کیا چیف جسٹس جمہوری دور کے احتساب کے لیے عدالتی کمیشن قائم کریں گے ؟

تحریر : محمد اسلم لودھی

بظاہر پانچ سالہ جمہوری دور اختتام کو پہنچا لیکن کون نہیں جانتا کہ اس بدترین دور میں معیشت اور زندگی کے ہر شعبے میں پاکستان پچاس سال پیچھے جاچکا ہے اس کے باوجود دنیاکے کرپٹ ترین سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو گارڈ آف آنر دے کر شان و شوکت سے جس طرح رخصت کیاگیا اسے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری سے کونسی بات مخفی ہے پھر بھی ان سے یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کی سربراہی میں ایک ایسا عدالتی کمیشن قائم کیا جائے جو وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کی جانب سے پانچ سالہ دور میں تمام جاری منصوبوں کے تھرڈ پارٹی آڈٹ کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کے سیاسی جلسوں اور اخبارات میں سیاسی قائدین کی تصویروں کے ساتھ شائع ہونے والے اربوں روپے کے اشتہارت کے حسابات چیک کرکے نہ صرف وصولی کرے بلکہ ذمہ داران کو کسی بھی انتظامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیا جائے ۔ یہ عرض کرتا چلوں کہ 1988میں مجھے کمالیہ پیپر ملز کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا موقع ملا جس کا سنگ بنیاد جنرل محمد ضیاءالحق رکھنے آرہے تھے جس سرکاری محکمے کی جانب سے افتتاحی تقریب کا انتظام تھا اس وقت چار کروڑ روپے صرف افتتاح پر ہی خرچ کردیئے گئے جبکہ کمالیہ پیپر ملز کا منصوبہ ضیاءالحق کے ساتھ ہی دفن ہوگیا یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ صدر ، وزیر اعظم ، وزیر اعلی اور گورنر جب کہیں افتتاحی تقریبات میں جاتے ہیں آج کے دور میں پندرہ سے بیس کروڑ روپے سے کم کیا خرچ ہوتے ہوں گے ذرا حساب لگا یا کہ آصف علی زرداری ، سید یوسف رضاگیلانی ، راجہ پرویز اشرف ، ، وزیر اعلی سندھ ، بلوچستان ، خیبر پختونخواہ اور پنجاب نے پانچ سالوں میں اپنے عہدوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کتنے جلسوں اور افتتاحی تقریبات میں شرکت کرچکے ہیں اور ان کی تقریریں کتنے ارب میں پاکستانی قوم کو پڑ چکی ہوں گی۔ پنجاب یونیورسٹی میں لیپ ٹاپ کی تقسیم کی تقریب پر چار کروڑ روپے اخراجات کی خبر تو اخبارات میں بھی شائع ہوچکی ہے ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اتنی رقم کا منصوبہ نہیں ہوتا جتنا انتظامی اخراجات پر خرچ کرنے کی یہاں روایت چلی آرہی ہے ۔بے نظیر بھٹو کی چار برسیوں کو بھی اس میں شامل کرلیں تو حساب کہاں پہنچتا ہے ۔ سرخ قالین بچھے ہوئے ، پچیس ہزار فینسی کرسیاں سامنے رکھی ہوئی تو بہت اچھی لگتی ہیں فائیو سٹار ہوٹلوں کے بوفے نما کھانے تو سب کو بہاتے ہیں لیکن آج تک کسی آڈیٹر نے نہیں پوچھا کہ ایسی تقریبات ، سیاسی جلسوں ، اور سیاسی قائدین کی برسیوں پر سرکاری خزانے سے کتنے خرچ ہوئے ہیں اور یہ رقم کہاں سے آئی ہوگی ۔مال مفت دل بے رحم والی بات تو سنی تھی لیکن اقتدار کے آخری دنوں میں جس طرح قومی خزانے کو بیدردی سے لوٹا گیا ہے اس کی مثال گزشتہ 60 سالوں میں نہیں ملتی ۔ایک خبر کے مطابق آخری دو تین ہفتوں میں 500 ارب روپے پیپلز پارٹی کے چہیتوں میں بانٹ دیئے گئے وزیر اعظم نے نہ صرف خود بلکہ سپیکر قومی اسمبلی اور تمام اراکین اسمبلی کے لیے تاحیات اور لامحدود مالی مراعات ، سیکورٹی انتظامات کا اعلان کرکے غربت کی دلدل میں اتری ہوئی پاکستانی قوم کو ذبح کرکے رکھ دیا ہے ۔ وزیر اعلی سندھ سمیت تمام اراکین اسمبلی کے لیے تاحیات مالی مراعات ، علاج معالجے اور سیکورٹی کی فراہمی پر اربوں روپے کی منظور ی دے دی گئی ہے ۔یہ بھی کہاجاتا ہے کہ راجہ پرویز نے وزیر اعظم کی حیثیت سے 20 کروڑ روپے روزانہ مال مفت دل بے رحم کی طرح اپنوں میں بانٹے ۔غریب دشمن حکومت کی داستان ظلم یہی ختم نہیں ہوتی اس نے 8 ہزار ارب کا قرض لے کر عالمی ریکارڈ بھی قائم کردیا ہے۔ آمدنی 25 کھرب جبکہ حکومتی اخراجات 40 کھر ب سے بھی تجاوز کرچکے ہیں اور بجٹ خسارہ 1369 کھرب تک پہنچ گیا ۔چیرمین نیب کے مطابق روزانہ دس سے بارہ ارب کی کرپشن ہورہی ہے ۔ صرف کرایے کے بجلی گھروں کے معاہدوں میں 500 ملین ڈالر کی کرپشن ہوئی جس کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے لیکن راجہ پرویز سمیت تمام طاقتور مجرم ہر قسم کی گرفت سے اب بھی آزاد ہیں ۔این آئی سی ایل میں 8 ارب، سٹیل ملز میں 20 ارب ، اوگرا میں 80 ارب کرپشن ، حج اسکینڈل ، ایل این جی اور کے ایس سی بھی لوٹ مار میں کسی سے پیچھے نہیں رہے ۔پیپلز پارٹی کی حکومت میں صرف مالی کرپشن ہی نہیں ہوئی بلکہ پی آئی اے ، سٹیل ملز ، ریلوے ، نیشنل انشورنس جیسے منافع محکمے بھی من پسند افراد کی بھاری تنخواہوں پر بھرتی کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں سیاسی بھرتیوں نے سرکاری اور نجی اداروں کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے ۔ڈاکٹر حفیظ نے جاتے جاتے سٹیٹ بنک میں سو سے زیادہ افراد کو بھاری تنخواہوں پر ملازم کروا دیا دیگر بنکوں اور سرکاری اداروں میںہونے والی سیاسی بھرتیوں کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے ۔اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا کہ ٹیکسوں میں چھوٹ ، کالے دہن کی حوصلہ افزائی کرکے قومی خزانے کو صرف ایک سال میں 3300 ارب کانقصان پہنچایا ایف بی آر میں سیلز ٹیکس 190 ارب جمع ہوا لیکن سیاسی بنیادوں پر 600 ارب کے ریفنڈ کروا لیے گئے ۔ وزیر اعظم نے عہدہ چھوڑنے سے پہلے کھربوں روپے مالیت کے درجنوں پلاٹ جیالوں اور من پسند سرکاری افسروں میں بانٹ دیئے ۔ دیگر صوبائی وزرائے اعلی بھی من پسند افراد کو نوازنے میں پیچھے نہیں رہے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس پانچ سالہ جمہوری دور میں جس بیدردی سے قومی خزانے اور اداروں کو لٹاگیا ہے اس کابے رحم احتساب نہ کرنا پاکستان سے زیادتی ہوگی ۔اس لمحے جہاں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری الیکشن کو منصفانہ بنانے اور کرپٹ افراد سے محفوظ بنانے کی جدوجہد کررہے ہیں وہاں آخری دنوں میں بطور خاص حکمرانوں کی جانب سے خزانے کی لوٹ مار اور تاحیات مراعات کی بندر بانٹ کا از خود نوٹس لے کر ایسا عدالتی کمیشن قائم کریں جو سیاسی اور انتظامی لیٹروں سے ہڑپ کیا جانے والے کھربوں روپے ، تاحیات ، مالی مراعات ، قیمتی پلاٹس ، واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کروائے ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ڈر ہے کہ یہ لوگ قومی خزانے سے لٹا ہوا پیسہ استعمال کرکے پھر حکومتی ایوانوں میں پہنچ کر رہی سہی کسر نکال دیں گے اور کرپشن سے پاک ملک بنانے کا عزم پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے گا ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 115110 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.