پاکستانی سیاست کا ایک روشن چہرہ
(محمد فیصل شہزاد, karachi)
ملک میں سیاسی اکھاڑہ سج گیا ہے....
اب دو بدو مقابلہ ہونے میںقریب آدھ مہینہ ہی رہ گیا ہے۔ سیاسی پہلوان بڑے
بڑے دعوے کر رہے ہیں اورایک دوسرے کو بڑھ چڑھ کر دعوتِ مبارزت دیتے نظر آ
رہے ہیں۔خوب اکھاڑ پچھاڑ ہو رہی ہے....ملک کے طول و عرض میں سیاستدان گردش
میں ہیں۔ جلسے جلوس ہو رہے ہیں۔ کانفرنسیں ہو رہی ہیں اور دھواں دھار
بیانات سے قوم کوایک بار پھر سہانے خواب دکھائے جا رہے ہیں۔پانچ سال بعد
اپنے اپنے حلقہ انتخاب کو رونق بخشی جا رہی ہے۔اس بار تو دستار و قبہ کے
ساتھ رنگین آنچل بھی سیاسی نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے بے تاب ہیں....جی ہاں
سابقہ اورحالیہ اداکاراو ¿ں کے ساتھ اس بار” شی میل“ بھی خم ٹھونککر میدان
میں اترے ہیں۔میڈیا بھی سنسنی پھیلانے میںکسی سے پیچھے نہیں، ٹی وی پر
روزانہ چوپالیں جمتی ہیں اورچونکا دینے والے تجزیے پیش کیے جارہے ہیں۔ غرض
ایک گہما گہمی ہے اور بالکل ایک میلے کا سا سماں ہے۔
یوں تو ایک سنسنی خیز دنگل کے سارے لوازمات موجود ہیں، یعنی خون گرم کرنے
کے سو بہانے .... لیکن اپنی دال دلیہ کی فکر میں سرگرم مجھ جیسے ایک عام
نوجوان کے نزدیک یہ اک کھیل تماشے سے زیادہ اہم نہیں۔ سن ِشعور سے اب تک کے
پانچ انتخابات نگاہ میں ہیں....کچھ فرق نہیں پڑتا، صرف چہرے بدل جاتے ہیں۔
مایوسی گناہ ہے لیکن اب کسی طور یقین نہیں آتا کہ جب کسی کے دل میں وطن کا
حقیقی درد نہ ہو تووہ صرف کھوکھلے نعروں کے ذریعے کوئی تبدیلی لا سکتا ہے۔
جب دل و دماغ میں یہ یقین اتر گیا ہو کہ ہم تو صرف کٹھ پتلیاں ہیں، ہماری
ڈوریںتو” کہیں “اور سے ہلائی جاتی ہیں ، اورپھر ان اشاروں پر ناچ دکھانے سے
انکار کی نہ ہمت ہے ، نہ ڈوریں توڑنے کی سکت تو مایوسی کیوں نہ اپنے پر
پھیلائے.... صرف ایٹم کو قابو کرنے ہی سے عزت و وقار نہیںمل جایا کرتی،
ورنہ سب ہی کچھ تو ہے،کھربوں کے خزانے سمیٹے وسیع زمینیں، لہلہاتی فصلیں،
کروڑوں نوجوان، ایٹم بم اورمیزائلوں کی وسیع رینج.... سب کچھ، لیکن نہیں ہے
تو وہ اک جوہر نہیں ہے، جو نہ ہو تو سب کچھ بے کار ہے.... وہ جسے دیانت
کہتے ہیں اور جو حلال خوری سے جنم لیتا ہے۔یہ بات نہیں کہ پاکستان کو ایسے
حلال خورے ملے نہ ہوں۔لیکن لگتا ہے کہ ہمارے جنم لینے سے پہلے ہی سب اس
دنیا سے کوچ کر گئے تھے۔ ستر کی دہائی کے بعد جیسے یہ ملک سیاسی قدروں کے
حوالے سے بنجر ہو گیا، شاید یہ سقوطِ ڈھاکہ کی نحوست ہو۔خیر کچھ دن پہلے
لائبریری میں ایک کتاب سرسری دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کتاب میں درج ایک
واقعہ کے ذریعے ہم اپنی سیاسی تاریخ کی ایک قدآور شخصیت سے متعارف ہوئے۔
ہمیں اعتراف ہے کہ اس سے پہلے ہم نے ان کا نام بھی نہ سنا تھا۔ یہ چودھری
نصیر احمد عرف لارڈ ملہی تھے جو1913ءمیں بدو ملہی ضلع سیالکوٹ میں پیدا
ہوئے۔ موصوف کا شمار نہ صرف آزادی پاکستان کے رہنماؤں میں ہوتا ہے بلکہ
دیانت، امانت،سچائی کے حوالے سے بھی وہ وطن عزیز کے ان معدودے چند
سیاستدانوں میں تھے، جن سے وطنِ عزیز کو نیک نامی ملی۔ وہ پاکستان کا روشن
چہرہ تھے۔ ہم نے سوچا کہ پاکستانی کی سیاست کی اس قد آور شخصیت کا تعارف
اپنے قارئین سے بھی کروا دیں، کہ بدگمانی یہی ہے کہ میری طرح لاکھوں
پاکستانی ”اِن “سے اور ان کی قبیل کے دوسرے افراد سے ناواقف ہوں گے، وہ
قافلہ حق جو گزر گیا اور ہمارے زمانے کا کوئی نام ان کے پاسنگ بھی نہیں....
کتاب میں موصوف کی تعریف میں صرف روز ویلٹ والا واقعہ درج تھا۔ اس لیے
چودھری صاحب کی تفصیلی سوانح جاننے کے لیے ہمیں Wikipediaکا سہارا لینا
پڑا۔پڑھیے اور سوچیے کہ اب ایسے مخلص لوگ ہماری سیاست کو کیوں نصیب نہیں ہو
رہے؟
ان کے والد کے ذکر سے شروع کرتے ہیں، کیوں کہ یہ ان کے والدکے زریں اصول ہی
تھے، جن کا پرتو ساری زندگی ان کے ہونہار بیٹے کے روز و شب میں نظر آیا ۔والد
کا نام تھا چودھری غلام حیدر اور وہ بدو ملہی ضلع سیالکوٹ کے ایک بڑے
زمیندار ہونے کے باوجودروایت سے ہٹ کرغریبوں کے حقیقی غم خوار تھے ۔ دیگر
زمینداروں کے برعکس وہ اپنے مزارعوں کوزیورِ تعلیم سے آراستہ دیکھنا چاہتے
تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے1918ءمیں ایک تعلیمی ادارہ بھی قائم کیا تھا، جو
خود انہی کے نام سے موسوم ہوا۔غلام حیدر مسلم ہائی اسکول میں نہ صرف
طلباءکی تعلیم بالکل مفت تھی، بلکہ یونیفارم اور کتابیں بھی چودھری صاحب کی
طرف سے مہیا کی جاتی تھیں۔انہی کے گھر میں ننھے نصیر احمد نے آنکھ کھولی۔
جس نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے گھر میں مسلم امہ کی زبوں حالی پر اپنے عزیزوں
کو پریشان دیکھا۔جب نصیر احمد کے اسکول جانے کی عمر ہوئی تو چودھری غلام
حیدرنے انہیں بھی اپنے ہی اسکول میں مزارعوں کے بچوں کے ساتھ بٹھایا۔جب کہ
چودھری صاحب اس زمانے کے اعتبار سے بھی کروڑ پتی شخص تھے۔وہ چاہتے تو اپنے
قابل بیٹے نصیر احمد کو دیگر بڑے زمینداروں کی طرح معروف پرائیویٹ اسکول
میں بھیج سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اُس تعلیمی ادارے میںکسی
کو کسی پر فوقیت دینے کی پابندی تھی،صرف قابلیت کو ترجیح دی جاتی تھی۔ یہی
وجہ تھی کہ چودھری نصیر احمد کو بھرپور محنت کرنا پڑتی تھی۔ والد کے قائم
کردہ اسکول سے چودھری نصیر احمد نے میٹرک پاس کیا ،پھر گورنمنٹ کالج لاہور
میں داخل ہوئے، جہاں سے انہوں نے گریجویشن کیا۔ پھر پنجاب یونیورسٹی
لاءکالج سے ایل ایل بی کی سند حاصل کی اور وکالت کے پیشے میں آگئے۔ خدمتِ
خلق خون میں شامل تھی، اس لیے عوام سے زیادہ قریب تھے۔ آہستہ آہستہ سیاست
کی جانب مائل ہونے لگے۔ سیاست کا آغاز کیا انڈین نیشنل کانگریس سے اور
1939ءمیں کانگریس کے ٹکٹ پر ڈسٹرکٹ بورڈ سیالکوٹ کے رکن منتخب ہوئے ، لیکن
اگلے ہی سال22-24مارچ 1940ءکو جب لاہور میںمسلم لیگ کی تاریخی قرارداد،
”قراردادِ پاکستان“ منظور ہوئی تو مسلم لیگ میں آگئے۔گھٹی میں پڑی ہوئی
مسلم امہ کی محبت اور ان کے لیے ایک الگ ملک کے حسین خواب نے انہیں چند ہی
مہینوں میں آل انڈیا مسلم لیگ کا نہایت سرگرم اور متحرک ترین رکن بنا
دیا۔آپ نے پنجاب میں مسلم لیگ کو مقبول بنانے کے لیے اپنا خاندانی اثر
ورسوخ، اپنا مال اور اپنی ساری صلاحیتیں لگا دیں۔1944ءمیں پنجاب مسلم لیگ
کنونیشن میں قائد اعظم کو شرکت کی دعوت دینے خود گئے، وہیں ان کی ملاقات
نواب بہادر یار جنگ سے ہوئی۔ انہوں نے انہیں بھی کنونشن میں شرکت کی دعوت
دی۔ کنونشن ہوا اور اتنا کامیاب ہوا کہ خضر حیات ٹوانہ کی حکومت ہل گئی۔
قیام پاکستان کے حق میں انہوں نے پورے پنجاب میں کنونشن، کانفرنس اور جلسے
کرائے مگر ان جلسوں پر خرچ ہوئی رقم ان کی ذاتی تھی۔ وہ اپنی جائیدادیں بیچ
بیچ کر کارکنوں کی فوج تیار کرتے رہے۔ اسی فوج نے خضر حیات ٹوانہ کی حکومت
کو گرا کے مسلم لیگ کو پنجاب میں مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ قیام
پاکستان تک ان کی آدھی سے زیادہ جائداد بک چکی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد
انہیں وزیرِ تعلیم کا قلمدان ملا تو انہوں نے پہلا حکم نامہ یہ جاری کیا کہ
ایچیسن کالج کی سرکاری گرانٹ بند کی جائے کیوں کہ یہ کالج امراءکے بچوں کے
لیے ہے تو اس کے اخراجات بھی امراءکے ذمہ ہونے چاہئیں۔پھر انہوں نے اسکول
اور کالجز میں طبقاتی فرق مٹانے کے لیے” ایک“ یونیفارم کا نظام نافذ کیا۔وہ
وزیر ہوتے ہوئے بھی نجی دوروں اور دوستوں کی مدارات پرخود خرچ کرتے۔ سرکاری
رقوم کو عوام کی کمائی کہتے اور اس کے زیاں کو حرام قرار دیتے۔ اس سلسلے
میں ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ جن دنوں روز ویلٹ جنرل اسمبلی کی صدر تھیں۔
بھارتی مندوب نے مادام کے اعزاز میں استقبالیہ دینے کی لابنگ شروع
کی۔چوہدری نصیر احمد نے بھی پاکستان کی طرف سے لابنگ شروع کی۔ مہم کامیاب
قرار پائی۔ اس استقبالیہ میں اقوا م متحدہ کے تمام رکن ممالک نے شرکت کی
اور یہ ایک کامیاب ترین سیاسی تقریب قرار پائی۔ اس دعوت کے تمام اخراجات
انہوں نے اپنی جیب سے ادا کیے۔ دوستوںنے مشورہ دیا کہ اخراجات حکومتِ
پاکستان سے لے لیں تو انہوں نے جواب دیا :
”یہ دعوت میں نے صرف ملک کا وقار بلند کرنے کے لیے اپنے طور پر دی تھی پھر
میں عوام کے گاڑھے پسینے کی کمائی پر ڈاکا کیوں ڈالوں؟ “پہلو میں مسلمانوں
اور ہم وطنوں کے لیے دردمند دل رکھنے والے وطنکے یہ سچے خدمت گزار 1991ءمیں
اچانک دل کے دورے سے بدو ملہی میں اپنی حویلی کی دہلیز پر گرے اور روح
پرواز کر گئی۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
آخرمیں لاہور سے ایک دوست کا انتخابات کے پس منظر میںایس ایم ایس .... لکھا
ہے کہ
سکندرِ اعظم فتح کے بعد یونان کے علاقے میں گیا تو دیکھا ، ایک جگہ ایک شخص
دنیا سے بے خبر سو رہا تھا۔ سکندرِ اعظم نے اسے لات مار کر جگایا اور کہا
کہ تو بے خبر سو رہا ہے، میں نے اس شہر کو فتح کر لیا ہے۔ اس شخص نے سکندر
کو دیکھا اور کہا کہ شہر فتح کرنا بادشاہ کا کام ہے اور لات مارنا گدھے کا،
کیا کوئی انسان دنیا میں نہیں رہا جو بادشاہت ایک گدھے کو مل گئی ہے۔
ووٹ دینے سے پہلے ذرا سوچیے گا، ورنہ بادشاہت پھر گدھوں کو مل جائے گی! |
|