پاکستان کے صوبے سندھ میں کراچی
شہر سیاسی نوعیت کے اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیشہ اقتدار کی
تبدیلی کے ساتھ یہاں کے عوام کو یہ امید رہتی ہے کہ یہاں حالات اور خاص طور
پر لا اینڈ آرڈر کی کی صورتحال میں بہتری آئے گی ۔ عالمی برادری اور یہاں
کے عوام کی نظروں میں یہاں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔
اقتدار والے اقتدار میں آکر اپنے اقتدار کے حالات تو درست کر لیتے ہیں مگر
کراچی کے حالات کو مزید بگاڑ دیتے ہیں۔ اب حال یہ ہے کہ سیکوریٹی اہلکار
بھی اس پر قابو پانے میں ناکام ہو رہے ہیں اور وہ بھی حملوں میں ہلاک ہو
رہے ہیں۔ اکثر و بیشتر ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں جن کی مہذب سماج اور
جمہوریت میں کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ حکومت اس طرح کے واقعات پرقابو پانے
اور اور اُن پر لگام کسنے میں ناکام ہی رہتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی
جماعت کے کارکنوں اور سادہ لوح عوام کا قتل اور حملے عام سی بات ہوگئی ہے۔
اور اقتدار کے متوالے اس کے نشہ میں اس قدر چور ہو گئے ہیں کہ وہ جمہوری
اصولوں کی پرواہ کرنے تک کو تیار نہیں ہیں۔ پورے ملک میں غنڈہ عناصر قانون
اور جمہوریت کی دھجیاں اُڑانے پر تلے ہوئے ہیں مگر کوئی بھی ایکشن کو تیار
نہیں۔ اور اگر ایکشن واقعی کیا جا رہا ہے تو امن قائم کیوں نہیں ہو تا۔ یہ
عوامی مفاد کے تعلق سے دوغلی پالیسی اور دہرے معیار کو ظاہر کرنے کے لئے
کافی ہے۔ شہر میں روزآنہ پندرہ بیس لاشیں گرا دی جاتی ہیں اور سخت ایکشن
دیکھنے میں ہی نہیں آتا۔ اس رویہ میں تبدیلی کی ضرورت ہے کیونکہ جمہوریت
میں اس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
ریاست کے حالات میں تبدیلی لانے کی امید کے ساتھ عوام ووٹ دیتے ہیں ۔ انہیں
یہ امید ہوتی ہے کہ عوامی مسائل پر خود کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے گا
اور اقتدار ملنے پر حقیقی معنوں میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں
گی اور ریاست میں نظم و قانون کی صورتحال میں بہتری لانے کے لئے اقدامات
کئے جائیں گے۔ حکمران عوام کی ان اُمیدوں کو پورا کرنے پر توجہ دینے کی
بجائے خود جارحانہ تیور اختیار کئے ہوئے ہیں۔خدارا جب اُس وقت سے ڈریں جب
عوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے۔
عالمی سطح پر سیاسی لیڈروں کو اقتدار کی بھوک ہوتی ہے ان سیاسی لیڈروں کو
اگر اقتدار حاصل نہ ہو تو یہ آنے والے الیکشن کا انتظار کرتے ہیں اور یہ
انتظار ہی ان کو بے چین کر دیتا ہے۔ لیکن الیکشن کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنے
کی بھوک اور بے چینی پاکستان میں بہت زیادہ ہوتی ہے اور اقتدار کے لئے جہاں
بھوک اوربے چینی ہوتی ہے تو وہاں قوم و ملک کے لئے حب الوطنی کا جذبہ قطعی
طور پر نہیں ہوتا یعنی خود غرضی اور مطلب پرستی پر مبنی سیاسی طور پر جو
بھی ان لیڈروں کا عمل ہوتا ہے وہ ہمیشہ ہوتاہے۔ ہر پارٹی کا ایک سیاسی وقار
ہوتا ہے سیاسی مقام ہوتا ہے جس کے باعث اس لیڈر کو اپنی حیثیت کا احساس
ہوتا ہے مگر ان لیڈروں کو عوام کا احساس نہیں ہوتا ، ایسا کیوں ہوتا ہے اس
کا جواب بھی یہی لوگ دے سکتے ہیں۔ عوامی نعرے تو سب ہی لگاتے ہیں مگر عوام
کی داد رسی کوئی نہیں کرتا۔ ملک میں امن و امان کے بارے میں بہت کچھ لکھا
جا چکا ہے مگر میں اس کی تفصیل میں نہیں جاﺅں گا بس اس شعر پر اکتفا کروں
گا اور یہ شعر کے پڑھنے سے ہی امن و امان کا سب کو سمجھ آ جائے گا۔
کیا زمانہ آگیا ہے دہشت گری پیشہ بنی
اشتہار آنا ہے باقی بس کسی اخبار میں
لوگ جس رفتار سے اپنا رہے ہیں فیلڈ یہ
مین پاور کی کمی ہو جائے گی بازار میں
آج عوام کے لئے اس ملک میں روزگار نہیں ہے لوگ ڈگریاں ہاتھوں میں لئے جا
بجا پھرتے نظر آتے ہیں کہ شاید کہیں روزگار میسر آجا ئے ۔ امن و امان کی
صورتحال نہایت ابتر ہے۔ کوئی بھی شخص عام ہو یا خاص اپنے آپ کو محفوظ تصور
نہیں کر تا۔ مہنگائی کے بادل بارش کی صورت عوام پر برس رہی ہے ۔ انڈسٹریاں
بند ہو رہی ہیں اور کچھ دوسرے ملکوں اور شہروں میں ہجرت کر چکی ہیں اور کچھ
ہجرت کے لئے پَر تول رہے ہیں ۔ بہت سی جگہیں ایسی ہیں جہاں عوام کو پینے کے
لئے صاف پانی بھی میسر نہیں مگر اقتدار والے ولایتی اور ڈبہ بند پانی پی
رہے ہیں۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی اپنے عروج پر ہے۔ ملک میں بجلی نہیں ہے جس
کا جیتا جاگتا ثبوت طویل لوڈ شیڈنگ ہے،ایسے میں عوام آپ کو ظالم نہ کہیں تو
پھر کیا کہیں۔ آپ کی مثال تو ایسی ہے کہ:
کرے گا کون بجلی اور مہنگی
اگر دوبارہ ہم آتے نہیں ہیں
کرے گا کون اتنی لوڈ شیڈنگ
اگر تشریف ہم لاتے نہیں ہیں
لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ عوام کے لئے نہ یہاں انصاف ہے اور نہ ان
کی داد رسی ہے جب تک ظالم خواہ وہ کسی بھی سطح کے ہوں ان کو سزا نہیں دی
جائے گی انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے تو پھر امن و امان آخر کیسے آئے
گا؟ دہشت گردی، تشدد اور ہر طرح کی بدامنی کی اصل جڑ یہ سزا کا نہ ملنا ہی
ہے جس سے ان عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ ببانگِ دہل اپنے کرتوت
جاری رکھتے ہیں۔ حکومت اگر ستم گر ہو جائے صرف حکمرانی کے لئے سب کچھ کرے
تو ظاہر ہے ظالموں کو کیسے سزا مل سکتا ہے کیونکہ عوام تو کمزور ہیں مظلوم
ہیں ان کو ظالموں سے نجات دلانے کا کام تو حکمرانوں کا ہی ہے مگر حکومتیں
بھی ظالم ہو گئی ہیں جو عوام کو اپنا غلام اور اپنا نوکر چاکر بنا کر رکھنا
پسند کرتی ہے۔ جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو عوام کو بنیادی سہولتوں کے ساتھ
ساتھ امن و امان بھی مہیا کرنا ضرور ہے کہ اسی امن و امان کو عوام ترس رہے
ہیں۔لیکن سیاسی وقعت کو اگر آپ نے کھو دیا تو عوام کی نظروں میں آپ کی وقعت
بھی ختم ہو جائے گی۔ فخرو بھائی نے بیلٹ پیپر میں ایک خالی خانے کا اضافہ
کرنے کا اعلان کیا تھا مگر پھر بوجوہ کسی دباﺅ کے اسے اب روک دیا گیا ہے۔
آج عوام یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ یہ خالی خانہ ضروری ہے تاکہ
حکمرانوں کو اور نئے اقتدار میں آنے والوں کو یہ پتہ چل سکے کہ عوام کیا
چاہتی ہے۔ اکثر لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں یہ خالی خانہ ہونا چاہیئے اور گیارہ
مئی کو جب نتیجہ نکلے تو اس میں آج کل کی صورتحال کے پیشِ نظر خالی خانہ پر
زیادہ مہریں آپ کی دیدہ حسرت کو چاک کر دے گا۔اس جملے سے آپ اندازہ لگا
سکتے ہیں کہ عوام کس قدر بد ظن ہو چکی ہے کہ خالی خانہ پر مہر ثُبت کرنے پر
بھی آمادہ ہیں۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ اب عوام کو صاف ستھرے لوگ اقتدار میں
چاہیئے تاکہ وہ عوام اور ساتھ ساتھ ملک کا بھلا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔اس
شعر پر کلام کا اختتام چاہوں گا کہ
جب سے ظالم کو کہہ دیا ظالم
بارشِ سنگ میری راہ میں ہے |