پاکستان میں آج کل سیاسی ہلچل
مچی ہوئی ہے۔ہر طرف انتخابات کی تیاریاں ہورہی ہیں۔سیاسی جماعتیں اپنی
پارٹی کے لیے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی تگ و دو میںہیں اور الیکشن
کمیشن منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی کی چھانٹی کرنے میں مگن ہیں۔ان کا کہنا
ہے کہ منتخب ہوکر اسمبلیوں میں آنے والے ارکان قوم کی نمائندگی کرتے ہیں
لہٰذا انہیں ایک اچھا شہری ہونا چاہیے ۔گزشتہ دور میں رہنے والے متعدد
ارکان اسمبلی کی اچھی شہرت کا اندازہ ان کی جعلی ڈگریوں سے ہوگیا ، اس طرح
سپریم کورٹ کے حکم پر کئی جعلی ڈگریوں والوں کو جیل کی ہوا کھانے کے لیے
بھیج دیا گیا ہے،تاکہ انہیں پتا چلے کہ قوم و ملک کا پیسا کھانے اور جیل کی
ہوا کھانے میں کتنا فرق ہوتا ہے۔اس کے ساتھ انتخابات لڑنے والوں کے لیے بہت
بڑا مسئلہ ان دنوں یہ بنا ہوا ہے کہ ان میں سے بے شمار افراد آئین کے
آرٹیکل 62,63پر پورے اترتے دکھائی نہیں دے رہے، جبکہ انتخابات لڑنے کے لیے
ان پر پورا اترنا ضروری ہے۔جس بنا پر کئی افراد کے کاغذات مسترد ہوچکے ہیں۔
ہمیشہ ہی جب انتخابات کا مرحلہ قریب آتا ہے تو پارٹیوں کے نامزد کردہ اور
آزاد امیدوارکا غذات نامزدگی جمع کرواتے ہیں، جس کے بعد الیکشن کمیشن کے
کندھوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ ان امیدواروں میں سے اہل افراد
کا چناﺅ کرے کہ کون الیکشن لڑنے کے قابل ہے، ان کو جانچنے کے لیے آئین کے
آرٹیکل 62 اور 63 موجود ہیں۔ اگر ان آرٹیکلز کے تحت امیدواروں کا چناﺅ ہوتا
رہتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی مگر اس سلسلے میں ہمیشہ مصلحت سے کام لیا
گیا۔ یوں الیکشن کمیشن پر دباﺅبڑھا کر اپنی مرضی کا فیصلہ لینا چاہتے ہیں
تاکہ وہ ہر حال میں الیکشن لڑیں اور پھر قومی خزانے کی بہتی گنگا میں من
چاہا اشنان کرسکیں۔اگر انتخابات لڑنے والوں کی جانچ پڑتال بالکل درست طریقے
سے کی جائے تو انتخابات ہونے سے پہلے ہی بہت سارے ان افراد کا راستہ روکا
جاسکتا ہے جو انتخابات کے بعد آکر قوم کو بھی تنگ کرتے ہیں اور ملک کا بھی
ستیاناس کردیتے ہیں۔قوم کو بھی چاہیے انتخابات سے پہلے ہی آرٹیکل 62,63پر
پوری طرح عمل درآمد کروائے تاکہ بعد میں پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔اگرچہ
انتخابات سے پہلے ہی آئین کے آرٹیکل 62,63پر عمل کروانے سے کوئی فرشتہ صفت
انسان نہیں آجائیں گے لیکن کرپٹ لوگوں کی کافی بڑی تعداد کو روکا جاسکتا ہے۔
آرٹیکل 63,62 میں لکھا ہے:
شرائط اہلیت ممبران مجلس شوریٰ(پارلیمنٹ):
(1 ) کوئی شخص اہل نہیں ہو گا، رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا،بطور ممبر
مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ کے،ماسوائے یہ کہ:
(الف) وہ پاکستان کا شہری ہو۔(ب) وہ قومی اسمبلی کی صورت میں 25 سال سے کم
عمر کانہ ہو اور بطور ووٹر اس کے نام کا اندراج کسی بھی انتخابی فہرست میں
موجود ہو جو پاکستان کے کسی حصے میں جنرل سیٹ یا غیر مسلم سیٹ کے لیے ہو،
اور صوبے کے کسی حصے میں اگر عور ت کی مخصوص سیٹ ہو تو اس کے لیے۔(ج) وہ
سینیٹ کی صورت میں 30 سال سے کم عمر کا نہ ہو اور صوبے کے کسی ایریا میں اس
کا نام بطور ووٹر درج ہو، یا جیسی بھی صورت ہو، فیڈرل کیپیٹل یا فاٹا میں
جہاں سے وہ ممبر شپ حاصل کر رہا ہو۔(د) وہ اچھے کردار کا حامل ہو اور عام
طور پر احکام اسلامی سے انحراف میں مشہور نہ ہو۔(ہ) وہ اسلامی تعلیمات کا
خاطر خواہ علم رکھتا ہو ، اور اسلام کے منشور کردہ فرائض کا پابند ہو ، نیز
کبیرہ گناہ سے اجتناب کرتا ہو۔ (و) وہ سمجھ دار ہو ، پارسا ہو، ایماندار
اور امین ہو اور کسی عدالت کا فیصلہ اس کے برعکس نہ ہو۔(ز) اس نے پاکستان
بننے کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو اور نظریہ پاکستان کی
مخالفت نہ کی ہو۔(2) نا اہلیت مندرجہ پیرا گراف (د) اور (ہ) کا کسی ایسے
شخص پر اطلاق نہ ہو گا، جو نان مسلم ہو لیکن ایسا شخص اچھی شہرت کا حامل ہو۔
نا اہلیت برائے ممبر شپ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ):
(1) کوئی شخص مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے رکن کے طور پر منتخب ہونے یا چنے
جانے اور رکن رہنے کے لیے نا اہل ہو گا، اگر
(الف) وہ فاتر العقل ہو اور کسی مجاز عدالت کی طرف سے ایسا قرار دیا گیا ہو
، یا(ب) وہ غیر بریت یا فتہ دیوالیہ ہو یا(ج) وہ پاکستان کا شہری نہ رہے ،
یا کسی بیرونی ریاست کی شہریت حاصل کرے، یا(د) وہ پاکستان کی ملازمت میں
کسی منفعت بخش عہدے پر فائز ہو ماسوائے ایسے عہدے کے جسے قانون کے ذریعے
ایسا عہدہ قرار دیا گیا ہو، جس پر فائز شخص نا اہل نہیں ہوتا ، یا(ہ) اگر
وہ کسی ایسی آئینی باڈی یا کسی باڈی کی ملازمت میں ہو ، جو حکومت کی ملکیت
یا اس کے زیر نگرانی ہو ، یا جس میں حکومت کنٹرولنگ حصہ یا مفاد رکھتی ہو،
یا(و) پاکستان کا شہری ہوتے ہوئے بھی زیر دفعہ 14B شہریت پاکستان
ایکٹ1951ءکے وہ وقتی طور پر نا اہل ہو جائے ، آزاد اور جموں کشمیر کے رائج
الوقت قانون کے تحت لیجسلیٹو اسمبلی آزاد جموں اور کشمیر کا ممبر منتخب ہو
سکتا ہو۔(ر) اسے کسی عدالت مجاز سے ایسی رائے کی تشہیر ، یا کسی ایسے طریقے
پر عمل کرنا ، جو پاکستان کے نظریہ ، اقتدار اعلیٰ ، سالمیت ،یا سلامتی یا
اخلاقیات یا امن عامہ کے قیام یا پاکستان کی عدلیہ کی دیانتداری یا آزادی
کے لیے مضر ہو ، یا جو پاکستان کی مسلح افواج یا عدلیہ کو بدنام کرے ، یا
اس کی تضحیک کا باعث ہو ، اس جرم کی سزا ہوئی ہو اور اس کو پانچ سال رہا
ہوئے نہ گزرے ہوں۔(ح) اسے کسی ایسے جرم کے لیے سزا یابی پر جو اخلاقی پستی
کا جرم ہو اور اس پر سزا کم از کم دو سال ہو چکی ہو اور اس کو پانچ سال رہا
ہوئے نہ گزرے ہوں۔(ط) اسے پاکستان کی ملازمت ،یا کارپوریشن ، یا دیگر آفس ،
جو قائم یا کنٹرول کردہ ہو ، فیڈرل گورنمنٹ کا ، صوبائی گورنمنٹ کا ، یا
لوکل گورنمنٹ کا ، سے غلط روی کی بنیا د پر ہٹا دیا گیا ہو، اور اس کی بر
طرفی کو 5 سال کا عرصہ نہ گزر گیا ہو۔
بہت سارے افراد کو یہ اعتراض ہے کہ ان سے کاغذات جمع کروانے کے وقت اسلامی
سوالات نہ پوچھے جائیں۔کیوں کہ اس سے امیدوار کی ہتک ہوتی ہے۔یہ حضرات ہی
بتائیں کہ کیا آئین میں یہ بات نہیں لکھی ہوئی کہ امیدوار اسلامی معلومات
وافر مقدار میں رکھتا ہو۔اگر اسے اسلامی سوالات کا جواب دیتے ہوئے شرم آتی
ہے تو اسے قوم کا نمائندہ بنتے ہوئے شرم کیوں نہیں آتی؟ قومی اسمبلی کے
حلقہ این اے24 ڈیرہ کے ریٹرننگ افسرنے تحریک مساوات کی چیئرپرسن مسرت شاہین
سے کہاکہ وہ کوئی قرآنی آیات سنائیں تو مسرت شاہین نے انہیں آیت الکرسی
اورسورةکوثردرست سنادی۔جس کے بعد ان کے کاغذات نامزدگی کو منظور
کرلیاگیا۔کیا صرف قرآن مجید کی کوئی آیت سنادینے سے آئین پر عمل ہوجاتا
ہے؟قرآن مجید کی چند آیات تو بچپن میں ہر بچہ ہی یاد کرتا ہے۔ آئین کے
آرٹیکل 62,63پر مکمل عمل درآمد کی ضرورت ہے۔صرف چند آیات سے آئین پر مکمل
عمل نہیں ہوسکتا۔اس کے لیے الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ آئین میں جو کچھ لکھا
ہے ان سب پر عمل کروائے اور کاغذات جمع کروانے کے وقت اسلامی سوالات پوچھے
جانے پر بھی سیکولر افراد کے دباﺅ میں نہ آئے ۔جو کچھ آئین میں لکھا ہے اگر
اس پر مکمل عمل ہوجائے تو بعد میں قوم کو رونا نہ پڑے۔ |