بابری مسجد فیصلہ: ایک کمزور
سیاسی فیصلہ جس نے مسلمانوں کو بیوقوف بنایا
آزادی کے 65برسوں کی تاریخ میں کبھی کوئی فیصلہ مسلمانوں کے نام نہیں ہوا—مشرف
عالم ذوقی
”یہ زمین کا ایک چھوٹاساٹکڑا ہے۔ جس پر چلنے سے فرشتے بھی ڈرتے ہیں۔ زمین
میں چاروں طرف بارودی سرنگیں بچھی ہیں۔ ہم سے کہاگیا ہے کہ اسے صاف کیا
جائے۔ کچھ سمجھدار لوگوں نے صلاح دی ہے کہ اسے صاف کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
لیکن یہ خطرہ اٹھانا ہوگا۔“
تاریخی فیصلہ سنانے والے جج سبغت اللہ خاں کے شروعاتی بیان کا حصہ۔
تاریخی فیصلہ آچکا ہے۔ نگاہیں ٹی وی اسکرین پر جمی ہوئی ہیں۔
زمین کی تقسیم تو ہوگی لیکن رام لللہ وہیں رہیں گے۔ 8189صفحات پر مشتمل
رپورٹ میں تمام حقائق سامنے رکھنے کے بعد یہ فیصلہ سنایاگیا کہ وہ جگہ وقف
بورڈ کی نہیں ہندوﺅں کی ہے— اور درمیانی گنبد سے نیچے رکھی گئی مورتیاں اسی
جگہ سے ہٹائی نہیں جائیں گی—عدلیہ نے وقف بورڈ کے مالکانہ حق کے دعویٰ کو
خارج کردیا۔ متنازعہ زمین ہندومسلم اور اکھاڑے میں برابر تقسیم کی جائے گی۔
اس طرح دوتہائی حصوں پر ہندوں کا حق ہوگا۔ زمین کا ایک تہائی حصہ مسلمانوں
کو ملے گا۔ رام لللہ کی مورتیوں والا حصہ ہندوﺅں کو دیا جائے گا۔ رام
چبوترہ ،بھنڈار اورسیتا رسوئی پر اکھاڑے کاحق ہوگا۔
میں گہرے سناٹے میں رہوں۔ اس سناٹے کا کوئی انت نہیں۔ کیا عقیدے کو بنیاد
بناکر جمہوریت کا مذاق اڑایاگیا ہے—؟ اوراس مذاق میں عدلیہ کے تین ستونوں
میں سے ایک ستون کے طور پر اقلیت کی آواز بھی شامل ہے— کیا سب کو برابر کا
حصہ دے کر خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے— لیکن خوش کون ہے ؟ اورہارا ہوا کون
ہے؟ پانچ سو سال سے جو متنازعہ زمین بابری مسجد کی شکل میں سامنے تھی، کورٹ
نے اس کے بارے میں ایک لفظ بھی کہنا گوارا نہیں کیا— یہ بھی نہیں کہ جو
مورتیاں1949ءمیں وہاں رکھی گئیں وہ وہاں کیسے آئیں—؟
اس کی دیکھ بھال کرنے والے، زمین کے کاغذات رکھنے والے لوگ تو پیڑھیوں سے
موجود رہے— اقلیت ہمیشہ حاشیے پر رہی ہے۔ فیصلہ سن کرمحسوس ہوا، جیسے کورٹ
کہہ رہا ہے کہ ہندو راشٹرمیں آپ کا سواگت ہے— دراصل یہی ہندستانی سماج کی
اصلیت ہے۔ جو لوگ کہہ رہے تھے کہ 1992میں بابری مسجد گرنے کے بعد سے معاملہ
ختم ہوگیا انہیں آج دیکھنا چاہئے کہ یہ اب کتنی بھیانک شکل اختیار کرچکی
ہے۔
دھوکہ.... میں آہستہ سے چلاتا ہوں....
دروازہ پر دستک ہوئی ہے۔ اجے سنکھ تھاپڑ کی موجودگی اس وقت مجھے گراں
گزررہی ہے—
وہ صوفے پر بیٹھ چکا ہے۔ چہرہ ہرطرح کے تاثر سے عاری....
لیکن میرے سوئے ہوئے لفظوں کو زبان مل گئی ہے—
’ کیا یہ سیاست ہے؟ ‘
’ ایک بے رحم سیاست ‘
’ اچھا یہ بتاﺅتھاپڑ۔ اگر یہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوتا تو کیا تم اسی
خاموشی سے قبول کرلیتے جس طرح میں نے کیا ہے....؟‘
تھاپڑ چپ ہے—
’ یہ ملک جیسے تمہارا ہے، ویسے پچیس کروڑ مسلمانوں کا بھی— ایک بڑے تاریخی
مقدمے کے فیصلے کے لیے تین لوگوں کو بیٹھا دیاجاتا ہے— ایک جج جو ماتھے پر
ٹیکا لگاتا ہے اور ریٹائر ہونے والا ہے۔ کیا تم اس سے امید کرتے ہو کہ وہ
انصاف کرتے ہوئے اپنے مذہب کو بھول جائے گا—؟ سونے پر سہاگا، تم اقلیت کے
ایک کمزور اور دبو آدمی کو بھی جج کی کرسی پر بیٹھا دیتے ہو کہ وہ پچیس
کروڑ مسلمانوں کے تحفظ کے بارے میں غور کرتے ہوئے سچ بھول جائے اورایک نکمے
فیصلے پر اپنی منظوری کی مہر لگا دے— تم وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو کہ ہائی
کورٹ کے بعد اگر سپریم کورٹ کی باری آتی ہے تو ہمیں انصاف مل جائے گا؟
تھاپڑ کی نظریں جھکی ہیں—
’ یہ صرف ایک فیصلہ نہیں تھا تھاپڑ— ہماری زندگیاں لگی تھیں داﺅپر— اٹھارہ
برسوں کے بعد آیا یہ فیصلہ اگرسیاست کی نذر نہ ہوتاتو جانتے ہو کیا ہوتا—
صرف یہ ایک فیصلہ آزادی کے بعد کے ہزاروں نکمے فیصلوں کے داغ دھو کر ہمیں
مین اسٹریم میں لے آتا—علوی کے باپ اپنے بیٹے کے درد کو بھول جاتے۔ مجھے
اسامہ کی گمشدگی میں بھی انصاف ملنے کی امید نظر آتی۔ گودھرہ سے مالیگاﺅں
اور بٹلہ ہاﺅس تک کی نا انصافیوں کو ایک موہوم سی امید کی کرن مل جاتی۔
باربار ہماری وفاداریوں کو چیلنج کرتے ہوتم— جبکہ ہماری وفاداریاں کھلی
کتاب کی طرح روشن ہیں۔ لیکن تھاپڑ اب تمہاری وفاداری کو اس تاریخی فیصلہ کی
آڑ میں ہم چیلنج کرنے آئے ہیں—جھوٹی ہیں تمہاری حکومتیں —مکار— ساری
حکومتوں کے چہرے ایک ہیں۔ ‘
میں ایک لمحے کے لیے ٹھہر تاہوں—’ آج ہم میں سے کوئی بھی اپنے بچوں کو
سنہری ماضی کی کہانیاں نہیں سناتا۔ پدرم سلطان بود.... یہ ایک واہیات حقیقت
تھی، جس کے پیچھے تباہ ہوتی ہوئی نسلوں کو دیکھا ہے ہم نے— آنکھیں کھلتے ہی
ہم اپنے بچوں کو حقیقت کی پتھریلی زمین پر چلنا سکھاتے ہیں— مگرہوتا کیا
ہے۔ آنکھیں کھلتے ہی اسامہ جیسے بچوں کو ایک بٹلہ ہاﺅس مل جاتا ہے—کہیں
دنگے ہوتے ہیں تو وہ ڈر جاتے ہیں۔ اسکول میں دوستوں کے درمیان بھی ڈرے ڈرے
ہوتے ہیں۔ ڈر کے یہ انجکشن ان کے جسم میں ہم بھی پیوستہ کرتے رہتے ہیں— اور
اس لیے کرتے ہیں کہ حکومت سے میڈیا تک باربار ہمیں ڈرارہی ہوتی ہے۔ ہم
اخباروں میں مسلسل خوف ودہشت کی کہانیاں سنتے رہتے ہیں۔چینلس پر دہشت گردوں
کی یلغار دیکھتے ہوئے سہمے رہتے ہیں۔ اوریہ سب مسلمان ہوتے ہیں— دہشت کی ہر
کارروائی کے پیچھے ایک مسلمان— ٹی وی دیکھتے ،اخبار پڑھتے ہوئے ہمیں اپنے
ہی مذہب اوراپنی قوم کے لوگوں سے نفرت ہونے لگتی ہے—پھر احساس ہوتا ہے کہ
ارے اس کے پیچھے تو تم تھے۔ یہ سب کچھ سوچی سمجھی کاررائیوں کاحصہ تھا— ہم
سکون کی سانس لیتے ہیں۔ پھر کوئی دوسری مسلم دہشت پسند کارروائی سامنے
آجاتی ہے— اور تم ہر بار کہیں نہ کہیں ان کارروائیوں سے ہمیں جوڑ دیتے ہو—
ایک عام مسلمان کو— جو صبح آفس جاتا ہے اور رات گھر آتا ہے— ایک عام سیدھا
سادا مسلمان جو تمہاری طرح اپنے وطن اپنے ملک سے اتنی ہی محبت کرتا ہے۔ اس
لیے وہ اپنے ملک میں اپنے لیے دیئے جانے والے انصاف کی امید بھی کرتا ہے—
مگر کیا ملتا ہے اسے انصاف کے بدلے —ہر بار ایک دھوکہ۔ ‘
’ ابھی سپریم کورٹ کا دروازہ کھلا ہے.... ‘ تھاپڑ کی کمزور آواز ابھری۔
’ سارے ملک میں مسلمان جشن منارہے ہیں۔ ٹی وی دیکھو۔ مٹھائیاں تقسیم جارہی
ہیں۔ جانتے ہو کیوں؟ کیونکہ دنگے نہیں ہوئے۔ شانتی رہی۔ 92نہیں دہرایاگیا—
یہ مٹھائیاں نہیں تقسیم جارہی ہیں دوست۔ تم سے ایک حقیقت بتائی جارہی ہے کہ
ہم ہرحال میں خوش ہیں۔ ہم دبے رہیں گے۔ ہمارے انصاف یہی رہیں گے۔ اور ہمارا
کام مسکرانا ہوگا۔ جشن منانا ہوگا۔ مٹھائیاں تقسیم کرنا ہوگا۔ بات کسی قوم
کی شکست اورفتح کی نہیں ہے۔ انصاف کے لیے حقائق ہوتے ہیں۔ دستاویز ہوتے
ہیں۔ ثبوت ہوتے ہیں۔ مذہب کا آدرش یا مکھوٹا نہیں ہوتا— لیکن آدرش کا ایک
مکھوٹا لگایاگیا —اورعدلیہ کی کرسی پر ایک بے زبان مسلم جج کو بیٹھا کر
تاریخ کا اتنا بڑا فیصلہ لے لیاگیا— فیصلہ لینے والے جج نہیں تھے ۔ دو الگ
الگ مذہب کے لوگ تھے۔ اگر فیصلہ یہی تھا تو اس کے لیے اٹھارہ سال انتظار
کرنے کی کیا ضرورت تھی—مذہب یا آدرش کی کسی بھی بوسیدہ کتاب سے یہ فیصلہ
برسوں پہلے بھی سنایا جاسکتا تھا۔‘
میں زور زور سے بول رہاتھا اور اب میرے منہ سے جھاگ نکلنے لگی تھی۔ تھاپڑ
غور سے میرے چہرے کے اتار چڑھاﺅ کاجائزہ لے رہاتھا۔ اس کی آنکھیں سوچ میںگم
تھیں—
’شاید تم ٹھیک کہتے ہو.... شاید پہلے میں بھی ایسا ہی سوچتا تھا۔ اورہزاروں
بار اس موضوع کو لے کر تم سے بات بھی ہوئی ہے۔ تم سے زیادہ میں ناراض ہوا
کرتاتھا۔ ملک کے اس کرپٹ سسٹم پر ۔مگر ایک بات میں بھی بھول رہا تھا اور تم
بھی....‘
میں نے تھاپڑ کی طرف دیکھا۔ اس نے اپنا بولنا جاری رکھا—
’ یہ آستھاﺅں کا دیش ہے— پھر انصاف میں ان آستھاﺅں کو تھوڑی سی جگہ کیوں
نہیں مل سکتی ارشد پاشا —؟ یہ فیصلہ آستھا بنام انصاف کے نام ہے۔ بہت کچھ
بدلا ہے۔ جو صورتحال 18 برس پہلے تھی وہ اب نہیں ہے— مگر آستھائیں موجود
ہیں۔ اور آستھائیں اس ملک کی شانتی بھنگ ہونے سے روکتی ہیں تو غلط کیا ہے
ارشد پاشا— اٹھارہ سال پہلے صرف مندر مسجد کا معاملہ تھا اور جوش سے بھرے
دیوانے تھے— لیکن ان اٹھارہ برسوں میں دنیا کے ساتھ اپنا ملک بھی بدلا ہے۔
انڈیا شائننگ بھلے بھگواپارٹی کا ایک باسی نعرہ بن کررہ گیا ہو، جسے
اچھالنے کے باوجود وہ اپنی قسمت نہیں چمکا سکے— لیکن انڈیا شائن تو کررہا
ہے۔ اورایک بڑی طاقت، ایک بڑی حقیقت تو بن چکا ہے— اٹھارہ برس بعد خوشحالی
کی ریس میں دوڑتے ہوئے نوجوان ہیں— جو جانتے ہیں مسجد مندر سے روٹی نہیں
ملنے والی— کیریئر نہیں بننے والا۔ اس لیے اس بار فیصلے کو لے کر میڈیا کے
ہنگامے کے باوجود عام آدمی خاموش رہا— اورسب سے بڑی بات کہ یہ فیصلہ کوئی
آخری فیصلہ نہیں ہے—‘
مجھے احساس ہوا ،تھاپڑ، پہلی بار، مجھ سے نگاہیں بچانے کی کوشش کررہا ہے—
’ تو یہ فیصلہ کہاں ہے تھاپڑ؟ سمجھو تہ ہے نا— آستھا کے نام پر ایک سمجھوتا
کیاگیا۔ اگر یہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوتا تو کیا سنگھ کے لوگ اسی طرح
خاموشی اختیار کرلیتے؟ کیا وہ اس فیصلے کو منظور کرتے؟ کیا تب اس ملک کی
شانتی بھنگ نہیں ہوتی؟‘
’ ہونہہ ۔‘ تھاپڑ نے گہری سانس کھینچی۔
’ یعنی تم بھی یہ تسلیم کرتے ہو کہ سنگھ خاموش نہیں رہتا۔ لیکن مسلمان
خاموش رہ جائیںگے—کیونکہ مسلمان آزادی کے بعد کے ہر معاملے میں اب خاموش
رہنا جان چکے ہیں۔ ‘
’ تمہاری آواز میں آزادی کے باسٹھ برسوں کی کڑواہٹ شامل ہے....‘
’ کیوں نہیں شامل ہونی چاہئے تھاپڑ؟ صرف اس لیے کہ ہر بار ہمیں اپنی
ناکامیوں کے لیے بھی جشن کا انتظام کرنا پڑتا ہے— میں زور سے چلایا— میرا
بیٹا غائب ہوا ہے۔ تمہاری اس جمہوریت میں ۔جہاں آستھاﺅں کے نام پر کسی بھی
فیصلے پر ہماری مہر نہیں لگتی— میں صرف اس لیے اس آستھا بنام انصاف کی
حمایت نہیں کرسکتا کہ دنگے نہیں ہوئے— فیصلہ دنگے بھڑکانے والوں کے نام ہوا
ہے۔ ‘
’دنگے بھڑکانے والوں کے نام—؟ تھاپڑ چونک کر بولا—
’ تم کیا سمجھتے ہو۔ وہ کل تک ا س بات کا اعلان کررہے تھے کہ اگر فیصلہ ان
کے حق میں نہیں آیا تو پرانی کہانی دہرائی جاسکتی ہے۔ یعنی اس جمہوریت کے
قربان ہوجانے کے لیے صرف ہم بچتے ہیں— جسے آزادی کے بعد سے کھلونا دے کر
بہلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ لیکن کب تک بہلاﺅ گے—؟ہم چین سے اور سکون
سے رہتے ہیں تو تم بٹلہ ہاﺅس لے کر آجاتے ہو۔ ‘
تھاپڑ نے مسکرانے کی کوشش کی—
(ناول آتش رفتہ کا سراغ سے) |