زمانہ قدیم سے اکثر غریبوں اور
مسکینوں پر ظلم ڈھائے جاتے رہے۔ ظالموں کی ظلم کی داستانیں قیامت تک بیان
کی جاتی رہیں گی اس دنیا میں ہلاکوخان، چنگیز خان اور حجاج بن یوسف وغیرہ
سرفہرست ہیں۔ سابقہ دور میں فرعون اور شداد وغیرہ بھی کم ظالم نہیں گزرے۔
تاریخ شاہد ہے کہ ظالموں کا حشر عبرتناک ہوا۔ قوم عاد کو اللہ تعالیٰ نے
بہت طاقت بخشی تھی، پتھروں کو تراش کر اپنے مضبوط گھر بناتی تھی۔ ان کے
بارے میں مشہور ہے کہ یہ مٹھی میں درخت کو پکڑ کر اکھیڑ لیتے تھے اس قوم کی
طاقت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی فرمایا ہے۔ اس قوم میں دو
بھائی تھے ایک کا نام ”شدید،، اور دوسرے کا نام ”شداد،، تھا۔ ”شدید،، بڑا
تھا اور ”شداد،، چھوٹا تھا۔ ”شداد،، کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کی پیدائش
ایک کشتی میں ہوئی، دریا میں طغیانی آئی اور اس کی والدہ سمیت تمام سوار
غرق ہوگئے۔ تمام سواروں میں یہ صرف اکیلا بچا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت
کاملہ سے اسے سلامت رکھا اور اس کی پرورش فرمائی۔ اس کا بڑا بھائی ”شدید“
سات سو سال کے لگ بھگ حکمرانی کرکے جہنم واصل ہوا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کا
چھوٹا بھائی ”شداد“ تخت نشین ہوا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ تمام روئے زمین پر
اس کی حکومت تھی، ہزاروں کے حساب سے ریاستیں تھیں، نظامِ سلطنت چلانے کیلئے
ہر ریاست میں اپنے نائب بادشاہ اور وزراءوغیرہ مقرر کررکھے تھے۔
حضرت ہود علیہ السلام نے ”شداد“ کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی دعوت دی۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم سلطنت دی ہے ہر
قسم کے خزانوں اور نعمتوں سے مالا مال کیا ہے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاﺅاور
اس پر ایمان لاﺅ۔ اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ تم کو جنت میں بلاحساب و کتاب
داخل فرمادیں گے۔ آپ علیہ السلام نے راہ نجات کی باتیں سنائیں مگر اس ملعون
پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ جواباً کہنے لگا کہ بہشت کے بارے میں
جو سن رکھا ہے میں بالکل اس جیسی اس دنیا میں بھی بنالوں گا۔ چنانچہ ”شداد“
نے تمام ماتحت بادشاہوں کو احکامات جاری کیے کہ ہر قسم کا خزانہ سونا،
چاندی، قیمتی جواہرات، کستوری اور زعفران وغیرہ اپنی اپنی ریاستوں سے اکٹھے
کرکے برائے تعمیر بہشت بھیجے جائیں۔ اعلیٰ قسم کے معمار بلائے گئے، جنت کے
ڈیزائن سے آگاہ کیا گیا۔ حکم دیا کہ چالیس گز نیچے سے زمین کھود کر اس پر
سنگ مر مر کی بنیاد رکھ کر بہشت تعمیر کی جائے۔ حکم کی تعمیل پر کام شروع
ہوگیا۔ دودھ، شہد اور شراب کی نہریں جاری کردی گئیں۔ سونے اور چاندی کے
درخت لگا دئیے گئے۔ خوبصورت لڑکے اور لڑکیاں بہشت میں پہنچا دی گئیں۔ ہوبہو
اصلی جنت کی طرز کی نقلی جنت تیار ہوگئی۔ ”شداد“ نے ایک ایسا ادارہ قائم
کیا جو تمام ممالک سے خزانہ جمع کرتا اور لا کر پیش کرتا تھا۔ اس نے حکم دے
رکھا تھا کہ کسی انسان کے پاس ایک درہم چاندی تک نہ رہنے دیا جائے۔ سب لاکر
بہشت میں جمع کی جائے۔ ایک شہر میں ایک غریب بڑھیا رہائش پذیر تھی اس کا
خاوند فوت ہوگیا تھا صرف ایک ہی بیٹی تھی۔ بیٹی کے گلوبند میں ایک درہم
چاندی تھی جب ”شداد“ کے اہلکاروں کو پتہ چلا تو وہ لینے آگئے۔ بڑھیا نے بڑی
منت سماجت کی اور لڑکی بھی آہ و زاری کرنے لگی۔ لڑکی نے رونا اور چلانا
شروع کر دیا اور درخواست کی کہ اس کے پاس صرف یہی ایک درہم کی دولت ہے اور
یتیم ہے معاف کیا جائے مگر ”شداد“ کے اہلکاروں کو ترس نہ آیا اور گلوبند
جبراً لے لیا۔ لڑکی کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ خداوند کریم کی درگاہ میں
فریاد پیش کردی۔ اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوئی کہ اے اللہ تو بہت طاقت والا ہے۔
خالق کائنات ہے تو انصاف کر اور ان ظالموں سے مظلوموں کو نجات دے۔ اس
مظلومہ کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ حدیث شریف میں رسول کریم نے
فرمایا ہے کہ پرہیز کرو مظلوم کی بددعا سے، بیشک وہ قبول ہوتی ہے۔
علماءکرام سے یہ بھی حدیث مبارکہ سنی ہے کہ مظلوم کی آہ اور اللہ تعالیٰ کے
درمیان پردہ نہیں ہوتا۔ جونہی منہ سے نکلتی ہے قبولیت اختیار کرلیتی ہے۔
بہشت تو ”شداد“ کے حکم پر تعمیر ہوگئی مگر اس بدبخت کو دیکھنے کا موقع نہ
مل سکا۔ روزانہ ارادہ کرتا مگر کوئی نہ کوئی کام آڑے آجاتا۔ اسی طرح دس سال
گزر گئے۔ آخر ایک دن اس نے جانے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ تقریباً دو سو گھوڑ
سواروں کے ہمراہ روانہ ہوگیا جب بہشت کے باہر پہنچا تو دیکھادروازے پر ایک
آدمی کھڑا ہے ”شداد“ نے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں ملک الموت
ہوں۔ پھر سوال کیا یہاں کس لیے آئے ہو جواب ملا تیری روح قبض کرنے آیا ہوں۔
یہ سن کر ”شداد“ کے ہوش و حواس اڑ گئے اور مخاطب ہو کر کہا کہ جنت کا نظارہ
کرنے تک مہلت دی جائے مگر ملک الموت نے فرمایا کہ مہلت کسی صورت میں نہیں
مل سکتی۔ ”شداد“ گھوڑے سے اترنے لگا۔ ایک پاﺅں بہشت کے دروازے پر اور دوسرا
رکاب میں تھا کہ ملک الموت نے روح قبض کرلی۔ ”شداد ملعون“ جہنم وصل ہوا۔
ایک فرشتہ نے آسمان سے چیخ ماری۔ ”شداد“ کے سارے ساتھی ڈھیر ہوگئے اور جہنم
رسید ہوگئے۔ یہ بدبخت نہ اپنی تیار کردہ جنت سے کسی نعمت کی فائدہ اٹھا سکے
اور نہ نظارہ کرسکے۔ ”شداد ملعون“ کو نہ سلطنت کام آئی اور نہ مال۔ بددعا
کی قبولیت نے سب کچھ خاک میں ملا دیا۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پرقادر ہے
اور اس کی گرفت سخت ہے۔ |