تحریک پاکستان و غلبہ اسلام میں علماء و مشائخ کے قائد

امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پور رحمۃ اﷲ علیہ
آپ کا سالانہ عرس مبارک آستانہ عالیہ حضرت امیر ملت علی پور سیداں شریف ضلع نارووال میں 14-13مئی کو منعقد ہورہا ہے


برصغیر پاک و ہند میں جن نفوس قدسیہ کی اخلاص بھری تبلیغ سے انسانوں کے دلوں کی دنیا میں انقلاب برپا ہوا ۔ان میں حضور داتا گنج بخش فیض عالم سید علی ہجویری ،خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ،شیخ الاسلام بہاؤ الدین زکریا سہروردی ، حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ، حضرت سخی شہباز قلندر ،حضرت مجدد الف ثانی سلسلہ قادریہ کے ہند میں پہلے صوفی سید محمد غوث گیلانی ،خواجہ محکم الدین سیرانی ۔شیخ الاسلام حاجی محمد نوشہ گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہم سرفہرست ہیں ۔انہی پاک طینت ہستیوں کی عملی زندگی کی تصویرحضرت امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اﷲ علیہ ہیں جن کی محبت نے شاہ و گدا کو ان کی منزل سے آشنا کیا ۔ اسلام کے پیروکار جن کے باعث حیاء و غیرت کے پیکر بنے ۔ ارض پنجاب ضلع نارووال کے ایک دورِ افتادہ اور ذی شعور انسانوں کی بستی علی پورسیداں سے زندگی کا آغا ز کرنے والے عظیم انسان کو تقریباً ایک صدی اس فانی دنیا میں دولہا کی حیثیت حاصل رہی ہے ۔اس شمع محفل کا زندگی بھر جو طرۂ امتیاز رہا وہ آج بھی بلکہ قیامت تک دینی و سیاسی رہنماؤں اور نسل نو کے لئے رہنما اصول ہے ۔ان کا ارشاد ہے کہ ’’جدید دورکے تقاضوں کے مطابق اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں سے مسلمانوں کو استفادہ کرنا ہو گا ۔مگر دین وہی ہے جو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے پیش کیا تھا ‘‘ مغربی اقوام کے بنیاد پرستی کے طعنہ سے شرمانے والے اسلاف کی زندگی سے رہنمائی لیکر دینی حمیت کیلئے اپنے آپ کو مصروف کریں ۔تاجدار چورہ شریف منبع رشد و ہدایت خواجہ فقیر محمدچوراہی رحمۃ اﷲ علیہ سے تربیت نفس یعنی جہاد اکبر کی تربیت مکمل کرنے کے بعد باطل کے ایوانوں میں سنت حضرت جعفر طیار رضی اﷲ عنہ کی یاد تازہ کرنے پیغام عشق نبی ﷺ کے فروغ میں زندگی بھر مصروف عمل رہے ۔ہزاروں غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا ۔لاکھوں مسلمانوں کو شریعت مصطفےٰ کریمﷺ کا پابند بنایا۔

ہندوؤں نے شدھی اور سنگٹھن کی تحریک کو منظم اندا زمیں شروع کیا ۔لالہ لاجیت ، سمیت علماء دیوبند کے سیاسی و سماجی رہنما گاندھی جی مولانا ابو الکلام آزاد اور علماء دیوبند کی جامع مسجد دہلی کی اجتماعی تصاویر دکھا کر دیہات کے مسلمانوں کو ہندو مذہب کی برتری جتلاتے اور عیارانہ انداز میں مسلمانوں کو ہندو بننے کیلئے ورغلا رہے تھے کہ حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اﷲ علیہ نے فتنہ ارتداد کے علاقوں میں مسلمانوں کی دینی تعلیم و تربیت کیلئے پنتالیس مدارس قائم کیے ۔ مسلمانوں کے معاشی مسائل کے حل کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی ۔ جو مسلم نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع میسر کرتی ۔ سینکڑوں مساجد بھی آپ نے برصغیر میں تعمیر کروائیں۔فتنہ ارتداد کے علاقوں میں مسلمانوں کی صحت کی سہولیات کیلئے شفاخانے بھی قائم کیے ۔سرائیں اور مسافر خانوں کا قیام بھی آپ کی ترجیحات میں تھا ۔ آگرہ ،دہلی ، متھرا، بلند شھر ،گڑگانواں ،علی گڑھ ،فرخ آباد ،روہتک، ریاست بڑودہ ۔یوپی کے علاقوں میں بذات خود دورہ کیا ۔مبلغین اسلام کو شدھی کے اثر پذیر دور دراز علاقوں میں بھیجنا اور ان سے کاروائی رپورٹیں لینا اور ہدایات جاری کرنا آپ کے مجاہدانہ کردار کا حصہ رہا ۔ حتیٰ کہ ہزاروں مسلمانوں نے اصلاح احوال کی تحریک سے اپنے آپ کوبدلا اور پھر شریعت مصطفےٰ ﷺ کے پابند ہو گئے ۔سر سید احمد خان نے جدید علوم کے حصول کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اسلامیات کا شعبہ بھی قائم کیا ۔تو امام احمد رضا خان رحمۃ اﷲ علیہ کے خلیفہ مولانا سید محمد سلیمان اشرف کو اسلامیات کا چیئرمین منتخب کروانا اور علی گڑھ کے نوجوانوں میں اسلامی روح بیدار کرنا آپ کا عظیم کارنامہ ہے ۔ان دنوں انگریز سامراج کی درپردہ کارستانیوں سے مسلمانوں کے عقائد پر بلا کی آندھیاں تھیں ۔مرزا غلام احمد قادیانی نے کذاب نبی ہونے کا جو دعویٰ کیا تومسلمان علماء صلحانے دین مصطفےٰ ﷺ کی حفاظت کیلئے بہت کام کیا ۔امیر ملت سید حافظ جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی شبانہ روز محنت سے برصغیر پاک و ہند میں احیاء اسلام کے لئے کام کیا اور مرزا غلام احمد قادیانی کی کذب بیانی کا سد باب کیا۔ 26-25مئی 1908ء کی درمیانی شب کو لاہور میں آئے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں مرزا غلام احمد قادیانی کو چیلنج دیتا ہوں کہ وہ چوبیس گھنٹے میں میرے ساتھ مباہلہ کرے ۔ اور پھر فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ اپنے حبیب مکرم ﷺ کے صدقہ سے اس جھوٹے موت کے دعویدار سے ہمیں نجات دلائے ۔نصف شب میں حضرت محمد عربی ﷺ کے سچے غلام سید جماعت علی شاہ رحمۃ اﷲ علیہ کی زبان اقدس سے الفاظ کا نکلنا تھا کہ 26مئی کی صبح تک مرزا غلام احمد قادیانی جہنم کی طرف رخصت ہو چکا تھا۔

آخر کی زندگی میں ایک بار عرب میں قحط سالی ہوئی آپ اتنے بے چین ہوئے کہ آپ نے جائیدادیں فروخت کیں اور ارادتمندوں کے تعاون سے لاکھوں روپیہ جو آج کے دور میں کروڑوں کا تعاون بنتا ہے عرب کے عوام کیلئے وہاں بھیجا۔ جس سے عرب میں آپ کو ’’ابو العرب‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔ 1910ء میں سلطان عبدالحمید آف ترکی نے حجاز مقدس میں ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بنایا تو آپ نے چھ لاکھ عطیہ بھیجا۔خدمت اسلام کے جذبہ سے سرشار رہتے ہوئے آپ نے دنیا بھر میں مسلمانوں کو تکالیف میں دیکھ کر تعاون کیلئے ہر دور میں مرکزی کردار ادا کیا ۔جس پر آپ کے جانثار انہ ایمانی جذبہ کو دیکھ کر مولانا شوکت علی نے آپ کو ’’سنوسی ہند‘‘ کا خطاب دیا۔ ہر خاص و عام نے آپ کے اس لقب کو سراہا ۔قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی ایک موقعہ پر آپ کو خط کے جواب میں آپ کو تحریر فرمایا تھا کہ آپ سید جماعت علی شاہ صاحب جیسی ہستیوں کے ہوتے ہوئے ہم تمام فتنوں کی سرکوبی کرتے ہوئے پاکستان کو ضرور بنالیں گے ۔

مجلس احرار اسلام کے ساتھ اولین دور میں آپ نے دینی تحریک سمجھ کر تعاون کیا ۔مگر جب آپ نے محسوس کیا کہ احرار کے مبلغ اعتدال کے راستے سے ہٹ کر سخت زبان استعمال کرتے ہیں اور ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار ہیں ۔جمعیت علمائے ہندو اور مجلس احراردونوں مسجد شہید گنج کو بھی سکھوں کے قبضہ میں دینے کے حق میں تھے ۔ احرارِی ہندو لیڈروں کو اپنی محفل کی رونق بخشتے تھے ۔پیر سید جماعت علی شاہ ر حمۃ اﷲ علیہ نے کہا میں حضرت محمد عربی ﷺ کے مشن کا نمائندہ ہوں ۔ میں ہندو کے استقبال کو قطعاً تیا ر نہیں ہوں ۔آپ نے احرار کے منفی رجحانات کی بناء پر ان سے علیحدگی اختیار کر لی ۔قائد اعظم محمد علی جناح کے اخلاص جذبہ ایمانی اور علامہ اقبال کے عشقِ نبی ﷺ سے لبریز لٹریچر نے مسلمانوں کے بخت بیدار کیے ۔پیر سید جماعت علی شاہ رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی ان رہنماؤں کے ساتھ شبانہ روز محنت کی ۔آپ کے لاکھوں عقیدتمندوں نے قیام پاکستان کے لئے تحریکی جذبہ سے کام کیا ۔کانگرس کے اہم علاقوں سے بھی آپ کی جدو جہد سے مسلم لیگ ہی جیتی ۔ 1939ء کو جب مسلم لیگ کو سیاسی فتح ہوئی تو آپ نے 23ستمبر کو علی پور سیداں شریف میں یوم نجات منایا اور شکرانے کے نفل ادا کیے ۔

1940ء میں قرار داد پاکستان کی آپ نے زبر دست حمایت کی آپ نے مریدین کو مسلم لیگ کو ووٹ دینے کا حکم دیا۔۔

جب کانگریسی علماء نے فتویٰ دیا کہ مسلم لیگ کو ووٹ دینا حرام ہے تو حضرت پیر سیدجماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا’’جو مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دیں گے انہیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دیا جائے گا۔‘‘آپ دوران تقریر فرماتے :’’ مسلمانو! دو جھنڈے ہیں ایک کفر کا اور ایک اسلام کا بتاؤ کس جھنڈے کی مہک لینا چاہتے ہو۔‘‘ مسلمان کہتے کہ اسلام کے جھنڈے تلے ۔تو آپ فرماتے ۔’’ مسلم لیگ کا جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے ۔‘‘1944ء میں آپ نے حضرت قائد اعظم کی سری نگر میں دعوت کی اور انہیں کامیابی کی بشارت دی۔

لاہور میں مسجد شہید گنج کا سکھوں سے تنازعہ ہوا تو مسلمان علماء اور دانشوروں نے قانونی اور اسلامی حق کو حاصل کرنے کے لئے آپ کو امیر منتخب کیا ۔جس پر علامہ عنایت اﷲ مشرقی نے امیر ملت کی حیثیت سے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔جبکہ شرکاء جلسہ نے بھی خاص مقصد کیلئے آپ سے بیعت کی ۔امیر ملت کی حیثیت سے آپ نے 8نومبر1935ء کو بادشاہی مسجد لاہور سے دو لاکھ ننگی تلواروں کو سجائے مسلمانوں کا ایک جلوس نکالا جو مختلف شاہراہوں سے ہوتا ہوا پر امن منتشر ہو گیا اور مرد قلندر امیر ملت محدث علی پوری کھلی جیپ میں تلوار لہراتے ہوئے مسجد شہید گنج کی واگذاری کے جلوس کے شرکاء کو داد دیتے رہے ۔مسلمانوں کے اس حریت پسندانہ جذبہ سے سکھ ہندو، انگریز گورنر پنجاب اور منافقین اسلام حیران و ششدر ہوگئے ۔عالم اسلام پہ جو خطرات منڈلا رہے تھے ۔ان کے سد باب اور مسلم قومیت کے تشخص کو اجاگر کرنے کیلئے اہلسنت و جماعت کے زعماء نے 19-18-17مارچ 1925ء کو مراد آباد میں آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد کیا ۔امیر ملت سمیت ہزاروں علماء اہلسنت کی سیاسی جدو جہد کیلئے سنی کانفرنس میں تشریف لائے ۔اکابرین نے جمعیت العالمیۃ المرکزیہ کی بنیاد رکھی ۔اسی موقعہ پر پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اﷲ علیہ کو امیر اور مولاناسید نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کو سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔اکتوبر 1935ء بدایوں میں دوسری آل انڈیا سنی کانفرنس منعقد ہو ئی ۔جبکہ 30-29-28-27اپریل 1939ء کو آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس میں ہوئی ۔تینوں کانفرنسوں کی صدارت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پور ی نے کی ۔اس ساری جدو جہد کے روح رواں امیر ملت اور مولاناسید نعیم الدین مراد آباد رحمۃ اﷲ علیہ ہی رہے ہیں ۔ گویا تینوں کانفرنسوں کو ایسا تربیتی رنگ دے دیا جاتا تھا کہ ہزاروں علماء و مشائخ اور ان کے لاکھوں عقیدتمند دین اسلام کے احیاء کیلئے کام کرنے کا ایک نیا جذبہ لیکر جاتے تھے ۔مسلمان قومیت کے تشخص کو اجاگر کرنے کیلئے امیر ملت کی دور بین نگاہوں نے جو کاوش کی وہ تحریک پاکستان میں سنگ میل کی حامل ہے ۔عشقِ رسول ﷺ اور جودو سخا کے پیکر حضرت امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی زندگی میں 60 بار حج کی سعادت حاصل کی ۔ جس بستی (علی پور سیداں ضلع نارووال) سے ایک مجاہد کی حیثیت سے نکل کر ہر محاذ پر انہوں نے مسلمانوں کی داد رسی کی اور انسانی و اخلاقی قدروں کو اجاگر کیا 31-30اگست کی درمیانی شب 1951ء کو محمدکے قلندرمحدث علی پوری درود و سلام کے گجرے آقا دو جہاں ﷺ کے حضور پیش کرتے ہوئے اﷲ کو پیارے ہو گئے ۔

امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اﷲ علیہ کا سالانہ عرس مبارک ہر سال11-10مئی کو ہوتا ہے لیکن اس سال 11مئی کو پاکستان میں الیکشن ہو رہے ہیں ۔ضلعی انتظامیہ نے سجادہ نشین و جانشین حضرت امیر ملت پیر سید منور حسین شاہ جماعتی سے گذارش کر کے باہمی اتفاقِ رائے سے 14-13مئی کو عرس مبارک منانے کا اعلان کیا ہے ۔لہٰذا اس سال عرس مبارک حضرت امیر ملت 14-13مئی کو دربار عالیہ علی پور سیداں شریف پر منایا جائیگا ۔عرس مبارک سجادہ نشین دربار عالیہ حضرت امیر ملت ،مہر الملت پیر سید منور حسین شاہ جماعتی کی زیر صدارت منعقد ہو رہا ہے جس میں ملک و بیرون ملک سے ہزاروں عقیدتمندان شرکت کریں گے۔
Peer Owaisi Tabassum
About the Author: Peer Owaisi Tabassum Read More Articles by Peer Owaisi Tabassum: 198 Articles with 658749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.