آغا امجد علی
اسلام سادگی اور سماجی و معاشی انصاف کا درس دیتا ہے کنجوسی سے منع کیا گیا ہے تو
فضول خرچی کو شیطانی صفت قرار دیا گیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر اشتہاری مہمات
پاکستانی صارفین کی خواہشات کو ابھار کر ان چیزوں کی خریداری کی طرف آمادہ کرتی ہیں
جن کی ان کو حقیقت میں ضرورت نہیں اور جن کے بغیر بہت اچھی طرح گزارہ ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں سماجی انصاف نہ ہونے کی وجہ سے بجلی کی غیر منصفانہ تقسیم المیہ سے کم
نہیں۔ کئی کوٹھیوں میں درجن بھر اے سی چلیں اور کسی کے چھوٹے سے مکان میں بلب بھی
روشن نہ ہو یہ سماجی ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے؟۔ بہرحال یہ اچھی بات ہے کہ بجلی
کی بچت کی مہم کا سرکاری دفاتر سے آغاز اور حکومتی اداروں میں اس کا عملی چلن نگراں
وزیر اعظم جسٹس (ر) میر ہزار خاں کھوسو کے فیصلے کے تحت 15مئی سے تمام سرکاری
محکموں اور دفاتر میں ائیرکنڈیشنرز کے استعمال پر پابندی لگ جائے گی اور یہ ممانعت
اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ملک میں توانائی کی صورت حال میں نمایاں بہتری نہیں
آجاتی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ توانائی بچت کی مہم کا آغاز وزیر اعظم ہاﺅس سے پہلے
ہی کیا جا چکا ہے اور وہاں ائیرکنڈیشنروں کا استعمال ختم کردیا گیا ہے۔ اس فیصلے پر
عملدرآمد کے لئے موسم گرما کے لئے ہلکے پھلکے آرام دہ لباس کا تعین بھی کیا گیا ہے
جسے ”ڈریس کوڈ“ کا نام دیا گیا ہے۔ ایوان وزیر اعظم کے اعلامیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ
ملازمین سفید یا ہلکے رنگ کی شلوار قمیض پہن کر دفتر آسکتے ہیں مگر ان کے ساتھ
واسکٹ پہننا لازمی ہوگا۔ سفید یا لائٹ کلر کی پوری یا آدھی آستینوں والی شرٹس یا
بشرٹس ہلکے رنگ کے ٹراﺅزر کے ساتھ پہننے کی اجازت ہوگی۔ مردوں کو تسموں کے بغیر
جوتے پہننا ہوں گے جبکہ خواتین سینڈل پہن کر دفتر آئیں گی۔ یہ ڈریس کوڈ بھی 15مئی
سے نافذ العمل ہوگا۔ نگراں وزیر اعظم کی رہائش گاہ میں توانائی بچت کے حوالے سے
سرکاری ذرائع جو تفصیلات ظاہر کررہے ہیں ان کا دائرہ اگر دوسرے اعلیٰ ایوانوں تک
بھی وسیع ہوا اور سرکاری دفاتر میں ائیرکنڈیشنروں پر پابندی کا فیصلہ اس کی روح کے
مطابق نافذ کرنے میں کامیابی ملی اور نگراں وزیر اعظم کی سبکدوشی کے بعد بھی اس پر
عملدرآمد جاری رہا تو اس فیصلے کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ملک کو توانائی کے جس
بحران کا سامنا ہے اس میں نہ صرف بجلی کے استعمال میں سرکاری، نجی اور گھریلو سطح
پر کفایت ضروری ہے بلکہ بطور قوم اپنے وسائل سے بڑھ کر اخراجات کی عادت سے چھٹکارا
پانا بھی ضروری ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری دفاتر میں صبح سے رات گئے تک
ائیرکنڈیشنر اور دوسرے برقی آلات کے بلاضرورت چلائے جانے کو ہم ان قومی وسائل کا
زیاں نہیں سمجھتے جن کی فراہمی کے لئے بالآخر ہمیں ہی ٹیکس ادا کرنے ہیں۔ دن کے
اوقات میں اسٹریٹ لائٹس جلنے کا عمل ہو یا شادی بیاہ کی تقریبات کوطول دینے کی
روایت۔ ان سب میں وقت، بجلی اور سرمائے کے زیاں کو قابل توجہ نہیں سمجھا جاتا۔
ہمارے عظیم ہمسایہ ملک چین میں عوامی انقلاب کی کامیابی کے بعد وسائل محدود تھے تو
وہاں صدر، وزیر اعظم اور کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ سمیت پوری قوم کے لوگ سال بھر دو
جوڑے کپڑوں پر پیوند لگا لگا کر گزرا کرتے تھے۔ وہاں کے لیڈر پیوند لگے کپڑوں اور
جوتوں میں غیرملکی مہمانوں کا استقبال کرنے میں کوئی سبکی محسوس نہیں کرتے تھے۔ چین،
بھارت، وینزویلا، ایران سمیت کئی ممالک کی موجودہ قیادتوں نے بھی اپنے لباس، رہن
سہن اور طور طریقوں سے قوم کے سامنے سادگی کا نمونہ پیش کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ
نہیں کہ ہر جگہ مثبت اور منفی دونوں طرز ہائے عمل کی گنجائش ہوتی ہے مگر جو معاشرے
اپنے وسائل سے زیادہ اخراجات کرنے کے عادی ہوتے ہیں انہیں جلد یا بدیر کرپشن اور
انارکی کا عفریت اپنا شکار بنا لیتا ہے۔ اس لئے کیا ہی اچھا ہو کہ نگراں وزیر اعظم
شادیوں میں اپنے وسائل سے بڑھ کر ضیافتوں کے اہتمام اور ایسی رسموں کی روک تھام کی
تدابیر بھی کریں جو اگلی نسلوں تک کو مقروض بنانے کا ذریعہ ہیں۔ ایک زمانے میں صرف
50افراد کو ون ڈش کھلانے کی قانونی پابندی بہت سے سفید پوشوں کا بھرم رکھنے کا
ذریعہ تھی جسے دوبارہ بحال کرکے غریب خاندانوں کو غیرضروری مالی بوجھ سے نجات دلائی
جاسکتی ہے۔ |