ناصر خان خٹک اور تحصیل بانڈہ داﺅد شاہ

تحصیل بانڈہ داﺅدشاہ کو ضلع کرک میں ایک تاریخی مقام حاصل ہے جس کے ساتھ ضلع کوہاٹ کا سابقہ ہٹاکر 1982میں ضلع کرک کا سابقہ لگا دیا گیا تب ہونا تو چاہیئے تھا کہ اس علاقے کی ترقی کی راہیں کھل جاتی مگر یہاں گنگا الٹی ہی بہنے لگی ضلع کرک کے ساتھ شامل ہونے کے بعد اس علاقے کی ترقی کی راہیں مسدود ہوگیئں کیونکہ الیکشن میں امیدوار کرک کے دیگر تحصیلوں سے منتخب ہونا شروع ہوئے اور اس تحصیل سے کسی نے الیکشن لڑنے کی جانب توجہ نہیں دی جن کی وجہ سے یہ تحصیل ترقی سے دور رہا یونین کونسل ٹیری ، جٹہ اسماعیل خیل، گرگری ، بہادر خیل اور نری پنوس کا ہر دور میںاستحصال ہوتا رہا یہ سارے تحصیل بانڈہ داﺅدشاہ کا حصہ ہیں جب آپ لاچی کے راستے اس تحصیل کی جانب داخل ہوتے ہیں تو آپ کو علاقے کی پسماندگی کا خود بخود احسا س ہوجائے گا کہ کس طرح اس تحصیل کو پسماندہ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے جس کو عرف عام میں ہم سوتیلی ماں کا سا سلوک سے تعبیر کرسکتے ہیں یا پشتو میں میرانے رور یعنی سوتیلا بھائی کی سی حیثیت دی گئی ہے وہ تو اب اللہ کا کرم ہے کہ گیس اور تیل کے وسیع ذخائر نے اس علاقے کی قسمت جگادی ہے ورنہ ہم کب تک اندھیروںکے راہی ہوتے تو دوسری جانب تعلیمی شعور نے ہمارے نوجوانوں کو بیدا ر کردیا ہے اور آج اس تحصیل کے نوجوان اعلی عہدوں پر ملک اور ملک سے باہر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جن میں علاقے کی فلاح وبہبود کے لئے ایک جذبہ موجود ہے جس کا اظہار وقتافوقتا وہ کرتے آرہے ہیں کیونکہ کسی بھی امیدوار نے اس علاقے کے عوام کے ساتھ وعدہ وفا نہیں کیا اور جو بھی فنڈ آیا وہ اپنے علاقے اور اپنی جیب تک ہی محدود رکھاموجودہ دور تک اگر ہم دیکھیں تو ٹیری اور تحصیل بی ڈی شاہ میںمیں کوئی بھی ایسا کام نہیںہوا جس سے ترقی کی جھلک نظر آتی ہو یہ علاقہ زرخیزی میں اپنی مثال آپ ہے کیونکہ ہمارے عوام اب تک تخت نصرتی اور کرک کے لیڈران کے رحم وکرم پر تھے جنہوں نے بر سرا قتدار آکر صرف اپنے لئے اور اپنے علاقوں کے لئے کام کیا یہاں سے سوائے شمس الرحمان کے کسی نے بھی الیکشن لڑنے کی زحمت گوار نہیں کی اور جس نے کوشش کی وہ پھر ثابت قدم نہیں رہے شمس الرحمن نے اپنی سعی بہت کوشش کی کہ علاقے کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر سکیں جب وہ برسرا قتدار تھے اس سے کوتاہیاں ہوئیں اور اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے فرید طوفان ،ملک قاسم، رحمت سلام، شیرنواز ،میاں نثار گل سمیت بہت سے دیگر سیاست دانوں نے یہاں سے کامیابی اور ناکامیاں سمیٹی مگر علاقے کے لئے کوئی کام نہیں کیا میاں نثار گل نے دودفعہ اس حلقے سے کامیابی حاصل کرکے اپنے ہمنواﺅں کو نوازا ان چمچوں کے لئے کام کئے جو دم ہلا کر ان کے آگے پیچھے ہوا کرتے تھے ، اس تحصیل کے عوام چونکہ خودداری میں اپنی مثال آپ ہیں اس لئے کوئی بھی ملازمت کے لئے یا اپنے جائز کاموں کے لئے کسی کی منتیں نہیں کرتا جس کی وجہ سے یہ تحصیل بہت پیچھے ہے اسلم خٹک نے ایک دفعہ کہا تھا کہ میں اس تحصیل کے باسیوں سے بہت خوش ہوں یہ تنگ نہیں کرتے کام کرانے کے لئے آجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ درخواست لایا ہوں اس پر غور کرنا اور پھر پہلی گاڑی سے ہی گاﺅں کو لوٹ جاتے ہیں جبکہ تخت نصرتی اور کرک کے عوام سروں پر بیٹھ جاتے ہیں کہ ہمارا کام کرو تب ہی جائیں گے اور پھر چاروناچار ان کا کام کرنا پڑتاہے ٹیری میں چونکہ نوابوں کی حکمرانی تھی اس لئے ان میں وہ خصلتیں موجود ہیں کوئی بھی کسی کی پروا ہ نہیں کرتا اس لیکشن سے پہلے بہت آوازیں سنی گئیں کہ اپنے علاقے کا بندہ آگے لائیں گے اس کو ووٹ دیں گے بہادر خیل سے کرنل عثمان، مکوڑی سے شمس الرحمان، ٹیری سے ناصر خان، عیک خماری سے اقبال ، کے نام میدان میں آئے جن میں پہلے تینوں کا تعلق تحریک انصاف جبکہ آخری والے کا تعلق پختونخواہ ملی عوامی پارٹی سے ہے شمس الرحمان کو پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا اور ساتھ میں کرنل عثمان بھی پارٹی سے دور ہوگئے جس کو ٹکٹ سے محروم رکھا گیا تو میدان میں صرف تیری کے ناصر خان رہ گئے ہیں جو قومی اسمبلی کے لئے تحصیل بی ڈی شاہ سے نمائندگی کر رہے ہیں اور صوبائی کے لئے اقبال رہ جاتے ہیں جس کی پوزیشن اتنی مضبوط نہیں حالانکہ پورا گاﺅں عیسک خماری اس کے ساتھ کھڑا ہے مگر ایک گاﺅں سے الیکشن جیتا نہیں جاسکتا تو دوسری جانب تحریک انصاف کے امیدوار ناصر خان میدان میں رہ جاتے ہیں جو این اے 15 قومی اسمبلی کے لئے میدان میں موجود ہیں جس کاشمار پاکستان تحریک انصاف کے بانی رہنماﺅں میں کیا جاتا ہے جب عمران خان نے الیکشن سے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا اس وقت ناصر خان بھی اس کے ساتھ موجو د تھے فی الحال تو پی ٹی آئی کی وجہ سے ناصر خان کی پوزیشن اچھی ہے اور اگر تحصیل بانڈہ داﺅدشاہ کے عوام نے اس پر اعتماد کا اظہار کیا تو امید کی جاسکتی ہے کہ قومی اسمبلی کی سیٹ اس تحصیل کو مل سکتی ہے حالانکہ یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے مقابلے میں بڑے بڑے مگر مچھ میدان میں ہیں جو سیا سی داﺅ پیچ سے بخوبی اشنا ہیں یہ مقابلہ ٹیڑھی کھیر کی سی حیثیت رکھتی ہے اگر عوام نے علاقے کو مدنظر رکھا تو بات بن سکتی ہے ورنہ یہ تحصیل پھر سے پیچھے چلا جائے گا اور خدا خبر پھر الیکشن ہوں گے بھی کہ نہیں مگر شاید ہی کوئی اس علاقے سے پھر میدان سیاست میں قدم رنجہ فرمانے کا سوچے اب تھوڑا سا ناصر خان کے حوالے سے ذکر ہوجائے کہ ناصر خان کون ہیں اور کیا کرتے ہیں اور اگر وہ اللہ کے فضل سے کامیاب ہوگئے تو انہیں علاقے کے کون کون سے مسائل اوائل فرصت میں نمٹانے ہوں گے جو کہ اس کا بنیادی منشور ہوگا -

ناصر خان کے والد ٹیری کے مغل خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ناصر خان کے والد صاحب محترم سائر خان نے پشاور میں ملازمت اختیار کی اور پشاور کو ہی اوڑھنا بچھونا بنا لیا ناصر خان خٹک نے تعلیم پی ایف سکول پشاور سے ایف ایس سی، ایڈورڈز کالج پشاور سے بی ایس سی اور پشاور انجیئنرنگ یونیورسٹی مکینکل انجنئیرنگ میں ڈگری حاصل کی عملی میدان میں1995میں آئے جب نوشہر ہ میں پاکستان ماچس کی فیکٹری کی بنیاد رکھی ساتھ ہی ساتھ سیاست کے پرخطر میدان میں بھی قدم رکھا اور پاکستان تحریک انصاف کو جوائن کر لیا جس میں وہ سیکرٹری اطلاعات، سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن اور ریجنل آرگنائز ر کوہاٹ تا ڈی آئی خان تین سال تک رہے آئی ایس ایف کی آبیاری ناصر خان خٹک نے کی تھی جو آج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گئی ہے ناصر خٹک نے پشاور میں الرازی میڈیکل کالج کی تعمیر کرنی چاہی تو اس کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے مگر وہ ثابت قدم رہے اور آج کالج کامیابی سے چل رہا ہے جو کہ ٹیری اور کرک کے عوام کے لئے ایک تحفہ ہے گاﺅں سے دور ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ ناصر خان کو نہیں جانتے مگر اب جب پارٹی نے ٹکٹ دیا ہے تو عوا م نے اے جاننا شروع کردیا ہے جس نے اپنے منشور میں چیدہ باتیں سامنے لائیں ہیں کہ ان کی حکومت آئے یا نہ آئے وہ تحصیل بانڈہ داﺅدشاہ میں 100بسترو ں کے ہسپتال کی تعمیر کریں گے جس میں ہر قسم کی سہولیات مہیا ہوں گی بجلی کی قلت دور کرنے کے لئے ناصر خان نے 300میگا واٹ بجلی کے حصول کے لئے گرگری گیس فیلڈ پر گریڈ اسٹیشن تعمیر کیا جائے گا جس سے کرک، کوہاٹ اور ڈی آئی خا ن کو بجلی کی ترسیل ہوگی جبکہ ضلع کرک میں سات بڑے کالج تعمیر کئے جائیں گے جس میں ہر تحصیل میں آبادی کے لحاظ سے کالجوں کی تعمر کی جائے گی گیس کی رائلٹی میں تحصیل بانڈہ داﺅدشاہ کا حصہ اور بونس فنڈ اس علاقے میں خرچ کرنا جس علاقے کی پیدوار ہے ناصر خان صاحب جو رشتہ ٹیری والوں کے ساتھ اس الیکشن آپ نے جوڑنے کی کوشش کی ہے یہ رشتہ الیکشن کے بعد بھی جاری وساری رہے کیونکہ آپ بھی ٹیری کی مٹی کے پیدوار ہیں اور ٹیری کے عوام کی فطرت سے خوب باخبر ہیں جو کسی کی بھی پروا ہ نہیں کرتے، ناصر خان صاحب یہاں ہم ٹیری اور تحصیل بی ڈی شاہ کے چیدہ چیدہ مسائل اپ کی نظر میں لانا چاہتے ہیں جو کامیابی کے بعد اپ نے حل کرنے کی کوشش کرنی ہے جس کے لئے عوام اپ کو منتخب کرے گی، اور میںاس تحصیل کے عوام میں وہ جذبہ دیکھ رہا ہوں کہ کامیابی اپ کا مقدر ہوگی کیونکہ ایک تو آپ اس پسماندہ علاقے سے ہیں دوسرے آپ کو پی ٹی آئی کی سپورٹ حاصل ہے یہاں کے عوا م پی ٹی آئی اور آپ پر بھروسہ کرنے کے لئے تیار ہیں مگر اپ نے بھی قربانی دینی ہوگی عوام کی قربانیوں کاآپ نے بھی بھرم رکھنا ہوگا بڑے مسائل صحت، تعلیم، انصا ف ،پانی اور گیس کی رائلٹی ہے دیگر تحصیلوں کی نسبت یہاں پانی کی اتنی کمی نہیں ہے جتنی دیگر تحصیلوں میں ہے پانی یہاں کے عوام کا بنیادی مسئلہ ہے بجلی کی وولٹیج کا مسئلہ اور علاقوں کی طرح یہاں بھی بہت زیادہ ہے جس کی وجہ کڑپہ کے مقام پر غیر قانونی جپسم کے کارخانے ہیں وولیٹج کی کمی کے مسئلے کے ساتھ علاقے میں بجلی کی ناراوا لوڈشیڈنگ بھی ہے اس تحصیل کے لئے جو تاریں پہلے دن لگائی گیئں تھیں اب بھی وہی تاریں بجلی کی سپلائی کر رہی ہیں اگر تھوڑی سے بھی بارش ہوجائے تو علاقہ اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے علاقے کے دیرینہ بجلی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے گرگری گریڈ اسٹیشن سے اس علاقے کو بجلی کی سپلائی کی منصوبہ بندی ہوچکی ہے مگر علاقائی سیاست کی وجہ سے یہ پراجیکٹ ابھی مکمل نہیں ہوا اور تکمیل کی راہ دیکھ رہا ہے صحت کے حوالے عوام کو وہ سہولیات حاصل نہیں ہیں جو ہونی چاہیئے کیونکہ اب تک ٹیری اور بانڈہ داﺅدشاہ کے ہسپتال میں کوئی لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں خواتین کو علاج کے لئے لاچی، کوہاٹ یا پشاورجانا پڑتا ہے اب تک کسی بھی ایم این اے ، ایم پی اے نے اس جانب نظر ہی نہیں کی کہ ٹیری، بانڈہ میں ایک لیڈی ڈاکٹر کی تعیناتی عمل میں لائی جائے ایک دفعہ ایک لیڈی ڈاکٹر کی تعیناتی عمل میں لائی گئی تھی مگر آنے سے پہلے ہی اس نے اپنا تبادلہ کہیں اور کرادیاجبکہ دیگر بڑے علاقوں میں بی ایچ یوز کا تصور تک نہیں اب تک ٹیری صرف ایک ڈاکٹر کے رحم وکرم پر تھا مگر دوسالوں سے یہاں اب دو ڈاکٹر کام کر رہے ہیں جو موجودہ آبادی کے لئے بہت کم ہیں پولیس کا ہر علاقے میں ایک رول ہوتا ہے ان کا بنیادی کام انصاف کی فراہمی ہے مگر یہاں پولیس کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے انصاف فراہم کرنے کی جگہ ایک فصیل نے لے لی ہے جو نو گو ایریا ہے علاقے کے تمام سکولوں کا رزلٹ زیرو ہے تعلیمی ڈھانچہ تباہ ہوچکا ہے نقل کی بھرمار نے اس تعلیمی ادارے کی ساکھ کو کافی دگرگوں کردیا ہے سکول کو ہایئر سیکنڈری سکول کا درجہ مل چکا ہے مگر سائنس کی کلاسز نہیں ہیں ٹیلی فون کی سہولت تو موجود ہے مگر پی ٹی سی ایل ایک خواب بن چکاہے اکلوتے نیٹ ورک ٹیلی نار نے عوام کی ضروریات کو پورا کرلیا ہے مگر اب بھی ڈی ایس ایل کی سہولت سے ٹیری کے عوام دور ہیں یہ اور اس جیسے ان گنت مسائل ناصر خان صاحب آپ کی راہ دیکھ رہے ہیں جو اتنے زیادہ پیچیدہ نہیں ہیں اور آسانی سے حل ہوسکتے ہیں ضلع کرک کے ساتھ ساتھ تحصیل بانڈہ داﺅدشاہ کے عوام کی نگاہیں آپ کی جانب ہیں خدا ناصر خان صاحب آپ کا حامی وناصر ہو۔

A Waseem Khattak
About the Author: A Waseem Khattak Read More Articles by A Waseem Khattak : 19 Articles with 22098 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.