ملائم سنگھ اور مسلمانوں کا ساتھ ضروری

فتح پور(یوپی) سے ہمارے ایک دوست نے فون پر دوران گفتگو ہم سے سوال کیا کہ ’’کیا ملائم سنگھ 2014ء کے عام انتخابات کے بعد بی جے پی کا ساتھ دینے این ڈی اے میں شامل ہوجائیں گے؟ ہم نے بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا ’’اگر یو پی کے مسلمان چاہیں گے تو وہ این ڈی اے میں جابھی سکتے ہیں‘‘۔ ہمارے دوست نے ناراض ہوکر لائن کاٹ دی۔ ہم نے اطمینان کی سانس یوں لی کہ ہم بھی ملائم سنگھ، اکھلیش اور سماج وادی پارٹی کی ہجوسنتے سنتے بیزار ہوگئے تھے۔

تقریباً ایک سال قبل یو پی کے مسلمانوں نے جس سیاسی بیداری کا ثبوت دیا تھا اس پر سب ہی نے یو پی کے مسلمان رائے دہندگان کی تعریف کی تھی لیکن سنگھ پریوار، کانگریس اور بی ایس پی کے مشترکہ پروپگنڈے نے یہ تاثر دے دیا ہے کہ اب یو پی کا مسلمان ایس پی، ملائم سنگھ اور اکھلیش سے بددل ہی نہیں بیزار بھی ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے ایسی باتیں سننے میں آتی ہیں جن کا علم ان مسلمانوں کو بھی نہیں ہوتا ہے جن کے تعلق سے یہ بات کہی جارہی ہے مثلاً ’’گجرات کے مسلمانوں نے مودی کو معاف کردیا ہے اور مودی کو ووٹ دے رہے ہیں‘‘۔ ’’یو پی کا مسلمان ایس پی سے بیزار ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ میڈیا کی مدد سے چھوٹی سی اقلیت کے فیصلے کو اکثریتی فیصلہ بڑی آسانی سے بتادیا جاتا ہے۔ مسلمان عام طور پر تردید، تحقیق و تفتیش کے چکر میں نہیں پڑکر ایک خاموشی میں ہر بلاٹالنا چاہتا ہے۔

وہ چھوٹی سی اقلیتی جس کی شکایت کی بناء پر اس بات کا زبردست پروپگنڈہ کیا جارہا ہے کہ ملائم سنگھ نے وہ تمام وعدے بھلادئیے ہیں جو مسلمانوں کے ووٹ لینے کے لئے مسلمانوں سے انہوں نے کئے تھے اور فسادات کرواکر سنگھ پریوار کے ایجنڈے کی تکمیل کررہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلمانوں سے دشمنی ملائم سنگھ نہیں بلکہ وہ مفاد پرست افراد اور عناصر کررہے ہیں جن کی ملائم سنگھ نے فرمائش پوری نہیں کی ہیں (مثلاً جامع مسجد دہلی کے شاہی امام احمد بخاری) لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ملائم سنگھ یا ان کے بیٹے اکھلیش کی حکومت نے غلطیاں نہیں کی ہیں۔ اکھلیش اور ملائم سنگھ نے بے شک کئی غلطیاں کی ہیں اگر ان غلطیوں سے گریز کیا جاتا تو یہ صورت حال نہ ہوتی ۔

ملائم سنگھ کی پہلی اور سب سے بڑی غلطی یہ ہے راجہ بھیا جیسے بدنام زمانہ قانون شکن اور فرقہ پرست کی کابینہ میں شمولیت ہے۔ راجہ بھیا سے اگر مایاوتی نے ضرورت سے زیادہ سختی کی تھی تو ملائم سنگھ نے راجہ بھیا کی اوقات سے بڑھ کر پذیرائی کی ہے۔ مسلمانوں کی مدد و تعاون سے جو جماعت اقتدار میں آئی ہو اس کو یہ قطعی ٔ زیب نہیں دیتا ہے کہ وہ ایک مانے ہوئے فرقہ پرست بلکہ مسلم دشمن بی جے پی کے دوست کو کابینہ میں جگہ دے!

راجہ بھیا( جن کے والد بھی فرقہ پرست جماعتوں سے وابستہ رہے ہیں) کے تعلق سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وہ ملائم سنگھ سے زیادہ سنگھ پریوار (خاص طور پر بی جے پی) کے ہی خاص ہمدرد اور بہی خواہ ہوں۔ کابینہ میں شمولیت کا چارانگل کر بھی وہ ملائم سنگھ کے جال میں نہیں آئے اور بہ حیثیت وزیر سنگھ پریوار کے ایجنڈے پر عمل کرتے رہے خاص طور پر یو پی میں مختلف مقامات پر پولیس کی جانبداری اور بے عملی میں راجہ بھیا کا خفیہ ہاتھ کار فرما رہا ہویوں بھی یو پی کی پولیس کی فرقہ پرستی کو فوراً ختم کرنا اکھلیش جیسے کم عمر، ناتجربہ کار اور کمزور وزیر اعلیٰ کے لئے آسان نہ تھا اور اگر راجہ بھیا جیسا گھاگ سیاستداں، عیار انسان اور شار سازشی پولیس کی پشت پر ہوتو پولیس حکومت کے احکامات کو غیر موثر آسانی سے بناسکتی ہے نیز فسادات کو روکنے میں ناکام رہنے والی پولیس کی پشت پر بی جے پی اور بی ایس پی کی دیوار بھی ہوسکتی ہے بلکہ پولیس میں کانگریس کے ہمدرد بھی ہوسکتے ہیں سب ہی نے اکھلیش کی کمزوریوں کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ کاش! اکھلیش پولیس کی نااہلی اور بے عملی کی سزا دینے کے لئے آہنی ہاتھ استعمال کرسکتے تو وہ آج مسلمانوں کے معتوب نہ ہوتے۔

راجہ بھیا کو وزیر بنانے پولیس کی بے عملی اور نااہلی پر نرم رویہ اختیار کرنے کی غلطیوں کے بعد راجہ بھیا کو پولیس آفیسر ضیاء الحق کے قتل کے الزام میں گرفتار نہیں کرکے تیسری بھاری غلطی کررہی ہے۔ اکھلیش کے لئے اس وقت سب سے اہم و ضروری کام راجہ بھیا کی گرفتاری ہے۔ راجہ بھیا کی گرفتاری اس تاثر و تصور کو ختم کرسکتی ہے کہ ملائم سنگھ یادو کلیان سنگھ کے بعد راجہ بھیا جیسے مسلمانوں کے دشمن کے دوست ہیں۔

مسلمان کسی بھی صورت میں ملائم سنگھ کی سماج وادی پارٹی کی بی جے پی سے دوستی کو قبول نہیں کرسکتے ہیں حال ہی میں ملائم سنگھ نے کہا تھا کہ اگر سماج وادی پارٹی کی شرائط پر یعنی مسلمانوں سے بہتر رویہ اور رام مندر، دفعہ 370 اور یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے مطالبات اور بی جے پی ایجنڈے سے دستبرداری وغیرہ کو قبول کرلیتی ہے تو بی جے پی کا ساتھ دیا جاسکتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بی جے پی سے دوستی کی بات کسی بھی ریاست کا مسلمان پسند نہیں کرسکتا ہے ۔ جے ڈی یو، تلگودیشم، بی ایس پی، ترنمول کانگریس اور کئی علاقائی پارٹیوں کو مسلمان بی جے پی سے دوستی کی خاصی سخت سزا دے چکے ہیں۔ ان باتوں کو ملائم سنگھ بھولے نہیں ہوں گے۔

مسلمانوں کے لئے ریزرویشن کے وعدوں کی حقیقت مسلمان خود سمجھتے ہیں کہ دستور میں اس تعلق سے رکاوٹیں موجود ہیں ۔ دستور سازی کے وقت مسلم قائدین (بہ شمول مولانا ابوالکلام آزاد، آصف علی اور رفیع احمد قدوائی وغیرہ) کی بے جواز خاموشی، بے عملی و بے حسی سے ہندوستانی مسلمانوں کو پہنچے نقصانات بھی راز نہیں رہے ہیں اس لئے %15 نہ سہی %5ریزرویشن کا مسئلہ مسلمانوں کی شکایت و ناراضگی کا سبب نہیں ہوگا لیکن ایک دوسرا اہم مسئلہ مسلمانوں کی شکایات کا سبب بن چکا ہے وہ ہے محض دہشت گردی کے شبہ میں گرفتار کئے گئے مسلمان خاص طور پر نوجوان اور ان میں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ یا اعلیٰ و پیشہ ورانہ نصابوں کے طالب علم ان میں بھی اعظم گڑھ کے نوجوان اور طالب علم جن کی تعداد کئی سونہ سہی چند سو ضرور ہے ان قید و بند اور جھوٹے فرضی مقدمات اور الزامات اور تھرڈ ڈگری کی اذیت ناک تفتیش کے مرحلوں اور اذیتوں سے نجات دلانے کے معاملے میں یو پی کی حکومت نہ صرف سست روی بلکہ بے عملی، تساہل اور شائد لاپرواہی و عدم دلچسپی کا شکار ہے۔ بے قصور اور معصوم نوجوانوں کی رہائی کا بندوبست کرنے میں اکھلیش کی حکومت کو اسی قدر دلچسپی، سرگرمی اور تندہی سے کام لینا ہوگا جو کہ اس نے راجہ بھیا کو سنگین الزامات سے بچانے کے لئے دکھائی تھی۔ ملائم سنگھ کے حق میں بہتر یہی ہے کہ وہ فوراً اُس مسئلہ پر خصوصی توجہ دیں اور مسلمانوں کی ناراضگی دور کریں۔

سماج وادی پارٹی کے انتخابی وعدوں کی فہرست طویل ہے۔ ایک سال گذر چکا ہے وعدے تو کم ہی پورے ہوئے ہیں ہاں کئی شکایات نے جنم لیا ہے ۔ سماج وادی پارٹی کو اپنی ترجیحات کا انتخاب کرکے مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر انداز میں مطمئن کرکے اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنا ہے۔ مسلمان کی بادشاہ گری مثبت انداز سے زیادہ منفی انداز میں کارگر ثابت ہوتی رہی ہے۔

مسلمانوں کو یہ یادرکھنا چاہئے کہ سارے وعدے پورے کرنا سماج وادی کی بس کی بات نہیں ہے۔ ملائم سنگھ کے پاس نہ جادو کی چھڑی ہے اور نہ ہی کبھی ہتھیلی پر سرسوں جمائی جاسکتی ہے۔

مسلمانوں کو حکومت پر تنقید و تبصرے سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے۔ مسلمانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مسلمانوں کی جذباتیت سے فائدہ اٹھاکر ان کو غلط راہ پر ڈالنے والے بہت ہیں۔

یہ عجیب بات ہے کہ مسلمان اگر شکایت کرتے ہیں تو صرف ملائم سنگھ اور اکھلیش کی جبکہ یو پی کی کابینہ میں دس یا گیارہ مسلم وزیر ہیں۔ اسمبلی میں 70سے زیادہ مسلم ارکان ہیں جن کی بھاری اکثریت سما ج وادی پارٹی سے تعلق رکھتی ہے۔ یو پی کے جذباتی احباب سے ہم نے اکثر یہ کہتے سنا ہے کہ ’’یہ ملائم کا کون سا چہرہ ہے؟ یہ اکھلیش کا کون سا چہرہ ہے؟ ہم تو ان کے ان چہروں سے واقف نہیں ہیں۔ ہمارا ان کہ فہموں بلکہ نا عاقبت اندیشوں سے یہی سوال ہوتا ہے کہ کیا انہوں نے یو پی کے مسلمان وزرأ، ارکان پارلیمان، اسمبلی و کونسل کے چہرے بھی دیکھے ہیں یہ لوگ وزیر ، رکن پارلیمان کونسل و اسمبلی اس وجہ سے ہیں کہ یہ مسلمان کے نمائندے کی حیثیت سے منتخب ہوئے ان کا پہلا کام مسلمانوں کی نمائندگی کرنانہ کہ اس روش یا روایت پر عمل کرنا ہے جو مولانا آزاد سے لے کر غلام نبی آزاد تک مسلم قائدین نے مسلمانوں سے دو ررہ کر اختیار کی ہے۔ ان کے مسائل کا حل کرنا ہے اگر حکومت ان کی باتوں پر توجہ نہیں دے رہی ہے تو ان کو مزید وقت ضائع کئے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کی دھمکی دینا چاہئے (لیکن آج کا مسلمان عہدہ کی قربانی کہاں دیتا ہے؟) جب مسلمان ہی مسلمان کی خاطر قربانی نہیں دے سکتا ہے تو پھر ملائم اور اکھلیش سے شکوے کرنے کا جواز ہی نہیں ہے۔ مسلمان تو اعظم خاں پر تک دباؤ ڈالنے یا اعتراض کی ہمت نہیں کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے مسائل کی عدم یکسوئی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اگر صرف اعظم جان مستعفی ہوجائیں تو ملائم سنگھ کے پیروں تلے زمین نکل سکتی ہے اور اکھلیش کو دن میں تارے نظر آسکتے ہیں۔

اگر یو پی کا مسلمان ملائم سنگھ سے ناراض ہوں گے تو جو مسائل حل ہوسکتے ہیں وہ بھی نہیں ہوں گے!

کانگریس ، لوک دل، بی ایس پی سب کو یو پی کا مسلمان آزما چکا ہے۔ سماج وادی پارٹی ملائم سنگھ اچھے نہ سہی و کم تر برائی ضروری ہیں ۔ دباؤ ڈال کر احتجاج کرکے مسلم نمائندوں کو قربانی دینے پر مجبور کرکے مسلمان بہت کچھ کرسکتے ہیں۔

ملائم سنگھ کو این ڈی اے میں جانے سے صرف مسلمان روک سکتا ہے اور ملائم کو برا بھلا بول کر مسلمان ہی ملائم کو بی جے پی کی طرف ڈھکیل سکتے ہیں۔ فراست اور تدبر سے کام لینا کا میابی کی کلید ہے۔ ملائم کو چھوڑ کر مایاوتی کی طرف رخ کرنے والے مسلمانوں کا مایاوتی بدترین حشر کرے گی۔ اس لئے یاد رکھنا ضروری ہے کہ ملائم اور مسلمان ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 184864 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.