ملک میں المناک سانحات کا رونما
ہونا ایک معمول کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، کوئی دن نہیں جاتا جب ملک کے
کسی نہ کسی حصے میں کوئی المیہ رونما نہ ہوتا ہوجس میں کتنے ہی انسان اپنی
قیمتی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں ۔ آج ملک کا کوئی حصہ دہشت گردوں اور شدت
پسندوں کی کارروائیوں سے محفوظ نہیں ہے۔ دہشت گرد جہاں چاہتے ہیں جس وقت
چاہتے ہیں دھماکہ کردیتے ہیں۔ حکومت ، حکومتی رٹ اور حکومتی اداروں کی
کارکردگی بدقسمتی سے کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔ حکومت کو صرف اس بات کی فکر
کھائے جارہی ہے کہ بس کسی طرح اپنے پانچ سال پورے کرکے تاریخ کے صفحات پر
مدت پوری کرنے والی حکومت قرار پائے، چاہے یہ مدت کتنے ہی مظلوموں اور بے
گناہ شہریوں کی لاشوں اور کتنے ہی گھرانوں کے اجڑنے سے پوری ہو۔ علمدار روڈ
کوئٹہ میں ہونے والا واقعہ حکومت و حکومتی اداروں کی کارکردگی اور حکومت کی
جانب سے عوام کی جان و مال کے تحفظ کے بلند و بانگ دعوﺅں کے منہ پر دہشت
گردوں کی طرف سے نئے سال کا ایسا دلخراش طمانچہ ہے جس نے انسانیت کو نہ صرف
بری طرح سے دہلادیا ہے بلکہ عوام کو اپنی جان ومال کے تحفظ کے لئے ازخود
سوچنے پر مجبور بھی کردیا ہے۔ کوئٹہ میں ہونے والاافسوسناک سانحہ حکومت کی
ناکامی کا کھلا ثبوت ہے۔ گزشتہ دہ دن سے کوئٹہ بم دھماکوں میں شہید ہونے
والوں کے لواحقین اپنے پیاروں کے جسد خاکی لے کر کوئٹہ میں احتجاج کررہے
ہیں ۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ چونکہ حکومت دہشت گردوں کی سرکوبی اور عوام
کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے اس لئے فوری طور پر کوئٹہ کو فوج کے حوالے
کردیا جائے تب تک وہ اپنے پیاروں کی تدفین نہیں کرینگے۔دلدوز صدمے سے دوچار
غمزدہ مظاہرین کے انتہائی پرامن احتجاج میں پورے ملک سے ہر طبقہ فکر کے
افراد نے شرکت کر کے غمزدہ خاندانوں سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا ۔ جس کے
نتیجے میں حکومتی مشینری بلا آخر حرکت میں آئی اور صوبے میں بسنے والے عوام
کے دکھ درد سے بے نیاز وزیر اعلی بلوچستان اسلم رئیسانی کی حکومت کو برطرف
کرکے گورنر راج نافذ کردیا گیا ۔ بلوچستان ایک طویل عرصے سے حکومتی بے حسی
کا شکار ہے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بلوچستان سے متعلق اپنے ریمارکس میں
کہا تھا کہ بلوچستان کی اہم حکومتی شخصیات بھی بلوچستان میں چوری ڈکیتی کے
واقعات کی پشت پناہی کر رہی ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان واقعات پر قابو
پانے اور کامیاب حکمرانی کے تاثر کو تقویت دینے، حکومت پر عوام کا اعتماد
بحال کرنے ، ان میں جان و مال کے تحفظ کا احساس پیدا کرنے کے لئے حکمرانو ں
نے سوائے ایف سی تعینات کرنے کے کوئی ایسااقدام نہیں کیا جو حالات و واقعات
کے حوالے سے نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا۔ انتہا یہ ہے کہ حکومت نے صوبے کی ترقی
کے لئے جو حقوق بلوچستان پیکج کا اعلان کیا تھا ایک مدت گزر گئی مگر اسے اس
کی اصل روح کے مطابق پوری طرح روبہ عمل نہ لایا جاسکا۔بلوچ عوام کی غربت و
افلاس و بے روزگاری کے خاتمے کے لئے حکومت کے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا نہ
ہی دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں ، اساتذہ ، صنعتکاروں، تاجروں
اور کاروباری افراد کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔علمدار روڈ واقعے کے
شہداءکے لواحقین کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ کوئٹہ شہرکو فوج کے حوالے کیا جائے
کیونکہ سارا صوبہ دہشت گردی ، لاقانونیت ،بے گناہ افراد کی بم دھماکوں میں
ہلاکت اور بوری بند لاشوں کی آگ میں جل رہا ہے۔بعض بیرونی عناصر اور
ایجنسیوں کی مداخلت کے ثبوت بھی سامنے آچکے ہیں جو علحیدگی پسند عناصرکی
حوصلہ افزائی کررہی ہیں۔علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بھی انسانی حقوق
کی پامالی کے نام پر مستقل اظہار تشویش کیا جارہا ہے اور بلوچستان کی عوام
اب صوبائی حکومت پر اعتماد کرنے پر کسی صورت آمادہ نہیں ، لوگ اب صرف فوج
کی تعیناتی چاہتے ہیں ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے متعدد مرتبہ اپنے ریمارکس
میں حکومت کی ناکامی ، لاقانونیت اور بد امنی کے متعلق دو ٹوک انداز میں جو
آبزرویشن دی جاچکی ہے وہ واقعی لمحہ فکریہ ہے ۔بلوچستان میں احساس محرومی
بڑھ رہا ہے اب اگرحکومت نے عوامی مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے صوبے میں آئین
پاکستان کی شق 234 کے تحت گورنر راج نافذ کربھی دیا ہے تو اس بات کی کیا
ضمانت ہے کہ آئندہ ایسے دلسوز واقعات نہیں ہونگے۔ ابھی صوبے میں ایک غیر
یقینی کی سی صورتحال ہے ۔ لوگ تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ مظاہرین کے بار بار
اصرار کے باوجود حکومت نے کوئٹہ شہر کو فوج کے حوالے کرنے کے مطالبے پر کسی
واضح احکام سے گریز کیا البتہ حکومت اپنا یہی موقف دہراتی رہی کہ ضرورت
پڑنے پر گورنر فوج کی مدد لے سکتے ہیں ۔ یعنی حکومت کے نزدیک ایک ہی روز
میں سو سے زیادہ افراد کی ہلاکتوں کا افسوسناک واقعہ بھی تاحال حکومت کی
رائے میں ضرورت جیسے لفظ کے زمرے میں شمار نہیں ہوتا۔ اب تو برطرف وزیر
اعلی بلوچستان اسلم رئیسانی بھی منظر عام پر آگئے ہیں جو ہمیشہ کی طرح اس
بار بھی اپنی اوٹ پٹانگ باتوں سے خبروں کو گرما رہے ہیں۔ ان کے نزدیک امن و
امان کی زمہ داری انکی نہیں بلکہ پولیس اور ایف سی کی تھی صرف یہی نہیں
بلکہ انکی حکومت کی برطرفی امن و امان کی بجائے ریکوڈک معاملے کے باعث ختم
کی گئی ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایسے شخص کو ایک اتنے بڑے رقبے کے
حامل صوبے کا وزیر اعلی کیسے بنا دیا گیا جس کی صحیح الدماغی اس قدر مشکوک
ہے ، جس کو عوام کی جان و مال سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں اور جو اتنا
طویل عرصہ میں بھی صوبے کے حالات درست کرنے اور اسے سنگین بحران سے نکالنے
کے لئے موثر اقدامات نہیں کرپائی ۔ بلوچستان خصوصا کوئٹہ میں پائیدار
بنیادوں پر قیام امن کے لئے اقدامات مزید وقت ضائع کئے بغیر عمل میں لائے
جانے چاہئیں اور اس عمل میں تمام فریقوں کو پورے اخلاص سے شریک ہونا چاہئے
تاکہ آگ و خون کا یہ بھیانک کھیل بند ہو سکے۔بلوچستان کے تمام مسائل کو
سیاسی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہئے۔ 18ویں آئینی ترمیم میں صوبوں کو جو
یکساں حقوق دیئے گئے ہیں انہیں سامنے رکھتے ہوئے بلوچستان کے عوام کے
تحفظات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے ہی مسئلے کا سیاسی اور پائیدار حل
نکالا جاسکتا ہے۔بلوچستان کے رقبے، آبادی اور پسماندگی کو پیش نظر رکھتے
ہوئے یہ بلوچ عوام کا آئینی و قانونی حق بھی ہے کہ ان کے جانی و مالی تحفظ
اور معاشی بہتری کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ صوبے میں ایک طرف لوگوں کے
لاپتہ ہونے اور بعد ازاں لاشیں ملنے کی شکایتیں ہیں تو دوسری طرف پنجاب اور
ہزارہ کے لوگوں کے قتل اور بوری بند لاشوں جیسے واقعات بھی روز کا معمول بن
گئے ہیں۔ اہم تنصیبات اڑائے جانے کے واقعات، غیر ملکی ماہرین کے اغواءسمیت
دیگر متعدد حوالوں سے بھی قانون کی عملداری نہ ہونے کا تاثر نمایاں
ہے۔دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے اعلی تعلیم یافتہ افراد، ڈاکٹرز ،
انجینئرز اور دوسرے ماہرین اپنے آبائی صوبوں کو واپس جارہے ہیں جس کے باعث
صوبے کی تعمیر و ترقی کی سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں۔ یہ ساری صورتحال اس امر
کی متقاضی ہے کہ لوگوں کو انصاف ملنے کا اعتماد دیا جائے، حالیہ عملدار روڈ
والے المناک سانحے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جانی چاہئے اور اس
سانحے کے زمہ داروں کو منظر عام پر لایا اور قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا
جائے تاکہ دہشت گردی کی لہر کو جڑ سے ختم کیا جاسکے۔ |