یومِ پیدائش : غیاث ‌الدین ابوالفتح عمر ابراهیم خیام نیشابورﻯ

فارسی شاعر اور فلسفی ۔ حکیم ابوالفتح عمر خیام بن ابراہیم، ریاضی اور ہیئت کا ماہر کامل، طغرل کے عہد حکومت میں ۔نیشاپور میں 18 مئی 1048ء کو پیدا ہوا۔ اس کے والد کا نام ابراہیم تھا جس کا پیشہ خیمہ درزی تھا، وہ خیام کہلاتا تھا کیونکہ اسکے معنی سینے والے کے ہیں۔ یہ لفظ بھی جز بن گیا اور اس نے عمر خیام کے نام سے شہرت حاصل کی۔ عمر خیام کی شعری عظمت کا اعتراف صرف مشرق ہی نہیں مغرب میں بھی کیا گیا ہے۔ اس کی فارسی رباعیات کا ترجمہ دنیا کی تقریبآ ہر مذہبی زبان میں ہو چکا ہے۔ ذوق شعر رکھنے والے عمر خیام کی شاعری سے لطف اندوز ہوتے اور اس کے عظمتِ فن کو تسلیم کرتے ہیں۔ شاعری میں عمر خیام کی رباعیات کا مقام بہت بلند ہے اور اسے شاعر کی حیثیت سے ایسی لازوال شہرت حاصل ہے کہ شعروادب کے محفل میں اس کے پرستاروں کے درمیان اگر عمر خیام کا تذکرہ ایک سائنس دان کے طور پر کیا جائے تو انہیں‌ حیرت ہوتی ہے۔ حالانکہ شاعری، جس نے عمر خیام کی موت کے بعد اسے شہرت دوام دی خود اس کی زندگی میں محض اوقات فرصت گزارنے کا ذریعہ تھی ورنہ وہ ریاضی اور ہیئت کا ایک ماہر کامل تھا۔ اسے سلجوقی دور کا سب سے بڑا سائنسدان کہا جاتا ہے۔ علوم و جنون کی تحصیل کے بعد عمر خیام ترکستان چلا گیا جہاں قاضی ابوطاہر نے اس کی تربیت کی اور پھر شمس المک خاقان بخارا کے دربار میں پہنچا دیا۔ بعد میں ملک شاہ سلجوقی نے اسے اپنے دربار میں بلایا اور شاہی رصدگاہ کی تعمیر اس کے سپرد کردی۔

خیام کا آبائی شہر نیشا پور علم و فن کا بہت بڑا مرکز تھا۔ خیام کی پیدائش سے ایک سال قبل اس پر سلجوقیوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ ان حکمرانوں نے اپنے عہد میں اس شہر کی علمی ترقی میں مزید اضافہ کیا۔ یہاں کئی مدارس موجود تھے اور علما کی مجالس منعقد ہوئی تھیں۔ یہ وہ ماحول تھا جس میں خیام نے پرورش پائی۔

عمر خیام کو ابن سینا کی صحبت تو میسر نہ آسکی کیونکہ اسکی ولادت سے دو سال قبل اس کا انتقال ہو چکا تھا لیکن بو علی سینا کے شاگردوں سے اس نے ریاضی، ہیئت اور فلسفے کے سبق لئے تھے اس لئے وہ ابن سینا کے فلسفے سے بہت متاثر تھا اور انہیں اپنی تصانیف میں معلّی یعنی میرا استاد کہہ کر یاد کرتا تھا۔
اس نے طب کی تعلیم بھی پائی اور نیشا پور میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد ریاضی پر ایک کتاب "مکعبات" کے نام سے لکھی جس میں اس نے بہت سی ریاضی کے متعلق الجھنیں صاف کیں لیکن اس کتاب کی تصنیف پر صا حبان اقتدار نے تصنیف اور مصنف دونوں پر کوئی توجہ نہ کی تھی۔ عمر خیام نے دل برداشتہ ہو کر سمرقند جانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہاں ایک صاحب ثروت ابو طاہر نامی شخص رہتا تھا جو شاہ ترکستان شمس الملک کے مقربین میں سے تھا۔ اس نے خیام کو جوہر قابل جان کر اپنی سرکار سے منسلک کرلیا اور اس کی بہت قدر کی۔ ابو طاہر کو ریاضی سے بہت دلچسپی تھی اس کے کہنے پر عمر خیام نے اپنی مشہور تصنیف "جبرومقابلہ" لکھی۔ اس کتاب کو اس نے 1067ء میں سمرقند میں لکھنا شروع کیا اور 1074ء میں مکمل کیا۔

اسلامی عہد میں الجبرے پر یہ چوتھی یا پانچویں کتاب تھی جو اس مضمون کی پہلی کتاب یعنی محمد بن موسیٰ الخوارزمی کے ڈھائی سو سال بعد تالیف کی گئی تھی۔ اسے اگرچہ ریاضی سے خاصا شغف تھا لیکن وہ طب میں دستگاہ رکھتا تھا۔ چنانچہ ملک بادشااہ کے دربار مین اس کا تعارف ایک طبیب کی حیثیت سے ہوا۔ ملک شاہ کے ایک بیٹے کو چیچک نکل آئی اور طبیبوں کے علاج کے باوجود اس کی حالت غیر ہوتی گئی۔ اس وقت خیام کو طلب کیا گیا جس کے علاج سے خدا نے ملک شاہ کے بیٹے سنجر کو شفا بخشی۔ اس کامیابی کے بعد اسے شاہی طبیب کے عہدے پر فائز کیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاضی اور ہیئت کے مقابلے میں طب سے اس کی وابستگی اور دلچسپی تھی۔ اسے یہ شکایت تھی کہ عوام و خواص ایک طبیب کی حیثیت سے تو اس کی بہت قدر و منزلت کرتے ہیں کیونکہ اس سے ان کا ذاتی مفاد وابستہ ہے لیکن ریاضی اور ہیئت میں اس کی شاندار تحقیقات کو درخور اعتناء نہیں سمجھتے۔ آخر وقت آیا کہ عمر خیام کو ریاضی دان اور ہیئت دان کی حیثیت سے اپنی لیاقت کا اعزاز حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔ ملک سلجوقی نے اصفہان میں ایک رسد گاہ تعمیر کی اور اس میں عمر خیام کو اعلیٰ افسرکی حیثیت سے مقرر کیا۔ اس نے کثیر رقم آلات رصد کیلئے دی اور رصد گاہ کے عملے میں عمر خیام کے ساتھ سات دیگر ہیئت دان بھی مامور کیے۔ یہاں عمر خیام نے اپنی تحقیقی سرگرمیاں تیز کر دیں اور کئی معاملات میں اجتہادی تبدیلیاں کیں۔ تصانیف ما الشکل من مصادرات اقلیدس ، زیچ ملک شاہی ، رسالہ مختصر در طبیعیات ، میزان الحکم ، رسالۃ اکلون و التکلیف ، رسالہ موضوع علم کلی وجود ، رسالہ فی کلیات الوجود ، رسالہ اوصاف یا رسالۃ الوجود ، غرانس النفائس ، نوروزنامہ ، رعبایات خیام ، بعض عربی اشعار ، مکاتیب خیام فارسی ’’ جو اب ناپید ہے‘‘ عمر خیام کی بہترین تصانیف میں شمار ہوتی ہیں۔

عمر خیام نے 1131ء میں وفات پائی اور نیشا پور کے قبرستان میں دفن ہوا۔
Chaudhry Tahir Ubaid Taj
About the Author: Chaudhry Tahir Ubaid Taj Read More Articles by Chaudhry Tahir Ubaid Taj: 38 Articles with 65956 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.