِخطابت میں امر ہوگئے ہیں۔کلام میں کچھ تضمین کے ساتھ ،پشتوشاعر انہیں خیبر کے گلے کاہاراور اس کے چمن کا بہار قرار دے رہاہے، ملاحظہ ہو:
خیبرہ ستاناتپوسونہ کوم
پہ زڑہ زخمی یمہ آہونہ کوم
ستادَغاڑے خکلے ہار سہ شو
ستا دَچمن خکلے بہارسہ شو

وہ سیاسی طور پر کچھ نہ کچھ جمعیت علماء اسلام سے وابستہ رہے ، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو کبھی متنازع نہیں ہونے دیا ،وہ عہدوں اور مناصب سے گریزاں رہے، انہوں نے حامیوں ہی نہیں مخالفین کو بھی اپنی خطابت اور اپنے علم ودانش کے سحر میں گرفتار کئے رکھا ، اس لئے ہر کوئی ان کا مداح تھا، ان سے محبت کرنے والوں میں لبرل ،سیکولر ،جدت پسند ، قدامت پسند ،چھوٹے ،بڑے ، دیہاتی ،شہری ، دینی مدارس کے تعلیم یافتہ ،عصری اداروں کے سٹوڈنٹس ، دیوبندی ، بریلوی ، شیعہ ، جہادی ،غیر جہادی ،شاعر ، ادیب ، صوفی ، تبلیغی ، گلوکار ،مزاحیہ نگار، فلموں کے پرستار ،عوام اور حکمراں ہر کوئی ہے ۔
ذکر ان کا چھیڑکر دیکھے کوئی اے عارفی
بے خودی کیا چیزہے وارفتگی ہوتی ہے کیا

اﷲ تعالی نے انہیں حسن سیرت ،صورت ،تکلم ،لے ، نغمہ ، لباس ، علم ، ادبیت ،بہادری ،نکتہ رسی ، ہمہ گیریت ، تبحر علمی ، ذھانت، فطانت، حافظہ ،خاندانی شرافت ، فصاحت ، بلاغت ، سیاست اورللکار جیسی گوں نا گوں صفات سے متصف کر دیاتھا ، مگر تھے وہ خطیب ہی ،ان کی شخصیت پر خطابت ہی کا وہ رنگ غالب تھا ،جس میں ان کا ہمسر پختونوں کی تاریخ میں کوئی نہیں گذرا ،ویسے اردو ، عر بی ،فارسی ، ہندکو اور پنجابی میں بھی موقع ومحل کی مناسبت سے خطابت کرلیا کرتے تھے ،البتہ بنیادی طور پر پشتو زبان ہی ان کی جولاں گاہ تھی ، ان کی خطابت کے دوران کے اقوال عام پختونوں میں بطوراستعارات و ضرب الامثال استعمال ہوتے ہیں ۔

وہ ایک ایسے سخنورتھے جوزندگی کے ہر شعبے او رشہریوں کے ہر طبقے سے متعلق عام فہم اور دلچسپ انداز میں بالکل کرنٹ موضوعات پر سخنرانی کر تے تھے ،خواتین کی بے پردگی ، حکمرانوں کا کرپشن اور استعماری قوتوں کی چیرہ دستیاں ان کا خاص موضوع تھا ، عربی ،فارسی ، اردواور پشتو کے اشعار ان کی نوکِ زبان پرتھے ، حکمرانوں کی کرپشن پر ان کا فارسی کا یہ شعر مشہور تھا :
گربہ میرو سگ وزیر موش را حیراں کنند
ایں چنیں ارکان ِدولت ملک را ویراں کنند

پولیس کے خلاف بولتے ،تویہ ان کی عبقریت تھی کہ خطبے ہی میں یہ الفاظ ملادیتے ،’’نعوذ باﷲ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا،ومن ڈی ایسپینا ، وایس پینا، ومن کمشنر نا ‘‘ ۔

علماء کے خاص مجمعے میں ان کی بھی خوب خبر لیتے،ان کے لیے عربی میں خطاب کرتے ،دارالعلوم سرحد کے جلسۂ دستاربندی میں موصوف کی مشہورعربی تقریر اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

وہ میرے استاذ الاساتذہ تھے ،میں ان سے ملنے جاتاتھا،ان کے بیان کا شوقین تھا،ان کی خطابت کا تعلق ان کے ایکشن اور ڈائیلاگ سے بھی تھا ،صرف آواز سن کر بسا اوقات ان کی بات سمجھنا آسان نہیں ہوتا تھا ،اور بعض اوقات ان کے اشاروں سے ہی بات مکمل طوپر ذہن نشیں ہو جاتی ،وہ طنز ومزاح میں سمجھانے کاڈھنگ جانتے تھے،سامعین کو ساتھ لیکر چلتے تھے،قصے کہانیوں کے بجائے وہ اخلاقی اورمعا شرتی برائیوں پربیشتر گفتگو کرتے تھے۔اسی لیے انہوں نے قید وبند کی صعوبتیں بھی بر داشت کیں ، ان کے خلاف لاہور تک ماڈرن خواتین نے جلوس نکالے ، مارشلاؤں میں نظر بندیوں کے اسیر رہے ، سیاسی پا رٹیوں نے انہیں دھمکانے کی کوششیں کیں، اخبارات میں ان کے خلاف مضامین چھپے ، پشتو کے مشہور مزاحیہ شاعر میر اویس کو بھی ان کے خلاف استعمال کیا گیا، مگر وہ اکیلے ان سب پر مر تے دم تک بھاری رہے۔

وہ ایک جید عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ پُروقار شخصیت کے مالک ،عربی ادب کے شہسوار اور انگریزی خواندہ بھی تھے ،ان کا نورانی چہرہ ان کے تقوی، ﷲیت اور اخلاص کاترجمان تھا،ان کے کلا م میں اثراور طاقتِ پروازتھی، وہ( پشاورپاور ہاوس )بجلی گھر مسجد کے امام وخطیب تھے ،مگر معاش کیلئے وہ ایک بڑے میڈیکل اسٹور کے مالک تھے ، مسجد کمیٹی کے نمک خوار نہ تھے، وہ اپنی آوازکی حریت پر ہزگز سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہ تھے،وہ گلستانِ پشتو ادب کے صحیح معنوں میں وہ دیدہ ورتھے جس کے لیے نرگس ہزاروں سال اپنی بے نوری پہ روتی ہے ۔85سال کی عمر پائی،خیبر پختونخوا کے عظیم ترین جنازوں میں سے ان کا جنازہ تھا، جس میں لاکھوں کااجتماع تھا،اﷲ تعالی جنۃالفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے۔
رورہی ہے آج ایک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877930 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More