تقریباً ایک منٹ زمین تھر تھراتی رہی،درو دیوار ہلتے رہے
، پانی برتنوں سے چھلکتا رہا ،چھت پر لٹکے پنکھے ہچکولے کھاتے رہے۔ اسی
آدھا منٹ میں لوگوں کے چہروں پرچھائی وحشت اور زمین کو تباہی و بربادی سے
روکنے کے لیے کسی حکمران یا حکمرانی کے دوڑ میں شریک کسی بھی فرد نے اپنا
دُرہ زمین پرمار کر یہ نہیں کہا ’’اے زمین تو کیوں کانپتی ہے ؟ کیا میں نے
تیرے اوپر انصاف قائم نہیں کیا؟ــ‘‘
ایسا کیوں نہیں کہاگیا ؟کیا یہ زلزلہ ایک اسلامی ریاست میں نہیں آیا؟کیا
ہمارے لیے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کادور حکمرانیت مشعل راہ نہیں ؟ کیا
ہمارے حکمران حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ کے جانشین نہیں ہیں ؟ کیا ہمارا
انداز حکمرانیت حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی حکمرانیت جیسا نہیں ہے؟اگرتو
یہ سب ہے تو پھر ہمارے وہ حکمران جنہیں ہم نے خود منتخب کیا ہے انہوں نے
اپنا دُرہ زمین پرمار کر زلزلہ کو کیوں نہ تھمنے پرمجبور کیا؟کیوں زمین
کوایک منٹ کانپنے دیا اور کیوں لوگوں کے چہروں میں وحشت کو عیاں ہونے دیا؟
اپنی پانچ سالہ جھوٹی کارکردگی کی تشہیر کر کے ووٹوں کی بھیک مانگنے والے
اس آدھا منٹ کے لیے آنے والے زلزلہ کو کیوں نہ للکار سکے؟غریبوں کا استحصال
کرنے والے اور ان کی غربت کوسرعام برہنہ کرکے ووٹ مانگنے والے اس زلزلہ کے
وقت کیوں خاموش ہوگئے تھے؟جھوٹے دلائل ، جھوٹے وعدوں، جھوٹی قسموں ، جھوٹے
دعوؤں اور ٹی وی یا جلسوں میں اچھل اچھل کر دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے والوں
نے زمین پر اپنی زبان کیوں نہ چلائی کیوں نہ زمین کو تھرتھرانے سے
روکا؟اپنی کرپشن ،اپنے ظلم ، اپنے جبر ،اپنی بدمعاشیوں کو پس پشت ڈال کر دو
چار عوامی کاموں کو بنیاد بنا کر اور اپنے چیلوں کے ذریعے لوگوں کی نگاہوں
میں دھول جھونک کر اقتدار کے نشے میں بدمست ان حکمرانوں کے ہاتھوں میں زمین
پر درہ مارکر زمین کو تھر تھر کانپنے سے روکنے کے لیے اس وقت طاقت کیوں نہ
رہی جب زمین ایک منٹ تھر تھر کانپ رہی تھی۔
انکم سپورٹ پروگرام ، آشیانہ سکیم ، سستی روٹی ، میٹرو بس، گیس پائپ لائن،
لیپ ٹاپ سکیم، سیلاب زدگان کی امداد، اوور برج، ییلو کیب جیسی اصلاحات کا
طعنہ دے کر زمین کو کیوں نہ للکارا؟ یہ بھی تو اصلاحات ہیں عوامی و جمہوری
اصلاحات۔جمہوریت کے رکھوالوں نے زمین کو جمہوریت کی پاسداری کا درس دے کر
زمین کو کیوں نہ روکا؟لیکن۔۔۔۔لیکن یہ ایسا نہ کر سکے کیوں کہ یہ پچھلے
65سال سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے مقاصد حاصل کر رہے ہیں تب
ہی تو یہ زلزلہ کے وقت اپنا درہ زمین پر مار کر زمین کو یہ نہ کہہ سکے :
’’اے زمین تو کیوں کانپتی ہے ؟ کیا میں نے تیرے اوپر انصاف قائم نہیں کیا؟ــ‘‘
ان کے بدن سے طاقت سلب ہو چکی تھی ، ان کی زبانیں گنگ اور آنکھیں پھٹی پھٹی
سی تھی کیوں کہ ان کا بے حس و خوابیدہ ضمیر انہیں ملامت کر رہا تھا کہ
انہوں نے ظلم کیے ، انہوں نے ناانصافیاں کی ، انہوں نے جبر کیے ، انہوں نے
استحصال کیے،انہوں نے خودکشیوں پر مجبور کیا، انہوں نے طاقت کا مظاہرہ اور
بول بالا کیا، انہوں نے غریبوں کو پسنے دیا ، جگہ جگہ گلی گلی کوچہ کوچہ
خون سے رنگا ،کرپشن عام ہوئی، رشوت جائز ہوئی ، قاتل سرخرو ہواتو
پھر۔۔۔۔۔۔۔تو پھر یہ کن آنکھوں سے زمین کو گھورتے کس ہاتھ سے زمین پر درہ
مارتے اور کس منہ سے زمین کو للکارتے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 65سالہ دور آزادی کو جانچنے کے بجائے صرف اور
صرف پچھلے آٹھ سالوں کا احاطہ کرتا ہوں تو مجھے لال مسجد و جامع حفصہ میں
ظلم ، بے گناہ قتل و غارت گری ، استحصال ، طاقت کا بے دریغ استعمال نظر آتا
ہے ۔ پھر میں نے قاتل کو سرخرو ہوتے دیکھا ، ویکٹری کا نشان بناتے دیکھا ،
غازی کے القابات نوازتے دیکھا، کندھوں کی سواریاں اور زندہ باد زندہ باد کے
نعروں میں ہاتھ ہلاتے دیکھا۔
مجھے سیالکوٹ کو وہ بازار یاد ہے کے جس میں جزا و سزا کے اداروں کی موجودگی
میں طاقتوروں نے دو نوجوانوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا ،
ایسا ظلم کے چنگیز خان و ہلاکو خان کو دور یا د آگیا، مجھے آج تک وہ منظر
یاد کے جب بے شمار افراد نے دو نوجوانوں کو سر بازار لٹا کر ڈنڈوں اور لوہے
کے راڈوں سے ما ر مارکر ادھ موا کر دیا اور جب پھر بھی ٹھنڈ نہ پڑی تو قتل
کر کے لاش کو چوک میں لٹا دیا ۔قاتل پھر سرخرو ہوا ظالم پھر پناہ گزین ہوا
۔کیا ظالموں کو عبرت کا نشانہ بنایا گیا ؟ کیا دو بھائیوں کی بہنوں اور ماں
کے آنسو کسی حکمران نے صاف کیے ؟ نہیں نہ۔۔۔۔۔تو پھریہ کون کہے: ’’اے زمین
تو کیوں کانپتی ہے ؟ کیا میں نے تیرے اوپر انصاف قائم نہیں کیا؟ــ‘‘
انہی جزا و سزا کے اداروں اور عوامی خدمات کا اعتراف کرنے والے حکمرانوں کی
موجودگی میں کس شان بے نیازی سے ریمنڈ ڈیوس پاکستانی نوجوانوں کو گولیوں سے
بھون کر باعزت بری ہوا۔پتہ نہیں کراچی کے پارک میں رینجرز کے ہاتھوں قتل
ہونے والے بے گناہ نوجوان سرفراز کی والدہ کو سکون ملا یا نہیں ؟لیکن یہ
کنفرم ہے انصاف نہیں ملا کہ قاتل آج بھی اسی آسمان کے نیچے زندگی کے ماہ و
سال گزار رہے ہیں جس آسمان کے نیچے سرفراز کو قتل کیا گیاتھا۔اسی دور
نوجوان شاہ زیب کو حق بات کرنے پر شاہ رخ قتل کر کے جزا و سزا کے کارندو کے
سامنے ملک بدر ہو جاتا ہے اور جب واپس لایا جاتا ہے تو کبھی وہ نابالغ ہیں
تو کبھی بے گناہ اور کبھی اس کے قتل کے گواہان مکر جاتے ہیں قاتل پھر سرخرو
ہے ۔ سرگودھا کے بازار میں باریش استاد کو وہاں کے وڈیرے نے سچ بولنے پر
گولیاں مار کر معذور کر دیا ۔قاتل سرخرو ہے الیکشن لڑرہا ہے اور زندہ باد
زندہ باد کے نعروں پر ہاتھ ہلا رہا ہے۔
ظالموں کو کندھوں کی سواریاں دے کر ، کرپٹ افراد کو زندہ باد زندہ باد
نعروں سے خوش کر کے نہ صرف ہم اپنے اوپر زلزلے مسلط کر رہے ہیں بل کہ جان
بوجھ کر اپنی تباہی ، سیاسی و سماجی اور معاشی پستی کا سامان تیار کر رہے
ہیں ۔حکمران نہ سہی مگر ہم کس طرح زلزلوں کو للکار کر تھم جانے پر مجبور
کریں ۔ظالم تو ہم خود ہیں ، کرپٹ تو ہم خود ہیں ، قاتلوں کو سرخرو تو ہم
خود کرتے ہیں ، کرپشن کے لیے میدان ہم خود تیار کرتے ہیں ، چور ڈاکو ہم خود
تیار کر رہے ہیں پھر۔۔۔۔پھرہم کس ہاتھ سے زمین پردرہ ماریں کن آنکھوں سے
زمین کو گھوریں اورکس منہ سے زمین کو للکاریں ۔ہم تو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ
عنہ کی خلافت کے طلب گار ہی نہیں ہیں تو پھر کیسے ہمارے اوپر حضرت عمر
فاروق رضی اﷲ عنہ جیسے حکمران بادشاہت کریں ۔
سچ تو یہ ہے کہ جیسے ہمارے اعمال ہیں اس کے مقابلے میں یہ زلزلہ تو عذاب ہی
نہیں ہے وگرنہ مظلوموں کی ایک آہ یا ایک واسطہ پراﷲ رب العزت عذاب دیں تو
زمین پھٹ کر دو حصوں میں بٹ جائے اور ہم اس میں سمو جائیں مگر۔۔۔۔۔۔۔مگر
ایسا نہ ہواکہ اﷲ پاک نے اپنے پیارے حبیب ، وجہ کائنات ، فخر موجودات ،
رحمت عالم ، خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کی دعاؤں سے ہمیں چھوٹ دی ہوئی ہے اس
رحمت عالم ﷺ کی اس پریشانی سے چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ جو اس دنیا سے جاتے ہوئے
پکار رہے تھے یا رب امتی یا رب امتی ۔ایک یا دو مرتبہ نہیں بل کہ ہر جگہ
اور ہر وقت آپ ﷺ نے اپنی امت کے لیے دعائیں کی ، بھلائی اوراستقامت کی
دعائیں، رکھوالی و حفاظت کی دعائیں ۔لیکن کیا امت رحمت عالم ، خاتم النبین
ﷺ سے وفا نبھا رہی ہے ؟ اس کے لیے اپنا وہ محاسبہ ضروری ہے جس کے لیے
عموماً ہماری انگلیا ں دوسروں کے لیے اٹھتی ہیں تب جا کر راز بھی عیاں ہو
گا اور تبھی تبدیلی بھی آئے گی۔ |