باتیں! گر قبول افتد

اللہ وحدہ‘ لا شریک ہے! تمام جہانوں کا مالک ، سب کا رکھوالا، سب کا پالنے والا۔ مگر افراد بساطِ دنیا پر سرداری اور سرفرازی کے لئے اقتدار و کرسی کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں مگر اس بساطِ عالم میں سرداری کے خواہشمند وں کو تین چیزیں بنیاد بنانی چاہیئے۔ ایک حکومت، دوسرے دولت اور تیسرے علم و حکمت، مگر ہمارے ملک میں حکومت ملتی ہے تو دولت یعنی ملکی خزانے کی بندر بانٹ شروع کر دی جاتی ہے ۔ اور تیسرا نقطے کا تو سب کو علم ہی ہے کہ ان چیزوں کی ہماری سیاست میں ہمیشہ سے کمی رہی ہے ۔ آئے دن ڈگریوں کا جعلی ثابت ہونا اس بات کا زندہ ثبوت ہے۔فی زمانہ ہم اپنی حالت پر نظر ڈالیں تو اپنے پاس حکومت، دولت اور علم واقعی کچھ بھی نہیں۔ حکومت پانچ سالوں میں ختم ہو جاتی ہے، اور دورانِ حکومت کمائی گئی دولت اس کے بعد خرچ ہونا شروع ہوتی ہے۔ علم و حکمت ہوتی تو یہ دونوں چیزیں قائم رکھی جا سکتی تھیں۔ کہنے کو ہم آزاد ملک کے باسی ہیں مگر غیروں (امریکہ) کے اشاروں پر کام کاج چلتا ہے۔ ان سمیت پوری قوم انصاف سے دور، اتحاد سے بیگانہ نظر آتی ہے۔ اور پھر آپسی اختلافات و عداوت کا تو کیا ہی کہنا ان معاملوں پر تو ہم لوگ اوّل نمبر پر ہیں۔ یہاں جہالت، غربت و افلاس پسماندگی اور درد کی بھوک شدید نظر آتی ہے ۔ اور جہاں دولت ہے تو اس کا تصرف دوسروں کے ہاتھوں میں ہے یعنی غیروں کے گھر میں جمع ہے۔ ہم اپنا نظام اسلام پر قائم کرتے ہیں اور بدحالی بھی ہمارے یہاں زیادہ ہے۔ ہر چیز پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کا تسلط قائم ہے۔ اب اگر تعلیم یعنی علم کی طرف دیکھا جائے تو محسوس یہی ہوگا کہ وہ بھی بہت محدود ہے گوکہ تعلیم کے حوالے سے بہت بلند و بانگ دعوے کئے جاتے رہے ہیں۔ مگر اس تعلیم پر قد غن بھی اپنے ہی لگاتے ہیں۔ اگر فیصدی حساب نکالا جائے تو یہ نہایت حقیر سطح پر ٹھہری ہوئی دکھائی پڑتی ہے۔

ملک میں ایک بار پھر انتخابات ہونے کو ہے اور نگرانوں کا دور ملک میں جاری ہے، چھیاسی سالہ فخرو بھائی شفاف الیکشن کرانے پر بضد تو ہیں مگر کیا ان کے ساتھیوں نے بھی شفاف الیکشن کا نعرہ بلند کیا ہے۔ ابھی ابھی تو کمیٹی کے ممبران کے فیصلے پر بغیر سینسز کے کراچی کے کئی حلقوں کی حد بندیاں کر دی گئی ہے جس پر کئی پارٹیوں نے اپنا احتجاج بلند کیا ہے اور بظاہر یہ احتجاج ٹھیک بھی ہے ، کسی کے کہنے پر حد بندی کرنا دوسری جماعتوں کی حق تلفی اور عوام میں بے چینی پیدا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ۔ لہٰذا موصوف کو چاہیئے جو کچھ جہاں اور جیسا تھا اسی پر الیکشن کا انعقاد کریں تاکہ شفاف اور فیئر الیکشن کا تاثر جو آپ کی طرف سے دیا جا رہا ہے اس پر قوم کا اعتماد بحال رہے۔

ہمارے یہاں اس قدر سیاسی جماعتیں ہیں کہ سیاسی محاظ کے راستے خود بخود بنتے چلے جاتے ہیں اور ایسے میں جب ملک میں شدید قسم کی مہنگائی، بیروزگاری، دہشت گردی، اور نہ جانے کیا کچھ؟ ان سب حالات کو لیکر عوام اپنے تئیں بہت زیادہ فکر مند ہیں اور ملک میں ایسے لوگوں کی حکمرانی دیکھنا چاہتے ہیں جو اقتدار میں آکر تمام مسئلے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جو عوام کی سُکھ دُکھ کا خیال رکھ سکتے ہوں۔ وگرنہ تو یہ شعر ہی ترجمانی کے لئے کافی ہے۔
پوچھتے کیا ہو اس حکومت سے
کس قدر بور ہوگئے ہیں لوگ
لوڈ شیڈنگ، امن و اماں و گرانی سے
زندہ در گور ہوگئے ہیں لوگ

مہنگائی ایسا ناسور بن چکا ہے کہ ہر طبقہ کے عوام کی زبان پر ایک ہی بات ہے مہنگائی نے مار ڈالا۔ ایک دور تھا کہ جب حکومتی سطح پر مہنگائی بڑھائی جاتی تھی تو اس کے لیے باضابطہ منصوبہ تیار کیا جاتا تھا۔ برسرِ اقتدار پارٹی خوفزدہ رہتی تھی کہ اگر ایسی ویسی حرکت ہوگئی تو عوام مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آئیں گے اور حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے یوں بے حد احتیاط سے مہنگائی کی شرح میں اضافے کا سوچا جاتا تھا۔ آج عالم یہ ہے کہ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے ، نہ کوئی بولنے والا ہے اور ن اس سلسلے میں کسی کو دلچسپی ہے۔ حالتِ زار یہ ہے کہ ہر طبقے کے لوگوں میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔ اس بے لگام مہنگائی کے زمانے میں لوگوں کے لئے گھر کا خرچ چلانا مشکل سے مشکل تر ہو چکا ہے۔ کھانے کی اشیاءسے لیکر پہننے اوڑھے کی تمام چیزیں غریب اور متوسط طبقے کی دسترس سے باہر ہوگئی ہے۔ انتخابات کے موقعے پر تمام پارٹیاں وعدوں کی پٹاریاں کھول دیتی ہیں مگر اقتدار میں پہنچتے ہی تمام وعدے فراموش کر دیے جاتے ہیں۔ مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے کوئی بھی پارٹی تیار نہیں ہے۔ معمولی تنخواہ پانے والا شخص اپنے اہلِ خانہ کا کس طرح پیٹ پال سکتا ہے جبکہ اسی تنخواہ میں بچوں کو پڑھانا لکھانا بھی ہوتا ہے۔ یوں بچوں کا مستقبل سنوارنا ان کے لئے مشکل ہو چکا ہے۔ اس وقت جس طریقے سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے اسی تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ بھی حکومت کی ذمہ داری تھی ، دوسری صورت میں مہنگائی میں کمی ضروری تھی مگر اس طرف کسی نے توجہ نہیں دیا۔حکومت اس بارے میں خوب جانتی ہے مگر تجاہل عارفانہ سے کام لیا جاتا ہے اور لوگ افلاس کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں۔

ہمارا ملک ایک جمہوری ملک کہلاتا ہے ۔ مگر یہاں کے حکمران جمہوری اقدار پر پورے نہیں اترتے۔ جبکہ یہاں کے عوام کویہاں کی مٹی سے اس سر زمین پر سانس لینے والے ہر پاکستانی کو محبت ہے اور اپنے اس دعوے میں کروڑوں پاکستانی کوہِ استقامت کے مانند ہیں۔ لیکن ملک کا ایک طبقہ حب الوطنی کا حسین لبادہ اوڑھ کر مادرِ وطن کو زہر ہلاہل پلانے میں مصروف ہے۔ یہاں کے سپوتوں نے اپنے خونِ جگر سے سر زمینِ وطن کو سینچ کر حیاتِ جاوداں بخشی ہیںمگر امن و امان ، مہنگائی، بیروزگاری اور کرپشن کا بیج اس پاک سر زمین میں بو کر حکمرانوں نے اپنے آپ کو تاراج کر لیا ہے۔ عوام کو صحیح اور غلط کی تمیز ہو چکی ہے اور وہ اب تبدیلی کے خواہاں ہیں ۔ دیکھئے الیکشن میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

محبتوں کے ملک کی فضاﺅں میں کبھی نغموں کی سرمدی گونج تھی۔ صوفیوں سنتوں، درویشوں، مصوروں، سنگ تراشوں اور شاعروں نے انسان دوستی، امن و آشتی کے چراغ روشن کئے تھے، وحدتِ آدمیت کا نور بکھیرا تھا، سب لوگ ہم قدم و ہم آواز رہتے تھے۔ لیکن یہ آپسی پیار کہیں گم ہوگیا ہے ، رفاقتیں گونگی ہوگئیں ہیں، سرِ شام چوراہوں پر آتش گیر دھماکے ہونے لگے ہیں، زخمیوں کی کراہوں سے راستے بھر گئے ہیں، چشم زون میں بچے ، بوڑھے، جوان موت کے منھ میں جا رہے ہیں، دل سکھ نگر ، دلگیر نگر میں تبدیل ہو رہا ہے مگر پھر بھی کہیں سے امن و اماں اور بھائی چارہ کا پیام نہیں آ رہا ہے۔ یہ عبرت کا تازیانہ نہیں تو اور کیا ہے۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368061 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.