تحریکِ انصاف ۔۔ایم کیو ایم اور باشعور عوام
(Imran Ahmed Rajput, Hyderabad)
آج کل ہر طرف الیکشن کی گہما
گہمی ہے الیکٹرانک میڈیا ہو پرنٹ میڈیا ہو یا شوشل میڈیا ہر طرف ہر جگہ
الیکشن کا تذکرہ زیرِ بحیث بنا ہوا ہے پچھلے دنوں ہم انٹرنیٹ پر شوشل میڈیا
آن لائن نیوز ویب سائٹز کا معمول کے مطابق وزٹ کر رہے تھے جہاں تقریباً
تمام ہی ویب سائٹز پر الیکشن 2013 کے حوالے سے الیکشن پول بنے ہوئے ہیں
قارئین چاہیں تو وزٹ کرسکتے ہیں ان الیکشن پول میں پاکستان کی تمام سیاسی و
مذہبی جماعتیں جو گیارہ مئی کے الیکشن میں بھر پور حصہ لے رہی ہیں کے نام
شامل ہیں۔دراصل ان الیکشن پول کے ذریعے عوامی رائے جاننے کی کوشش کی گئی ہے
کہ عوام 11 مئی کو ہونے والے انتخابات میں اپنا ووٹ کس کو دینگے اور انکے
نزدیک انکی پسند یدہ جماعت کون سی ہے۔لہذا اس الیکشن پول میں ہم نے بھی
اپنا حصہ ڈالااور تقریباً تمام سائٹز پر چیک کیا ان الیکشن پولوں میں 75سے
80 فیصد ووٹ کے ساتھ پاکستان تحریکِ انصاف سب سے آگے تھی اس کے بعد 55 سے
60 فیصد ووٹ کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ دوسرے نمبر پر تھی 18 فیصد ووٹ ساتھ
مسلم لیگ ن تیسرے نمبر پر تھی 12 فیصد ووٹ کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی
چوتھے نمبر پر اور 2 یا 3 فیصد ووٹ کے ساتھ دیگر چھوٹی بڑی جماعتیں تھی ۔یہاں
یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ رائے صرف ان لوگوں کی ہے جو انٹرنیٹ
استعمال کرتے ہیں لیکن یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے انٹرنیٹ پراظہارِ رائے
دینے والا یہ طبقہ تعلیم یافتہ بشعوراور نئی جنریشن کے طور پر جانا اور
پہچانا جاتا ہے لہذا ان کی رائے کو کسی بھی طور مسترد نہیں کیا جاسکتا۔جو
پاکستان کی دو بڑی جماعتوں پر اپنے اعتماد کا اظہار کررہے ہیں۔جس میں پہلے
نمبر پر پاکستان تحریکِ انصاف اور دوسرے نمبر پر متحدہ قومی موومنٹ
ہے۔پاکستان تحریکِ انصاف کی بات کریں تو اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف کی
مقبولیت کے پیشِ نظر عمران خان پاکستانی سیات میں ایک ابھرتے ہوئے اسٹار کی
حیثیت سے آئے اور بھرپور طریقے سے چھائے ہوئے ہیں ۔لیکن یہ مقام ان کے لیے
نیا نہیں کیونکہ وہ آج سے کئی سال پہلے بھی اپنے آپ کو دنیا کی نظروں میں
ایک سپر اسٹار کی حیثیت سے منواچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ اپنے آپ کو سیاست کا
سلطان راہی سمجھنے والے عمران خان اپنے اکثر جلسوں میںکہیںسلطان رہی کا
انداز اپناتے نظر آتے ہیں تو کہیں اپنے چہیرے پر اپنے مخالفوں کو رلادینے
والی مسکراہٹ سجا کر انھیں رونے پر مجبور کردیتے ہیں۔ہم عمران خان یا انکی
جماعت کی تعریف نہیں کررہے اور نہ ہم انکے تبدیلی کے فلسفے سے متفیق ہیں
کیونکہ جہاں تک تبدیلی کی بات ہے ہم نے تمام تبدیلی خواہوں کو چودہ جنوری
کے قادری صاحب کے ملین مارچ کے حمایتی ترازو میں تول رکھا ہے۔ سب نے دیکھا
خان صاحب نے اس دن اپنی باری کے لیے عوامی وفاداری سے کس طرح منہ پھیرا ۔خیر
بات پرانی ہوگئی چوہدری شجاعت کی طرح مٹی پاﺅ۔بات چل رہی تھی عوام میں
تحریکِ انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کی مقبولیت کی جوکہ کچھ فرق سے پہلے
اور دوسرے نمبر پر ہیں حالانکہ یہ رائے کچھ حلقوں میںاہمیت کی نگاہ سے نہیں
دیکھی جائے گی بلکہ ممکن ہے ناگوار ہی گزرے لیکن اسے مسترد بھی نہیں کیا
جاسکتا کیونکہ یہ ایک پڑھے لکھے طبقے کی رائے ہے جو کہ کسی بھی صورت اہمیت
کی حامل ضرور ہے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیںکہ پاکستان کی اگرکسی سیاسی
جماعت میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے بشعورتعلیم یافتہ نوجوان شامل ہیں تو وہ
متحدہ قومی موومنٹ ہے ۔سب سے زیادہ گریجویٹ نوجوان آپ کو اس پارٹی میں ملیں
گے اس لیے اس جماعت کو نوجوانوں کی جماعت بھی کیا جاتا ہے اور یہ کہ پوری
کی پوری پارٹی نوجوان قیادتوں سے بھری پڑی ہے جوکہ سب کے سب متوسط طبقے سے
تعلق رکھتے ہیںیہ اعزاز قیامِ پاکستان سے لیکر اب تک صر ف متحدہ قومی
موومنٹ کے حصے میں ہے۔لیکن اب اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ
متحدہ قومی موومنٹ کے بعد اب اگر کسی پارٹی میں نوجوان دلچسپی لے رہے ہیں
وہ پاکستان تحریکِ انصاف ہے جہاں پر نوجوانوں کا جوش و ولولہ اپنی بھر پور
قیادت کے ساتھ دیکھنے کو ملتا ہے ۔ آج کا پڑھا لکھا بشعور نوجوان طبقہ اپنے
لیے پاکستان کی دو بڑی جماعتوں کو منتخب کرنا چاہتا ہے تو ان دونوں جماعتوں
کو بھی عوامی رائے کا احترام کرنا چاہیئے۔ ایم کیوایم اور تحریکِ انصاف کی
قیادتیںایک نئی سوچ اور نئی فکر کو لیکر آگے بڑھ رہی ہیں دونوں کے منشور
میں بھی کافی حد تک مماثلت ہے خاص کر لوکل باڈیز کے معاملے پر ہمارے نزدیک
دونوں جماعتیں ایک ہی پلیٹ فارم پرکھڑی نظر آتی ہیں ۔عمران خان صاحب بھی
اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے حامی ہیں اور اس حوالے سے متحدہ قومی
موومنٹ کا مو قف تو سب کے سامنے ہے۔ دونو جماعتیں پاکستان میں نئی قیادت
اور نئی جنریشن کی حامی ہیں دونوں جماعتیں ملک سے کرپٹ اور فرسودہ نظامِ
حکومت کا خاتمہ چاہتی ہیںملک میں تبدلی کی خواہ ہیں ۔لہذا دونوں جماعتوں کی
قیادت کو آپس میں مل بیٹھ کر ملکی بقا سلامتی اور ترقی کے لئے لائحہ عمل
بنانے کی ضرورت ہے تحریکِ انصاف کی قیادت کو چاہئے غلط پروپگنڈے اور گمراکن
باتوں کے فریب سے نکل کر ایم کیوں ایم کی قیادت کے ساتھ ہاتھ ملائیں اور
پاکستان کی ترقی خوشحالی کے لیے کام کریں ادھر ایم کیوایم کی قیادت کو بھی
اس طرف سوچتے ہوئے عمران خان کے ساتھ شانہ بشانہ چلتے ہوئے ملک میں عوامی
جمہوریت اور حقیقی تبدیلی کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے
جیسا کہ ماضی کی روایات کے مطابق ایم کیوایم کے قائد جناب الطاف حسین بھائی
نے ہر اس جماعت اور لیڈر کی حوصلہ افزائی کی ہے جس نے ملک میں حقیقی
جمہوریت کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی اور ملک سے کرپٹ نظام
کے خاتمے کا عَلم اٹھایا ۔لہذا جس طرح ملک میں وہ کرپٹ جماعتیں جو ہمیشہ
کرپشن کے فروغ کا ذریعہ بنتی رہی ہیںاورآج اقتدار کے حصول کی خاطرایک ہو کر
مک مکے کی سیاست کر رہی ہیں۔ اسی طرح حقیقی جمہوری جماعتوں کو بھی ملک میں
حقیقی جمہوریت لانے کے لئے ایک ہونا ہوگا ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا اور
ملک کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر تعلیم کی کرنوں سے منور کرنا ہوگا۔ہم
آخر میں ایک بار پھر یہ کہنا چاہیں گے کہ آج کا پڑھا لکھا بشعور نوجوان
طبقہ اپنے لیے پاکستان کی دو بڑی جماعتوں کو منتخب کرنا چاہتا ہے تو ان
دونوں جماعتوں کو بھی عوامی رائے کا احترام کرنا چاہیئے۔ |
|