ہفتہ دما دم مست قلندر

مملکت خداد پاکستان میں جب تک ہلہ گلہ نہ ہوکوئی ہنگامہ نہ ہو عوام کو کچھ ہوجاتا ہے اس لئے کچھ نہ کچھ اللہ تعالی کی جانب سے عنایت ہو ہی جاتا ہے اور ملک کی سیاست کے سرکس میں مداری آتے رہتے ہیں طاہر القادری کا شور ختم ہوتا ہے تو کہیں سے سونامی کی صدا بلند ہوجاتی ہے ،یا پھر مشرف کی بازگشت سنائی دینے لگتی ہے یا پھر الطاف بھائی کی لطائف آجاتے ہیں ،صدر زرداری مداریاں سامنے آتی ہیں تو ن لیگ کے مجرے میڈیا کے ماحول کو گرمانے لگتے ہیں بقول میرے ایک صحافی دوست کے پشاور اور پاکستان میں میڈیا ختم نہیں ہوسکتی اور پاکستان میں پشاور خبروں کے لحاظ سے بہت امیر ہے کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہی رہتا ہے جس سے ایک شغل میلہ لگا رہتا ہے اور عوام کا تفریح کے مواقع میسر آتے ہیں ہمارے ملک کا ہر شخص بہترین تجزیہ نگار بن بیٹھا ہے ملکی اور غیر ملکی حالات پر ہر بندے کے پاس معلومات ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ہر پارٹی کے منشور کا نہیں پتہ ہے اور یہ سب میڈیا کی وجہ سے ممکن ہوا ہے آنے والے ہفتے میں ایک دفعہ پھر خبریں ہی خبریں ہونگی کیونکہ ایک طرف ملک بھر میں سونامی کا شور برپا ہے تو دوسری جانب بوڑھے کمانڈو کی آمد کی بازگشت سنائی دے رہی ہے نگران سیٹ اپ کا جو غوغا تھا وہ تو اب ختم ہونے کے قریب ہے ساتھ ہی ساتھ تحریک طالبان کی جانب سے بیانات نے فضا گرم کردی ہے کہ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور عوام چند پارٹیوں کے جلسے جلوسوں سے دور رہیں کیونکہ ان کے لئے ہم نے لائحہ عمل طے کر لیا ہے کچھ روز پہلے پشاور میں ہونے والا حملہ جو سیکورٹی حصار توڑ کر کیا گیا تھا وہ بھی نئی سیٹ اپ کے لئے خطرے کی الارم بجا گئی ہے جس پر پردہ ڈالنے کے لئے کئی کہانیاں گھڑی گئیں کہ حملہ آور سفید لباس میں ملبوس تھے جبکہ کچھ عینی شاہدین اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ حملہ آور پولیس کی وردی میں تھے۔عام عوام کو تو چھوڑ ہی دیں ان حالات نے بڑے بڑوں کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے سب سے اہم پیش رفت جو ملکی سیاست کے حلقوں میں زیر بحث ہے وہ 23مارچ کی سونامی جس کو عمران خان نے پشاور کے جلسے میں سونامہ کہا تھا کہ 23مارچ کو لاہور میںسونامی نہیں سونامہ آئے گا جس نے ن لیگ اور دیگر جماعتوں پر خوف طاری کردیا ہے بلکہ ن لیگ تو جمود کا شکار ہوگئی ہے اور بوکھلاہٹ میں الٹے سیڈھے بیانات ان کے لیڈران کی جانب سے آرہے ہیں پشاور میں گو کہ عمران خان کی تقریر اتنی متاثر کن نہیں تھی مگر جو جذبہ پشاور اور خیبر پختونخوا کے عوام نے دکھایا اس سے یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ کچھ ہے جو لوگوں کو اپنی جانب کھینچتا جارہاہے کیونکہ عوام متنفر ہوچکے ہیں انہیں اس گورنمنٹ میں لاشیںہی ملیں دھتکاریں ہی ملیں تو کوئی امید نہیں اور عمران خان امید کی کرن نظر آرہے ہیں اب یہ کرن روشنی کتنی بکھیرے گا یہ آنے والے الیکشن میں پتہ چلے گا دوسری جانب یہ بات بھی کی جارہی ہے کہ عمران خان کو صدر زرداری کی حمایت حاصل ہے جس پر پنجاب کے صدر منظو ر وٹو نے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہمیں عمران خان سے بہت امیدیں ہیں جو کہ نواز شریف کے ووٹ کو خراب کرکے بالواسطہ پیپلزپارٹی کی مدد کریں گے دوسری جانب اہم پیش رفت پاکستان مسلم لیگ کے قائد و سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کی 24مارچ کو پاکستان آمد ہے جس پر اس کا کہناہے کہ میں عدالتوں کا سامنے کرنے کیلئے تیار ہوں۔ اگر عدالتیں مجھے سزا دینا چاہیں تو یہ مجھے ملنی چاہیئے کیونکہ میں نے پاکستان اور اس کی عوام کی فلاح و بہبود کیلئے انقلابی اقدامات اٹھائے اور پاکستان کو نہ صرف معاشی طو رپر مستحکم کیا بلکہ امن و امان کی صورت حال کو بھی بہتر کیا تھا ذرائع کا کہنا ہے کہ وطن واپسی کے سلسلے میں پرویز مشرف کو عبوری سیٹ اپ کے قیام اور ملکی و عالمی ضمانت کاروں کے سگنل کا انتظار تھا۔ انہیں خوف تھا کہ وفاق میں اقتدار پر براجمان پیپلز پارٹی اور بالخصوص پنجاب میں حکمراں مسلم لیگ ”ن“ ان کیلئے مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق پچھلی بار اعلان کے باوجود مشرف کی وطن واپسی اس لئے بھی ممکن نہیں ہوسکی تھی کہ ان کے ملکی و عالمی گارنٹرز نے جن کی ایماءپر کسی مشکل کا سامنا کئے بغیر بیرون ملک چلے گئے تھے انہیں باور کرا دیا تھا کہ فی الحال ملک کی صورت حال ان کی واپسی کےلئے سازگار نہیں لیکن اس بار ان ضمانت کاروں نے بھی ”اوکے“ کا سنگل دے دیا ہے جنرل مشرف کو پوری توقع ہے کہ سابق صدر اور سابق آرمی چیف ہونے کے ناطے عبوری حکومت انہیں مکمل سکیورٹی فراہم کرے گی۔مشرف کی شخصیت سے کون واقف نہیں یہ وہ شخص ہے جس نے لال مسجد کی سینکڑوں بچیوں اور بچوں کے خون سے اپنی پیاس بجھا کر ثابت کیا کہ وہ انسان کے روپ میں اک ایسا عفریت ہے جسے بے گناہ انسانوں کا لہو بہانے میں راحت ملتی تھی۔ اس کی وحشت کی داستانیں خیبر سے کراچی تک بکھری ہوئی ہیں اور اس کی خون آشامی کی وجہ سے ہزاروں گھروں میں آج بھی بین ہوتے ہیں۔ کوئی ماں اپنے جوان بیٹے کو روتی ہے تو کوئی باپ اپنے بڑھاپے کی لاٹھی ٹوٹ جانے پر آنسو بہاتا ہے۔ کسی گھر سے بہنوں کے نوحوں کی آواز سنائی دیتی ہیں۔ پرویز مشرف کی زیادتیاں اگر صرف شریف خاندان تک محدود رہتیں تو شاید نواز شریف بھی اسے معاف کردیتے لیکن یہ تو اٹھارہ کروڑ عوام کا مجرم ہے اور اسے معاف کرنے کا اختیار صرف انہی خاندانوں کو ہے جن کے بیٹے‘ بیٹیاں‘ بزرگ اور جوان اس شخص کے ظلم کا نشانہ بنے۔ پاکستانی عوام کا خون لال مسجد میں بہا ہو یا ڈیرہ بگٹی میں۔ بے گناہ پاکستانی عوام خودکش دھماکوں میں شہید ہوئے ہوں یا ڈرون حملوں کا نشانہ بنے ہوں ان کے خون کا ایک ایک قطرہ پرویز مشرف سے حساب مانگتا ہے اور یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ جسے پاکستانی عوام ذرہ برابر بھی عزیز ہوں وہ پرویز مشرف جیسے آدمی کیلئے معافی طلب کرے نہ اس کی سفارش کرے پرویز مشرف وہ شخص ہے جس کے لہو لہو عہد اقتدار میں دس سے بارہ جید ترین علمائے کرام کو شہید کیا گیا۔ مسجدوں کے ہال‘ برآمدے اور صحن بے گناہ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہوئے انسانی جسموں کے چیتھڑے اڑے۔ ایک کلمہ گوبھائی کے ہاتھوں دوسرے کلمہ گو بھائی کا خون ہوا۔ اسلامیان پاکستان کا خون گلیوں‘ محلوں میں یوں بہا جیسے بڑی عید پر قربانی کے جانوروں کا خون بہتا ہے۔ سینکڑوں پاکستانیوں کو پانچ پانچ ہزار ڈالر کی حقیر رقم کے عوض بیچا گیا اور اس سودے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی عفت مآب بیٹی بھی بیچ ڈالی گئی۔موصوف جنرل (ر) پرویز مشرف کا یہ بیان بھی اخبارات میں موجود ہے کہ میں نے لال مسجد میں جو کیا اس پر مجھے فخر ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان میں جنرل (ر) پرویز مشرف کا سیاست میں کردار ختم ہوچکا ہے اور ماورائے آئین اقدامات کی وجہ سے سابق صدر کی آئینی موت ہوچکی ہے اور وہ آئین کے آرٹیکل 63, ،62کے مطابق سیاست کے بھی اہل نہیں ہیں۔ سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں مشرف کی ساری جماعت اسے چھوڑ کر چلی گئی ہے دوسری جانب پاکستانی سیاست کے کھلاڑی مختلف قسم کے تجزیات دے رہے ہیں کہ اگر جنرل صاحب آگئے تو سیدھا جیل جائے گا۔سزائیں بھگتے گا اور سامان عبرت بن جائے گا۔ خیر جتنے منہ اتنی باتیں۔ کچھ لوگ اسے مشترکہ مسلم لیگ کا صدر بنانے کی باتیں بھی کر رہے ہیںن لیگ والے چھریاں تیز کئے بیٹھے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے دشمن سے بدلہ لیں گے۔ البتہ ایک بات طے ہے قوم کی اکثریت اگلی بار آزمائے ہوئے چہروں کو نہیں آزمائے گی۔ جنرل صاحب نہ وڈیرے ہیں نہ سردار چوہدری اس لئے فیوڈل ازم کے موجودہ نظام کا وہ مقابلہ بھی نہیں کرسکتے۔ مگر کندن بننے کے لئے آگ کی بھٹی میں پگھلنا پڑتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس بھٹی سے گزر پاتے ہیں۔یا پچھلے حکمرانوں کی طرح رات کی تاریکی میں سمجھوتے کرکے بھاگنے والوں میں سے ہیں۔ وہ سخت جان کمانڈر ہیںیعنی موجودہ صورتحال اور چاروں طرف سے سیاسی دشمنوں میں گھرے یہ اندازہ لگا چکے ہوں گے کہ وہ موت کے منہ میں سیاست کریں گے ایک پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ جب میں ملک کی صورتحال کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے انتہائی افسوس ہوتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میری وطن واپسی انتہائی اہم ہے اور اسی لیے میں اپنے ضرور واپس آو ¿ں گا۔اب سونامی اور کمانڈو کی آمد پاکستان کی سیاست میں کیا ہلچل مچاتی ہے اس کے لئے تھوڑا سا انتظار کرنا پڑے گا ۔کیونکہ یہ ہفتہ دمادم مست قلندر کا ہے۔
A Waseem Khattak
About the Author: A Waseem Khattak Read More Articles by A Waseem Khattak: 19 Articles with 22099 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.