پاکستان میں یوں تو ایک عرصے سے امن و امان کی صورتحال
انتہائی قابل رحم ہے، لیکن ان دنوں تو ملک میں قتل و غارت گری اور بم
دھماکے اس تواتر سے ہورہے ہیں جس تواتر سے تسبیح کا دھاگا ٹوٹنے سے تسبیح
کے دانے گرتے ہیں۔ پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ گیارہ مئی
جوں جوں قریب آ رہی ہے،اس کے ساتھ انتخابات کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں
بھی تیزی آتی جارہی ہے اور ان کارروائیوں میں خاص طور پر تین صوبوں سندھ ،بلوچستان
اور خیبر پختونخوا میں انتخابی امیدواروں ،ان کے دفاتر،ریلیوں اور جلسے ،جلوسوں
کو بم حملوں میں نشانہ بنایا جا رہا ہے اور بم دھماکوں، اور قاتلانہ حملوں
میں تقریباً روزانہ ہی پندرہ بیس افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں۔دہشت گردی کے
ان پے در پے واقعات کے پیش نظر سیاسی اور صحافتی حلقوں کی جانب سے مقررہ
وقت پر عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار بھی کیا
جارہا ہے۔صوبہ بلوچستان اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں امن وامان کی
صورت حال سب سے زیادہ مخدوش اور پتلی ہے۔ان علاقوں میں مختلف جرائم پیشہ
عناصر اور غیرملکی ایجنٹ بروئے کار ہیں جو اپنی تخریب کاری کی کارروائیوں
میں انتخابی امیدواروں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں اور ان کی املاک کو نشانہ
بنا رہے ہیں۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ سب کچھ تحریک طالبان پاکستان
کروارہی ہے کیونکہ تحریک طالبان پاکستان نے دھمکی دی تھی کہ وہ ایم کیو ایم
، اے این پی اور پی پی پی کو نشانہ بنائے گی۔
ان حالات کے پیش نظر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے گزشتہ روز کہا ہے کہ
کراچی سمیت خیبرپختونخوا اوربلوچستان میں امن وامان کی صورتحال بہترنہیں،
الیکشن کمیشن آزادانہ اور شفاف انتخابات کے لیے امن وامان کو یقینی بنائے۔
الیکشن کمیشن امن وامان پر توجہ دے رہی ہے، تاہم اس حوالے سے کیے گئے
انتظامات مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے، الیکشن کمیشن کو ایسا کوئی حکم نہیں
دینا چاہتے جس سے ان کی حوصلہ شکنی ہو،ملک میں پ ±رامن فضا قائم کی جائے
تاکہ شہری انتخابات میں حصہ لے سکیں۔اسی حوالے سے گزشتہ روز کراچی کی مختلف
دینی و سیاسی جماعتوں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ کراچی میں
پرامن، شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کےلئے ضروری ہے
کہ انتخابات مکمل طور پر فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں، پورے شہر کو حساس
علاقہ قرار دے کر شہر کے ہر پولنگ بوتھ کے اندر فوجی جوان تعینات کیے
جائیں۔ چیف الیکشن کمشنر آرمی چیف کو خط لکھیں اور کراچی کی تشویشناک صورت
حال میں فوج کو بلانے کی درخواست کریں ۔ شہر میں تمام نوگوایریا ختم کرائے
جائیں۔ یہ مطالبہ بھی کیا کہ کراچی میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کا
انعقاد ممکن نہیں۔ ملک میں انتخابات کا التواءغیر ملکی ایجنٹوں کا ایجنڈا
ہے۔ شہر میں پوسٹرز اور بینرزہٹائے جارہے ہیں، کارکنوں کو اغواءوتشدد کا
نشانہ بنایا جارہا ہ، پولیس اور رینجرزخاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ الیکشن
والے دن صرف نمائشی نہیں حقیقی معنوں میں فوج کا کردار ہونا چاہےے۔ شہر میں
آگ اور خون کا کھیل جاری ہ، سازش کے تحت الیکشن ملتوی کرنے کی کوشش کی
جارہی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ کراچی کو فوری طورپر الیکشن والے دن تک کےلئے
فوج کے حوالے کیا جائے۔ پورا کراچی ریڈ زون بن چکا ہے اگر فوج نہیں آئے گی
تو عوام کو تحفظ بھی نہیں مل سکے گا اور جب عوام کو تحفظ نہیں ملے گا تو
عوام آزادانہ طورپر اپنی رائے کس طرح استعمال کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب آل
پارٹیز کانفرنس میں شریک سترہ سیاسی اورمذہبی جماعتوں نے فوج کی نگرانی میں
الیکشن کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔نگراں وزیراعلیٰ سندھ زاہد قربان علوی کی
زیر صدارت ہونے والی کانفرنس میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماو ¿ں
نے شرکت کی، اس موقع پر نگران حکومت کی طرف سے انتخابی مہم چلانے والوں کے
تحفظ کے لیے 18 نکاتی ضابطہ اخلاق بھی پیش کیا گیا۔
اس صورت حال کے تناظر میں جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) راولپنڈی میں
پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی صدارت میں سوموار کو کور
کمانڈروں کا خصوصی اجلاس ہوا جس میں آیندہ عام انتخابات کے موقع پر ملک میں
امن وامان کی صورت حال اور مسلح افواج کی تعیناتی کا جائزہ لیا گیا ہے۔پاک
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق کور کمانڈروں
نے کراچی سمیت ملک بھر میں عام انتخابات کے پرامن انداز میں انعقاد اور
سیکورٹی کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لیے مسلح افواج کو تعینات کرنے کے
پلان کی منظوری دے دی ہے۔ فوجی قیادت کے اس فیصلے سے قبل ہی صوبہ بلوچستان
کے شورش زدہ نو اضلاع میں انتخابات کے پرامن اور بلا تعطل انعقاد کے لیے
مسلح افواج کے دستوں کو تعینات کردیا گیا ہے۔پاک فوج کا 400 جوانوں پر
مشتمل پہلا دستہ مستونگ، کھٹ گجہ اور دشت کے لیے کوئٹہ سے بھجوا دیا
گیا۔صوبائی محکمہ داخلہ کے حکام کے مطابق ضلع ڈیرہ بگٹی ،کوہلو ،آواران
،خضدار ،قلات ،مستونگ ،خاران اور گوادر میں فوجیوں کو تعینات کیا گیا ہے۔
محکمہ داخلہ کے مطابق بلوچستان میں سترہزار سیکورٹی اہلکار تعینات کیے
جائیں گے جن میں فوج، ایف سی، بلوچستان کانسٹیبلری، انسداد دہشت گردی فورس
اور ریپڈ رسپانس فورس کے اہلکار شامل ہیں۔ان کے علاوہ صوبے کے تمام تیس
اضلاع میں فرنٹئیر کور کے اہلکار بھی تعینات ہوں گے۔ حکام کے مطابق فوج اور
ایف سی کے اہلکار پندرہ مئی تک پولنگ مراکز پر تعینات رہیں گے اور ان کی
تعیناتی کا اختیار عبوری صوبائی حکومت کو ہوگا تاکہ رقبے کے اعتبار سے ملک
کے سب سے بڑے صوبے میں پولنگ کے پرامن اور احسن انداز میں انعقاد کو یقینی
بنایا جا سکے۔فوج اور ایف سی کے بائیس ہزار اہلکاروں کے ساتھ
لیویز،بلوچستان کانسٹیبلری اور پولیس کے پچاس ہزار کے لگ بھگ اہلکاروں کو
بھی امن وامان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لیے تعینات کیا جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے مذکورہ بالا اضلاع میں اتوار کو فوج اور ایف
سی کے اہلکاروں کی تعیناتی کا عمل شروع کر دیا گیا تھا اور صوبائی
دارالحکومت کوئٹہ سے فوج کی نفری کو ضلع مستونگ روانہ کردیا گیا تھا۔درایں
اثناءصوبے کے اسکول اساتذہ کے بعد لیکچراروں نے بدامنی کا شکار بارہ اضلاع
میں پولنگ کے موقع پر فرائض انجام دینے سے انکار کردیا ہے جس سے صوبے میں
عام انتخابات کا انعقاد ہی خطرے میں نظر آ رہا ہے۔ بلوچستان گورنمنٹ ٹیچرز
ایسوسی ایشن کے ارکان سے ایک حکومتی وفد نے بائیکاٹ ختم کرانے کے لیے
مذاکرات کیے ہیں لیکن اساتذہ کے نمائندوں نے بارہ میں سے صرف دواضلاع چاغی
اور لسبیلہ میں پولنگ کے روز فرائض انجام دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے اور وہ
باقی دس اضلاع میں ہمہ نوع دہشت گردوں کے حملوں کے خطرے کے پیش نظر فرائض
انجام دینے کو تیار نہیں۔ تنظیم اساتذہ نے صوبائی گورنر نواب ذوالفقار مگسی
اور نگران وزیراعلیٰ کے نام ایک خط بھیجا ہے جس میں انہوں نے قلات ،مستونگ،
کیچ ،خضدار اور نوشکی سمیت گیارہ اضلاع میں اساتذہ کو دہشت گرد عناصر کی
جانب سے ملنے والی مسلسل دھمکیوں کے بارے میں آگاہ کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ
اس صورت حال میں انتخابات کے لیے فرائض انجام نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ ان
کی جانوں کو سنجیدہ خطرات لاحق ہیں۔واضح رہے کہ بلوچستان میں مسلح علاحدگی
پسند عناصر اور غیرملکی ایجنٹ سیاست دانوں اور ان کے حامیوں کو بم حملوں
اور فائرنگ میں نشانہ بنا رہے ہیں اور انتخابی امیدواروں کو قتل کی دھمکیاں
دی جا رہی ہیں۔ |