پاکستان کو گذشتہ چند برسوں میں
"دہشت گردی کےخلاف جنگ"میں کھربوں روپوں کا مالی نقصان ،ہزاروں قیمتی جانوں
کے ساتھ ہوچکا ہے۔عسکریت پسند ، جنوبی وزیرستان ،باجوڑ اور مہمند قبائل
علاقوں سمیت دفاعی اداروں اور سیکورٹی فورسز کو شدت سے نقصان پہنچا رہے ہیں
۔عسکریت پسند عناصر خاص طور پر صنعتی شہروں میں سیاسی ،مذہبی اور نسلی سطح
پر عوام کو بھی باہم دست وگریباں کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔معاشرے میں
اختلافی معاملات اور گروہی بنیادوں کے علاوہ فرقہ وارانہ احتجاجوں کو اب
سیاسی بنیادوں پر استعمال کرنے کی روش پروان پا رہی ہے۔خیبر پختونخوا ،کراچی
،کوئٹہ سمیت جنوبی پنجاب میں سخت فوجی آپریشن کے مطالبات روز بہ روز زور
پکڑ رہے ہیں۔ایک وقت تھا کہ صرف پختونوں کو ہی طالبان سمجھ کر پاکستان کے
ہر کونے میں ان سے امتیازی سلوک کیا جاتا تھا ، کراچی اور لاہور کے امیر
گھروں اور کارخانوں میں جہاں ترجیحی بنیادوں پر پختونوں کو نوکریاں فراہم
کیں جاتیں تھیں اب اُن کےلئے ملازمتوں کے دروازے بند کردئےے گئے ہیں۔بلکہ
طالبائزیشن کی وبا سے پختونوں کو ان کی ملازمتوں سے بھی بیدخل کیا گیا جبکہ
قانون نافذ کرنے والے اداروں کیجانب سے علاقائی آپریشن ہو ، یا ٹارگٹڈ
کاروائی ، بے گناہ پشتو بولنے والوں کو جنگجو یا ان کا مددگار سمجھ کر
حراست میں لے لیا جاتا اور اکثر اوقات انھیں وقت پر شناختی کارڈ فراہم نہ
کرنے کے سبب ،بےگناہی ثابت کرنے سے قبل ہی مختلف مقدمات میں گرفتار کرکے
جیل بھیج دیا جاتا ۔کیا یہ ایسی صورتحال نہیں تھی کہ اگر کسی فرد کو
ایمانداری سے رزق حاصل کرنے سے روک دیا جائے اور ایسے اپنے کنبے کی کفالت
کےلئے رقم کی اشد ضرورت ہو تو ، مجبور ہوکر اس کے قدم ان راستوں پر چل
نکلیں جس کا اُس نے تصور نہیں کیا تھا ۔اس حقیقت کو ہمیں تسلیم کرنا ہوگا
کہ اگر عسکرےت پسند جنگجو ﺅں کےساتھ بڑی تعداد میں ایسے نوجوان شامل ہوئے ،
جنھیں امتیازی سلوک کے تحت ،دیوار سے لگا دیا گیا تھا تو ، انھیں جنگجوﺅں
کا آلہ کار بننے سے کون روک سکتا ہے۔خاص طور پر سندھ میں پختونوں پراتنا
کڑا اور تلخ دور بیت چکا ہے کہ انکی جان و مال کاتحفظ کرنے میں ملک کی تمام
سیاسی جماعتیں ناکام ہوگئیں اور تاحال آج بھی ناکام ہیں ، سندھی قوم پرستوں
کی جانب سے پختونوں کو پناہ نہ دینے کےلئے ہڑتالیں کرنا ، بھلانااتنا آسان
نہیں ہے۔مخصوص زہنیت کے تحت پاکستان بھر میں پختونوں کےلئے عرصہ حیات تنگ
کردیا گیا ، کچرا چننے والوں سے لیکر ٹرانسپورٹرز ،مونگ پھلی بیچنے والے ،
پشتون چائے ہوٹل والے ، رکشہ ، ٹیکسی ڈرائیورز، منی بسیں ، ڈرائیور کنڈیکٹر،
شربت فروش ، موچی اور غرض یہ ہے کہ غریب پختون ایسے بچے بھی ٹارگٹ کلنگ کا
نشانہ بنے ، جو ٹھیلوں پر سبزی ،فروٹ یا برگر ، سوپ کی چھوٹی دوکانوں پر
ٹیبل مین بن کر شام کو اپنے گھروں میں ، اپنے معصوم معصوم ہاتھوں سے ، دن
رات کی کمائی اپنے گھر میں والدین کو دے دیا کرتے تھے ، جس سے سفید پوشی کا
بھرم رہ جاتا اور گھر کی کفالت ہوجایا کرتی۔کوئی بھی سیاسی جماعت نہیں بتا
سکتی کہ ان بےگناہوں کے قتل عام میں غریب پختون کا کیا قصور تھا۔صرف سیاسی
پوائنٹ اسکورنگ کےلئے ، زیادہ سے زیادہ تعداد بتا کر خود کو مظلوم اور
دوسروں کو ظالم کہنے کی روایات نے انسانیت سے اعتماد ختم کردیا۔ عسکرےت
پسندوں سے مخصوص سیاست دانوں کیجانب سے مطالبات سامنے آئے کہ دہشت گردی(بے
امنی) کو روکنے کےلئے ان سے مذاکرات کئے جائیں ، مذاکرات کو تسلیم کرنا
ممکن نہیں تھا اسلئے انتخابات میں حصہ لینے کےلئے عسکریت پسندوں کے دلوں
میں اپنے لئے آل پارٹیز کانفرنس کاانعقاد کرکے ، نرم گوشہ پیدا کرنے کی
کوشش کی گئی۔ شمالی وزیر ستان ، جنوبی وزیرستان ، سوات ملاکنڈ ڈویژن، پشاور،
کوہاٹ ، کوئٹہ ،ڈیرہ اسمعیل خان کراچی ، جس طرف نظر دوڑائیں ، جتنا نقصان
پختونوں کا ہو ا ، اتنا کسی بھی قومیت کو نہیںپہنچا ، لیکن ایک پاکستانی کی
نظر سے دیکھیں تو مجموعی طور پر پاکستان کا یہ ناقابل تلافی نقصان ہے جیسے
اربوں ، کھربوں ڈالر دیکر بھی پورا نہیں کیا جاسکتا ۔پختونوں کو طالبان کے
ٹریڈ مارک سے نجات اُس وقت ملی جب شریف بردارن نے ، پنجابی طالبان کی
اصطلاح استعمال کی،۔اس کے بعد جاکر عوام کے دل و دماغ میں یہ بات آئی کہ
عسکرےت پسندوں کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ کوئی قومیت ہوتی ہے ، اُسکے
مخصوص اہداف ہوتے ہیں جنھیں اسے بہر صورت پورا لرنا مقصود ہوتا ہے ۔ طالبان
کے حوالے سے یہ امر کافی دلچسپ ہے کہ افغانستان کے حقیقی طالبان نے لفظ
طالبان کا ستعمال نہاےت محدود کرتے ہوئے اپنی تحریک کو اسلامی امارات آف
افغانستان کہنے کو ترجیح دینے لگے تھے ، لیکن طالبان کے نام کو ،دوسروں
کےلئے دہشت کے طور پر مسلسل پاکستانیوں نے استعمال کیا اور طالبان پاکستان
، کے بعد سوات طالبان اور پھر پنجابی طالبان کہنے اور کہلوائے جانے کا رواج
اس قدر حاوی ہوگیا کہ افغانستان کے طالبان اور پاکستان کے شدت پسندوں اور
غیر ملکی چیچک، آزربائیجان ،امریکی،برطانوی،بھارتی ،برمی و دیگر مسلم
عسکرےت پسندوں کےلئے بھی لفظ طالبان بڑی شد و مد سے استعمال کئے جانے لگا ،
جس وقت پنجابی طالبان کا شوروغوغا ہوا تو محمد عمر نامی ایک شخص شمالی وزیر
ستان سے صحافیوں کو فون پر ، خود کو پنجابی طالبان کا ترجمان کہہ کر متعارف
کراتے ہوئے، پنجابی لہجے میں اردو زبان میں مخاطب ہوا کرتا تھا ۔اس کے
مطابق تحریک طالبان سے منسلک پنجابی جنگجو ،پنجابی طالبان کے نیٹ ورک کا
حصہ ہیں۔اس کے بعد سے سرکاری عہدےدار بھی پنجابی طالبان کی اصطلاح استعمال
کرنے لگے ۔یہ اصطلاح اُس وقت مزید زدو عام ہوئی جب جنوبی وزیرستان کے
پولیٹیکل ایجنٹ شہاب علی شاہ نے کچھ سال قبل ، احمد زئی وزیر قبیلے کے
سرداروں کے بلائے جانے والے جرگے میں انہیں دہمکی دی تھی کہ وہ اپنے علاقوں
سے غیر ملکی جنگجوﺅں کو باہر نکال دیں ، اُس وقت اس نے خصوصی طور پر پنجابی
طالبان کا ذکر کیا تھا۔ اسی طرح ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کراچی میں امن
کی کنجی سیاسی جماعتوں کے پاس نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس قانون نافذ کرنے
والے اداروں کی طرح اختیارات نہیں ہیں ، کسی بھی سیاسی جماعت کی پاور
اسٹریٹ کی چھتری لیکر ،کوئی بھی جرائم پیشہ شخص اپنے مفادات کےلئے ہر جرم
کے بعدجب پکڑا جاتا ہے تو جیلوں میں سہولیات حاصل کرنے اور مقدمات میں
گواہان کو خوفزدہ اور شواہد کو ختم کرنے کےلئے جیل یونیورسٹی کے مانے ہوئے
، گرامی "پروفیسرز" صاحبان کی مدد سے چند ماہ میں قانونی کمزوریوں کا فائدہ
اٹھا کر ضمانت اور پھر اپنے مقدمات ختم کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔آج کل
کراچی میں بھتہ مافیا طالبان کا بڑا شہرہ ہے ۔ڈرگ مافیا ، لینڈ مافیا ،واٹر
مافیا سمیت تمام مافیاﺅں سے طالبان بھتہ مافیا کا طاقت کے زور پر کروڑوں
روپے بھتہ وصول کرنا ، فیشن بن چکا ہے۔ طالبان کا نام ، دہشت گردی کے علاوہ
بھتہ وصولی کےلئے بھی استعمال ہونے لگا ہے اور حسب روایت سیکورٹی ادارے ان
مافیاﺅں کو روکنے میں مکمل کامیاب نہیں ہیں کیونکہ ان جرائم پیشہ عناصر کا
نیٹ ورک ، سیکورٹی اداروں سے زیادہ مربوط ، منظم اور باخبر ہوتا ہے۔جرم ،جیسا
بھی ہو ، کوئی بھی اس کی سر پرستی کرتا ہو ،قانون نافذ کرنے والے اداروں کو
، ملکی مفاد کے خاطر امن کے قیام اور رٹ قائم کرنے کےلئے اپنی بھرپور طاقت
کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔مذاکرات سیاست دانوں یا انسانوں سے ہوتے ہیں ،دہشت
گردوں یا حیوانوں سے نہیں ۔سیکورٹی اداروں سے گذارش اور درد مندانہ اپیل ہے
کہ بیگناہ گاروں کےساتھ گناہ گاروں جیسا سلوک نہ ہو۔ہم دلی دعا گو ہیں کہ
سپریم کورٹ کیجانب سے دئے گئے پندرہ دن میں امن قائم کرنے کے الٹی میٹم میں
مثبت نتائج کراچی کے لئے نکل آئیں ۔ہم دعا کرتے ہیں آپ دوا کریں، اللہ بہتر
کرے گا۔ |