کیا عمران خان اور میاں نوازشریف اسے پڑھنے کی زحمت گوارا کریں گے
تحریر: محمد اسلم لودھی
قدرت نے پاکستان کو ہر اس نعمت سے نوازا ہے جو کسی بھی ملک کو خوشحال بنانے کے
لیے ضروری ہوتی ہے لیکن پاکستان میں جتنے بھی فوجی یا سویلین اقتدار میں آئے
اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے تو انہوں نے ہر جائز اور ناجائز اقدام کیا آئین
توڑا ٗ پے درپے ترامیم کرکے اس کا حلیہ بگاڑ دیا لیکن وہ کام جو پاکستان کو
خوشحال بنانے کے لیے ضروری تھے اول تو ان کی طرف توجہ ہی نہیں دی گئی وگرنہ
انہیں اتفاق رائے کی سولی پر لٹکا کر خود اقتدار کے مزے لوٹ کر چلتے بنے۔بات کو
شروع کرنے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ اس وقت شہروں اور دیہاتوں میں بجلی کی
لوڈشیڈنگ اٹھارہ سے بائیس گھنٹے تک پہنچ چکی ہے۔ عوام سڑکوں پر آکر بجلی کی
لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن حکمران بجلی کی قیمت میں حد درجہ
اور بار بار اضافہ کرکے ان کا معاشی قتل کررہے ہیں ۔ یہی عالم گیس کا ہے اگر
مہنگائی کا تناسب دیکھیں تو اس کو پانچ سالہ جمہوری دور میں اس قدر بڑھا دیاگیا
ہے کہ اب تیس ہزار روپے تنخواہ لینے والا زکوہ لینے پر مجبور ہے بجلی گیس اور
دیگر یوٹیلٹی بلز اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ عام آدمی کی قوت برداشت سے ہی باہر نکل
چکے ہیں ۔پی آئی اے 32 ارب جبکہ ڈیڑھ سو ارب روپے حکومتی خزانے سے مالی سپورٹ
ملنے کے باوجود سٹیل ملز اور پاکستان ریلوے بھی پچاس پچاس ارب خسارے میں ہیں
اور منافع میں آنے کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دیتے ۔
ان حالات میں عمران خان کہتے ہیں کہ اگر قوم کے ووٹوں سے وہ وزیر اعظم بن گئے
تو تین سال میں بجلی کی قلت ختم کردیں گے جبکہ میاں برادران دو سال میں یہ کام
کرنے کاارادہ رکھتے ہیں پیپلز پارٹی پانچ سال اقتدار میں رہی لیکن بجلی پیدا
کرنے کی بجائے کرپشن میں عالمی ریکارڈ قائم کرکے چلتی بنی ۔پاکستان کے تقریبا
تمام دریاؤں میں پانی خشک ہوچکا ہے بھارت نے 70 سے زائد ڈیم بنا کر تمام
پاکستانی دریاؤں کو صحراؤں میں تبدیل کردیا ہے جس نہ صرف پاکستانی ذراعت شدید
متاثر ہو رہی ہے بلکہ زیر زمین پانی کی سطح بھی پانچ سو فٹ سے نیچے جا چکی ہے ۔
پاکستانی حکمرانوں کو اس بات کا قطع احساس نہیں ہے کہ صنعت کے ساتھ ساتھ اگر
زراعت بھی تباہ ہوگئی تو اٹھارہ کروڑپاکستانی کھائیں گے کہاں سے ۔ جبکہ پاکستان
گیارہ ہزار ارب کا مقروض ہوچکا ہے اور پیسے پیسے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی
اداروں کا محتاج ہے ۔
اس لمحے میں سوچتا ہوں کہ اگر میں عمران اور نوازشریف کی جگہ ہوتاتو کیا کرتا ۔
سوچنے میں کیا حرج ہے اگر میں واقعی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوجاؤں تو میں
پاکستانی قوم کو مسائل سے چھٹکارا دلانے کے لیے کیا کروں سب سے پہلے تو بجلی کا
بحران دور کرنے کے لیے ایٹمی سائنس دانوں کا اجلاس بلاؤں گا اور ڈاکٹر
عبدالقدیر خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دوں گا جو سولر ٗ ہوا اور گیس سے
انتہائی کم قیمت پر بجلی بنانے کے قابل عمل منصوبہ تیارکرکے فوری طور پر اس پر
عمل کرے گی ۔اس مقصد کے لیے غیرملکی زرمبادلہ (ڈالر) کی کمی پورا کرنے کے لیے
میں بیرون ملک پاکستانیوں سے رجوع کروں گا اور انہیں بجلی کے منصوبوں میں براہ
راست مالی معاونت کرنے کی ترغیب دوں گا ۔ جب انہیں یہ احساس ہوگا کہ ان کے
سرمائے خرد برد نہیں ہوگی تو وہ مطلوبہ فنڈز ضرور فراہم کریں گے مزید برآں
بیرون ملک پاکستانیوں کو ایک ڈالر کے عوض پاکستان میں پہلے اگر 100 روپے دیئے
جاتے تو میں 120 روپے دے کر انہیں زیادہ سے زیادہ رقم پاکستان بھیجنے کی ترغیب
دوں گا تاکہ ہنڈی کے زریعے رقم منتقلی کو رکا جائے۔ سٹیٹ بنک پہلے ہی روزانہ
اربوں روپے حکومتی اخراجات اور شاہ خرچیوں کو پورا کرنے کے لیے پرنٹ کررہا ہے
وہی رقم میں اپنے بیرون ملک پاکستانیوں کو زرمبادلہ کے عوض فراہم کروں گا۔اگر
تین مہینے میں سولر یونٹ اور گیس یونٹ سستی بجلی پیدا کرنا شروع کردیتے ہیں تو
سبسڈی دے کر میں آدھی قیمت پر وہ بجلی پاکستان کی تمام فیکٹریوں کاروباری
اداروں اورکسانوں کو فراہم کرکے انہیں درخواست کروں گا کہ وہ پیداواری لاگت کم
ہونے کی بناپر اپنی اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں پچاس فیصد نہیں تو کم ازکم 30
فیصد ہی کمی کردیں جب اشیائے خورد نوش کی قیمتوں میں 30 فیصد کمی ہوجائے گی تو
ہر پاکستانی کی زندگی پہلے کی نسبت آسان ہوجائے گی مطلوبہ مقدار میں بجلی ملنے
سے ملک میں موجود کارخانے اور فیکٹریوں پوری استعداد کے مطابق جب رات دن کام
کریں گے تو بے روزگار نوجوانوں کو بھی ملازمتیں مل جائیں گی تو معیشت کا رکاہوا
پہیہ پہلے سے تیز دوڑنے لگے گا ۔ملک کو پانچ سالوں کے لیے ٹیکس فری زون قرار دے
کر ہر ضلع میں صنعتی زون قائم کروں گا جہاں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو
ون ونڈو کے تحت ہر قسم کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی صنعتی اور زرعی پیداوار کو
بڑھا کر بین الاقوامی میعار کی پیکنگ کرکے برآمدات میں اضافہ کروں گا اور غیر
ضروری اشیائے کی درآمد پر پابندی لگاکر زرمبادلہ میں اضافہ کیاجائے گاجسے دفاع
اورصنعتی فروغ کے لیے استعمال کیاجائے گا ۔رشوت دینے اور لینے والے دونوں کے
لیے موت کی سزا تجویزکروں گا ۔ افتخار محمد چودھری کوتاحیات چیف جسٹس قرار
دیاجائے گا اور جسٹس بھگوان داس کو بلا امتیاز اور بے رحم احتساب کے لیے نیب کا
سربراہ بنا کر 1971 سے لے کر آج تک تمام سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کا تھرڈ
پارٹی آڈٹ کروا کر بے رحم احتساب ممکن بنایاجائے گا۔کنٹریکٹ پر ملازم رکھنا جرم
اور تمام کنٹریکٹ ملازمین کو فوری طور پر مستقل کرنے کا حکم جاری کروں گا۔جرائم
کے خاتمے کے لیے اچھی صحت اور اچھی شہرت رکھنے والے سابق فوجیوں کو تھانوں میں
انچارج کی حیثیت سے تعینات کرکے پولیس میں محکمانہ رشوت خوری اور عوام کش
اقدامات کو واجب قتل قرا ر دوں گا ۔ کرپٹ اور رشوت خور ملازمین کو تبادلوں کی
بجائے ملازمتوں سے فارغ کردیاجائے گا ۔کوئی زمانہ یہ تھا کہ لاہور شہر میں صرف
ایک پولیس انسپکٹر ہواکرتا تھا اس دور میں زیورات سے لدی ہوئی عورت رات کے کسی
بھی پہر ایک جگہ سے دوسرے مقام پر بلاخوف و خطر آ جاسکتی تھی لیکن اب جبکہ
لاہور میں آئی جی ٗ نصف درجن ڈی آئی جی ٗ ایس ایس پی ٗ ایس پی ٗ درجنوں کے حساب
ڈی ایس پی اور انسپکٹر قومی خزانے سے کروڑوں روپے تنخواہیں لے رہے ہیں لیکن
ڈاکوکی وارداتیں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ درجنوں کے حساب سے لوگ روزانہ لوٹ رہے
ہیں اور پولیس کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی ۔ٰذوالفقار چیمہ اور شفقت باری
جیسے باصلاحیت اور ایماندار پولیس افسروں کو آگے لاکر نہ صرف پولیس ڈیپارٹمنٹ
سے کرپشن کا خاتمہ کروں گا بلکہ محکمہ پولیس بزنس ایڈمنسٹریشن میں ایم اے پاس
باصلاحیت نوجوانوں کو بھرتی کرکے تھانہ کلچر تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ محکمے میں
موجود کالی اور رشوت خور لوگوں کو نکال باہر کروں گا ۔یہ کام مشکل تو ضرور ہے
لیکن ناممکن نہیں ہے ۔ہر ضلعی مقام ممتاز عالم دین کو مفتی مقرر کروں گا جو
محکمہ پولیس اور دیگر سرکاری اداروں میں صرف رشوت ستانی اور اختیارات کے ناجائز
استعمال کے مقدمات کی سماعت کرکے اسلامی قوانین کے مطابق سزائیں تجویز کرکے ان
پر عمل بھی کریں گے ۔
ہر صبح کابینہ کی میٹنگ ہوگی اخبارات میں کرائم ٗ جرائم اور دیگر عوامی شکایات
والی خبروں کی اشاعت پر متعلقہ وزیر اور ڈپٹی کمشنر سے تحریری جواب طلب کرنے کے
ساتھ ساتھ مظلوم کی دادرسی کے لیے فوری طور پر روزانہ کی بنیاد پر اقدامات کیے
جائیں گے جس ضلع یا تحصیل کے بارے میں شکایت ہوگی وہاں کا ڈپٹی کمشنر اور
اسسٹنٹ کمشنر جوابدہ متصور ہوں گے۔ صدر ٗ وزیر اعظم ٗ وزراء ٗ مشیروں سمیت تمام
سرکاری افسر وں کے لیے مفت پٹرول ٗ ٹیلی فونٗ موبائل اور بجلی گیس کے تمام بلوں
کی ادائیگی سرکاری خزانے سے بند کردوں گا ٗ سرکاری گاڑیوں کا ذاتی استعمال
ممنوع ہوگا۔ جس طر ح عوام اپنی جیب سے ہر چیز خریدتے ہیں اسی طر ح ملک کے صدر
سے لے کر چھوٹے سرکاری افسر تک اپنی مخصوص تنحواہ میں گزارہ کریں گے یہ وسائل
ملک میں ریلوے کی ازسر نو بحالی ٗ موٹرویز کی تعمیر ٗ بلٹ پروف ٹرین اور ملک
میں سونے تابنے لوہے اور دیگر معدنیات کی تلاش کے لیے خرچ کروں گا ۔دریائے سندھ
کو مزید گہرا اور چوڑا کرکے اسے مصر کی نہر سویز کی طرح مال برادار بحری جہازوں
کی آمدو رفت کے لیے استعمال کیا جائے جس کی رسائی وسطی ایشیائی مسلم ریاستوں سے
گواردر تک ممکن بنائی جائے گی ۔
سیکورٹی پلان تبدیل کرکے پولیس کا کام صرف او ر صرف عوام کا تحفظٗ جرائم پیشہ
افراد کی بیخ کنی اور دہشت گردی کی روک تھام ہوگا جس کی سیاست دان یا سرکاری
عہدیدار کی جان کو خطرہ ہوگا وہ خود اپنی حفاظت کااہتمام کرے گا۔ سرکاری
پروٹوکول کسی کو حاصل نہیں ہوگااور نہ ہی سرکاری اخراجات سے افتتاحی تقریبات ٗ
جلسوں ٗ ضیافتوں اور غیر ملکی دوروں کی اجازت ہوگی صرف صدر اور وزیر اعظم غیر
ملکی دورے پر جاسکیں گے لیکن پانچ افراد سے زیادہ وفد میں شامل نہیں ہوں
گے۔سرکاری خرچ پر کسی کو حج یا عمرہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی پی آئی اے کو پچاس
فیصد پٹرول میں رعایت دے کر پچاس سال سے بڑے ہر مسلمان کو صرف سعودی حکومت کے
اخراجات پر حج اور عمرے کی سہولت فراہم کی جائے گی۔غیرملکی بنکوں میں
پاکستانیوں کے 30 ارب ڈالر سے زائد جمع شدہ رقم کو واپس لانے کے لیے قانون چارہ
جوئی کی جائے گی ۔کسانوں کو ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی بالکل فری ٗ کھاد بیج اور
دیگر زرعی لوازمات پچاس فیصد رعایت پر فراہم کیے جائیں تاکہ زرعی اجناس کی
قیمتوں کو عام آدمی کے کنٹرول میں لایا جائے۔ پٹرول اور پٹرولیم کی دیگر
مصنوعات پر عائد تمام ٹیکس ختم کرکے عالمی منڈی کے ریٹ پر فراہمی کو ممکن بنایا
جائے گا۔ گیس کے نئے ذخائر کی تلاش اور تھرکو ل پراجیکٹ میں پیدا ہونے والی گیس
کو عوامی استعمال کے قابل بنا کر گیس کی قلت کو ختم کیا جائے۔ موٹروے ٗ تین سو
کلومیٹر طویل ساحلی علاقوں میں بین الاقوامی فرموں کے مالی اور تکنیکی تعاون
حاصل کرکے ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس وسیع پیمانے پر نصب کرواکر بجلی
پیدا کی جائے گی ۔پولیس ٗ بیورو کریسی اور انتظامی اداروں میں افسروں کی بھرمار
ختم کرکے ان کی تعداد نصف سے بھی کم کیاجائے گا۔ اگر چھوٹے ملازمین کو رہائشی
سہولتیں حاصل نہیں ہیں تو بڑے سرکاری افسروں کو بھی خود اپنی تنخواہوں سے کرایہ
دے کر مکانوں میں رہنا پڑے گا ۔پی آئی اے ٗ ریلوے ٗ سٹیل ملز جیسے ادارے جو
اربوں روپے خسارے میں جارہے ہیں سربراہ سمیت بورڈ آف ڈائریکٹرز ٗ اور انتظامیہ
کو یکسر برطرف کرکے باصلاحیت اور غیر سیاسی افراد کا تقرر کرکے ادارے کو منافع
بخش بنایاجائے گا وگرنہ اسے نجی شعبے کے سپرد کردیاجائے گا۔ کراچی میں انسانی
قتل و غارت گری روکنے کے لیے ایم کیوایم ٗ اے این پی اور پیپلز پارٹی کے عسکری
اور اسلحی ونگ کو ختم کرنے کے لیے مخصوص مدت کے لیے فوج کی خدمات حاصل کی جائیں
گی پھر کراچی کی انتظامیہ کی مکمل اوورہالنگ کرکے سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے
والے پولیس اور انتظامی اہلکاروں کو ملازمتوں سے فارغ کرکے غیر سیاسی اور جرات
مند افراد کو بھرتی کیاجائے گا جو بلا امتیاز جرائم اور جرائم پیشہ افراد کے
خلاف سخت ایکشن لے سکیں ۔
بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اس وقت تک معقول ماہانہ وظیفہ دیاجائے جب تک
انہیں ملازمت نہیں مل جاتی۔اردو کو قومی زبان بنا کر دنیا کے تمام علوم کا
ترجمہ کروا کر یونین کونسل کی سطح پر معیاری تعلیمی ادارے اور لائبریریاں قائم
کروں گااور جدید سہولتوں سے آراستہ ان کمیپوٹرائزڈ لائبریوں سے نہ صرف تعلیمی
اداروں کی طلبہ و طالبات استفادہ کریں گی بلکہ مقامی لوگ بھی رات کے وقت اپنا
مطالعے کا شوق پورا کرسکیں گے ۔لائبریوں صبح آٹھ بجے سے رات بارہ بجے تک دو الگ
الگ شفٹوں میں کام کریں گی ۔بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے اور ان کے اعداد
و شمار جمع کرنے کے لیے ضلعی سطح پر دفتر روزگار قائم کیے جائیں گے تاکہ تعلیمی
صلاحیتوں کے مطابق روزگار کااہتمام کیاجاسکے۔ہر شعبہ زندگی مثلا تعلیم ٗ صحت ٗ
کاروبار ٗ مواصلات ٗ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ٗ کمپیوٹر ٗ سپورٹس ٗ سے متعلقہ تھنک
ٹینک قائم کروں گا جن میں متعلقہ شعبے کے سنیئر اور تجربہ کار ترین افراد کو
معاوضے پر شامل کرکے ان کے تجربات اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے گا ۔پبلک
ڈیلنگ کے تمام محکمے ( جن میں ٹریفک ٗ ایف بی آر ٗ بورڈ آف ریونیو ٗ ایکسائز
اینڈ ٹیکسیشن ٗ پولیس ٗ ایف آئی اے ٗ نیب ٗ سوئی گیس ٗ بجلی ٗ واسا ٗ سٹی
گورنمنٹ کے دفاتر ٗ ترقیاتی ادارے شامل ہیں )موبائل فرنچائز دفاتر کی طرح کشادہ
ٗ ائیرکنڈیشنڈ ٗ خوشگوار ماحول ٗ خوش اخلاق عملے سے آراستہ کیاجائے اور شکایات
کا فوری ازالے کے لیے نٹ ورک قائم کیاجائے جو معاملا ت کسی وجہ سے فوری حل نہ
ہوسکتے ہوں ان کو مقامی عدالتوں میں ایک مخصوص مدت میں فیصلے کی سفارش کی جائے
گی ۔گلی ٗ محلوں اور مارکیٹوں میں صفائی کا اعلی انتظام کیاجائے ہر گھر دکان
اور کاروباری ادارے کو سیاہ رنگ کے بڑے شاپر روزانہ فراہم کیے جائیں جس میں
کوڑا کرکٹ جمع کرکے سٹی گورنمنٹ کی گاڑیوں کے ذریعے اٹھایاجائے گا ۔ روزانہ جمع
ہونے والے کوڑا کرکٹ سے پلانٹ لگاکر بجلی پیدا کی جائے گی اور ساتھ ساتھ کوڑا
بھی تلف ہوتا جائے گا ۔ پشتوں کو بطور خاص شہروں کے اردگرد مضبوط بنا کر تمام
دریاؤں اور نہروں کو مزید گہرا کیاجائے تاکہ برسات کے موسم میں سیلاب کے خطرے
کو کم سے کم کیا جاسکے ۔ایک مربع سے کم زرعی اراضی رکھنے والے کاشتکاروں کو
پانچ سال تک مفت کھاد اور بیج فراہم کیاجائے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں
ہر دیہات میں ایک ڈسپنسری ٗ سکول ٗ لائبریری ٗ سپورٹس کلب قائم کیے جائیں گے
۔جب تک بجلی کی کمی پوری نہیں ہوجاتی تمام فائیو سٹار ہوٹلوں ٗ تمام بنکوں ٗ
بڑے ہوٹلوں ریسٹ ہاوسوں ٗ میڈیکل سٹوروں اور ڈیپارٹمنٹل سٹوروں کو سولر یونٹ کے
ذریعے بجلی پیدا کرکے استعمال کرنے کا پابند بنایاجائے گاکرکٹ ٗ ہاکی اور فٹ
بال سمیت تمام کھیل دن کی روشنی میں منعقد کرائے جائیں گے رات کو فلڈ لائٹ میں
کوئی کھیل نہیں کھیلا جاسکے گا ۔
ملک بھر میں سرکاری نیم سرکاری اورپرائیویٹ اداروں میں تنخواہوں میں زمین آسمان
کا فرق ہے پاکستان میں منصب صدارت پر فائزآصف علی زرداری صاحب صرف ایف اے پاس
ہیں جبکہ پاکستان میں ایک لاکھ کے قریب ایم بی اے پاس نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں
لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اول تو انہیں ملازمت ہی نہیں ملتی اور اگر
کسی پرائیویٹ ادارے میں ملازمت کی پیشکش ہوتی بھی ہے تو آٹھ سے دس ہز ار روپے
ماہانہ تنخواہ پر ۔ پھر سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں جو افراد بیس بیس سال
تک ملازمت کرنے کے باوجود جونئیر کلرک سے سنیئر کلرک تک پہنچ پاتے ہیں لیکن کچھ
من پسنداور سفارشی افراد بعد میں آکر نہ صرف ان سے ڈبل تنخواہ لیتے ہیں بلکہ
مہینوں میں ترقیاں اور دیگر مالی مراعات بھی حاصل کرلیتے ہیں ۔ سیاسی اور فوجی
حکومتوں میں من پسندافراد کو نوازنے کا سلسلہ ہمیشہ عروج پر رہا ہے یہ صورت حال
جہاں ملازمین کو ذہنی اور جسمانی اذیت میں مبتلا کرتی ہے وہاں اقربا پروری کا
رجحان قومی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہورہا ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ ملک بھر
میں تنخواہوں اورملازمتوں کا معیار یکساں رکھاجائے مثلا کم سے کم تنخواہ 20
ہزار ٗ ایف پاس ملازمین کو پچیس ہزار روپے ٗ گریجویٹ ملازمین کو تیس ہزار ٗ ایم
بی اے یا ماسٹر ڈگری کے حامل ملازمین پینتس ہزار جبکہ پی ایچ ڈی کے حامل افراد
کی ابتدائی تنخواہ پچاس ہزار سے کم نہیں ہونی چاہیئے ۔اسی طرح محکمانہ ترقی کے
لیے اگر عرصہ چار سال مقرر ہے تو اس سے پہلے کسی بھی سفارشی یا منظور شخص کو
پرموٹ نہیں کیاجاسکتا۔
کم سے کم تنخواہ 20ہزار روپے مقرر کی جائے گی جو ہوٹلوں ٗ ورکشاپوں ٗ اینٹیں
بنانے والے بھٹو ں ٗ منڈیوں ٗ تندروں اور دکانوں پر کام کرنے والے تمام ملازمین
کو یکساں دینے کااہتمام کیاجائے گا اداروں اور مالکان کو پابندکیاجائے کہ وہ
اپنے ملازمین کو علاج معالجے کی سہولت بھی فراہم کریں کم تنخواہ پانے والے تمام
ملازمین اور مزدوروں کو حکومت سبسڈی دے کر بازار سے نصف ریٹ پر اشیائے خورد و
نوش ( آٹا ٗ چاول ٗ گھی ٗ چینی اور دالیں ) فراہم کی جائیں ۔ جبکہ کم تنخواہ
پانے والے بچوں کے لیے تعلیمی سہولتیں اور کتابیں بالکل مفت فراہم کی جائیں گی
سرکاری بسوں میں وہ جاری شدہ پاسوں کے ذریعے بالکل فری سفر کرسکیں گے ۔
تمام بڑے شہروں ( لاہور ٗ کراچی ٗ پشاور ٗ راولپنڈی اور کوئٹہ )میں بڑھتی ہوئی
ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لیے ایکسپریس وے تعمیر کیے جائیں سکولوں اور
کالجوں کے لیے الگ علاقے مخصوص کیے جائیں گے جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی رسائی
یقینی بنائی جائے گی تاکہ غریب اور امیر سب کے بچے یکساں طور پر اپنے اپنے
تعلیمی اداروں میں بغیر کسی تکلیف کے آسانی سے پہنچ سکیں ۔سرکاری افسروں اور
محکموں کی کوئی گاڑی ذاتی استعمال میں نہیں لائی جاسکے گی اور سڑک پر آنے والے
ہر سرکاری گاڑی کے کاغذات اور استعمال کا اجازت نامہ چیک کرنے کا اختیار ٹریفک
پولیس کو دے دیا جائے گا۔یونین کونسل کی سطح پر پانی کی کوالٹی چیک کرنے والی
لیبارٹریاں قائم کی جائیں اور واٹر ٹریٹ منٹ پلانٹس بھی نصب کیے جائیں۔ تیس سال
کے بعد ہر علاقے میں پینے کے پانی کے نئے پائپ بچھائے جائیں گے جبکہ نکاسی آب
کے لیے بھی چھوٹی بڑی شاہراہوں پر ترقی یافتہ ملکوں کی طرح بڑے بڑے سیوریج پائپ
بچھائے جائیں تاکہ کہیں نکاسی آب کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔
ہر جامع مسجد میں سکول ٗ لائبریری ٗ کمپیوٹر لیب اور سپورٹس کلب قائم کیے جائیں
گے جہاں عبادت کے ساتھ تفریح کی دیگر سہولتیں بھی فراہم کی جائیں گی ۔انتظامی
اداروں کو سیاسی اثرو رسوخ سے بالکل الگ تھلگ کردیاجائے گا کوئی بھی ایم این اے
ایم پی اے یا وزیر مشیر براہ راست کسی سرکاری ادارے یا اہلکاروں پر دباؤ نہیں
ڈال سکیں گے اور نہ ہی اپنا کوئی ناجائز کام ہی کرواسکیں گے ترقیاتی سرگرمیوں
کے لیے عوامی نمائندے صرف اپنی ترجیحات اور تفصیلات سے آگاہ کرسکیں گے جبکہ
ترقیاتی کام کروانا متعلقہ انتظامی اداروں کا ہوگااور جن ترقیاتی اداروں کے ذمے
سڑکوں ٗ عمارتوں فلائی اوورز اور پلوں کی تعمیر ہوگا وہاں بطور خاص کمیشن سسٹم
کی بیخ کنی کے لیے ایک ہائی کورٹ کا ریٹائرڈ جج اور مفتی مقرر کیاجائے گا تاکہ
تعمیرات کو ممکن حد تک معیاری رکھا جاسکے ۔تعمیر ہونے کے بعد کوئی سرکاری
اورنجی اداروں سڑک کو کھود نہیں سکے گا بلکہ گیس پانی اور سیوریج کے لیے سڑک کے
دو اطراف الگ الگ جگہ مخصوص کی جائے گی ۔
طبی سہولتوں کی فراہمی کے پولیو ٗ خسرہ ٗتپ دق ٗکینسر ٗ ڈینگی ٗ ملیریا اور
دیگر وبائی امراض کی ویکسین کی خرید اور متاثرین تک رسائی کے لیے الگ محکمہ
قائم کیاجائے گا ۔
پہلے سے قائم سرکاری سکولوں میں سہولتیں فراہم کی جائیں گی اساتذہ کی تنخواہیں
دوگنی کرکے معاشرے میں ان کا مقام بلند کیاجائے گااور نصاب تعلیم میں دس نشان
حیدر حاصل کرنے والے پاک فوج کے افسر اور جوانوں کے ساتھ ساتھ ایم ایم عالم ٗ
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ٗ ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور دیگر سائنس دانوں کے کارہائے
نمایاں بھی شامل کیے جائیں گے تاکہ نوجوان نسل کے ذہنوں میں اپنے ہیروز کا تعین
کیاجاسکے ۔ہر ٹاؤن ناظم کے حلقے میں ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیو ٹ قائم کروں جہاں
کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کمیپوٹر سمیت تمام ہنر ز کے کورس کروا کر انہیں
باعزت روزگار حاصل کرنے کے قابل بناؤں گا۔تین سو مربع کلومیٹر صحرائی علاقوں
میں سولر یونٹ لگاکر ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیداکرکے دوسروں ملک کو فروخت کروں
گا ۔ہر پاکستانی کی لائف انشورنس کرکے بیماری کی صورت میں علاج کی مفت سہولت
اور موت کی صورت میں لواحقین کی مالی امداد کی جائے گی ۔ تمام لائسنس منسوخ
کرکے اسلحہ صرف پولیس اور فوج تک محدود کیا جائے گا۔قبائلی علاقوں میں رہنے
والے محب وطن پاکستانیوں کو دیگر صوبوں کے برابر تعلیمی ٗ طبی ٗ ثقافتی ٗ
مواصلاتی ٗ تجارتی ٗ عدالتی اور زرعی سہولتیں فراہم کی جائیں گے اور تمام
قبائلی ایجنسیوں کو صوبوں کی شکل دے کر قانون ساز ادارے قائم کیے جائیں گے
ایوان صدراور وزیر اعظم ہاؤسز سمیت تمام گورنر ہاؤسز ٗ چیف منسٹرکو ختم سول
سیکرٹریٹ تک محدود کردیاجائے گا ۔کرایے کی عمارتوں میں تمام سرکاری دفتر ختم
کرکے سرکاری عمارتوں میں گنجائش پیدا کی جائے گی ۔ جب فیکٹریوں کاروبار اور
عوام کے لیے بجلی اور گیس کی ضرورت پوری نہیں ہوتی اس وقت تک ایوان صدر سمیت
تمام عوامی ٗ سرکاری اور نجی اداروں میں گرمیوں میں ائیرکنڈیشنر اور سردیوں میں
ہیٹر کااستعمال ممنوع ہوگا ۔سرکاری عمارتوں ٗ پلوں ٗ فلائی اوور ٗ رنگ روڈز اور
سڑکوں کی تعمیر کے وقت پچاس سال مدت مقرر کی جائے اس دوران اگر کوئی عمارت یا
سڑک ٹوٹ جاتی ہے تو ٹھیکیدار اور متعلقہ سرکاری افسراپنے خرچ پر دوبارہ تعمیر
کرنے کے زمہ دار ہوں گے۔ملک کی تمام سڑکوں کے اردو گرد نکاسی آب کے لیے گہرے
نالے تعمیر کیے جائیں گے۔دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کو جاری رکھنے کے لیے بھارت
سے دو ٹوک بات ہوگی وگرنہ ایٹمی جنگ کی دھمکی بھی دی جاسکتی ہے تاکہ پاکستانی
کاشتکاروں اور زراعت کا تحفظ کیاجاسکے ۔موسم برسات میں بارشوں کے اضافی پانی کو
چھوٹے چھوٹے ڈیم تعمیر کرکے محفوظ کرکے ضرورت کے وقت کاشتکاری کے لیے استعمال
کروں گا۔شکایات کے ازالے کے لیے ہر ضلع میں بااختیار ضلعی محتسب مقرر کروں گا
جو عوام کی ہر سرکاری محکمے سے متعلقہ شکایات کا فوری ازالہ کریں گے ۔فوری
انصاف کی عدالتیں تحصیل سطح پر قائم کرکے سپریم کورٹ اور ہائی کے ججوں کی تعداد
میں تین گنا اضافہ کیاجائے اور ہر جج تاحیات ہوگا ۔جو کچھ میرے دل میں تھااس کا
اظہار میں نے کردیا ہے قدرت نے اگر موقع دیا تو اپنی ان باتوں کو پر سو فیصد
عمل درآمد کرنے کا پختہ عزم رکھتا ہوں وگرنہ عمران خان اور میاں نوازشریف جو
حالیہ الیکشن میں پاکستانی عوام کے مسائل کو حل کرنے کی دن رات قسمیں کھاتے پھر
رہے ہیں ان سے گزارش کروں گا کہ وہ میری اس تحریر کو پڑھیں اور پاکستانی قوم کو
تہہ در تہہ مسائل سے چھٹکارا دلانے کے لیے اس پر عمل پر بھی کریں اگر کوئی
دشواری محسوس کریں تو میں ان کی مدد اور پاکستانی قوم کو مسائل سے نجات دلانے
کے لیے ہمہ وقت حاضر ہوں ۔ |