امجد علی خان، تحریک انصاف اور وتہ خیل برادری کی پگ

تحریر:۔ خان محمدآحمد۔ شاہین گروپ وتہ خیل

جنرل الیکشن 11مئی 2013کے حوالے سے ضلع میانوالی میں جہاں نئی قیادت سامنے آرہی ہے وہی پر امیدواروں کا ذاتی، خاندانی یا علاقائی ووٹ بنک اور اہمیت اختیار کر چکا ہے۔یہی ووٹ بنک کسی بھی امیدوار کو شکست اور کامیابی میں اہم کردار ادا کرے گا۔کیونکہ ضلع میانوالی، پاکستان کے ان اضلاع میں شامل ہے جہاں نظریاتی ووٹ کم اور برادری کے ووٹ زیادہ ہوتے ہیں۔ چونکہ الیکشن کا دور دورہ ہے ہر گلی،کوچہ اور ہر جگہ صبح و شام ایک ہی موضوع پر گفتگواور تذکرے ہو رہے ہیں۔مختلف پارٹیوں کے حامی افراد اپنے اپنے امیدوار کے لئے اپنی بساط کے مطابق ووٹ مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ چونکہ حلقہ این اے۔72 میں تحریکِ انصاف کے امیدوار امجد علی خان وتہ خیل اور سابق ایم این اے حمیر حیات روکھڑی جو کہ اب ن لیگ کے امیدوار ہیں کے درمیان ون ٹوون مقابلہ ہے اور یہ مقابلہ تحریک انصاف یا ن لیگ کا نہیں بلکہ وتہ خیل قوم اور روکھڑی گروپ کے درمیان مقابلہ ہے۔ ضلع میانوالی میں وتہ خیل قوم اور برادری کا ایک نام ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وتہ خیل اور برادری کا ووٹ بنک ضلع میانوالی موجودتمام قوموں اور برادریوں سے زیادہ ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر وتہ خیل برادری اپنے ووٹ اپنے امیدوار کو دے دیں تو اس کی کامیابی کنفرم ہے۔ وتہ خیل جہاں رقبے کے لحاظ سے ضلع کی سب سے بڑی برادری وہی تعلیم و قابلیت کے لحاظ سے کبھی کسی سے کم نہیں ہے۔جہاں اتنے سارے لوگ ہوں وہاں اتنی ہی زیادہ رائے بھی ہوتی ہے اور یہی چیزیں قوموں کے عروج و زوال کا سبب بنتی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ناراض ہونے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔لیکن ناراضگی اور دشمنی میں فرق ہوتا ہے۔لہذا اب کی بار وتہ خیل برادری کو سوچ سمجھ کر ووٹ دینا ہوگا۔ ایک چھوٹی سی مثال اگر کوئی سمجھ سکے تو یہ ایک دو الیکشن پہلے کا واقعہ ہے اور سچ بات ہے الیکشن زوروں پر تھے اسی طرح جابجا بحث و مباحثے جاری تھے امیر غریب، ملازم، مزدور، کاشتکار غرض ہر کوئی اپنی اپنی سوچ اور صلاحیت کے مطابق تبصرے اور دعوے کر رہا تھا۔روکھڑی کا ایک غریب کمبہار کندیاں روڈ پر دیار ِ حبیب ٹاﺅن کے ساتھ دریائے سندھ کے ملحقہ وتہ خیل کے رقبے سے جلانے کے لئے ڈبی کان جیسے اپنی زبان میں (کوندر) کہتے ہیں کانٹے آیا ہوا تھا کچھ دیر بعد اس رقبے کا مالک بھی آگیا، حال احوال کے بعد ووٹوں کی بات ہوئی وتہ خیل کے بابے نے روکھڑی کے بابے سے پوچھا ووٹ کس کو دو گے تو روکھڑی کے بابے نے جواب دیا روکھڑی صاحب کو وتہ خیل کے بابے نے پوچھا کیوں کہنے لگا ووٹ کاغذ کی پرچی نہیں پگ ہے اور یہ پگ روکھڑی کی ہے۔جب وتہ خیل کے بابے نے یہ بات بتائی توتب سے مسلسل اب تک روکھڑی والے بابے کی بات پر ہر بار الیکشن کے دور میں مجھے یاد آتی ہے کہ واقعی ووٹ کا غذ کی پرچی نہیں بلکہ پگ ہے۔عزت ہے اور اس پگ اور عزت کا حقدار بھی وہی ہے جو اس علاقے کا ہے۔خود ہمارے والد صاحب نے ہمیں یہی حکم دیا ہوا ہے کیونکہ اپنا پھر بھی اپنا ہوتا ہے وہ مان لے گا لیکن غیر کبھی بھی آپ کی بات نہیں مانے گا کیونکہ اسے کبھی بھی یقین نہیں آئے گا اور یوں آپ رسوا بھی ہونگے اور نادم بھی۔ ایک اور بات میانہ کھو کے میاں شیر آحمد صاحب اﷲ انہیں خلیق رحمت کرے میرے والد صاحب کے چند بہتریں دوستوں اور مہربانوں میں سے ایک تھے اور اس وقت ان کا یارانہ روکھڑی صاحباں سے تھا۔میرے والد نے انہیں میرے بھائی کی نوکری کے لئے کہا۔میاں صاحب والد صاحب کو لے کر روکھڑی صاحباں کے پاس گئے بات کی انہوں نے بات مان لی اوروہ گل حمید خان کے بھائی اصغر خان تھے۔ جب میرے والد نے بھائی کے کاغذات دیئے تو روکھڑی صاحب نے میاںشیر آحمد صاحب سے معذرت کر لی اور صاف صاف لفظوں میں کہ دیا کہ میاں صاحب وتہ خیل کے کسی بندے کا کام نہیں کر سکتے اور جس کےلئے کہومیں تیار ہوں وتہ خیل کا کام نہیں کر سکتے جو جناب اب سوچئے کہ آپ نے کیا کرنا ہے۔اس کے علاوہ اگر پارٹی کے حوالے سے دیکھا جائے تو بھی تحریک ِانصاف بقائے پاکستان کی آخری کرن ہے۔پچھلے پانچ سال جہاں بظاہر پی پی نے ملک کا دیوالیہ نکا لا ہے وہاں اس کھیل میں ملک کی تباہی اور بربادی میںپی پی سے کہیں زیادہ ن لیگ نے پاکستانی قوم پر ظلم کیا ہے کیونکہ پی پی نے انہی کی مد د سے پانچ سال پورے کیے ہیں اور یہ اندروں خانہ طے شدہ گیم تھی پورے پنجاب کی بیورکریسی کی نکیل اپنے ہاتھ میں تھام کر خود کو خادمِ اعلیٰ کہنے والے تاریخ کے سب سے بڑے غاصب ِ اعلیٰ ہیں۔مانا کہ پی پی نے اندھیرمچائے رکھا لیکن اس کے باوجود ابھی انہوں نے لوگو ں کو روزگار سے محروم نہیں کیا کہ یہ غلط تھا لیکن کم ازکم اگر 5000ملازمین ڈیلی ویجر یا کنٹریکٹ والے مستقل ہوئے ان میں سے 1000 یا 1500 ایسے ضرور ہوں گے جو حقدار نہیں ہوں گے لیکن کم از کم3500 تو ایسے ہونگے جو واقعی حقدار ہوں گے انہوں نے پورے پا نچ سال پنجاب کے بہت سے محکموں کے ملازمین کو ترسایہ ہے اور اب پھر ان کا دعوی ہے کہ ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے،کچھ بھی نہیں ہوگا جس طرح مشرف کے آنے سے پہلے پورے پانچ سال یہ بڑکیں مارتے رہے اور جب مشرف آگیا تو ان کو سانپ سونگھ گیا اسی طرح یہ پاکستانی عوام پر گویہ مغلیہ خاندان کی طرح حکومت کرنے چاہتے ہیں۔بلاشبہ ان کی دوسرے نسل حمزہ شریف وغیرہ میدان سیاست میں گل کھلا چکے ہیں اور نہ جانے اور کتنی عائشہ احد جیسی بیٹیاں ان کے ہاتھوں پامال ہوں گی۔ عافیہ صدیقی سے مسئلے پر ان کا کردار اور پنجاب میں بلکہ لاہور میں پاکستانیوں کے امریکی قاتل کے حوالے سے ان کی پالیسی سب کے سامنے ہے ہم کب تک ان کے زیر نگیں رہیں گے۔اب کی بار تمام پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ صرف ایک بار تحریک انصاف کو موقع دے دیں اگر ملک کے حالات میں تبدیلی یااس سے بہتر ی نہ آئی تو پھر بشک اسے بھی ٹھکر دیں لیکن اگر دو دو بار پی پی اور ن لیگ کو آزما لیا ہے تو کم از کم ایک بار پی ٹی آئی کو بھی آزما لیں ہو سکتا ہے پاکستان کو دنیا میں عزت و وقار مل جائے کیونکہ PTIوالے سیاست دان نہیں ہیں۔

Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 89615 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.