عالمی شہرت کے حامل ممتاز
پاکستانی ادیب ،دانش ور ،صحافی اور مدبر سید سعید اختر پیامی 8۔اپریل
2013کی شام کراچی میں خالق حقیقی سے جا ملے ۔راج گیر بہار (بھارت)میں
1931میں جنم لینے والے اس یگانہ ءروزگار فاضل نے اپنی علم دوستی ،ادب پروری
اور انسانی ہمدری کی بنا پر دلوں کو مسخر کر لیا۔ان کی وفات سے اردو صحافت
،تخلیق ادب اور تحقیق و تنقید کے ایک درخشاں عہد کا خاتمہ ہو گیا ۔وہ علم و
ادب کا ایک دبستان اور دائرةالمعارف تھے ۔ان کی وفات ایک بہت بڑاقومی سانحہ
ہے جس کے اردو زبان وادب کے فروغ کی مساعی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا
ہے۔ان کا اسلوب ان کی ذات تھا اور وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ۔ان سے مل
کر زندگی سے واقعی پیار ہو جاتا تھا۔وہ سب کے ساتھ اخلاق اور اخلاص کا بلند
ترین معیار پیش نظر رکھتے تھے ۔
کیا لوگ تھے جو راہ جہاں سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں
سید سعید اختر پیامی کا تعلق ایک معزز سادات خاندان سے تھا۔ان کے خاندان کی
علمی ،ادبی اور ملی خدمات کا ایک عالم معترف تھا۔ان کے والدین نے ان کی
تعلیم و تربیت پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔سید سعیداختر پیامی نے تاریخی
تعلیمی ادارے رانچی کالج سے گریجویشن کا امتحان امتیازی نمبر حاصل کر کے
پاس کیا۔اس کے بعد انھوں نے 1946میں پٹنہ کالج میں داخلہ لیااور یہاں سے
ایم۔اے معاشیات کی ڈگری حاصل کی ۔ان کے تما م اساتذہ ان کی محنت ،لگن ،فرض
شناسی ،قابلیت اور سعادت مندی کے معتر ف تھے۔اپنے تین بھائیوں سید سعید
انور ،شین اختر اور جابر حسین میں سب سے وہ بڑے تھے ۔والدین نے ان کو جس
شفقت سے نوازا وہ اس کے لیے ان کے ہمیشہ مداح رہے ۔وہ چاہتے تھے کہ اپنے
چھوٹے بھائیوں کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دیں ۔اس سلسلے میں انھوں نے
ہمیشہ اپنے چھوٹے بھائیوں کو سعیءپیہم کی تلقین کی اور ان پر واضح کر دیا
کہ جہد للبقا کے موجودہ دور میںہر شعبہ ءزندگی میں وہی کامیاب و کامران ہو
گا جو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائے گا۔
قیام پاکستان کے وقت سید سعید اختر پیامی اخبار مار ننگ نیوز (Morning
News)سے وابستہ تھے اور ڈھاکہ میں صحافتی خدمات انجام دے رہے تھے ۔قیام
پاکستان کے وقت وہ ڈھاکہ ہی میں مقیم رہے اس طرح وہ پاکستانی شہری قرار
پائے جب کہ ان کے خاندان کے باقی افراد نے بھارت ہی میں قیام کا فیصلہ کر
لیا۔سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ 1972میں کھٹمنڈو کے راستے کراچی پہنچے ۔یہاں بھی
وہ اسی اخبار سے وابستہ رہے ۔مارننگ نیوز میں وہ اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے
خدمات انجام دیتے رہے ۔اس کے بعد وہ ممتاز انگریزی اخبار ڈان (Dawn)میں
ملازم ہو گئے ۔جب ڈان کے نیوز ایڈیٹر فضل امام ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو ان
کی جگہ سید سعید اختر پیامی کا تقر ر کیا گیا ۔انھوں نے اس نئی ذمہ داری کو
بہ طریق احسن ادا کیا اور ان کا شمار عالمی شہرت کے حامل صحافیوں میں ہونے
لگا جو کٹھن حالات اور ہوائے جو رو ستم میں بھی حریت فکر کا علم بلند رکھتے
ہیں ۔انھوں نے جابر سلطان کے سا منے کلمہ ءحق کہنا اپنا نصب العین
بنایا۔وہ2007 کے اواخر تک ڈان سے وابستہ رہے اس کے بعد وہ ملازمت سے ریٹائر
ہو گئے اور گلشن اقبال کراچی میں اپنے فرزند پروفیسر سکندر مہدی کے ہا ں
قیام پذیر ہو گئے ۔
زمانہ طالب علمی ہی سے سید سعید اختر پیامی نے حریت فکر کے مجاہد کی حیثیت
سے اپنی پہچان پیدا کر لی ۔انھوں نے ترقی پسند تحریک سے گہر ے اثرات قبو ل
کیے ۔ان کے بعض رفقا کا کہنا ہے کہ وہ کمیونسٹ پارٹی کے منشور کو بہ نظر
تحسین دیکھتے تھے اورذہنی طور پر ان کے زیادہ قریب تھے ۔ایک روشن خیال اور
ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے انھوں نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت
ضمیر سے جینے کے لیے اسوہءشبیر ؓکو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔پاکستان میں صحافت
کو معیار و وقار کی رفعت سے آشنا کرنے کے سلسلے میں ان کی خدمات کو ہمیشہ
یاد رکھا جائے گا ۔ان کا اردو شعری مجموعہ ”آئینہ خانہ “قارئین ادب میں بے
حد مقبول ہوا۔انھوں نے ادب ،کلچر ،تاریخ ،تہذیب و ثقافت ،عمرانیات ،نفسیات
،سیاست اور معاشرے کے اہم موضوعات پر بے شمار وقیع مضامین لکھے ۔نامور نقاد
ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی نے اپنی معرکہ آرا کتاب ”اختر پیامی کی نظموں کا
تجزیاتی مطالعہ “میں ان کے اسلوب کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا ہے ۔یہ اہم
کتاب جسے ایجوکیشن پبلشنگ ہاﺅس دہلی نے 2008میں شائع کیا ،اسلوبیاتی تنقید
میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔اس کتاب کے مطالعے سے سید سعید اختر پیامی
کی شاعری اور اسلوب کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے میں مدد
ملتی ہے ۔سید سعید اختر پیامی نے اپنی تنقیدی تحریروں سے اردو تنقید کی
ثروت میں اضافہ کیا۔نامور شاعر کیفی اعظمی کی کلیات ”کیفیات “پر ان کا پر
مغز تبصرہ ان کی تنقیدی بصیرت کا ثبوت ہے ۔وہ ایک وسیع المطالعہ ادیب ،نقاد
اور محقق تھے ۔انھوں نے عالمی کلاسیک کا بہ نظر غائر جائزہ لیااور کے اہم
پہلوﺅں کو اردو ادب میں رو بہ عمل لانے کی سعی کی ۔
سید سعید اختر پیامی نے ہر صنف ادب میں طبع آزمائی کی ۔انھوں نے ریڈیو کے
لیے جو سکرپٹ تحریر کیے انھیں بہت پذیرائی ملی ۔وہ زیڈ ۔اے بخاری کے مداح
تھے ۔ان کے معاصرین میں نصیر حیدر ،قطب الدین عزیز ،افسر ماہ پوری ،پروفیسر
انعام الرحمٰن ،سید جعفر طاہر اور شمیم علوی کے نام قابل ذکر ہیں ۔وطن ،اہل
وطن اور پوری انسانیت کے ساتھ انھیں قلبی لگاﺅ اور والہانہ محبت تھی ۔زمانہ
طالب علمی ہی سے وہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے کوشا ں رہے ۔ترقی
پسند تحریک کے زیر اثر انھوں نے متعدد بار مظلوموں ،محنت کشوں اور محروم
طبقے کی حمایت میں نکلنے والے جلوسوں میں شرکت کی ´ظالم کسی صف میں بھی ہو
وہ ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا ضروری سمجھتے تھے ۔وہ جانتے تھے کہ ظلم سہنا اور
اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرنا منافقت کی دلیل ہے ۔وہ اپنے ما فی
الضمیر کو بر ملا بیان کرتے اور کسی مصلحت کا شکار نہ ہوتے تھے ۔الفاظ کو
فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کے مسلک کے خلاف تھا۔انھوں نے آزادیءتحریر
کو انسانی آزادی کے لیے نا گزیر قراردیا ۔ان کی بات دل سے نکلتی ہے اور
سیدھی دل کی گہرائیوں میںاترتی چلی جاتی ہے ۔ان کی تحریروں میں قلب اور روح
کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثرآفرینی قاری کو حیرت زدہ کر دیتی
ہے ۔
سید سعید اختر پیامی کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن ایک بات کا
انھیں ہمیشہ قلق رہا کہ وہ اپنے بھائیوں سے جدا ہو گئے ۔اپنی جنم بھومی سے
انھیں بہت محبت تھی ۔اس کا سبب یہ تھا کہ ان کے خاندان کے زیادہ تر افراد
اب بھی بھارت میں مقیم ہیں ۔1992میں وہ اپنے بچھڑے ہوئے عزیزوں سے ملنے کے
لیے پٹنہ گئے ۔اس مو قع پر انھوں نے کہا:
قصہءکاکل و رخسار لیے آیا ہوں
عشق کی گرمیءبازار لیے آیا ہوں
مجھ کو سینے سے لگا لے مرے محبوب وطن
اپنا ٹوٹا ہوا پندار لیے آیا ہوں
یاد ماضی ان کے لیے مو ج نسیم کے مانند تھی کہ ا دھر آئی اور ادھر چلی
گئی۔ان کے چلے جانے کے بعد ادبی محفلیں ویران دکھائی دیتی ہیں ۔دنیا بھر
میں ان کے لاکھوںمداح شدت غم سے نڈھا ل ہیں ۔دام غم حیات میں الجھے یہ الم
نصیب تقدیر کے ستم سہنے پر مجبور ہیں ۔اللہ کریم سید سعید اختر پیامی کو
جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے مداحوں کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ان کی
جدائی کے اس جان لیوا صدمے کا علاج وقت ہی ہے ۔رنج و غم کے اس عالم میں ان
کی یاد کئی بھولی بسی باتوں کو سامنے لاتی ہے ۔
ہر درد محبت سے الجھا ہے غم ہستی
کیا کیا ہمیں یاد آیا جب یاد تری آئی |