تغیر پزید حالات کے تقاضے

پاکستانی تاریخی اہم ترین دور کا، ایک اہم ترین انتقال اقتدار کا مرحلہ پرامن اور سیاسی طریقے سے ظہور پزیر ہورہا ہے، ماضی کی روایات کے برعکس ، گوکہ عوام بنیادی حقوق سے محروم اور پریشانی کا شکار ہیں لیکن اس مرحلے پر انکا یہ اطمینان بھی قابل مسرت ہے کہ انھیں یہ تاریخی مرحلہ ، دیکھنے کا سنہرا موقع مل رہا ہے۔لیکن یہ مرحلہ خود احتسابی اور اپنے معاملات پر سنجیدہ غور وفکر کرنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنے کی ترغیب دیتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک کیا وجوہات رہیں کہ ، پاکستان میںجمہوری اقدار کو فروغ نہیں مل سکا ۔ہمیں بطور پاکستانی اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکامیوں کا سامنا کیوں رہا اور ہم بحیثیت قوم کے بجائے یونہی ادھر ادھر کیوں بھٹکتے رہے ہیں؟۔ اس مرحلے پر بھی کچھ دیدہ و نادیدہ قوتیں چاہتی ہیں کہ ہم اپنی مقررہ منزل کو پانے میں کامیاب ہونے کے بجائے ، مایوس کن روئےے کو اپنا کر، ایسے شکوک و بے یقینی کے حالات پیدا کردیں ، کہ عوام کا اعتماد کبھی بھی جمہوری اداروں پر بحال ہی نہ ہوسکے۔ان قوتوں کو یقینی طور پر مضبوط جمہوری اقدار والے پاکستان کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ،ان کے مفادات کی تکمیل کےلئے انھیں ایک ایسا سیاسی ڈھانچہ درکار ہے جس میں ، عوام کے بجائے ، ان کے فروعی مقاصد پورے ہوں۔ پاکستان کے خلاف ،امریکہ کی جانب ے دہمکی آمیز رویہ ، مسلم ملک ہونے کے ناطے پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش اور منظم ممالک سے پاکستان کی ریاست کو ناکام ظاہر کرنے کی سازشیں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔ یہ طاقتیں یہ بھی چاہتی ہیں کہ اسلامی ممالک سے پاکستان کے تعلقات میں اتحاد و اتفاق کی کمی واقع ہو ، اور ان کے درمیان ، تفرقے کی بنیاد پر اختلافات کو پروان چڑھایا جائے تاکہ ، مسلم ممالک کے وسائل ، اپنے ملک کی عوام کے بجائے ، تشدد اورجنگ کی جانب مائل رہیں اور یہ بین لااقوامی طاقتیں انھیں تحفظ کے نام پر اپنا بے دام غلام بنائے رکھیں۔یقینی طور پر پاکستان میں مختلف قومیتوں ، مسالک ، مذاہب کو سازش کے تحت کے دوسرے کے خلاف اکٹھا کیا جارہا تاکہ یہ آپس میں لڑ کر کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے جائیں اور مغربی چالوں پر پاکستانی عوام کی نظر و فکرنہ رہے۔گزشتہ صدی کے نویںعشرے کے دوران میں آٹھ سال تک لڑی جانے والی عراق ،ایران جنگ ، اس کے بعد عراق کا کویت پر قبضہ اورامریکہ کا کویت کو بچانے کے لئے عراق پر حملہ، سعوی عرب پر کرائے کے فوجی بن کر قابض ہوجانا ، افغانستان میں داخلے کےلئے نائن الیون کا بہانہ و منصوبہ تراشنا ، شام ، لیبا ، مصر کی بغاوتوں میں باغیوں کو اسلحہ کی فراہمی سمیت وسیع ترین پیمانے پر ہرخطے میں تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا امریکہ کی جانب سے پھیلاﺅ ، مسلم ممالک کے وسائل پر نظر ، اور پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر بین الاقوامی قوتوں کا کانٹے کی طرح کھٹکنا اور بے بنیاد ایشو کو بنیاد بنا کر ، داخلی انتشار پیدا کرنا ، مملکت کے خلاف بھیانک سازشیں ہیں ، جس پر سیاسی قوتوں کو ، سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہمارے آباﺅ اجداد نے پاکستان ،حاصل کرنے کےلئے جس اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا تھا ، اور اس جذبے کو ملک دشمن عناصر مسلسل سبوتاژ کرتے چلے آرہے ہیں تو ، آخر کب تک پاکستانی عوام کو پاکستان بنانے کی سزا دی جاتی رہے گی اور سیاسی قوتیں ،ان بیرونی عناصر کی آلہ کار بن کر وقتی مفادات کےلئے قوم کو بھینٹ چڑھاتے رہیں گے۔ ہمیں اپنے اسلاف پر فخر ضرور کرنا چاہے کہ انھوں نے آدھی دنیا فتح کی تھی لیکن ، ہم سے ہمارے حصے کا سوال و جواب ہوگا ، ہم جس گری پڑی حالت کو پہنچے ہیں ، اس کا نتیجہ مذہب سے دوری اور وطن سے محبت میں کمی ہے۔بحیثیت مجموعی ہماری حالت زار قابل ترس ہے ، آج روئے زمین پربحیثیت مسلم قوم ہمارا کوئی پُرسان حال نہیں ہے ، ہم انفرادی طور پر اپنے کردار کا جائزہ لیں تو بھی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے، جبکہ حقیقت یہی ہے کہ ہم نے اجتماعی ہی نہیں بلکہ انفرادی طور پر بھی اپنے کردار کا جائزہ لینا چھوڑ دیا ہے۔ہم بحیثیت مجمو عی انتشار کا شکار ہیں ، دنیا میں ہونے والی تیز رفتار ترقی کی دوڑ میں کوسوں میل تک ہمارا نام و نشان نہیں ملتا۔ہمیں بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ خود کو بھی تبدیل کرنا ہوگا ، صرف زبانی کلامی سے کچھ تبدیل نہیں ہوگا بلکہ عملی طور پر ہمیں اپنے اپنے حصے کا کردار اداکرنا ہوگا ، ہمیں قائد کے پاکستان کےلئے اپنی کمزوریوں کی حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔سیاسی مزاج میں تحمل ، بردباری اور برداشت کو اپنانا ہوگا، دنیا بڑی تیزی سے تغیر پذیر ہے اورحالات تقاضا کر رہے ہیں کہ ہم بھی اپنا مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے لائحہ عمل ترتیب دیں لیں۔ہم نے تحقیق اور ترقی سے منہ موڑے رکھا ہے اور اس خمیازہ ہم اس صورت میں بھگت رہے ہیںکہ دنیا کے وسیع تر قدرتی وسائل کے مالک و مختار ہونے کے باوجود پس ماندہ اور بڑے ترقی یافتہ ممالک کے دست نگر بنے ہوئے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ کسمپرسی کی اس حالت کو بدلنے کےلئے عوام ٹھوس منصوبہ بندی کرتے ہوئے خود کو سنبھالیں ، کیونکہ اگر ہم نہیں سنبھلے تو ممکن ہے کہ تاریخ ہمیں پھر اپنے پاﺅ ںپر کھڑا ہونے کا کبھی موقع فراہم نہ کرے۔آج ایسے کردار بھی ہمارے سامنے آرہے ہیں ، جو ملکی بقا و سالمیت کو دگرگوں کرنے کے بعد ملک سے باہر جا چکے تھے ، لیکن بدلتے موسم کے پرندوں کے طرح ان کی آمدبھی شروع ہوچکی ہے ہمیں ان سیاست دانوں کو قطعی مسترد کرنا ہوگا ، جو انتخابات کے آخری مرحلے میں اپنے مفادات کے لئے ، دوسری سیاسی جماعتوں کی چھتری کو استعمال کرنا چاہتے ہیں، ہمیں تاریخ کے مہنگے ترین انتخابی عمل میں شریک ہونے والے مورثی کردار کو اٹھا کر ، اپنے معاشرے سے دور پھینکنا ہوگا ، جاگیرداروں ، وڈیروں ، خوانین ، ملکوں ، سرداروں اور سرمایہ داروں کو اپنے نظام سے باہر نکالنے کےلئے ، ایسی قیادت کو سامنے لانا ہوگا ، جیسے عوام کی تکالیف کا احساس ہو ۔ پڑھے لکھے نوجون ہی ملک کی قسمت بدل سکتے ہیں،غریب اور متوسط طبقہ ہی تبدیلی لا سکتا ہے ۔ پرانے چہروں پر نئی نقاب کو نوچنے کےلئے عوام کو ہی ہمت دیکھانا ہوگی ۔ زندہ باد، مردہ باد کے سحر سے اپنی آنےوالی نسلوں کے تحفظ کے خاطر ، آزاد کرانے کےلئے ،سب سے پہلے خود کوشعور دینا ہوگا۔ہمارا ایک چھوٹا عمل ، بڑی کامیابی ، یا عمر بھر غلامی کا سبب بن سکتا ہے۔دنیا میں ترقی یافتہ قومیں ، کسی معجزے سے نہیں بلکہ ، حالات کے تغیر کو دیکھتے ہوئے ، محنت و جدوجہد سے بڑی قوتیں بنیں ہیں۔ آیئے نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں،پاکستان کو اپروچ سے نہیں سوچ سے بدلیں۔،
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 296168 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.