سپریم کورٹ نے سابق وزرائے اعظم
اور وزرا کی غیر معمولی سیکورٹی، پروٹوکول اور مراعات کے خلاف از خود نوٹس
لے لیا ہے، سماعت 16 اپریل کو ہوگی۔ سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق چیف
جسٹس افتخار محمد چودھری نے سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف، یوسف رضا
گیلانی کے لیے غیر معمولی سیکورٹی، پروٹوکول، سابق وزیر داخلہ عبدالرحمن
ملک کی جانب سے اپنے اور اپنے پیش روکے لیے غیر معمولی مراعات کے حصول اور
سندھ کے وزیر اعلیٰ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کو تاحیات مراعات دینے کا نوٹس
لیا ہے۔ عدالت نے سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف، وزیراعلیٰ سندھ قائم علی
شاہ، سابق وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک، وفاقی سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری داخلہ
سندھ، آڈیٹر جنرل، اکاؤنٹنٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں ذاتی طور پر
یا وکیل کے ذریعے پیش ہونے کا حکم بھی دیا ہے جبکہ اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ
جنرل سندھ، آئی جی سندھ سے 16 اپریل کو شق وار کمنٹس بھی طلب کرلیے گئے
ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔سپریم کورٹ بغیر کسی
درخواست کے عوامی مفاد میں ازخود کارروائی کرسکتی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے پیش کردہ نوٹ پر از
خود نوٹس لیا ،جس میں مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی خبرو ں کا حوالہ
دیتے ہوئے چیف جسٹس کو بتایا گیا تھا کہ موجودہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے
صرف ایک روز قبل وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے حکم جاری کیا جس کے ذریعے
انہوں نے خود کو اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو غیر معمولی سیکورٹی
پروٹوکول دیا۔ نوٹ میں مزید بتایا گیا کہ اسمبلی ختم ہونے سے ایک روز قبل
وزارت داخلہ کی جانب سے 14مارچ 2013ءکو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کے تحت
وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک اور ان کے پیش رو کوعہدے پر نہ رہنے کے باوجود
لامحدود مراعات کا حق دار قرار دیا گیا تھا، اس کے علاوہ سندھ اسمبلی کی
مدت کے آخری روز ایوان میں پرائیویٹ بلوں کی منظوری دی گئی، جن کے ذریعے
سابق وزیر اعلیٰ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کو لامحدود مراعات اور مفادات کا حق
دار قرار دیا گیا تھا۔ نوٹ میں بتایا گیا کہ اس طرح کی مراعات کا حق دار
سابق وزیر اعظم، وزراءاعلیٰ، وزرا ئ، سپیکرز، ڈپٹی سپیکرز اور ارکان کو
قرار دینا بالکل نئی بات ہے، اس کی پہلے سے کوئی مثال موجود نہیں ہے، جبکہ
یہ مراعات ایسے وقت میں دی گئیں جب اسمبلی اور کابینہ کی مدت پوری ہونے میں
ایک یا دو روز باقی تھے اور سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے ذاتی مفاد پر
مشتمل قانون سازی یا آرڈرز کی آئین اور قانون میں گنجائش ہے؟ اس صورت میں
جبکہ اس سے قومی خزانے پر بھاری بوجھ بھی پڑے گا اور فراہم کردہ سیکورٹی
پروٹوکول قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت کار کو متاثر کرے گا، جس
سے وہ ملک میں سیکورٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے اور لوگوں کی جان و مال
کے تحفظ میں ناکام رہیں گے۔ ازخود نوٹس میں کہا گیا کہ مذکورہ اقدامات آئین
کے آرٹیکل 24,9,4 اور 25 کی خلاف ورزی نظر آتے ہیں۔ چیف جسٹس نے نوٹ میں
لکھا کہ سرکاری خرچے پر سیکورٹی اور مراعات قانون کے منافی ہیں۔ پاکستان کے
غریب عوام صحت اور پینے کے صاف پانی جیسی سہولتوں سے محروم ہیں، اس لیے یہ
ملک سابق عوامی نمائندوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔
یاد رہے کہ حکومت کی مدت ختم ہونے سے ایک دو روز قبل منتخب حکومت نے موقع
کو غنیمت جانتے ہوئے ملکی خزانے کی لوٹ سیل لگادی تھی،مال مفت دل بے رحم
۔منتخب نمائندوں نے جس طرح عوام پر پانچ سال حکومت کی ، اس سے انہیں تھا کہ
آئندہ عوام انہیں کبھی دوبارہ نہیں منتخب کرسکتی اس لیے موجودہ حکومت کا
جتنا وقت باقی ہے اسے ہی غنیمت جانتے ہوئے ملکی خزانے سے جو ہاتھ آتا ہے
جانے نہ دیا جائے۔لہیذا حکومت کی مدت پوری ہونے سے چند گھنٹے پہلے سندھ
حکومت نے ارکان سندھ اسمبلی کی تنخواہوں اورمراعات میں ساٹھ فیصد تک اور
تاحیات ذاتی مفادات ومراعات کے بل منظورکرلیے تھے۔ منظور ہونے والے بل کے
مطابق تما م سابق ارکان اسمبلی مدت ختم ہونے کے بعد بھی سرکاری مہمان خانے،
آرام گاہیں، سندھ ہاﺅسز اسلام آباد، گوادر سرکاری نرخوں پر استعمال کرسکیں
گے۔ عمر بھر کے لیے سندھ اسمبلی سیکرٹریٹ، لائبریری اور اسپیکر گیلری کے
پاسز حاصل کرسکیں گے۔ تمام ائیرپورٹس پر وی آئی پی لاونج استعمال کرسکیں
گے۔ تمام عمر سرکاری گرین پاسپورٹس اپنے اور اہل خانہ کے لیے حاصل کرسکیں
گے اور چار ہتھیاروں کے لائسنس، ان کی تجدید سرکاری ملازمین کی فیس پر
کراسکیں گے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن کی طرف سے نواز شریف، شہباز شریف اور ان کے خاندان
کو د یے جانے والے پروٹوکول کو ختم کرنے کے احکامات پر تا حا ل عملدرآمد
نہیں ہو سکا۔ شریف خاندان کے پاس موجود سرکاری گاڑیوں اور سیکورٹی پر مامور
پولیس افسران اور اہلکاروں کی تعداد جوں کی توں ہے۔ ذرائع کے مطابق شریف
برادران اور ان کے فیملی ممبران کی سیکورٹی پر761 پولیس اہلکار تعینات ہیں،
جن میں ایلیٹ فورس کے317، پولیس کے 302، پنجاب کانسٹیبلری کے 108جبکہ ضلعی
پولیس کے 34 اہلکار شامل ہیں، جبکہ پولیس کی 54 گاڑیاں بھی ان کی سیکورٹی
کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ نواز شریف کو ایلیٹ فورس کے 100 کمانڈوز اور
پولیس کی5 گاڑیاں سیکورٹی کے لیے دی گئی ہیں۔ شہباز شریف کی سیکورٹی کے لیے
95 ایلیٹ فورس کے کمانڈوز تعینات ہیں۔ شہباز شریف کی اہلیہ مسز نصرت شہباز
کی سیکورٹی کے لیے ایلیٹ فورس کے 11 اہلکار تعینات ہیں۔ شہباز شریف کی
دوسری اہلیہ مسز تہمینہ درانی کی سیکورٹی کے لیے ایلیٹ فورس کے 11 کمانڈوز
تعینات ہیں جبکہ ان کی رہائش گاہ واقع گلبرگ میں ایلیٹ فورس کے 18 کمانڈوز
مامور ہیں۔
مسلم لیگی رہنما پرویز رشید نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کی سیکورٹی
کے بارے میں الیکشن کمیشن کی ہدایات غیر منصفانہ اور یکطرفہ ہیں۔سابق
وزیراعظم اور سابق وزیراعلیٰ ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے
قائد ہونے کی حیثیت سے ان کا تحفظ ریاست کی ذمے داری ہے۔ اگر ان رہنماﺅں کے
ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا تو اس کے ذمہ دار براہ راست الیکشن کمیشن، صدر
زرداری اور نگران وزیراعظم ہوں گے۔جبکہ اسفند یار ولی نے الیکشن کمیشن کی
طرف سے اے این پی کے رہنماﺅں کی سیکورٹی واپس لینے پر شدید تحفظات کا
اظہارکیا ہے، رہنما اے این پی سینیٹر زاہد خان نے کہا ہے کہ انتخابات میں
اے این پی کے رہنماﺅں کی سیکورٹی کو یقینی نہ بنایا گیا تو دیگر آپشنز پر
غور کریں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی انتخابی عمل میں پیش آنے والی مشکلات پر
الیکشن کمیشن کو خط لکھے گی، نگران حکومت اور الیکشن کمیشن سیاسی رہنماﺅں
کو تحفظ دینے میں نا کام ہو گئے ہیں۔ دریں اثنا الیکشن کمیشن کی طرف سے ملک
کے اہم سیاسی رہنماؤں اور پارٹی سربراہان کی سیکورٹی کے معاملات میں مداخلت
اور سیکورٹی کو کم کرنے کے احکامات پر وزارت داخلہ اور انٹیلی جنس ادارے
سرجوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ |