اسناد کی تصدیق کے لیے سپریم کورٹ کی مہلت

جوں جوں انتخابات قریب آرہے ہیں سیاسی گہما گہمی بھی واضح نظر آرہی ہے۔ بہت سے ارکان اسمبلی نے قوم کے ساتھ جعل سازی کرتے ہوئے اپنی جعلی ڈگریاں جمع کراکے، اسی طرح جعل سازی کے ساتھ پانچ سال بھی گزارے ہیں۔اس کے باوجود سیاسی پارٹیاں اگلی حکومت میں اپنی مضبوط پوزیشن کے لیے ان جعل سازوں کو دھڑا دھڑ اپنی جماعتوں میں شامل کررہی ہیں اور انتخابات لڑنے کے لیے پارٹی ٹکٹ بھی دے رہی ہیں۔انتخابات میں حصہ لینے والے جعلی ڈگری والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب کو یہ کہنا پڑا کہ اگر جعلی ڈگری والوں کے بارے میں فیصلہ کردیا تو بہت سے ارکان نااہل ہوجائیں گے۔ سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری کیس میں 189 سابق ارکان پارلیمنٹ کو 5 اپریل تک ڈگریوںکی تصدیق کرانے کی مہلت دی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن امیدواروں کی بے رحمانہ سکروٹنی کرے، آئندہ تین دن تک تصدیق نہ کرانے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسروں کو حکم دیا ہے کہ جب تک یہ ارکان تصدیق نہیں کراتے ان کے کاغذات نامزدگی منظور نہ کیے جائیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جعلی ڈگری والے پہلے دن سے ہی الیکشن کے لیے نااہل ہیں، انہیں حاصل کردہ تمام مراعات واپس کرنا ہوں گی۔ الیکشن کمیشن جعلی ڈگری والوں کو نوٹیفکیشن کے ذریعے نااہل قرار دے سکتا تھا۔ جعلی ڈگری والوں کے خلاف فوجداری کارروائی میں 6 ماہ لگتے ہوں گے، نااہل تو فوری طور پر قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایچ ای سی نے 69 جعلی ڈگریوں سے متعلق تحریری طور پر آگاہ کیا، 54 سابق ارکان اسمبلی کی تعلیمی اسناد سے متعلق ایچ ای سی نے آگاہ کیا ہے۔ 7 مقدمات کی ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں سے تصدیق کر لی تھی۔ سیکرٹری الیکشن کمشن نے کہا کہ ہم نے پارلیمنٹرین کو خط لکھا تھا جس میں انہیں کہا گیا تھا کہ وہ اپنی ڈگریاں تصدیق کے لیے الیکشن کمیشن میں جمع کرائیں۔ ڈگریاں جمع نہ کرانے والوں کی ڈگریاں جعلی تصور ہوں گی، جن پر الیکشن کمیشن متعلقہ رکن کو باقاعدہ نوٹس دے کر کارروائی کرے گا۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن سے مخاطب ہو کر کہا 54 ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریاں جعلی ہیں، 189 ارکان میٹرک اور انٹر کی اسناد پیش کرنے میں ناکام رہے، جان بوجھ کر غلط بیانی کرنے پر فوجداری کی کارروائی بنتی ہے۔ چیئرمین ایچ ای سی کے مطابق 169 کیسز ایسے ہیں جن کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔ 2010ءسے ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریوں کی تصدیق کا سلسلہ چل رہا ہے، الیکشن کمیشن نے 60 سے 70 فیصد ارکان کی ڈگری کی تصدیق کیلئے فوٹو کاپی بھجوائی، 189 ارکان پارلیمنٹ کی دستاویزات ابھی تک نامکمل ہیں۔ الیکشن کمیشن کو کئی بار آگاہ کیا گیا کہ مکمل دستاویزات کے بغیر تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ الیکشن کمشن نے 54 ارکان کی جعلی ڈگریوں کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈگری کی شرط ختم ہو گئی مگر غلط بیانی کرنے والا آرٹیکل 62 کے تحت نااہل ہے۔ الیکشن کمیشن کو اختیار ہے کہ وہ غلط بیانی کرنے والے کو نااہل قرار دے، غلط بیانی کرنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ مقدمہ زیر التوا ہے، نوٹیفکیشن منسوخ نہ کیا جائے۔ غلط بیانی پر ایک مرتبہ کی نااہلیت ہمیشہ کے لیے نااہلی ہے۔ جعلی ڈگری والوں کی نہیں، عوام کی حقیقی نمائندگی چاہیے۔ ارکان پارلیمنٹ اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ امیدواروں کی بے رحم سکروٹنی ضروری ہے۔ امیدوار کاغذات نامزدگی میں درست معلومات فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ کاغذات نامزدگی میں غلط معلومات فراہم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ انہی معلومات کی بنیاد پر حلقے کے لوگ اپنا نمائندہ منتخب کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے الیکشن کمیشن کو 13 فروری کے لکھے گئے خط پر عملدرآمد ہو گا جس میں کہا گیا تھا کہ پندرہ روز کے اندر اندر اپنی تعلیمی اسناد کی تصدیق نہ کرانے والے ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریاں جعلی تصور ہوں گی۔ عدالتوں نے متعلقہ شہروں کے پولیس افسروں سے کہا ہے کہ جعلی ڈگریوں سے متعلقہ زیر تفتیش مقدمات کو فوری نمٹانے کے لیے بعد رپورٹ الیکشن کمیشن کو دیں۔ عدالت نے سیکرٹری الیکشن کمشن اشتیاق احمد خان سے کہا کہ وہ ان 27 ارکان کے مقدمات کا ازسرنو جائزہ لیں جنہیں الیکشن کمیشن نے نمٹا دیا تھا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کے مطابق اس وقت 34 مقدمات مختلف ضلعی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ 13 ارکان کے خلاف سیشن کورٹ میں مقدمات زیر سماعت ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ عزت سے منتخب ہو کر ایوان میں جائیں۔ جعلی ڈگری کا معاملہ ایچ ای سی کے خط کے باعث دوبارہ اٹھانا پڑا۔ موجودہ انتخابات میں ڈگری کی شرط کا خاتمہ جھوٹے اقرار نامے کا جرم ختم نہیں کر سکتا۔ اسے نشست پر رہنے کا حق نہیں، ایسے ارکان کے خلاف کارروائی کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

الیکشن کمیشن آیندہ انتخابات میں نااہل اور جعلی اسناد والے امیدواروں کا راستہ روکنے کےلئے سابق ارکان اسمبلی کی نام ویب سائٹ پر جاری کردیے ہیں۔جاری کی گئی فہرست کے مطابق قومی اسمبلی کے14 ارکان نے جعلی ڈگریاں جمع کرائی تھیں۔ پنجاب اسمبلی کے 20 ارکان2008ءکے انتخابات میں جعلی ڈگری جمع کراکے منتخب ہوئے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ارکان کی تعداد11 ہے۔ فاٹا اور ٹرائبل ایریازکے 5 سابق ارکان اسمبلی نے جعلی ڈگریاں جمع کرائیں تھیں۔ سند ھ کی سابق اسمبلی میں 4 ارکان نے غیرمستند ڈگری جمع کرائی۔جبکہ سبی سے سابق رکن قومی اسمبلی ہمایوں عزیز کرد کو جعلی ڈگری کیس میں ایک سال قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ کوئٹہ سے سابق رکن قومی اسمبلی ناصر علی شاہ کو عدالت میں پیش نہ ہونے پر اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا۔ مظفر گڑھ سے سابق رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی درخواست کل تک ملتوی کردی گئی۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے سابق رکن خیبرپختونخوا اسمبلی خلیفہ عبدالقیوم کو جعلی ڈگری پر تین سال قید اور پانچ ہزار روپے جرمانے کی سزاسنائی گئی، انہیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ ڈیرہ غازی خان سے سابق رکن پنجاب اسمبلی میربادشاہ قیصرانی پر جعلی ڈگری کیس میں فرد جرم عائد کردی گئی۔ ساہیوال سے سابق رکن پنجاب اسمبلی ملک اقبال لنگڑیال کے جعلی ڈگری پر وارنٹ گرفتاری جاری ہو گئے ہیں۔ کوئٹہ سے سابق رکن بلوچستان اسمبلی علی مدد جتک کے خلاف جعلی ڈگری کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

دوسری جانب جعلی ڈگری والوں کے بارے میں کیے گئے ایک عوامی سروے میں عوام نے کہا ہے کہ جعلی ڈگری والے اراکین اسمبلی کو سزا کے بعدالیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔عوام کا کہنا تھا کہ جس نے پہلے ہی عوام سے جھوٹ بولا ہو اور عوام کو بے قوف بنا یا ہو اس کو بالکل ہی اجازت نہیں ہونی چاہیے ، جس کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہے، وہ اچھا کام کیاکرسکے گا، وہ صرف لوٹ مار کرنے کےلئے ہی آئے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ایک الیکشن نہیں بلکہ تاحیات الیکشن لڑنے پر پابندی ہونی چاہیے، ایسے شخص کو ایسی سزا ملنی چاہیے کہ آئندہ اس کی آنے والی نسلیں بھی ایسا کام کرنے سے گھبرائیں۔ ایسے شخص کو ارکان پارلیمنٹ بنا دیا جائے تو پھر ساری زندگی پڑھائی کرنے والوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ان کو عوام کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر ایسا ہی کرنا ہے تو پھر ڈگری کی ضرورت ہی نہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.