نجات دہندہ کا انتخاب قومی تدبر کا امتحان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

قائد اعظم جیسا تو ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جولائی 1942 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران جب برطانوی افواج نے” الامین “کے مقام پر نازی فوج کی پیش قدمی کو روک دیا، تواِس کامیابی کے باوجود برطانوی وزیر اعظم چرچل نے مشرق وسطیٰ میں اپنے عسکری کمانڈروں کو تبدیل کر دیا اور جنرل سر ہیرالڈ ایلیگزانڈر کو مشرق وسطیٰ میں برطانوی افواج کا کمانڈر انچیف جبکہ لیفٹننٹ جنرل سر برنارڈ ایل منٹگمری کو آٹھویں فوج کا کمانڈر مقرر کر دیا، جنرل منٹگمری نے اِس جنگ میں اتحادی افواج کے سپریم کمانڈر کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے 23 اکتوبر 1942 کو جرمن افواج کے کمانڈر جنرل ایرون رومل کی فوج کو شکست فاش دی اور نازیوں کے بڑھتے ہوئے قدم اکھیڑ دیئے ،اُس نے جرمنی اور جاپان جیسی طاقتوںکو برطانوی سپاہیوں کے آگے سرنگوں ہونے پر مجبور کردیا،جنرل منٹگمری کی جنگی حکمت عملی آج بھی دنیا بھر میں عسکری نصاب کا حصہ ہے،اُس نے یہ جنگیں اپنے درست فیصلوں، بہترین جنگی چالوں اور اعلیٰ قائدانہ صلاحیت کی بنیاد پر جیتیں ، قوم نے اُسے اِن اعلیٰ خدمات پر فیلڈ مارشل کے خطاب سے نوازا۔

فیلڈ مارشل منٹگمری نے ساری زندگی سادگی سے گزاری، وہ شراب اور سگریٹ کو ہاتھ تک نہ لگاتا تھا، بڑی بڑی آرام دہ کاروں کی بجائے ہمیشہ فوجی جیپ میں سفر کرتا، اُس کے پاس اپنا ذاتی گھر تک نہیں تھا،ریٹائرمنٹ کے بعد اُس نے اپنی بقیہ زندگی کرائے کے مکان بدلتے گزاری،کبھی اِ س جگہ اور کبھی اُس جگہ،جب بار بار کی نقل مکانی سے تنگ آگیا تو ایک دن برطانوی وزیر اعظم کی خدمت میں حاضر ہوا، وزیر اعظم نے ٹین ڈاوننگ اسٹریٹ کے صدر دروازے پر قوم کے اِس عظیم ہیرو کا استقبال کیا، عزت واحترام سے اپنے دفتر میں بیٹھایا اورآنے کی وجہ دریافت کی،فیلڈ مارشل منٹگمری نے اپنا بریف کیس کھولا،ایک درخواست نکالی اور وزیر اعظم کو پیش کردی، وزیر اعظم نے درخواست پڑھنا شروع کی،جس میں منٹگمری نے اپنے کارنامے گنوانے کے بعد حکومت سے درخواست کی تھی کہ ”میں بہت بوڑھا ہوچکا ہوں،میرے پاس رہنے کیلئے گھر نہیں ہے، کرائے کے مکان میں رہتا ہوں،بار بار گھر بدلنا مشکل ہوگیا ہے، مہنگائی بھی بہت زیادہ ہے ،کرایہ نہیں دے سکتا،لہٰذا مہربانی فرماکر کر مجھے ایک فلیٹ یا کوئی ذرعی زمین کا ٹکڑا الاٹ کردیا جائے ،تاکہ میری بقیہ زندگی با آسانی گزرسکے۔

وزیر اعظم نے درخواست پڑھنے کے بعد فیلڈ مارشل منٹگمری سے عرض کی،جناب بے شک آپ ہمارے قومی ہیرو ہیں، دوسری جنگ عظیم میں آپ کی عسکری خدمات برطانیہ سمیت پوری دنیا کیلئے قابل احترام ہیں،اِس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں آپ کے پائے کا کوئی جنرل نہیں،لیکن” سر “زندگی بھر آپ اپنی خدمات کا معاوضہ لیتے رہے ہیں،حکومت برطانیہ نے آپ کی خدمات کا معقول معاوضہ پیش کیاہے، کبھی آپ کی تنخواہ لیٹ نہیں کی،اِن سب باتوں کو بھی اگر نظر انداز کردیا جائے،تب بھی جناب ایک برطانوی پرائم منسٹر کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ،جس کے ذریعے وہ آپ کو فلیٹ یا زمین الاٹ کرسکے،مجھے بہت حد افسوس ہے، میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں،یہ کہہ وز یراعظم نے بوڑھے فیلڈ مارشل کو اُس کی درخواست واپس کردی۔“یہ مسلمہ اصول ہے کہ آئین وقانون کی حکمرانی ،اصول قاعدے اور ضابطوں کا پابند بناتی ہے،طریقہ کار متعین کرتی ہے اور معاشرے کے ہرد فرد کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کا احساس دلاتی ہے، دنیا میں گریٹ برٹن کے نام سے پہچانے والے ملک کے وزیر اعظم کے پاس ایسے کوئی صوابدیدی اختیار حاصل نہیں تھے،جسے استعمال کرکے وہ اپنے قومی ہیرو اور سابق فیلڈ مارشل کو فلیٹ یا زمین کا ٹکڑا الاٹ کرسکتا۔

گزشتہ دنوں انتقال کرجانے والی سابق وزیر اعظم اور برطانوی ”آئرن لیڈی“ مارگریٹ تھیچر اپنی خود نوشت ”دی ڈاوننگ ایئرز“ میں لکھتی ہیں کہ وزارت عظمیٰ کے دوران اُن کا اسٹاف 70افراد پر مشتمل تھا،ٹین ڈاوننگ اسٹریٹ آفس کم اور گھر زیادہ تھا،جہاں ہم 70افراد ایک خاندان کی طرح رہتے تھے،اِن 70افراد پر برطانیہ کا نظام چلانے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں برطانوی امیج کی حفاظت اورتھرڈ ورلڈ کی ترقی کا خیال رکھنے کی ذمہ داری بھی عائد تھی،مارگریٹ تھیچرکے الفاظ ہیں کہ”عملہ بہت کم اور کام بہت تھکا دینے والا تھا،لہٰذاہم لوگ دن رات مصروف رہتے تھے،مجھے کبھی کبھی وائٹ ہاوس اور جرمن چانسلری پر بڑا رشک آتا تھا، جہاں بالترتیب 400اور 500افراد یہی کام کرتے تھے،لیکن ہم نے تو اپنی چادر دیکھ کر ہی پاوں پھیلانے تھے،سو اِس مختصر عملے سے ہی کام چلانا پڑا،جو ہم نے چلایا۔اپنی خود نوشت میں مارگریٹ تھیچر نے مزید لکھا کہ”میری مصروفیات اتنی زیادہ تھیں کہ مجھے نہیں یاد کہ میں کبھی 4گھنٹے سے زیادہ سوئی ہوں، میرے آفس کے اوپر وزیر اعظم کیلئے ایک چھوٹا سا فلیٹ تھا ، اُس تک پہنچنے کیلئے کوئی لفٹ نہیں تھی،لہٰذا مجھے سیڑھیوں کے ذریعے ہی آنا جانا پڑتا تھا،تھیچر کہتی ہیں میں اور میرا خاوند اُس فلیٹ میں اکیلے رہتے تھے،نوکر ہمارے پاس نہیں تھا،لہٰذا سارا کام خود کرنا پڑتا تھا۔

دوپہر کو جب بھوک سے بری نڈھال ہوجاتی تو بھاگتی ہوئی اوپر فلیٹ میں جاتی، لینچ تیار کرتی اور فٹافٹ کھاکر نیچے آجاتی ،رات کو گیارہ بجے جب تمام ساتھی اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تو میں تھکاوٹ سے چور سیڑھیوں کی ریلنگ پر ہاتھ رکھ کر آہستہ آہستہ اوپر فلیٹ تک آتی،جہاں میرا شوہر منتظر ہوتا ،پھر ہم لوگ کچن میں مصروف ہوجاتے،کھانا تیار کرتے،کھاتے اور میں پھرسے تازہ دم ہوکر دوبارہ فائلوں میں کھوجاتی۔تھیچر کہتی ہیں ”مجھے ہر ہفتے 4سے 7ہزار خطوط موصول ہوتے،اِن میں سے ایک بھی خط ایسا نہیں ہوتا تھا ،جسے میں ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی جرات کرسکتی،چنانچہ خطوط کو پڑھنا،اُن میں دیئے گئے نکات پر غور کرنا اور اُن پر حکم جاری کرنے سے قبل برطانوی آئین وقانون کے تقاضوں کو مدنظر رکھنابڑا کڑا مرحلہ ہوتا تھا۔“تھیچر کی لائف ہسٹری بتاتی ہے کہ وزارت عظمیٰ کے دوران اُن کی فلڈ اسٹریٹ میں مقیم اپنے خاندان سے سال میں ایک آدھ بار ہی ملاقات ہوتی،جب پچھلی رات کے سناٹے میں انہیں چند میل کے فاصلے پر مقیم اپنے پیاروں کی یاد آتی تو اُن کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ،لیکن وہ انہیں فوراً پونچھ دیتیں، کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ برطانوی شہری کمزور لیڈروں سے محبت نہیں کرتے۔

قارئین محترم ! ہم جب اِن واقعات کو پڑھتے ہیں اور اِس آئینے میں وطن عزیر کے حکمرانوں کے قول وفعل اور طرز عمل کی تصویر دیکھتے ہیں تو حیران وششدر رہ جاتے ہیں، عقل ماو ¿ف ہوجاتی ،ذہن ودل یہ سمجھنے اور قبول کرنے سے قاصر رہتاہے کہ ایک ایسا ملک جو مقروض ہو، جس کا بال بال اندورنی اور بیرونی قرضوں میں جکڑا ہو،جس کی معیشت غیروں کے ہاتھ گروی رکھی ہوئی ہو،جس کے غریب عوام بے بسی و لاچارگی کی زندگی بسرکررہے ہوںاورزندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہوں ،جہاں کھانے کو روٹی اور پینے کو صاف پانی میسر نہ ہو، بھوک ، غربت ،بے روزگاری،بدامنی اور لاقانونیت کا راج ہو،اُس ملک کا ایوان صدر، وزیر اعظم ہاوس ،گورنر ہاوس ،وزیر اعلیٰ ہاوس اور سیکرٹریٹ سینکڑوں ایکڑ پر پھیلی ہوئی عظیم الشان عمارتوں پر مشتمل اور قوم کے اربوں روپئے ہضم کرجاتا ہو،جس میں متعین ہزاروں افراد پر کا عملہ دن رات حکمرانوں کی جنبش ابرو پر کورنش بجالاتا ہو ،ایسی طرز زندگی اختیار کرنے والے حکمرانوں کی قوم مقروض ومفلس ہوسکتی ہے اور کیا ایک مقروض و مفلس قوم کے حکمرانوں ایسی بودوباش جائز ہے۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے شاہانہ کروفر میں مغل حکمرانوں کو بھی مات دے دی،سابقہ حکومت کے پانچ سالہ دور اقتدار میں قومی خزانے کی لوٹ مار کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا گیا اور تو اور جاتے جاتے تاحیات مراعاتی پیکیج کے نام پر قومی خزانے کی لوٹ مار کیلئے جو نادر طریقہ اختیار کیا گیا اُس کی مثال تو پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی،خود اپنے لیے تاحیات پُر تعش مراعات کا پیکیج منظور کرتے ہوئے انہیں ذرا بھی شرم نہ آئی ،بے شرمی اور ڈھٹائی کی انتہا دیکھئے کہ یہ بھی نہیں سوچا کہ اپنے دور اقتدار میں ملک و قوم کا دیا کیا ہے، عوامی فلاح و بہبود کاکونسا ایسا کام کیا ہے، جس کی بنیاد پر تاحیات مراعات حق قرار پائیں،کیا ملک و قوم کے مخلص حکمران اور عوام کے حقیقی نمائندے ایسا کرتے ہیں، مہذب دنیا کی تاریخ میں ہمیں کوئی ایسی دوسری مثال نظر نہیں آتی کہ برسراقتدار جماعت سے وابستہ اراکین نے خود اپنے لیے مراعاتی پیکیج منظور کیا ہو،البتہ ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں،جس میں برسراقتدار طبقے سے وابستہ افراد نے اپنے ملک اور قوم کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن مراعات میں بھی کٹوتی یا مکمل دست برداری اختیار کرنے کو ترجیح دی جو ملک کے آئین وقانون کے تحت انہیں حاصل اور اُن کا حق تھیں، ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جس میں محب وطن حکمرانوں نے بے لوث خدمت کو اپنا شعار بنا کر اپنے ملک اور قوم کو ترقی کی معراج پر پہنچایا،مگر افسوس کہ ہم نے اپنی قومی تاریخ میں نہ تو خود کوئی ایسی مثال قائم کی اور نہ ہی کبھی کسی اور کی مثال کو قابل تقلید جانا،صد افسوس کہ ہم تو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا بحیثیت گورنر جنرل ایک روپیہ تنخواہ کا عملی پیکیج بھی بھول گئے ،سچ کہتے ہیں جب بے شرمی،ڈھٹائی اور بے ضمیری قلب و روح پر غالب آجائے تو صحیح و غلط کی تمیز مٹ جاتی ہے ۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جب ملک کا منتظم اعلیٰ اپنے امراءو مصاحب اور درباریوں کے ناجائز و غلط کاموں پر صرف نظر کرتے ہوئے خاموش رہ کر منظوری کی سند جواز عطا کرنے لگے توآئین و قانون کی بالادستی مفقود اور انصاف ناپید ہوجاتاہے، گذشتہ پانچ برسوں کے دوران سابقہ حکومت کا اسلوب حکمرانی اِس بات کا مظہر ہے کہ اُسے ملک و قوم کی تعمیر وترقی اور فلاح و بہبود سے کتنی ہمددری تھی،چنانچہ اقتدار کے آخری دنوں میں سابقہ ارباب اقتدار کی ابھر کر سامنے آنی والی تصویرکا تقاضہ ہے کہ11مئی کو قوم جمہوری آمروں کے بجائے نیک ،صالح اور ایسے محب وطن نجات دہندہ کا انتخاب کرے، جس کی جڑیں ایمان ،اتحاد، تنظیم اوریقین محکم سے جڑی ہوں ،جو قناعت وکفایت کا نمونہ ،آئین وقانون کا پابند ، اپنے عمل کا جوابدہ اورعوام کے حقیقی مسائل کا فہم وادارک رکھتا ہو، جو خود اگر قائد اعظم نہ ہو تو کم از کم قائد اعظم جیسا تو ہو۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357706 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More