جرائم پیشہ گروہ اور نوجوانوں کا بھیانک استعمال

طلبہ یونین پر پابندی اور ضیاء الحق کی جانب سے طلبہ اور نوجوانوں کی سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ کئے جانیوالے بیہودہ سلوک نے بے شمار مسائل کو جنم دیا۔ ایک طرف حکمران طبقات کے نسل در نسل سیاست پر قبضے کے عمل کو سہل بنا دیا گیا اور دوسری جانب نوجوان نسل کو حکمرانوں کی عیاشیوں اور لوٹ مار کے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ اسی عمل نے معاشی اور سماجی حالات سے تنگ نوجوانوں کی بڑی تعداد کو حکمرانوں کیلئے خام مال کے طور استعمال ہونے پر مجبور کیا اور ہمیں مختلف حکمران سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کے ساتھ منسلک ایسے گروپ وجود میں آتے ہوئے دکھائی دیئے جن کا کام جرائم پیشہ سرگرمیوں کے ذریعے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملانا اور سیاسی شخصیات اور پارٹیوں کی سرپرستی میں منشیات کے دھندے سمیت اغواء ، بھتہ خوری، جائیدادوں پر قبضے ، لوٹ مار اور مختلف نوعیت کے فسادات برپا کرنا ، قتل و غارت گری کرنا ہوتا ہے۔ ایسے گروپ پاکستان کے تمام ہی شہروں میں موجود ہیں اور اپنی سرگرمیاں کھلے عام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ قانون نافذ کرنیوالے ادارے انکے خلاف کارروائی کرنے سے کتراتے اور اس لوٹ مار میں اپنا حصہ وصول کر کے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر روز کئی نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دو بیٹھتے ہیں، ہر روز عزتیں لٹتی ہیں، امیدیں ٹوٹتی ہیں، لوگ جائیدادوں سے محروم ہوتے ہیں اور در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا ہی جا رہا ہے۔جب تک یہ خونی معاشی ڈھانچہ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا، حکمران تبدیل ہونگے، حکمرانوں کی نسلیں تبدیل ہونگی، محرومیاں جب تک موجود ہیں پاکستان کے ہر شہر، ہر گلی ، ہر کوچے سے محرومیوں سے تنگ نوجوان اس دلدل میں دھنستے رہیں گے اور حکمران طبقات ان گروپوں میں شریک نوجوانوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر کے پولیس کی گولیوں کا شکار بننے پر مجبور کرتے رہیں گے۔ پچھلے سارے عرصے کے واقعات کو دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں اور سرپرست شخصیات سمیت دیگر حلقوں کے مفادات کیلئے غریب عوام پر خوف بن کر ایک وقت تک مسلط جبکہ حصوں اور علاقوں کی بندر بانٹ پر مختلف گروپ آپس میں دست و گریباں رہتے ہیں جس کے نتیجے میں یا تو یہ آپسی تصادم کے دوران ایک دوسرے کی گولیوں کا شکار ہو جاتے ہیں یا سرپرستوں کی ضروریات پوری کر لینے کے بعد پولیس کارکردگی کے نام پر سرکاری گولیاں انکے سینے چیر جاتی ہیں۔

راولپنڈ ی اسلام آباد میں بھی سیاسی جماعتوں اور انکی ذیلی تنظیموں کے زیر سایہ چلنے والے اس طرح کے جرائم پیشہ گروہ خاصی تعداد میں موجود ہیں اور منشیات فروشی سمیت دیگر جرائم کھلے عام کر رہے ہیں، گزشتہ عرصہ میں ہونیوالے مختلف واقعات میں کئی نوجوان ان جرائم پیشہ عناصر کے کھلے عام شکار بنے، کئی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو کئی موبائل، نقدی اور دیگر قیمتی اشیاء سے محروم ہو گئے، ان جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں سر انجام پانے والا ہر ایک واقعہ مختلف نوعیت کے سیاسی ، معاشی اور انتظامی عزائم کی تکمیل کا باعث بنتا ہے۔ گزشتہ سال سکیم تھری کے علاقہ میں اسی طرح کے ایک گروپ جس کی قیادت آزادکشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد کا رہنے والا ایک نوجوان کر رہا تھا کے ہاتھوں ضلع پونچھ کے علاقہ سردی بھالگراں کا ایک نوجوان قتل ہوا اور اس قتل کے فوراً ہی بعد مذکورہ گروپ کے سرغنہ کو بھی مقتول کے بھتیجے نے گولی مار کرقتل کر دیا لیکن یہ سلسلہ وہیں ختم نہیں ہوا اپنے گروپ کے سرغنہ کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے مذکورہ گروپ کے کارندوں نے اسی خاندان کے ایک اور نوجوان کو اسوقت گولیاں مار کر قتل کر دیا جب وہ اپنے موٹر سائیکل پر کام کی غرض سے جا رہا تھا۔ اس ساری واردات کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما تھے اس کا تاحال پتہ نہیں لگایا جا سکتا اور یہ کیس بھی پولیس کی فائلوں میں غرق ہو گیا۔ جرائم پیشہ گروہ نے اپنا نیا سربراہ چن لیا اور اس علاقے کی ایک بڑی سیاسی شخصیت کے مقاصد کی تکمیل کیلئے غریب عوام کے سروں پر دہشت اور خوف کا سلسلہ چلتا رہا، ایک اور قتل حال ہی میں راولپنڈی کی ایک جامعہ میں زیر تعلیم پونچھ کے سرحدی علاقہ ککوٹہ کے رہائشی معیظ نامی نوجوان کا ہوا جس میں مری روڈ کے ایریا میں ایک سیاسی تنظیم کے زیر اثر چلنے والے جرائم پیشہ گروہ کے کارندوں کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ میڈیا پر آنیوالے حالات و واقعات کے پیش نظر یہ جرائم پیشہ عناصر نشے کی حالت میں ہاسٹل کے پانی کے ٹینک میں پیشاب کر رہے تھے ، اس حرکت سے روکنے پر انہوں نے طالب علم کو قتل کر دیااور جو قتل جرائم پیشہ عناصر نے علاقہ میں اپنی دہشت اور خوف کو مسلط کرنیکی غرض سے کیا اس نے کئی ایک سیاسی عزائم کے حصول کی راہ بھی ہموار کی اور پاکستانی قوم کی جانب سے کشمیری قوم پر کئے جانیوالے ظلم و جبر کی کہانی کو انسانی ذہنوں پر مسلط کئے جانے کے عمل کو تیز کرنے کیلئے مردہ سیاسی اجسام حرکت میں آگئے ،بیرون ممالک سیاسی پناہ کے کاروبار سمیت دیگر سیاسی اور معاشی مفادات کے حصول کیلئے ایک میڈیا وار کا آغاز کر دیا گیا۔

پاکستان جو پینسٹھ سالوں میں ایک قوم کی شکل میں ابھرنے کی اہلیت وصلاحیت سے عاری رہا اور پوری ریاست قومیتوں کے ایک جیل خانہ کی صورت میں دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ اس ملک میں بسنے والے غریب عوام حکمرانوں کے جبر و استبداد، سامراجی اداروں کی لوٹ مار کا شکار ہوتے ہوئے کسمپرسی کی حالت میں زندگیاں گزار رہے ہیں اور قومی محرومی سمیت معاشی اور سیاسی محرومیوں کا شکار ایک عبرتناک صورتحال سے دو چار ہیں ۔وہ کسی دوسری قوم کی قومی آزادی کو کیسے صلب کر سکتے ہیں؟ دوسری جانب ان پر مسلط حکمران ہیں جو بلا رنگ ، نسل، قوم، علاقہ، قبیلہ یکجا ہو کر کشمیر کے پہاڑوں سے لیکر سندھ کے صحراؤں تک بسنے والے تمام عوام کو قوموں، علاقوں، قبیلوں، نسلوں، فرقوں اور مذاہب میں تقسیم در تقسیم کرتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں سرگرم دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کر رہے ہیں۔ اس تقسیم در تقسیم کو مزید تقویت پہنچانے کیلئے حکمران طبقات نے اپنے ہی گماشتے پال رکھے ہیں جو مظلومیت کا رونا رو کر اپنے مقاصد کے حصول میں مگن ہیں۔ یہ قبضہ گروپ اور جرائم پیشہ گروہ بھی انہی حکمرانوں اور ان کے نظام کے پیدا کردہ ہیں جو براہ راست معاشی اور سماجی مسائل سے تنگ نوجوانوں کو لوٹ مار کے اس ننگے کھیل میں جھونک رہے ہیں۔ دونوں اطراف غریب نوجوانوں کا قتل عام ہو رہا ہے اور حکمران نسل درنسل اپنی حکمرانی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

معیظ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور اپنے گھر سے کوسوں دور علم کی دولت سے روشناس ہونے کیلئے راولپنڈی کے ایک ہاسٹل میں مقیم تھا۔ اسکے بھی بہت سے ارمان تھے جنہیں پورا کرنے اور اپنے والدین کی محنت کا صلہ دینے کیلئے وہ سرگرم عمل تھا اور اس جیسے کئی اور نوجوان اپنی اور اپنے والدین کی امیدوں اور ارمانوں کو پورا کرنے کی خواہش اور جستجو میں ان دیکھی گولیوں کا شکار ہو چکے ہیں اور انکے قتل مختلف سیاسی اور معاشی مفادات کے حصول کا باعث بنتے چلے گئے، یہ تقسیم در تقسیم کے بیوپار آخر کب تک چلیں گے؟ کتنے اور نوجوان قربان ہونگے؟ کتنے والدین اپنی زندگی کی جمع پونجی ایک ہی لمحے میں گنوا دینگے؟ کتنی مائیں اپنی اولادوں سے محروم ہونگی۔۔۔؟

سندھ کے صحراؤں سے کشمیر کے پہاڑوں تک بسنے والے تمام نوجوانوں اور محنت بیچنے والے غریب عوام کے دکھ ایک ہیں، تکالیف و مسائل ایک ہیں، بھوک وہاں بھی ہے اور یہاں بھی، بیروزگاری کی اذیت بھی ایک، قومی محرومی بھی اور لوٹ مار ، استحصال کرنیوالے ہمارے دشمن بھی ایک ہیں، ان دہشت پھیلانے والے عناصر کو پیدا کرنیوالے بھی وہی ہیں اور ان کی گولیوں کا شکار ہونیوالے نوجوان، بڑے ، بوڑھے، عورتیں اور بچے کسی بھی شہر، محلے، گلی، کوچے، علاقے یا قبیلے کے ہو سکتے ہیں۔ یہ معاشی اور سیاسی ڈھانچہ اسقدر بوسیدہ ہو چکا ہے کہ ان سب مصائب و اذیتوں کے علاوہ انسانیت کو اورکچھ نہیں دے سکتا اور اس قتل و غارتگری سے نجات بھی مشترک لڑائی کے بنا ممکن نہیں، اس گماشتگی کے سلسلے کو توڑنے کیلئے نوجوانوں اور محنت کشوں کو یکجا ہونا ہوگا، علاقے ، قوم، قبیلے، رنگ، نسل ، مذہب کی تفریقوں کو پھیلانے والے عناصر کا قلع قمع کرتے ہوئے اس نظام کیخلاف ایک مشترک جدوجہد ہی محرومیوں کے خاتمے کا باعث ہو سکتی ہے اور معیظ جیسے ہزاروں طالب علموں کے قتل کا انتقام بھی اسی صورت ممکن ہے۔

Haris Qadeer
About the Author: Haris Qadeer Read More Articles by Haris Qadeer: 8 Articles with 5319 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.