میں ہنسا کالونی میں رہتی ہوں، سی ڈی اے میں صفائی کا کام
کرتی ہوں لیکن وہ مجھے بہن کہتے ہیں جبکہ ہم انہیں اپنا مائی باپ کہتے ہیں۔
ووٹ کیا ان کے لئے تو جان بھی حاضر ہے۔یہ تھے الزبتھ مسیح کے الفاظ۔ جبکہ
شہر کے نواحی دیہی علاقے سرائے خربوزہ کے وارث ملک کا کہنا ہے کہ وہ ہر
ہفتے ہمارے گاؤں آتے ہیں سب لوگوں سے ملتے ہیں، کوئی مسئلہ ہو تو حل کردیتے
ہیں اسلئے ہم ان کوہی ووٹ دیں گے۔ سی ڈی اے کے دفتر میں کام کرنے والے غلام
شبیر کہتے ہیں کہ وہ اکثر ہمارے صاحب لوگوں سے میٹنگ کرنے آتے ہیں لیکن سب
سے پہلے مجھے گلے لگاتے ہیں اسلئے میں ان کا پکا ووٹر ہوں۔ یہ ملک کے
دارالخلافہ اور امیر لوگوں کے شہر کے ان ہزاروں پسے ہوئے مجبور لوگوں میں
سے چند ایک کے تاثرات ہیں ۔ جوNA-48 سے الیکشن میں حصہ لینے والے میاں محمد
اسلم کو اسلام آباد کا قائد اور اپنے ووٹ کا صحیح حقدار سمجھتے ہیں۔
میاں محمد اسلم نے پاکستان کی سیاست میں خدمت، دیانت، جرات اور رابطہ عوام
کی قابل تقلید مثالیں قائم کی۔ موسمی سیاستدانوں کے برعکس آپ پورا سال بلا
تخصیص رنگ، نسل، فرقہ اور مذہب کے عوام کے درمیان رہتے ہیں۔اور لوگوں کی
غمی وخوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ 2002ء کے الیکشن میں ممبر قومی اسمبلی منتخب
ہونے کے بعد پبلک سیکرٹریٹ میں عوام کیلئے دستیاب رہے۔ 2008ء کے الیکشن میں
بائیکاٹ کے فیصلے کی وجہ سے الیکشن سے باہر رہے لیکن پبلک سیکرٹریٹ قائم
رہا۔ جہاں روزانہ سینکڑوں لوگ اپنے مسائل لے کر آتے ہیں اور میاں اسلم بنفسِ
نفیس ان کے مسائل کے حل کے لئے کو ششوں میں لگ جاتے ہیں۔
ممبر قومی اسمبلی کی حیثیت سے میاں اسلم نے اسلام آباد کے دیہی علاقوں کی
ترقی کے لئے گرانقدر کوششیں کی۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت دیہی
آبادی کے لئے اربوں روپے کے ترقیاتی پروجیکٹس کا آغاز کیا گیا۔ مقامی افراد
اور سی ڈی اے کے مابین D-12 سیکٹر کا تنازعہ ہو یا G-14 کا میاں اسلم نے
ثالثی کراتے ہوئے مقامی افراد کو ان کا حق دلایا اور الاٹیز کو ان کے رکے
ہوئے پلاٹس دلوائے۔ اسلام آباد میں پانی کی قلت کو دور کرنے کیلئے میاں
اسلم نے لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم منصوبے پیش کیے اور طویل جدوجہد کے بعد
منظورکروائے۔ جبکہ پینے کے صاف پانی کے حوالے سے میاں اسلم کی تحریک پر
واٹر فلٹریشن پلانٹس لگائے گئے۔ 2002میں اسلام آباد کے پوش علاقے I.8سیکٹر
کو بنے 20سال ہو چکے تھے لیکن اس کا PC-1 نہیں بنا تھا جس کی وجہ سے یہاں
ترقیاتی کام نہیں ہورہے تھے میاں اسلم نے تین سال جدوجہد کے بعد2005ء میں
PC-1 منظور کروایا جس کے بعد یہاں ترقیاتی کام ممکن ہو سکے۔شہر بھر میں
واکنگ ٹریکس، فٹ پاتھ، سٹریٹ لائٹس اور نئی سڑکوں کے منصوبوں کوسی ڈی اے کے
فائلوں سے نکال کر حقیقت کا روپ دلانے والے میاں اسلم ہی ہے جن کی شبانہ
روز کاوشوں سے خواتین پارک سمیت شہر کے 130 چھوٹے بڑے پارک آباد ہیں۔آپ نے
قومی اسمبلی میں اسلام آباد ٹریفک پلان اور پبلک ٹرانسپورٹ کا منصوبہ بھی
پیش کیا جس پر کافی حد تک کام مکمل ہو چکا ہے ۔ آپ نے طویل جدوجہد کے بعد
کچی آبادیوں کی ریگولرائزیشن کروائی۔ جس کے نتیجے میں مکینوں کو مالکانہ
حقوق ملے اور ان کو بجلی، گیس اور ٹیلیفون جیسی بنیادی سہولیات میسر ہو سکی۔
اسلام آباد کو ملازمین کا شہر بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہاں ملک بھر سے
ملازمت پیشہ لوگ آتے ہیں اور مختلف محکموں میں خدمات سرانجام دیتے ہیں۔
میاں اسلم نے201 ٹیوب ویل آپریٹرز، پی ٹی سی ایل کے11000 ملازمین اور زرعی
ترقیاتی بنک کے 1700 اہلکاروں سمیت متعدد اداروں کے بے شمار عارضی ملازمین
کو مستقل کروایا۔ جبکہ بیوروکریسی سے لڑ کر سرکاری ملازمین کے سر پر لٹکتی
تلوار رول20 اور سٹیٹ آفس کی من مانیوں کا خاتمہ کروایا۔اور پے اینڈ پنشن
کمیٹی سے مذاکرات کرکے ملک بھر کے ملازمین اور ریٹائرڈ افراد کو ریلیف
دلایا۔
اسلام آباد میں قانونِ کرایہ داری کے حوالے سے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا
اور تاجر برادری کے ساتھ مل کر ہر فورم پر اس مسئلے کو حل کرانے کی جدوجہد
کی۔
ممبر قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد میاں اسلم نے اسلام آباد کے تمام بچوں
اور بچیوں کو بہترتعلیمی سہولیات دلوانے کا عزم کیا اور اس مقصد کے لئے
شعبہ تعلیم کے ذمہ داران سے طویل مذاکرات کئے۔ جس کے نتیجے میں 2002 میں
فرسٹ ایئر کے لئے موجود 4900 سیٹوں میں 4000 مزید سیٹوں کا اضافہ کروایا۔
جبکہ میاں اسلم کی تحریک پر تمام سکولوں کو ماڈل سکول بنانے کا میگا
پروجیکٹ شروع کیاگیا۔
میاں اسلم نے اہلیانِ اسلام آباد کیلئے مثبت تفریح کا بھی انتظام کیا۔
گزشتہ دو سالوں سے اسلام آباد فیسٹیول کے نام سے ایک میگا ایونٹ کا انعقاد
کیا جاتا ہے۔ جس میں اس سال ایک اندازے کے مطابق تین لاکھ سے زیادہ لوگوں
نے شرکت کی۔ اس فیسٹیول میں سینکڑوں تعلیمی اداروں کے ہزاروں طلبہ وطالبات
نے مختلف سرگرمیوں اور مقابلوں حصہ لیا۔یقیناًیہ اسلام آباد کی تاریخ میں
یہ اپنی نوعیت کاایک منفرد پروگرام تھا۔
میاں اسلم کی پارلیمانی کارکردگی بھی مثالی رہی۔آپ نے تمام ارکان قومی
اسمبلی سے زیادہ 1089سوالات، 169قراردادیں، 62 تحریکِ التوا، 65 توجہ دلاؤ
نوٹس، 52تحریکیں برائے بحث، اور 105کٹوتی کی تحریکیں پیش کیں-
میں نے جی نائن مرکز میں خریداری کرتے وقت ایک دکاندار سے پوچھا کہ اس دفعہ
ووٹ کس کو دو گے۔ اس نے کہا میاں اسلم کو۔ میں نے وجہ پوچھی تو بولے کہ
صاحب۔ یہ جو آدمی ہے نا یہ اسلام آباد کا 15 ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟
کہنے لگے پورے اسلام آبادمیں جہاں بھی کو ئی مسئلہ ہوتا ہے یہ شخص
انتظامیہ، پولیس اور فائربریگیڈ سے بھی پہلے پہنچ چکا ہوتا ہے۔ اسلئے تو
میاں اسلم ہی صحیح معنوں میں قائد اسلام آباد ہے۔ |