دہلی کا خواجہ سرا اور لاہور کا لوہار

یہ 7اکتوبر1998کی ایک گہری شام تھی،شام کے ساڑھے سات بج رہے تھے،لیفٹیننٹ جنرل پرویز مشرف ’ ’منگلا “میں کورکمانڈر تعینات تھے،اس دن یہ اپنی اہلیہ کے ساتھ” منگلا “میں اپنے گھر کے ٹی وی لاﺅنج میں اسکرین کے سامنے بیٹھے تھے،اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ،لائن پر دوسری طرف پرائم منسٹر ہاﺅس سے ملٹری سیکریٹری تھے،ان کا کہنا تھا:” وزیر اعظم آپ سے ملنا چاہتے ہیں“۔کورکمانڈر تھکے ہارے تھے،اس لیے انہوں نے جواب دیا کہ کل صبح اسلام آباد پہنچ جاﺅں گا،لیکن دوسری وزیر اعظم کے ملٹری سیکریٹری کا اصرار تھا کہ آپ کو ابھی فوری طور پریہاں پہنچنا ہے،یہ بات سن کر پرویز مشرف تھوڑے پریشان ہوئے ،پھر بولے :” اچھا ،میں ذرا چیف کو انفارم کردوں،پھر نکلتا ہوں۔“مگردوسری طرف سے فورا کہا گیا کہ یہ میٹنگ خفیہ ہے،اس لیے آ پ کسی کو بھی اطلاع نہ دیں،فوری طور پر یہاں پہنچیں،اس موقع پرملٹری سیکریٹری کی یہ بات ان کے دل میں کھٹکی،لیکن چونکہ ملک کے وزیر اعظم کا حکم تھا،اس لیے پرویز مشرف فوری طور پر اسلام آباد کے لیے روانہ ہوگئے،ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ وزیر اعظم کے پاس موجود تھے،اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا اور فوری طور پر یہ نوید سنائی کہ آپ کو پاکستان آرمی کا سربراہ منتخب کرلیا گیا ہے،یہ بات سن کر پرویز مشرف چونک اٹھے،وہ حیران تھے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟مگر چونکہ یہ قوم کے سیاہ و سفید کے سب سے بڑے مالک کا حکم تھا،اس لیے انہیں ماننا پڑا،وہ وہاں سے سیدھے چیف آف آرمی اسٹاف جہانگیر کرامت کے پاس پہنچے،جنرل جہانگیر کرامت حزن و ملال کی کیفیت اور سکتے کے عالم میں سرجھکائے بیٹھے تھے،ان سے کچھ بولا نہ گیا،آج تک پرویز مشرف خود یہ وجہ نہیں جان سکے کہ ایسا کیوں اور کیسے ہوا؟اس واقعہ پر پوری دنیا بہت حیران ہوئی،خود پاکستان آرمی کے سینئر آفیسرزششدر رہ گئے تھے،کیونکہ ابھی جنرل جہانگیر کرامت کی ریٹائرمنٹ کا وقت بھی نہیں ہوا تھا اور ان کی ریٹائرمنٹ کے بعدجنرل علی قلی خان کی باری تھی،تب جا کر پرویز مشرف چیف بن سکتے تھے،حالانکہ خود پرویز مشرف کا بھی چیف بننے کا کوئی اراداہ نہیں تھا،وہ پہلے ہی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے سوچ چکے تھے،مگرجب یہ صورتحال آن پڑی تو مجبورا انہیں پاک فوج کی کمان سنبھالنی پڑی،مگر دنیا آج تک میاں صاحب کی ان کے ساتھ محبت کے اس رشتہ کو سمجھ نہیں سکی۔

ابھی زیادہ مہینے گزرے ہی نہیں تھے کہ وزیر اعظم اوران کے پسندیدہ آرمی چیف کے درمیان اَن بَن شروع ہوگئی،اس دوران وزیر اعظم نے ایک بار پھر خاموشی سے چیف کوبدلنے کی کوشش بھی کی،لیکن چیف نے یہ کہہ کر استعفا دینے سے صاف انکار کردیا کہ میں جہانگیر کرامت نہیں ہوں،حالانکہ نواز شریف کے اباجی نے دونوں کو ڈائننگ ٹیبل پر بٹھاکرآپس میںیہ کہہ کر صلح بھی کرادی تھی کہ تم دونوں ہی میرے بیٹے ہو،لیکن بالآخر معرکہ کارگل سے نمو پانے والی ان کی یہ ٹسل 12اکتوبر1999ءکی بغاوت پر منتج ہوئی، اس دن آرمی چیف اپنے ساتھیوں کے ساتھ سری لنکا کے دورے سے واپس آرہے تھے،ایسے میں وزیر اعظم نے ان کی معطلی کا حکم دیتے ہوئے ISIکے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالدین کو ان کی جگہ تعینات کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا،اب ایک سال پہلے کی طرح ایک بار پھر تاریخ دہرائی جارہی تھی،جب انہوں نے اچانک سے پاک فوج کی ہائی کمان کسی اور کے کاندھے پہ ڈال دی تھی،لیکن اس دفعہ فوج نے بغاوت کردی اور اس وزیر اعظم کا تختہ الٹ ڈالا،جس نے فوج کیکمان کو ہندو بنیے کی دھوتی سمجھ رکھا تھا۔

حکومت کا تختہ الٹتے ہیمرکزی ملزم نواز شریف کے خلاف انسدادِ دہشت گردی میںمقدمے بھگتائے گئے،اسی نتیجہ میں 6اپریل 2000ءکو دہشت گردی کی اس خصوصی عدالتنے دو مرتبہ عمر قید بامشقت،پانچ لاکھ جرمانہ اور ان کی تمام جائیداد ضبط کرنے کا حکم سنادیا،اس کے بعد نواز شریف زنداں خانہ کے مستقل مکین بن گئے تھے،پھر 22جولائی 2000ءکو انہیں عدالت نے ایم آئی ایٹ ہیلی کاپٹر ریفرنس میں 14سال قید بامشقت ،2کروڑ روپے جرمانہ اور 21سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدہ کے لیے نااہل قرار دے دیا۔

ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ میاں صاحب نے اپنے ہی منتخب کردہ آرمی چیف پرویز مشرف سے رحم کی اپیلیں کرنا شروع کردیں، یار دوستوں نے ان کو بڑا سمجھایا کہ میاں صاحب ! بھٹو کی طرح ڈٹے رہیں،کسی عوامی لیڈر کا ایک آمر کے سامنے اس طرح معافی کی اپیل کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ایسے میںمیاں صاحب منہ بسورتے ہوئے بزرگ صحافی مجید نظامی سے کہنے لگے :”نظامی صاحب!میں یہاں نہیں رہ سکتاکیونکہ یہاں جیل میں مچھربہت ہوتے ہیں....“ چونکہ میاں صاحب ایک بڑے لوہار کے گھر سونے کا چمچہ منہ میں لے کر اس دنیا میں آئے تھے اور پوری زندگی مغل ِ اعظم کی طرح رائیونڈ کے محل میں بِتائی تھی،اس لیے ان سے زمانے کی سختیاں جھیلنے میں بڑی دِقت ہورہی تھی،لہذا انہوں نے اپنے پرانے بیرونی تعلقات استعمال کرنے شروع کردیئے،بالآخرسعودی عرب نے پاکستان کے صدر سے درخواست کی کہ ان کی سزا معاف کرکے انہیں سعودیہ بھجوادیا جائے،پاکستان نے اپنے برادر ملک کی اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے حکومت،نواز شریف اور سعودیہ کے درمیان سہ فریقی معاہدہ کے تحتنواز شریف کی سزا معاف کردی،یوں10دسمبر2000ءکو معزول وزیر اعظم نے اپنے سزا کی معافی کے بدلے 30کروڑ روپے،ماڈل ٹاﺅن کی رہائش گاہ،برادر اسٹیل ملز،الیاس انٹر پرائزز،حدیبیہ پیپر ملز،حدیبیہ انجینئرنگ،حمزہ اسپننگ ملز،برطانیہ میں واقع ہوٹل چیف ایگزیکٹوکی جھولی میں ڈالتے ہوئے سعودی ائیر لائن کے ذریعہ پاکستان سے کُوچ کرگئے،جہاں انہوں نے جدہ کے سپر لگژری”سرور پیلس“کو ”سہ فریقی معاہدہ“ کی رُو سے اگلے دس سالوں کے لیے اپنا آشیانہ بناڈالا،حالانکہ اس وقت بھی ان کے اپنے لوگوں کی طرف سے ان کو اس خود ساختہ جلاوطنی پر ملامت سننی پڑی،لیکن میاں صاحب اس ساری تنقیدوں ،ملامتوں اور لعن طعن سے بے نیاز ہوکر سعودی عرب کی پاک سرزمین میں اپنے گناہوں کا ”کفارہ“ اداکرتے رہے،آپ کو یاد ہوگا ،اس دوران بھی میاں نواز شریف کھلے لفظوں پرویز مشرف کو کچھ بھی نہیں کہا کرتے تھے،بس ایویں اوپر اوپر سے ہوائیاں اڑایا کرتے تھے۔

اس کے بڑے دنوں بعد پھر جب ابھی گزشتہ دنوں دہلی کا خواجہ سرا پاکستان کی سرزمین میں آدھمکا تو میاں صاحب کی خاموشی بڑی معنی خیز تھی،رقیبوں کا تو کہنا تھاکہ دونوں کے درمیان خاموش ڈیل ہوئی تھی،لیکن جب پرویز مشرف کی گردن عدلیہ کے شکنجہ پر پھنس چکی تو میاں صاحب کے کنجِ لب سے اب کچھ کچھ شگوفے پھوٹنے لگے ہیں،ورنہ معلوم نہیں،لاہور کے اس لوہار کی دہلی کے اس خواجہ سرا کے ساتھ ایسا کیا عقیدت کا رشتہ تھاکہ جو انہیں کچھ بولنے سے روک رہا تھا،ان کی اس سے بڑی عاشقی اور کیا ہوگی کہ آج دہلی کے اس خواجہ سرا کے اکثر مدح سرامیاں صاحب کی آنکھوں کے تارے ہیں، ان دونوں ”رقیبوں“ کا عجب لازوال رشتہ سمجھ نہیں آتا۔

یہ میاں صاحب ہی تھے ،جنہوں نے جنرل جہانگیر کرامت سے زبردستی استعفا لے کر جنرل علی قلی خان پر سبقت دیتے ہوئے انہیں چیف آرمی منتخب کیا تھا،پھر وہی تھے ،جنہوں نے اسی سال ان سے ”عیدی“سمجھ کے استعفا مانگ لیاتھا،اس کے بعد12اکتوبر1999ءکو پھر فوج کی سربراہی کے ساتھ نہایت بھدا مذاق کررہے تھے کہ فوج بپھر گئی ،میاں صاحب کو اس کا عبرت نا ک انجام بھگتنا پڑا،پھر اب ان کی واپسی پہ مہر بلب ہونے پر تو خودمیاں صاحب کے اپنے لوگ متحیر تھے،میاں صاحب برملا کہا کرتے تھے کہ آمریت کا ساتھ دینے والوں کےلیے ہاتھ نہیں بڑھاﺅں گا،نہ جانے میاں صاحب کس آمر کی بات کرتے ہیں،خود میاں صاحب آمریت کی پیداوار ہیں،میاں صاحب کا ایک اور فرمان تھا کہ پارٹی کو مشکل وقت میں چھوڑ کرجانے والوں سے ہاتھ ملانا تھوک چاٹنے سے مترادف ہوگا،تو کیا گوہر ایوب،امیرمقام،ماروی میمن،کشمالہ طارق،اعجازالحق،زاہد حامد،طارق عظیم،لیاقت جتوئی،عبدالقادر بلوچ،ارباب غلام رحیم،شاہد اکرم بھنڈر وغیرہ کو اپنے سینے سے لگاکرمیاں صاحب اپنا تھوکا ہوا واپس نگل رہے ہیں؟

Muhammad Zahir Noorul Bashar
About the Author: Muhammad Zahir Noorul Bashar Read More Articles by Muhammad Zahir Noorul Bashar: 27 Articles with 28936 views I'm a Student media science .....
as a Student I write articles on current affairs in various websites and papers.
.. View More