غازی ملت راجہ محمد حیدر خان کا جا نشین

لکھ ہزار بہار حن دی اندر خاک سمانی
لا اجہی پریت محمد جگ وچ رہے کہانی
اللہ تعالیٰ بعض شخصیات کو خصوصی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نواز کر اپنی مخلوق کی رہنمائی اور خدمت کے لیے مامور کرتا ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ ایسی بہت سی عظیم شخصیات کا کوئی نعم البدل ہوتا ہے نہ جانشین جو پیدا ہونے والے خلا کو پر کر سکے ۔اسی طرح قائد اعظم اور ٹیپو سلطان کا نعم البدل پیدا نہ ہو سکا لیکن ان کا کردار ہمیشہ کے لیے زندہ اور تابندہ رہے گا ۔بالکل سچ کہا گیا ہے کہ بدن کی موت سے کردار مر نہیں سکتا ان ہی لازوال کردار کی عملی تصویر غازی ملت راجہ محمد حیدر خان تھے جن کی ہم آج 47ویں برسی پر انہیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں ۔راجہ محمد حیدر خان مرحوم ہمہ جہت خوبیوں کے حامل بلند مقرر امنی زات میں انجمن ،نہایت خوش و گفتار ،دلیر و خود دار ،قول و فعل کا پکا و سچا ہر دلعزیز اور پر عزم رہنے والا لیڈر 47سال قبل ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا لیکن انہیں بھولے نہیں ان کا نام اسی عزت احترام سے اب بھی لے رہے ہیں ۔جس طرح ان کی زندگی میں لوگ انہیں دل کی گہرائیوں سے چاہتے تھے اور اپنا سچا قائد مانتے تھے ۔راجہ صاحب مرحوم بڑی پر وقار پر کشش اور خودار شخصیت کے مالک تھے ۔1932میں جب وہ سری پرتاب سنگھ کالج سری نگر میں داخل ہوئے اس وقت ریاست میں آزادی کی مختلف تحریکوں نے جنم لے لیا تھا چنانچہ راجہ صاحب طلباءکی متعدد احتجاجی تحریکوں کی قیادت کرتے رہے ابھی زیر تعلیم تھے کہ جب انہیں ہندوستان کی معروف اکیڈمی ڈیرہ دون بھیج دیا گیا تربیت مکمل کرنے کے بعد وہ محکمہ جنگلات گلبرک کے علاقہ میں بطور فاریسٹ آفیسر تعینات کیے گئے ۔محکمہ جنگلات کی ملازمت اس وقت ریاست کی رائل سروس مانی جاتی تھی ۔گلمرگ کا علاقہ ساحت کے نقطہ نظر سے صحت افزاءمقام اور بہت ہی دلفریب و خوبصورت علاقہ تھا ۔جہاں برصغیر کے بڑئے بڑئے لوگ سیر و تفریح کی غرض سے آتے اور قیام کرتے تھے گلمرگ میں ہی راجہ صاحب کی ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح اور برصغیر کی نامور اعلیٰ شخصیات سے ہوتی رہی جس باعث ان کی شخصیت میں اور بھی نکھار آگیا ۔انہیں بڑئے بڑئے نامور قائدین کی مہمان نوازی کا شرف بھی حاصل ہوا اس سے قبل مہاراجہ کشمیر نے ان کی شخصیت اور کردار سے متاثر ہو کر انہیں خصوصی طور پر افسر مہمانداری کے فرائض بھی سونب دیئے جس کا انہوں نے بھر پور استفادہ کیا بخشی غلام محمد سے بھی ان کے گہرئے مراسم رہے آزادی سے اک سال قبل ایک دفعہ بخشی صاحب نے راجہ محمد حیدر خان کو اپنا ایک خواب بتایا جواب میں راجہ صاحب نے کہا اس خواب کی تعبیر یوں ہے کہ یقینا اب پاکستان بن جائے گا۔اسی پربخشی غلام محمد نے کہا تھا پاکستان بننے کی ہمیں کوئی خاص فکر نہیں ہمیں افسوس اس بات کا ہوگا آپ جیسی شخصیت ہم سے جدا ہو سکتی ہے ۔جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کا قیام ضروری ہے شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں ۔آزادی کے بعد وہ مظفرآباد میں بطور DFOتعینات تھے اس عرصہ کے دوران محمد ابراہیم خان کو آزاد کشمیر کی صدارت سے غیر آئینی طریقہ سے سبکدوش کر دیا گیا اس سبکدوشی پر آزاد کشمیر میں احتجاج جاری تو تھا لیکن اس میں جوش و خروش کم دیکھ کر مرحوم راجہ صاحب خاموش تماشائی بنے رہنے کے بجائے اعلیٰ ملازمت کی پرواہ کیے بغیر سیاست کے میدان میں کود پڑئے اور ایک احتجاجی جلسہ کی قیادت کی جس کی پاداش میں انہیں ملازمت سے ہٹا دیا گیا اور انہیں جیل بھی جانا پڑا لیکن وہ گھبرائے نہیں راجہ صاحب سیاست کے میدان میں نمود و نمائش کے قائل نہیں نہ تھے نہ وہ جاہ و حشمت کے طلب گار تھے کنبہ پروری کے ازلی دشمن تھے مشکل ترین حالات میں وہ دو مرتبہ مسلم کانفرنس کے صدر رہے اور ان کی زیر سر پرستی 1958میں کشمیر لبریشن مومنٹ (KLM)کا آغاز اس شدت سے ہوا کہ جس نے حکمرانوں کے مردہ ضمیر کو جنجھوڑ کر رکھ دیا ۔اس تحریک کے نتےجے میں وہ چوہدری غلام عباس مرحوم ،کے ایچ خورشید ،سردار عبدالقیوم خان ،غازی الہیٰ بخش مرحوم ،شیخ بشارت احمد،سردار فروز دین مرحوم اور سردار عالم مرحوم کے ہمراہ گرفتار ہوئے اور انہیں چھ ماہ تک پابند سلاسل رکھا گیا لیکن ان کی فکر اور سوچ میں زرا بھی لغزش نہ آئی رہائی کے بعد ان کی عزت و توقیر میں اور اضافہ ہوا ۔اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ایک طویل انتظار کے بعد راجہ محمد فاروق حیدر خان کی صورت میں کشمیری عوام کو راجہ محمد حیدر خان کا جانشین مل گیا ہے جو اپنے عظیم باپ کے نقش قدم پر چل کر آزادکشمیر کے لیے اسی جذبے کے ساتھ ایک باوقار اور بااختیار حکومت کے قیام کی جدو جہد میں مصروف عمل ہے ۔راجہ فاروق حیدر کے چند دلیرانہ اقدامات سے لوگوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور برملا ان کے بارئے میں لوگ یہ کہتے ہیں ،،تیرئے لفظوں سے ہیں ایوان لرزاں ،،خاص کر ایکٹ 1974میں ترمیم تعمیر نو کے 55ارب روپے کی واپسی کا معاملہ اور گلگت بلتستان کی آئینی حثیت پر انہوں نے موژر آواز اٹھائی جو آزاد کشمیر کے لاکھوں لوگوں کی دل کی آواز ہے ۔عوام کو اطمینان حاصل ہے کہ اب نہ کے حقوق کوئی غصب کر سکے گا اور نہ دارلحکومت منتقل کرنے کی کوئی جرات کرئے گا ۔نوجوان طبقہ کی معلومات کے لیے یہ زکر بھی ضروری ہے کہ راجہ محمد حیدر خان نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک ایکٹ 1960اور ایکٹ 1964کو تسلیم نہیں کیا۔اور نہ اس وقت کے آمر جنرل محمد ایوب خان کو پاکستان کا آئینیصدر تسلیم کیا ۔اگر راجہ صاحب مرحوم اپنے موقف میں زرا سی لچک پیدا کرتے یا کمپرومائز کر لیتے تو بڑی آسانی کے ساتھ آزاد کشمیر کی صدارت حاصل کر سکتے تھے ۔لیکن ان کا مشن آزاد کشمیر کے لیے ایک با وقار اور بااختیار حکومت کا حصول جس پر وہ قائم رہے اور مرتے دم تک وہ اسی جدو جہد میں مصروف عمل رہے ۔مرحوم نے مسلم کانفرنس کے ایک سالانہ کنونشن میں دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ یہ ایکٹ 1964ہمارئے لیے ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے جس کو ہمیشہ ردی میں پھینکا جاتا ہے ۔اسی وقت کارکنوں نے ایکٹ 1964کے اوراق اٹھائے اور جلسہ عام میں انہیں پھاڑ کر اپنے پاﺅں تلے روند دیا تھا۔1965میں مرحوم راجہ ممد حیدر خان نیلم ویلی میں تھے جب جنگ کا آغاز ہوا بڑئے بڑئے سیاسی قائدین نے جنرل محمد ایوب کے اقدامات کی تعریفیں شروع کر دیں لیکن 1965کی جنگ کے بارئے میں مرحوم نے بڑا جاندار موقف اختیار کیا۔بطور صدر مسلم کانفرنس انہوں نے کہا تھا یہ جنگ جنرل ایوب خان کی ناقص حکمت عملی اور اس کے غیر آئینی اقتدار کو دوئم دینے کی سازش اور بہانہ ہے۔چنانچہ 1965کی جنگ میں افواج پاکستان نے اپنے زور بازو سے جو کچھ حاصل کیا تھا حکمراں اسے تاشقند میں ہار کر واپس لوٹے تھے ۔راجہ محمد حیدر خان کی طرح ان کے بیٹے راجہ محمد فاروق حیدر کو بھی بڑئے بڑئے چیلنجز کا سامنا ہے۔اور وہ وزیر اعظم آزاد حکومت سے سابق وزیر اعظم اور بعد ازاں قائد حزب اختلاف اس دوران وہ بہت کچھ سیکھ چکے تھے اور سیاسی گیمز بڑی ہوشیاری اور خوش اسلوبی سے کھیل رہے ہیں ان سے چند کارکنوں کا یہ بھی شکوہ ہو سکتا ہے کہ وہ ان کے لیے وقت نہیں نکال سکتے ۔لیکن اگر کارکن تھوڑئے حوصلے کے ساتھ انہیں وقت دیں تو پورئے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ یہ گلہ بھی دور کر دیں گئے کیونکہ راجہ فاروق حیدر ضان کافی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں ان کے سامنے بھی یہی عظیم مشن ہے جس مشن کو مرحوم راجہ محمد حیدر خان ادھورا چھوڑ گئے لیکن اب چمن میں راجہ فاروق حیدر خان کی صورت میں دیدہ پیدا ہو چکا ہے ۔جو آزاد کشمیر میں ایک با وقار اور با اختیار حکومت کے قیام کے لیے فیصلہ کن راﺅنڈ کھیلنے والا ہے لوگوں کی دعائیں اور پوراتعاﺅن ان کے ساتھ ان شاءاللہ شامل رہے گااللہ تعالیٰ انہیں نیک مقاصد میں کامیاب اور کامران کرئے۔
مسکرائے جان بہاراں کہ سویرا ہو گا ۔
ختم برسوں کے رواجوں کا اندھیرا ہو گا۔
Zia Sarwar Qurashi
About the Author: Zia Sarwar Qurashi Read More Articles by Zia Sarwar Qurashi: 43 Articles with 42237 views

--
ZIA SARWAR QURASHI(JOURNALIST) AJK
JURA MEDIA CENTER ATHMUQAM (NEELUM) AZAD KASHMIR
VICE PRESIDENT NEELUM PRESS CLUB.
SECRETORY GENERAL C
.. View More