اے چاند یہاں نہ نکلا کر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انتخابات کے بعد کیاہوگا؟یہ وہ سوال ہے جو ہمیشہ انتخابات سے پہلے ہرآدمی سوچاکرتاہے۔حالانکہ اس سوال کا جواب انتہائی سادہ اور آسان ہے کہ انتخابات کے بعد کچھ نہیں ہوگا۔وہی ہوگا جو ہمیشہ سے ہوتاآیاہے۔جو لوگ جیت جائیں گے وہ اپنی فتح کا جشن منائیں گے اور جو ہار جائیں گے وہ دھاندلی اور فراڈ کے الزامات لگائیں گے۔

باقی رہی عوام ۔۔۔عوام تو ہمارے ہاں ویسے بھی کالانام ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر کچھ نہیں ہوگا تو پھر یہ سب شورشرابا اور ہنگامہ آرائی کس لئےہے؟اس کا جواب بھی آسان ہے کہ یہ سب اس لئے ہے کہ شورشرابے سے لوگوں کو یہ یقین دلایاجائے کہ اس ملک کی عوام اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔اب پھر ایک سوال ذہنوں میں اٹھتاہے کہاگر ایسا ہے تو پھر کیاکیاجائے ؟ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھاجائے یا اس تاریکی میں اپنے حصّے کی شمع جلانے کی کوشش کی جائے۔۔۔؟!

یہاں پر دو راستے سامنے آتے ہیں،ایک یہ ہے کہ احتیاط سے کام لیا جائے کہیں اس گھر کو گھر کے چراغ سے آگ نہ لگ جائے اور فی الحال اس معاملے سے کنارہ کشی بہتر ہے۔دوسرا راستہ یہ ہے کہ مصلحتوں کے مورچوں سے نکلا جائے اور آندھیوں کے مقابل چراغ جلائے جائیں۔یہ دونوں راستے سب کے لئے کھلے ہیں اور ہر دانا کو نظر آتے ہیں۔

اس دوران ایک تیسرا راستہ بھی ہے جس سے بچنا بہت ضروری ہے،وہ راستہ ہے ہمارے سامری مزاج لوگوں کا راستہ،ان لوگوں کا راستہ جوکسی ماہرمداری کی مانند ڈگڈگی بجاکر لوگوں کو اکٹھاکرتے ہیں،الیکشن کا تماشہ بناتے ہیں ،قانون کا مذاق اڑاتے ہیں اور اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھ کر عوام کا لہو پیتے ہیں۔ان لوگوں سے وفا اور اصلاح کی امید رکھنا کسی طور بھی دانشمندی نہیں۔
بقولِ شاعر:
یہ علم یہ حکمت یہ تدبریہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم ِ مساوات

ایسے میں جو عوام دوست اور ملت کے ہمدرد باشعور افرادہیں ،انہیں پہلے سے معلوم ہونا چاہیے کہ کسی بھی ملت کی حقیقی طاقت اس کے اجتماعی اور سیاسی شعور میں ہواکرتی ہے۔ہمارے لئے موجودہ انتخابات عوام کو سیاسی شعور دینے اور اجتماعی سرگرمیوں کو سیکھنے سکھانے کا بہترین وسیلہ ہیں۔ہمیں انتخابات کی سرگرمیوں کے ذریعے موجودہ انتخابات کی فضا سے مثبت فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔عوام کودینِ اسلام کی طرف دعوت دینا،قیامِ پاکستان کے مقاصد یاددلانا،خودی اور خود داری کا راستہ دکھانا،اسلامی تنظیموں اور فرقوں کے درمیاں ہم آہنگی پیدا کرنا،دہشت گردوں کے بجائے دہشت گردی سے نفرت کا شعور دینا،لوگوں کو احسن طریقے سے یہ سمجھانا کہ شدت پسندی اور کرپشن کیسے جنم لیتی ہے،خواتین کو دینِ اسلام کے مطابق ان کے حقوق دلانے کی جدوجہدکرنا،نوجوان نسل اور بچوں کی دینی و ملی خطوط پر تربیت کرنا، بنیادی انسانی حقوق کی شناخت کرانا،سیاسی غلط فہمیوں کے خاتمے کی کوشش کرنا،فرقہ واریت کی لت سے معاشرے کو پاک کرنا،علاقائیت اور لسانیات جیسے امراض کی جڑوں کو کاٹنا،دینِ اسلام،علامہ اقبال اور قائداعظم کی تعلیمات کے ذریعے ٹوٹے ہوَے دلوں کو جوڑنا،ہماری اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔

ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ایک ایسے ملک کی بقاء اور ایک ایسی ملت کی نجات کے ضامن جہاں پر حکمرانوں کے صرف چہرے بدلتے ہیں اور کچھ نہیں۔

ایسے حبس زدہ ماحول میں اگر ہم کسی ایک شدّت پسند کو راہِ راست پر لے آئیں،کسی ایک گمراہ کو راہ دکھا دیں،کسی ایک بے شعور کو شعور دے دیں ،کسی ایک نیک اور صالح انسان کو اسمبلی تک پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں، کسی ایک بستی میں محبت و اخوت کے دیپ جلانے میں کامیاب ہوجائیں،کسی ایک متعصب فرقہ پرست مولوی کو شکست دیدیں،کسی ایک متکبرسیکولر کو اپنی سیاسی و اجتماعی طاقت اور عوامی شعور و بیداری کا احساس دلادیں تو ہم ہی فاتح ہیں اور اس ملک کو سنوارنے کی تحریک میں برابر کے شریک ہیں۔ہمیں اگر اس ملک و ملت کی خدمت کرنی ہے تو ہماری سیاسی فعالیت سامریوں اور مداریوں سے بالکل مختلف ہونی چاہیے۔بصورت دیگر ہم ہمیشہ کی طرح ان انتخابات کے بعدبھی یہی نوحہ کرتے پھریں گئے کہ
نہ ڈرتے ہیں نہ نادِم ہیں
ہاں کہنے کو وہ خادِم ہیں
یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکِم ہیں
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
نذر حافی
About the Author: نذر حافی Read More Articles by نذر حافی: 35 Articles with 32489 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.