بوسٹن دھماکہ:غیر سے چھین کے اپنوں نے مجھے قتل کیا - قسط دوم

میراتھن دوڑ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی تکمیل ہی کامیابی کی دلیل ہے۔ اس میں اول آنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔ اس کو مکمل کرنے والے سارے شرکاءکو سرٹیفکٹ سے نوازہ جاتا ہے جس پر یہ نہیں لکھا ہوتا کہ وہ کس نمبر پر آئے بلکہ یہ لکھا ہوتا ہے کہ کتنے وقت میں انہوں نے اسے پورا کیا ۔ اس لئے میراتھن دوڑ میں بچہ بوڑھا ،عورت مرد سب بلا تفریق حصہ لیتے ہیں ۔یہاں مسابقت کے بجائے جشن کا ماحول ہوتا ہےاورخاتمے پر کوئی سنسنی نہیں ہوتی لیکن اس میں شک نہیں کہ بوسٹن میراتھن دھماکے کا اختتام نہایت ڈرامائی انداز میں ہوا ۔ ابتداءاس ہنگامہ سے ہوئی کہ اوبامہ نے اس کیلئے دہشت گردی کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ انہوں نے کہا تھا کہ حملہ آور کون ہیں یہ ہم نہیں جانتےمگر وہ جو بھی ہیں انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جائیگا۔ چونکہ اوبامہ کا ماننا ہے کہ ’’ہم دہشت گردی نہیں کرتے‘‘ اس لئے یہ قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ اس بار مجرم کوئی امریکی ہوگا ۔

اس کے بعد تصویروں کے شائع ہونے کا سلسلہ شروع ہوااور دونوں نوجوان سرخ و وسفید نظر آئے لیکن اس بیچ اوبامہ نے اس کے دھماکے کو دہشت گردی قرار دے دیا جس سے تجسس میں اضافہ ہوگیا۔آگے چل کر مطلع صاف ہواجب ایف بی آئی نے چیچن نژاد مسلم برادران ۲۶ سالہ تیمرلان سرنائیوکوہلاک اور اس کے چھوٹے بھائی ۱۹ سالہ جوہر کو حراست میں لے لیا۔امریکی تفتیشی حکام نے شبہ ظاہر کیا لیکن ذرائع ابلاغ نے یقین کرلیا کہ یہی دونوں اصلی حملہ آور ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں ملزم امریکی ہیں لیکن چونکہ عیسائی نہیں بلکہ مسلمان ہیں اسلئے دہشت گرد کہلانے سزاوار ٹھہرے ۔ اس کے بعدبوسٹن دھماکے کاموازنہ ۱۱ ستمبر سے ہونے لگا نیز حملہ آوروں کو القائدہ سے جوڑا جانے لگا اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف ایک نیا محاذ کھول دیا گیا ۔

اس بیچ فوکس ٹی وی پر سی آئی اے کے سابق ڈپٹی ڈائرکٹر فلپ مڈ نے اس تقابل کی تردید کردی۔ انہوں نے کہا جوہر سرنائیو پردہشت گردی کے بجائےقتل کا الزام لگایا جانا چاہئے اس لئے کہ یہ جرم القائدہ کے منصوبہ بند حملے کی بنسبت ؁۱۹۹۹ میں کولاروڈو کے کولمبائن ہائی اسکول میں ہونے والے قتل عام سے زیادہ مماثلت رکھتاہے جس میں دو انتہا پسند نوجوان قتل و غارتگری پر اتر آئے تھے۔فلپ مڈ نے جس کولمبین قتل عام کی جانب اشارہ کیا ہے اگراس سے بوسٹن دھماکے کا موازنہ کیا جائے تو یہ ایک معمولی واقعہ لگتا ہے اس لئے کہ وہاں پر گولی باری کے علاوہ آتش گیر بموں کی تعداد ۹۹ تھی۔بارہ طلباء اور ایک استاد ہلاک ہواتھا ۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد ۲۴ تھی۔ اس جرم کا رتکاب ایرک ہارث اور ڈائلن کلے بولڈ نے کیا تھا ۔ان دونوں عیسائی دہشت گردوں نے بعد میں خودکشی کرلی۔ ان کے پسماندہ دستاویز سے انکشاف ہوا کہ وہ اوکلا ہوما دھماکے پر سبقت لے جانا چاہتے تھے ۔

اوکلا ہوما شہر کے جس بم دھماکے سے ترغیب حاصل کرکے ان نوجوانوں نے تباہی مچائی وہ ؁۱۹۹۵ میں پیش آیا تھا ۔اس میں ایک سرکاری دفاتی دفتر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ جس میں ۱۹ بچوں سمیت ۱۶۸ افراد ہلاک ہوئے تھے اور زخمیوں کی تعداد ۶۸۰ تھی۔ اس دھماکے میں ۳۲۴ عمارتیں تباہ ہوئی تھیں یا انہیں نقصان پہنچا تھا اور ۸۶ گاڑیاں برباد ہو گئی تھیں اس طرح ۶۵ کروڈ ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ اس دھماکےکا مرتکب سابق فوجی ٹموتھی مک ویگ۹۰ منٹ کے اندر اسلحہ سمیت گرفتار ہوگیا اور بہت جلد اس کے ساتھی ٹیری نکولس کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔یہ لوگ حکومت امریکہ کے طریقۂ کار سے ناخوش تھے۔جون ؁۲۰۰۱ میں مک ویگ کو زہر کا انجکشن دے کر سزائے موت دی گئی ٹیری نکولس کو عمر قید کی سزا دی گئی۔دیگر دوہمنواؤں میں مائیکل کو بارہ سال کی سزا اور لوری کو وعدہ معاف گواہ بناکر رہا کردیا گیا۔بوسٹن دھماکے سے مشابہ ایک حملہ ؁۱۹۹۶ میں اٹلانٹا کے اندر اولمپک پارک میں ہوا تھا۔ اس کیلئے اسقاط حمل کی مخالفت کرنے والے انتہا پسند ایرک روڈولف کو ذمہ دار پایا گیا تھا ۔ اتفاق سے یہ سب سفیدفام عیسائی تھے اس لئے ان کی یہ حرکت انفرادی کہلائی اور قوم و مذہب سے اس کا کوئی تعلق نہیں جوڑا گیا ۔

مذکورہ بالا واقعات میں جہاں دائیں بازو کے عیسائی دہشت گردوں کا ملوث ہونا مشترک ہے وہیں اپریل کے مہینے کا بھی خاص اہتمام نظر آتا ہے ۔ امریکہ کے مقامی دہشت گردی کی تاریخ میں ۱۹ اپریل کو بہت خاص اہمیت حاصل ہے اور وقفے وقفے سے اس کی برسی منائی جاتی رہی ہے۔ ۱۹ اپریل ؁۱۹۹۳ کو ٹیکساس میں ’برانچ ڈیواڈئین‘ کا محاصرہ کیا گیا تھا اور اس کے نتیجے میں لگنے والی آگ سے ایک انتہا پسند مذہبی فرقے کے ۷۰ سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئےتھے۔ اسی تاریخ کو ؁۱۹۹۵ میں اوکلا ہوما سٹی میں مذکورہ بالا دہشت گردی کا حملہ ہو ا تھا۔اس کے بعد کولاریڈو اور اب بوسٹن یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔ان واقعات کی افسوسناک یادیں امریکیوں کی اجتماعی حافظے میں محفوظ ہو گئی ہیں۔ امریکہ میں دائیں بازو کے انتہا پسند گروپوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والےسدرن پاورٹی لا سینٹر کے مارک پوٹوکو کے مطابق ۱۹ اپریل کا دن ایک طرح سے علامتی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے کہ یہی وہ دن ہے جب ؁۱۷۷۵ میں امریکی انقلاب کے لیے پہلی بار گولیاں چلائی گئی تھیں۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب ۱۱ ستمبر کے پہلے کی باتیں ہیں ان کیلئے نیو امریکن فاؤنڈیشن کی جانب سے شائع کردہ اعدادو شمار دلچسپی کا سبب ہو سکتے ہیں۔ ۱۱ ستمبر کے بعد کل ۳۸۰ لوگوں پر سیاسی تشددمیں ملوث ہونے یا اس کی سازش کرنے کا الزام لگایا گیاجن میں ۷۷لوگ بم بنانے کیلئے ضروری آتش گیر سامان حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے ۔ ان میں سے ۴۸ یعنی ۶۲ فیصد کاتعلق دائیں بازو کے عیسائی انتہا پسندوں سے تھا ۔ ۲۳ یعنی ۳۰ فیصد القائدہ کے نظرئیےسے متاثر تھے ۔پانچ انارکی پسند تھے اورایک ماحولیاتی دہشت گرد تھا ۔؁۲۰۱۱ کے بعدامریکہ کی سرزمین پر صرف ایک بم دھماکہ ؁۲۰۰۴ میں ہوا جس کیلئے ایک انگریز ڈینس موہن کو ذمہ دار پایا گیا۔ اس شخص نے ایک گھریلو ساخت کا بم اریزونا میں واقع افریقی امریکی شہری تنظیم کے ناظم ڈان لوگن کو بھیجا تھا جو ان کے ہاتھوں میں پھٹ پڑا۔

نسلی برتری کے ایک اور حامی کیون ہارفام نے ؁۲۰۱۰ میں اسپوکین( وشنگٹن )کے اندر مارٹن لوتھر کنگ جونیر پریڈ کے راستے میں آتش گیر مادے سے بھرا تھیلا رکھ دیا تھا جسے اتفاق سے پولس نے پکڑ لیا اور بے اثر بنا دیا ۔تین سال قبل پولس نے الابامہ میں ایک فری ملیشیا نامی گروہ پر چھاپہ مارا جو ۱۳۰ گھریلوساخت کے بم بنا چکا تھا ۔ستمبر ؁۲۰۱۰ میں جیمس لی نامی شخص میری لینڈ میں واقع ڈسکوری چینل کے صدر دفتر میں آتش گیر مادے کا کمر بند پہن کر داخل ہوگیا اوراس نے اپنی بندوق کی نال پر کئی لوگوں کو یرغمال بنا لیا ۔ وہ چاہتا تھا کہ ماحولیاتی مسائل کی جانب توجہ مبذول کرائی جائے لیکن بالآخر پولس کے ہاتھوں ہلاک ہوا ۔

سابق سرکاری وکیل ایٹان گویلمان کہتے ہیں کہ اوکلا ہوما سٹی دہشت گردی کا ملزم کوئی مسلمان جنونی نہیں تھا بلکہ امریکہ میں پلنے بڑھنے والا امریکی دہشت گرد تھا ۔ عام لوگوں کے لیے یہ بڑی حیرت ناک بات تھی۔مارک پوٹوک کا کہنا ہے کہ دائیں بازو کے یہ گروہ ؁۱۹۹۰ کی دہائی کے آخر میں مفقود ہو گئے تھے لیکن یہ اب پھر سر اٹھا رہے ہیں۔؁۲۰۰۹ کے اندر براک اوباما کی انتخا بی کامیابی کے فوراً بعد ان کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ۔ ؁۲۰۰۸ میں ایسے گروپوں کی تعداد ۱۴۹ تھی لیکن گزشتہ سال یعنی ؁۲۰۱۲ کے آخر تک، ان کی تعداد ۱۳۶۰ تک پہنچ گئی تھی۔ لہٰذا بوسٹن دہشت گردی کے اس تازہ ترین حملے کو پہلے پہل ۱۹ اپریل کی تاریخ سے جوڑ کر دیکھا گیا لیکن جیسے ہی ملزمین مسلمان نکلے سارا منظر بدل گیا لوگ اس ٹھوس تاریخی پس منظر کو یکسر بھول گئے اور اسلام و مسلمانوں کے پیچھے پڑ گئے۔

مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی ابتداء کسی اور نے نہیں بلکہ امریکی پارلیمان میں انسدادِ دہشت گردی و سراغ رسانی کی سب کمیٹی کے چیرمین اور ریپبلکن رہنما پیٹے کنگ کی۔انہوں نے کہا پولس کو معاشرے کے اندر ہونا چاہئے ۔پولس نے اس قدر ذرائع بنائے جتنے کہ وہ بنا سکتے ہیں اور انہیں پتہ چلا کہ خطرہ مسلم سماج سے ہے اس لئے اس کی نگرانی میں اضافہ کیا گیا۔ہم سیاسی اصلاح (بمعنی خوشامد)کے تابع نہیں ہیں میرا خیال ہے جس سماج سے خطرہ ہو اس پراضافی نگرانی کیلئے ہمیں زیادہ پولس کی ضرورت ہے ۔ اس کے بعد میراتھن دوڑ میں شریک ۲۰ سالہ سعودی کھلاڑی پر شک کیا گیا ۔

مسلمانوں کے ایک ترجمان ظہیر علی کے مطابق ۱۱ ستمبر کے بعد امریکہ میں مسلمان دہشت کا شکار بھی ہیں اوراوپر سے مشکوک و مشتبہ بھی ۔انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی سکھ کارکن کے مطابق اوک کریک کے اندر ایک نسل پرست برتری پسندانگریزنے سکھ گردوارے میں گھس کر بے دریغ گولیاں برسائیں جس سے کئی بے قصورلوگ ہلاک ہو گئے۔ لیکن اس وقت انگریزوں کی نگرانی کی بات کسی نے نہیں کی ۔ کسی نے عیسائیت کی بدنامی کا ذکر تک نہیں کیا ۔سیاہ فام پروفیسر مائیکل ایرک ڈائسن نے اس کی تائید میں کہا ہمارے ملک میں سیاہ فام اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ یہ کیا جاتا ہے کہ جو برا کام ہم کرتے ہیں اسے ہماری شناخت بنا دیا جاتا ہے اور جو اچھے کام کرتے ہیں اسے استثنائی بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ غیر معمولی کارنامے انجام دینے والوں کو ہمارا نمائندہ تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ اگر سفید فام لوگوں کی غلطی سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے اور اگر ہم سے سرزد ہوجائےتو ہمارا کام تمام کردیا جاتا ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بوسٹن دھماکے کے ملزم مسلمان ہیں نیز شیشان سے تعلق نے ان کو القائدہ اور اسلام سے جوڑ دیا اس لئے کہ شیشان کے مسلمان روس سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جو بھی مسلمان انگریزوں کی زیادتی کو چیلنج کرتا ہے اسے فی زمانہ القائدہ سے جوڑ دیا جاتا ہے۔اس بابت دائیں اور بائیں بازو والوں کے موقف میں کوئی فرق نہیں ہوتا اس لئے کہ دونوں غاصب ہیں اور اسلام پسندوں کو اس لئے اپناد شمن سمجھتے ہیں کہ وہ ان کی جارحیت کے آگے سرنگوں نہیں ہوتے ۔ جہاں تک سرنائیو خاندان کا تعلق ہے وہ ؁۱۹۴۴ کے اندر یعنی موجودہ کشمکش سے بہت پہلے شیشان سے کرغستان منتقل ہوچکا تھا ۔ ؁۲۰۰۱ میں ایک سال سے کم عرصے کیلئے وہ لوگ داغستان گئے ضرور تھے مگر پھر امریکہ چلے آئے ۔ اس وقت تامرلین اور جوہر کی عمر بالترتیب ۱۵ اور ۸ سال تھی۔ اس کے بعد سے یعنی گزشتہ ۱۱ سالوں سے وہ امریکی شہری ہیں ۔

ان دونوں بھائیوں کی تعلیم وتربیت نیز پرورش و نشو نما سرزمینِ امریکہ میں ہوئی۔ ان میں سے بڑے بھائی تامر لین نے جو پولس کی گولی سے ہلاک ہو چکا ہے امریکہ ہی میں ایک عیسائی لڑکی سے بیاہ رچایااور ایک بچے کا باپ تھا ۔جوہر کا شیشان پر بحث کرنے والے چند انٹرنیٹ گروپس سے وابستہ ہونا کچھ بھی ثابت نہیں کرتا جبکہ امریکہ میں ہمدردانِ شیشان نامی تنظیم کام کرتی رہی ہے اور سی آئی اے سابق ڈائرکٹر جیمس ووسلی جیسے لوگ اس سے وابستہ رہے ہیں۔ اسی لئے شیشانی رہنما رمضان قاضی روف نے کہا سرانیوبرادران اگر مجرم ہیں تو ان کا شیشان سے تعلق جوڑنابالکل بیجا ہے ۔ وہ امریکہ میں پلے بڑھے اور ان کے خیالات و نظریات وہیں پروان چڑھے۔ اس لئے فتنے کی جڑ امریکہ کے اندر ہی تلاش کرنا چاہئے۔
سرانیو برادران کے والدین مفلوک الحال ہیں ۔ جوہر ابھی تعلیم حاصل کررہا ہے اور تامرلین ڈیلیوری بوائے کی معمولی ملازمت کرتا ہے اس کے باوجود یہ لوگ نہایت قیمتی لباس زیب تن کرتےتھے اور مرسیڈیز گاڑی پر چلتے تھے ۔ اگر یہ ڈالرس شیشان کے القائدہ سے آتے تھے تو کیا ایف بی آئی کو نظر وں سے اوجھل تھےجبکہ تامرلین کے متعلق روس نے ایف بی آئی کو آگاہ کیا اور پولس نے تفتیش کے بعد اسے بے قصور پایا مگر وہ مسلسل پولس کی نگرانی میں رہا۔ ایف بی آئی کے لوگ روس کے علاقے داغستان کے شہر مخاشکالا میں ان کےوالدین تک پہنچ گئے اور ان سے یہ تک کہہ دیا کہ تامرلین کیا کھاتاہے ،کیا کرتا ہے یہ سب ان کی نظر میں ہے ۔ اس کڑی نگرانی کے باوجود تامرلین اپنے بھائی کے ساتھ یہ دھماکہ کرنے میں کیسے کامیاب ہوگیا جبکہ اس روزبوسٹن دوڑ کی آخری لائن کے آس پاس پولس کا زبردت پہرہ تھا وہ اپنے تربیت یافتہ کتوں کے ساتھ بڑی تعداد میں جائے حادثہ پر موجود تھی ۔یہ نہایت حیرت انگیز سوال ہے ۔
اس پس منظر میں بوسٹن دھماکوں کے مشتبہ ملزم بھائیوں کی والدہ زبیدہ کادعویٰ کہ ان کا ایک بیٹا گزشتہ تین سالوں سے امریکی تحقیقاتی ادارے 'ایف بی آئی' کی زیرِ نگرانی تھا۔ انہیں یقین ہے کہ ان کے دونوں بیٹے بے گناہ ہیں اور انہیں پھنسایا گیا ہے مبنی برحقیقت لگتا ہے۔اپنے انٹرویو میں زبیدہ سرنائیو کار کہ ان کے لیے یہ سب کچھ سننا بہت زیادہ تکلیف دہ ہے۔ ایک ماں کی حیثیت سے وہ یقین کے ساتھ صرف اتنا ہی کہہ سکتی ہیں کہ ان کے بیٹوں کو اس معاملے میں سوچ سمجھ کر ملوث کیا جارہا ہے۔ جوہر کے والد کی بھی یہی رائے ہے انہوں نے کہا میرے سارے رابطوں کو منقطع کیا جاچکا ہے میں امریکا میں اپنے بھائی سے بات نہیں کرپارہا ہوں اور مجھے اندیشہ ہے کہ وہ میرے بیٹے کوہلاک کردیں گے ۔

ایف بی آئی کا مسلم نوجوانوں کو اپنے خفیہ ایجنٹوں کے ذریعہ پھنسانا کوئی نئی بات نہیں ہے اس حکمت عملی کے تحت خود بوسٹن میں فردوس نامی طالب علم کو اپنے جال میں پھنسانے کا اعتراف ایف بی آئی ؁۲۰۱۱میں کرچکی ہے ۔ جو خفیہ ادارہ اپنے جاسوس کے ذریعہ کسی نوجوان کو پھنسانے کیلئے اسے اسلحہ تک فراہم کرسکتا ہے کیا وہ ان سے بوقتِ ضروت دھماکہ کیوں نہیں کرواسکتا ؟ اس سوال کا جواب معلوم کرنے کیلئے کسی کا شرلاک ہومز ہونا ضروری نہیں ہے ۔امریکہ کے اندر سرمایہ داروں اور سیاستدانوں نے باہمی اشتراکِ عمل سے عوامی استحصال کا جو کھیل چلا رکھا ہے اس کی قیمت نہ صرف دنیا بھر کے مسلمان بلکہ امریکہ میں بسنے والی دیگر اقوام بشمول عیسائی انگریز ادا کررہے ہیں ۔ امریکی عوام کے ساتھ کی جانے والی اس دھوکہ دہی اور ظلم پر حفیظ میرٹھی کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
غیر سے چھین کے اپنوں نے مجھے قتل کیا
آپ ہی ڈھال بنے، آپ ہی تلوار بنے
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449757 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.