شیطانی اتحاد ِ ثلاثہ اور پرو طالبان

پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے خاصہ داروں کا انتخاب ، درست معلومات ، مکمل پلاننگ ، دہشت گردوں کی مہارت میں انتہائی جدت،دہشت پھیلانے اور انسانی جانوں کی قربانی کےلئے نفسیاتی اہداف مقرر کرنا کہ زندگی کے ہر شعبے جات سے وابستہ شخص شدید خوف و ہراس کا شکار اوردباﺅ میں آجائے کہ متواتر اسی سائے میں رہے۔اس بات کو اچھی طرح تسلیم کرلینا چاہیے کہ ان تمام واقعات میں کسی مقامی جماعت یا تنظیم سے زیادہ بیرونی عناصر اور مکمل تربیت یافتہ ملک دشمن انٹیلی جنس ایجنٹوں کا ہاتھ ہے ، اب ایسے مقامی کہا جائے یا غیر ملکی ، لیکن طے شدہ ہے کہ اس کی وابستگی جہاں اسلام سے نہیں تو دوسری جانب وہ پاکستان سے خیر خواہ بھی نہیں ہیں۔ایسے لوگوں کے نیٹ ورک کسی خاص ایک شہر میں نہیں بلکہ ملک کے طول و عرض میں موجود ہیں اور ایسے نیٹ ورک ہنگامی بنیادوں پر نہیں بلکہ مستقل ا ور منصوبہ بندی کے ساتھ سالوں سے کام کر رہے ہیں۔ملک دشمن عناصر کے مفاد پر جب بھی ضرب کاری کی تیاری ہوتی ہے تو ان کے ٹاﺅٹ اپنے ایجنٹوں کے اشارے پر پہلے سے بنے بنائے پلانز کے ساتھ دہشت گردوں کو میدان میں لے آتے ہیں۔ جنہیں افغانستان، بھارت یا خود ملک میں باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔پاکستان کے داخلی و خارجی معاملات میں امریکی کردار کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،امریکہ کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان قلیل ترین معاوضے پر ان کی غلامی کرتا رہے اور اس کا آسان طریقہ یہی ہے کہ پاکستان کو ہمیشہ غیر مستحکم اور بے امن رکھا جائے تاکہ معاشی استحکام میں کمزور ی کے باعث پاکستان کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکے۔پاکستان کے حساس ترین اداروں پر حملوں کے مقاصد دنیا کو یہ باور کرانا مقصود رہا کہ پاکستان دنیا کی غیر محفوظ ریاست ہے بلکہ افغانستان سے بھی زیادہ غیر محفوظ۔لازمی مقصد یہی تھا کہ کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کا عمل رک جائے اور باقی ماندہ سرمایہ کار اپنا سرمایہ پاکستان سے باہر لے جائیں اور نئے سرمایہ کار پاکستان آنے کا سوچیں بھی نہیں۔پاکستان کی تجارت ، صنعت کو پہلی ترجیح کے طور پر تباہ کردیا اوریہی وہ پہلا اسٹیپ تھا کہ پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرنے کےلئے زمینی نقصان پہنچا یا جائے ، جس میں ملک دشمن عناصر مکمل کامیاب ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں معیشت کا پہیہ رک چکا ہے ، سرمایہ کاری بند ہوچکی ہے اور پاکستان بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے سامنے کچکول لئے پھرتا نظر آتا ہے اور پاکستان کو اپنے مالیاتی اخراجات پورے کرنے کےلئے چار وناچار امریکہ کی جانب رحم کی نظر ڈالنے کے لئے اپیل کی جاتی ہے تو کچھ نہ کچھ پھیلائی ہوئی جھولی میںڈال دیا جاتا ہے لیکن اسکی قیمت پاکستانی عوام کو بڑی بھاری اتارنی پڑتی ہے ۔شیطانی اتحاد ثلاثہ میں بھارت ، اسرائیل اور امریکہ شامل ہیں۔جن کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے پاکستان اپنے تمام وسائل دفاع پر خرچ کرنے پر مجبور ہے۔ڈیرہ غازی خان میں واقع پاکستان اٹامک انرجی کمیشن پاکستان کی بڑی جوہری تنصیابات میں سے ایک ہے جس کو عسکریت پسندوں کی جانب سے جب پہلی بار سنگین نتائج کی دہمکیاں دیں گئیں تو اس سے مکمل طور پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی دفاع کے خلاف کون سے عناصر کس قدر منظم طریقے سے مصروف ِ عمل ہیں۔پاکستان میں اس طرح کی پہلی سیکورٹی دہمکیعسکرےت پسندوں کے اہم لیڈر عبدالغفار قیصرانی کی ہلاکت کے بعد دی گئی تھی جب جنوبی پنجاب کے سربراہ کو پولیس کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔پاکستان اب تک 42000سے زائد قیمتی جانوں کی قربانی دے چکا ہے ، اس جنگ کی وجہ سے جہاں جانی نقصانات ناقابل تلافی ہیں تو دوسری جانب پاکستان سیاسی ، معاشرتی اور معاشی عدم استحکام کا شکار بھی ہوچکا ہے۔دہشت گردی کے اس عذاب سے پاکستانی عوام کو کسی صورت نجات حاصل نہیں ہو رہی اور معیشت کی بحالی کی آخری سانسیں بھی دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی میں ملوث کسی تنظیم یا فرد کا دفاع کرنا دراصل دہشت گردی کا دفاع کرنا ہے۔جب تک صحیح معنوں میں سزائیں نہیں دیں جاتیں ، ان دہشت گردی کے واقعات کو کسی بھی ممکن طریقے سے روکا اور ناکم نہیں بنایا جاسکتا۔پاک فوج جب بھی جنگجوﺅں کے خلاف سخت کاروائی کرنا چاہتی ہے تو ایسے سیاسی مسئلہ بنا کر یہ غلط فہمیاں بھی پھیلائی جاتی رہیں کہ یہ تمام واقعات دراصل ڈرون حملوں کا ردعمل ہیں جب امریکہ 2014میں افغانستان سے چلا جائے گا تو پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات خود بخود ختم ہوجائیں گے ۔ لیکن اسے تسلیم کرناآسان نہیں ہے کیونکہ عسکریت پسندوں کا نیٹ ورک بہت پیچیدہ ہے ۔ قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک بذات خود ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جیسے آسانی سے حل نہیں کیا جاسکتا۔جیسے ازبکستان کی اسلامک موومنٹ مرحوم طاہر یولداشیف کی تنظیم ہےجن کے سینکڑوں ازبک اراکین شمالی وزیرستان کے باہر کاروائیاں کر رہے ہیں، جبکہ ایک اور ازبکی حمید اللہ کرغستانی کی علیحدگی پسند تنظیم کے وسطی ایشائی باشندے قبائلی علاقوں سے اپنی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔اسی طرح مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ آف یوغور چین کے یوغور ریجن میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لئے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود ہے۔ایک اور ترکش گروپ جو بنیادی طور پر مشرقی ترکی سے تعلق رکھتے ہیں شمالی وزیرستان میں پناہ لیکر اپنے وطن میں ایک اسلامی تحریک کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔پاکستانی طالبان کہلانے والے متعدد گروپ اس کے علاوہ ہیں ۔ اب یہی دیکھنا ہے کہ پاکستان کی سرزمین کو کون سا عنصر کن مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے ۔ اگر امریکہ افغانستان سے چلے جانے کے بعد مقامی تحریک طالبان افغانستان (تحریک اسلامی امارات افغانستان)کے قبضے کا ڈر محسوس کرتا ہے تو دوسری جانب امریکہ مخالف پاکستان عسکریت پسند تنظیم بھی چاہتی ہیں کہ افغانستان میں ان کی پسند کی حکومت قائم ہو ۔پاکستان کی عوام کے لئے دونوں عناصر کی باہمی جنگ و جدال سے نقصان ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔اب سمجھنا اس بات کےلئے ہے کہ پاکستان میں ایسے کون سے گروپس بد امنی پھیلانے میں موجب بن رہے ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ کوئی مستحکم حکومت بنے ، سیاسی عمل مضبوط ہو اور جمہوری ادارے آزاد ہوں۔ امریکہ کے مفادات عسکریت پسندوں سے اگر ہوسکتے ہیں تو کیا یہ سمجھا جائے کہ جس طالبان کےخلاف و ہ سات سمندر پار سے آیا ، ایسے پکی پکائی روٹی دے دے ، یا پھر یہ سمجھا جائے کہ پاکستانی کچھ ادارے نہیں چاہتے کہ سیاسی عمل مستحکم ہو تاکہ پارلیمانی احکامات پر عمل درآمد کیا جاسکے ، یا پھر پاکستانی عوام پر عسکرےت پسندوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ غیر ملکی عسکریت پسند تنظیمیں چاہتی ہیں کہ اب پاکستان میں ایسی حکومت آئے جو ان کے مشن کو آگے لے جانے میں مدد فراہم کرے۔یا پھر قوم کے ساتھ وفا نہ کرنے والے جماعتیں اپنی کارکردگی پر پردہ ڈالنے کےلئے ایسا ماحول بنا رہی ہیں جس کا سہارا لیکر وہ مظلوم بن جائیں ۔یقینی طورپر ایسے کئی محرکات ہیں کہ ان پر غور وفکر کی ضرورت ہے کہ اتحاد شیطانی ثلاثہ کو معاونت کا کردار کون ادا کر رہا ہے؟؟۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 660133 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.