شدت اختیار کرتا بحران

خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور اور اس کے گرد نواح کے علاقوں میں اب تک بائیس مرتبہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جا چکا ہے جس میں درجنوں افراد ، جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں۔پشاور میں شیخ محمدی گرڈ اسٹیشن پر دہشت گردوں کا یہ تیسرا حملہ تھا ۔آٹھ کنال کے رقبہ پر واقع گرڈ اسٹیشن کی حفاظت کےلئے صرف سات پولیس اہلکار تعینات تھے جبکہ اس سے قبل خاصہ دارفورس کے اٹھائیس جوانوں کو شہید کیا جا چکا ہے، گرڈ اسٹیشن قبائلی علاقے سے صرف چار کلو میٹر کی مسافت پر ہے اور تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق راستہ میں کہیں بھی ناکہ بندی نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں کا با ربار ملکی اہم تنصیبات پر حملہ کرکے با آسانی فرار ہوجانا ، حکومتی اداروں کےلئے سوالیہ نشان بن گیا ہے۔جبکہ گذشتہ سال مجموعی طور پر 1577دہشت گردی کے حملے ملک بھر میں ہوئے۔جس میں 2050جاں بحق اور 3822کے قریب زخمی ہوئے۔جبکہ صرف سندھ کے صوبائی دارالحکومت کراچی میں پُر تشدد واقعات میں 2012ءمیں 2284افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے۔انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی سال 2012ءکے مطابق انسانی حقوق کی بدترین صورتحال کو حکومت اور ایجنسیوں کی ناکامی قرار دیا ہے۔پاکستان میں ایک طرف شدت پسندی بڑھتی جا رہی ہے تو دوسری جانب روز بہ روز سیاسی بحران بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔متوقع انتخابات کے ضمن میں جس طرح امیدواران کی اسکروٹنی کی جا رہی ہے اس سے تمام سیاسی حلقوں اور عوام میں بے چینی پیدا ہوچکی ہے کہ جمہوریت کی گاڑی میں سوار ہونے والوں کو کسی نہ کسی صورت روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور پرواز میں سوار ہونے والے ایسے مسافروں کو بورڈنگ ٹکٹ دئیے جا رہے ہیں ،جو قومی دولت لوٹنے اور اربوں روپے قرضے معاف کرانے سمیت متنازعہ ملکی معاملات میں ملکی ساکھ کومتاثر کرچکے ہیں۔اب جیسے جیسے الیکشن کے دن قریب آرہے ہیں تو نامی گرامی لیڈراَن کی توجہ خصوصی طور پر ایسی پروازوں پر مرکوز ہوچکیں ہیں جو انھیں اسمبلیوں اور پھر ایوان اقتدار تک پہنچا سکے۔ عوام اپنی حالت تبدیل کرنے کےلئے کچھ کر سکی گی یا نہیں اس بارے میں تو کوئی بات وثوق سے نہیں کی جاسکتی کیونکہ جس طرح سیاسی جماعتوں میں ٹکٹ نہ ملنے پر کھمبوں پر چڑھنے ، احتجاج اور آزاد حیثیت سے اپنی ہی جماعت کے خلاف الیکشن لڑنے کے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں، جو سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی تربیت پر سوالیہ نشان ہے۔ عوام کو اپنے مطالبات منوانے کا اس سے سنہرا موقع نہ جانے پانچ سال بعد ملے گا یا نہیں ملے گا ۔ لیکن چند ہفتوں بعد ایسے دودھ کے دُھلے امیدوار ان کے سامنے ضرور موجود ہونگے ، جو جاگیرادری ،ودٰیرانہ نظام ،سرمایہ داری اور خوانین کے زعم میں اپنے "غلاموں"سے خود کو منتخب کرانے کی کوشش میں یقینی کامیاب ہونا چاہتے ہیںاگر ایسے لوگوں کو سیاسی کلچر کے منظر نامے اور اپنی تقدیر کے فیصلے سے دور کرنا مقصود ہے تو پھر انھیں ہر صورت مسترد کرنا ہوگا ۔یقینی طور پر سب فرشتے نہیں ہونگے ، لیکن سب شیطان بھی نہیں ہونگے ۔ اسلاف پرستی اور شخصیت کے سحر کو توڑ کر ایسی شخصیت کو منتخب کرنا ہوگا، جس کا ووٹ آپ کے حلقے میں ہو ، گذشتہ دور حکومت میں آپ کے مصائب و تکالیف کو دیکھنے اور پوچھنے کےلئے ، آپ کے پاس اسی طرح آیا ہو جس طرح بھکاریوں کی طرح آج ووٹ مانگنے آر ہے ہیں۔ان لوگوں کو ووٹ دینا ہوگا جن سے ملنے جب آپ ان کی دفتر ، حجرے ،ڈیرے پہنچتے تھے تو انھوں نے آپ کو دھتکارا نہ ہو ،گھنٹوں انتظار نہ کرایا ہو ۔یقینی طور پر ہم سب کو یہ سمجھ لینا چاہےءکہ حکومتی معاملات ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دینے کا حق ہم خود مہیا کرتے ہیں ، ایسے احسان فراموشوں کی پشت پناہی کرکے ہم اپنے پیروں پر کلہاڑی خود مارتے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کی سرگر میوں کو مناسب قرار دیا جاسکتا ہے لیکن ملکی معاملات میں قوت فیصلہ کی حامل شخصیات کا انتخاب ہمارے ہاتھ میں ہے۔روز بہ روز بڑھتی دہشت گردی ، معاشی اور سیاسی بحرانی کیفیت کے ذمے دار ہم خود ہیں۔کیونکہ ہم اپنی ذمے داری انفرادی حیثیت میں بھی پورا نہیں کرتے۔اس حقیقت کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ملکی حالات کو اس نہج تک پہنچانے کی کچھ نہ کچھ ذمے داری سیاسی قوتوں ، سیاسی افراد ، غیر جمہوری اداروں اور عوام پر مشترکہ عائد ہوتی ہے۔سیاسی وابستگیوں اور من پسند جماعتوں کی مخالفت میں اس قدر حد سے گذر جایا جاتا ہے کہ کہ نہ صرف اپنا مستقبل داﺅ پر لگا دیتے ہیں بلکہ ملک کو بھی آمریت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکا دیا جاتا ہے۔بڑی سیاسی جماعتیں ملکی میں جاری عوامی مسائل پر سالوں سال خاموش رہتی ہیں لیکن جب الیکشن قریب آجاتے ہیں تو اقتدار کےلئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ان کے مفادات یکجا ہوجاتے ہیں ، ایک دوسرے کو معاف کرتے ہوئے ، ایک دوسرے کے سر پر ٹوپی رکھ کر، گلے شکوے دور کرلیتے ہیں لیکن غریب عوام کا پرسان حال کوئی نہیں ہوتا۔جب ان کی مرضی ہوتی ہے ملک کو دہشت گردی ، اور معاشی بحالی کے دلدل میں چھوڑ کر خودساختہ جلا وطنی اختیار کر لیتے ہیں تو جب ان کی مرضی ہوتی ہے ، ایئر پورٹ پر ڈھول تماشوں کے ساتھ اپنا استقبال کرانے کےلئے تماش بین اکھٹا کر لیتے ہیں۔ہمیں یہ سوچ لیناچاہیے کہ عالمی برادری ہماری ایسی روش پر ہماری کوئی مدد نہیںکرے گی۔ملک کو داخلی طور پرانتشار و سیاسی بحران سے نکالنے کےلئے ہمیں از خود کردار ادا کرنا ہوگا ۔ ہمیں ایسے لوگوں کو یکسر مسترد کرکے عام انتخابات میں ، اپنی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنے کےلئے گھروں سے باہر نکلنا ہوگا۔روایتی سیاست کو خیر باد کہنا ہوگا کیونکہ اس سے ملک کبھی پروان نہیں چڑھ سکتا ۔ مملکت جس طرح معاشی اور بے امنی کا شکار ہے اس کی ہلکی جھلک بالا سطور میں پڑھ چکے ہونگے ۔ کب تک اپنی جانوں کی قربانی اُن لوگوں کےلئے دےتے رہیں گے ، جن کے نزدیک عوام کے مسائل کا حل نہیں بلکہ ان کے "اپنے مسائل اور ان کا حل "ہے۔پشاور ،کوئٹہ ، کراچی سے لیکر ملک کے کونے کونے میں ، انتہا پسندی کی آگ بھڑک رہی ہے جس پر مورثی سیاست کرنے والے سیاسی خاندان پٹرول ڈال کر ،اپنے لئے مفادات حاصل کرتے ہیں۔موجودہ بحران ، سیاسی ہو عدالتی ہو یا پھر شدت پسندی کا ، شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ہمیں اس شدت کو کم کرنے کےلئے ازخود ایک ایسا لا ئحہ عمل بنانا ہوگا کہ اگلے اقتدار دور حکومت میں غریب ووٹر کے قریب المرگ وجود پر پیر رکھ کر ایئر کنڈیشن ایوانوں میں جا کر عوام کو بھول جانے والوں کا احتساب کرنے میں دشواری نہ ہو۔یقینی طور پر عوامی رٹ کو چیلنج کرنے والے ، نہتے عوام سے زیادہ مضبوط ہونگے ، لیکن عوام اتنے کمزور بھی نہیں ہیں۔ ان کااصل امتحان شروع ہوچکا ہے ۔اب دیکھنا تو یہ ہے کہ پاکستانی قوم بھی کہیں روایتی ، مورثی سیاست دانوں کی طرح بے حس و بے ضمیر ہے یا پھر واقعی شدت اختیار کرتے ہوئے اس بحران کو ختم کرنے کےلئے اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں گے !!۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 264103 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.