حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اﷲ علیہ

عطائے رسول فی الہند۔خواجہ غریب نواز۔بانیٔ سلسلۂ چشتیہ۔سلطانُ الہند

علم ومعرفت کے تاج دار،آفتاب شریعت وطریقت،اقلیم ِولایت کے نیراعظم، قطب المشائخ،نائب رسول فی الہند،خواجہ غریب نواز،سلسلہ چشتیہ کے مؤسس وبانی،سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ 14 رجب المرجب536ھ/1141 ء کوپیرکے دن قصبہ ’’سجستان‘‘میں متولد ہوئے۔آپ کے والدمحترم حضرت سیدناخواجہ غیاث الدین رحمتہ اﷲ علیہ علم ظاہری وباطنی میں یکتائے روزگار،اپنے عہدکے بہت برگزیدہ اورکامل ولی اﷲ تھے۔جب کہ آپ کی والدۂ محترمہ حضرت بی بی ماہِ نوررحمۃ اﷲ علیہابھی اپنے وقت کی بڑی عابدہ وزاہدہ خاتون اورولیٔہ کاملہ تھیں۔

سلسلہ نسب
سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ والدکی طرف سے ’’حسینی‘‘اور والدہ کی طرف سے’’حسنی‘‘سیدیعنی آپ ’’ نجیب الطرفین سید‘‘ ہیں۔آپ کاسلسلہ نسب تیرھویں پشت میں خلیفہ چہارم اور دامادِ رسول ﷺ امیرالمؤمنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ سے جاملتاہے۔آپ کا سلسلہ نسب حسب ذیل ہے ۔

حضرت خواجہ سید معین الدین بن سید غیاث الدین بن سید کمال الدین بن سید احمد حسین بن سید طاہر بن سید عبد العزیزبن سید ابراہیم بن امام علی رضا بن امام مو سیٰ کا ظم بن امام جعفر بن امام محمد باقر بن علی بن امام زین العابدین بن امام حسین بن حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہم ۔

علوم ظاہری وباطنی کا حصول اورشرفِ بیعت
سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ نے مقتدائے زمانہ ہستیوں سے علومِ دینیہ یعنی علم قرآن،علم حدیث،علم تفسیر،علم فقہ ، علم منطق اورعلم فلسفہ وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔آپ نے علم ظاہری کے حصول میں تقریباًچونتیس (34)برس صرف کیے،جب کہ علوم دینیہ کے حصول سے فارغ ہونے کے بعدعلم معرفت وسلوک کی تمناآپ کوایک جگہ سے دوسری جگہ کُشاں کشاں لے جاتی رہی۔
چنانچہ عراقِ عجم(ایران)میں پہنچ کرعلمِ معرفت وسلوک کی تحصیل کیلئے آپ نے مرشدکامل کی تلاش کی اور گوہرمقصودبالآخرآپ کونیشاپورکے قصبہ ’’ہاروَن‘‘میں مل گیا۔جہاں آپ حضرت خواجہ شیخ عثمان ہاروَنی رحمتہ اﷲ علیہ ایسے عظیم المرتبت اورجلیل القدربزرگ کی خدمت میں حاضرہوئے اورآپ کے دست مبارک پرشرف ِبیعت سے فیض یاب ہوئے۔حضرت شیخ عثمان ہارونی علیہ الرحمتہ نے نہ صرف آپ کودولت بیعت سے نوازابلکہ آپ کوخرقۂ خلافت بھی عنایت فرمایااورآپ کواپناخاص مصلّٰی(جائے نماز)، عصااورپاپوش مبارک بھی عنایت فرمایا۔

بارگاہِ مصطفوی ﷺمیں حاضری
حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اﷲ علیہ اپنے پیرو مرشد کے ہمراہ بیس سال تک رہے اور بغداد شریف سے اپنے شیخ طریقت کے ہمراہ زیارتِ حرمین شریفین کا مبارک سفر اختیار فر ما یا ۔ چنانچہ اس مقدس سفر میں اسلامی علوم و فنون کے عظیم مراکز مثلاً بُخارا، سمر قند، بلخ، بد خشاں وغیرہ کی سیرو سیاحت کی۔ بعد ازاں مکہ مکرمہ پہنچ کر مناسکِ حج ادا کر کے حضرت خواجہ شیخ عثمان ہا روَنی رحمتہ اﷲ علیہ نے حضر ت خواجہ غریب نواز رحمتہ اﷲ علیہ کا ہاتھ پکڑ ا اور میزابِ رحمت کے نیچے کھڑے ہو کر با رگاہِ خدا وندی میں اپنے ہاتھ پھیلا کر یوں دُعا فر ما ئی :
’’اے میرے پروردگار! میرے معین الدین حسن کو اپنی با ر گاہ میں قبول فر ما‘‘!

اسی وقت غیب سے آوازآئی:’’معین الدین !ہمارا دوست ہے ، ہم نے اسے قبول فر ما یا اور عزت و عظمت عطا کی ‘‘۔

یہاں سے فراغت کے بعد حضرت خواجہ عثمان ہا رونی ، خواجہ غریب نواز رحمتہ اﷲ علیہ کو لے کر مدینہ منورہ میں بار گاہِ مصطفوی ﷺپہنچے اورآپ ﷺکی بار گاہِ مقدسہ میں ہدیہ درودو سلام پیش کیا …… الصلوٰ ۃ والسلام علیکم یا سید المرسلین و خاتم النبین۔روضۂ اقدس سے یوں جواب عنایت ہوا…… وعلیکم السلام یا قطب المشائخ ……حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمتہ با ر گاہ ِ رسالت مآب ﷺ سے سلام کا جواب اورقطب المشائخ کا خطاب سن کر بہت ہی خوش ہو ئے ۔

لاہورآمداورمزارِداتاگنج پرحاضری
چنا نچہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمتہ سیروسیاحت کرتے کرتے مختلف شہروں سے ہو تے ہوئے اور اولیا ءِ کرام کی زیا رت و صحبت کا فیض حاصل کر تے ہوئے جب لا ہور تشریف لا ئے تو یہاں حضور دا تا گنج بخش سید علی ہجویری علیہ الرحمتہ کے مزار شریف پر حاضری دی اور چالیس دن تک معتکف بھی رہے اور یہاں بے بہا انوارو تجلیات سے فیضیا ب ہو ئے تو رخصت ہو تے وقت یہ شعر بہ طورِ نذرانۂ عقیدت حضور داتا صاحب کی شان میں پیش کیا ۔
گنج بخش ، فیض عالم ، مظہر نورِ خدا
ناقصاں را پیر کامل ، کا ملاں را راہنما

حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمتہ کو جو فیوض برکا ت اور انوار و تجلیات یہاں سے حاصل ہوئیں ، اس کا اظہار و اعلان اس شعر کی صورت میں کر دیا۔ اس شعر کو اتنی شہرت ہو ئی کہ اس کے بعد حضور داتا گنج بخش سید علی ہجویری علیہ الرحمتہ کو لوگوں نے ’’داتا گنج بخش‘‘کے نام سے مو سوم اور مشہور کر دیا۔

سیرت و کردار
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ کی انقلاب آفرین شخصیت ہندوستان کی تاریخ میں ایک نہایت ہی زریں با ب کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ کے اس دور میں جہاں ایک طرف آپ کی توجہ اور تبلیغی مسا عی سے ظلمت کدہ ہند میں شمع ِ اسلام کی روشنی پھیل رہی تھی ، دلوں کی تاریکیاں ایمان و یقین کی روشنی میں تبدیلہو رہی تھیں ، لو گ جو ق در جوق حلقہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ تودوسری طرف ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی غلبہ بھی بڑھ رہاتھا۔

حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اﷲ علیہ کے عقیدت مندوں اور مریدوں میں شامل سلطان شہاب الدین غوری اوراُن کے بعدسلطان قطب الدین ایبک اور سلطان شمس الدین التمش ایسے با لغ نظر ، بلند ہمت اور عادل حکمران سیاسی اقتدار کو مستحکم کر رہے تھے ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ نے تبلیغ اسلام ، احیائے دین و ملت ، نفاذِ شریعت اور تزکیۂ قلوب واذہان کا اہم ترین فریضہ جس موثر اور دل نشین انداز میں انجام دیا ، وہ اسلامی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ آپ کی تشریف آوری کے بعد تو اس ملک کی کا یا ہی پلٹ گئی ۔ لا کھوں غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر اسلام لا ئے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ کی حیاتِ مبارکہ قرآن و سنت کا قابل رشک نمونہ تھی ۔آپ کی تمام زندگی تبلیغ اسلام ، عبادت و ریاضت اور سادگی و قناعت سے عبارت تھی۔ آپ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو قیام میں گزارتے تھے ۔ آپ مکارمِ اخلاق اور محاسن اخلاق کے عظیم پیکر اوراخلاقِ نبوی ﷺ کے مکمل نمونہ تھے ۔

حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اﷲ علیہ غرباء اور مساکین کے لئے سرا پا ر حمت و شفقت کا مجسمہ تھے اور غریبوں سے بے مثال محبت و شفقت کی وجہ سے دنیا آپ کو ’’غریب نواز‘‘کے عظیم لقب سے یا د کر تی ہے ۔دنیا سے بے رغبتی اورزہد و قناعت کا یہ عالم تھا کہ آپ کی خدمت عالیہ میں جو نذرانے پیش کئے جا تے وہ آپ اسی وقت فقراء اور غرباء میں تقسیم فر ما دیتے تھے۔ سخاوت و غریب نوازی کا یہ حال تھا کہ کبھی کوئی سائل آپ کے در سے خالی ہا تھ نہ جا تا تھا۔ آپ بڑے حلیم و بر د بار ، منکسر المزاج اور بڑے متوا ضع تھے۔

آپ کے پیش نظر زندگی کا اصل مقصد تبلیغ اسلام اور خدمت خلق تھا۔آپ کے بعض ملفوظاتِ عالیہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ بڑے صاحب دل،وسیع المشرب اور نہایت دردمند انسان تھے۔ آپ عمیق جذبہ انسانیت کے علمبردار تھے۔ آپ اپنے مریدین ، معتقدین اور متوسلین کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ وہ اپنے اندر دریا کی مانند سخاوت و فیاضی، سورج ایسی گرم جوشی و شفقت اور زمین ایسی مہمان نوازی اور تواضع پیدا کیاکریں۔

اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ : ’’جب اﷲ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنا دوست بناتا ہے تو اس کو اپنی محبت عطا فرماتا ہے اور وہ بندہ اپنے آپ کو ہمہ تن اور ہمہ وقت اس کی رضا وخوشنودی کے لیے وقف کر دیتا ہے تو خداوند قدوس اس کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے، تاکہ وہ اﷲ تعالیٰ کی ذات کا مظہر بن جائے‘‘۔

اسلام کی تبلیغ واشاعت
سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ جب علم وعرفاں اورمعرفت وسلوک کے منازل طے کرچکے اوراپنے شیخ طریقت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمتہ کے علمی وروحانی فیضان سے فیض یاب ہوئے توپھراپنے وطن واپس تشریف لے گئے۔وطن میں قیام کئے ابھی تھوڑی ہی مدت ہوئی تھی کہ آپ کے دل میں بیت اﷲ اورروضہ نبویﷺکی زیارت کے لئے تڑپ پیدا ہوئی۔چنانچہ اسی وقت آپ اس مقدس سفرکے لئے چل پڑے۔حرمین طیبین پہنچنے کے بعداپنے دل کی مرداپائی اور قلب کوتسکین حاصل ہوئی۔ حضورسیدعالم ﷺکے روضہ اقدس کے پاس کئی دنوں تک عبادت و ریاضت اورذکروفکرمیں مشغول رہے۔ایک دن اسی طرح عبادت اورذکرو فکر میں مستغرق تھے کہ روضہ نبویﷺسے یہ سعادت افروزآوازآئی:
’’اے معین الدین!توہمارے دین کامعین ومددگار ہے،ہم نے تمھیں ہندوستان کی ولایت پرفائزکیاہے،لہٰذااجمیرجاکراپناقیام کروکیوں کہ وہاں کفرو شرک اورگمراہی وضلالت کی تاریکیاں پھیلی ہوئی ہیں اور تمھارے وہاں ٹھہرنے سے کفروشرک کا اندھیرادور ہوگااوراسلام وہدایت کے سورج کی روشنی چہارسوپھیلے گی‘‘۔

ابھی آپ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ہندو ستان میں اجمیر کس جگہ پر ہے کہ اچانک اونگھ آگئی اور حضور سید عالم ﷺ کی زیارت سے شرف یا ب ہوئے ۔ آپ ﷺ نے مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب تمام ہندوستان کی سیر کر ادی اور اجمیر کا پہاڑ بھی دکھا دیا ۔

اجمیر شریف ……علم وعرفان کا مرکز
اجمیرشریف!وسطیٔ ہندکاایک مشہورشہرہے۔جس طرح یہ شہرمرکزِ سلطنت

بننے کیلئے موزوں تھا،اسی طرح یہ شہرتوحیدورسالت کے انوارو تجلیات اور علم وعرفاں کاروحانی مرکزومنبع بننے کیلئے بھی بے حد مناسب تھا۔حضرت ِوالانے ایک مناسب جگہ منتخب کرکے اس کواپنامسکن بنالیااور ذکروفکراوریادخداوندی میں مشغول ہوگئے۔لوگوں نے جب آپ کے سیرت وکردار،علم وفضل اورذکروفکر کے اندازو اطور کودیکھاتووہ خودبہ خودآپ کی طرف متوجہ ہوتے گئے۔چنانچہ اجمیر کا جوبھی آدمی ایک مرتبہ آپ کی خدمت ِعالی میں حاضرہوجاتاوہ اسی وقت آپ کا مریدو معتقد اور گرویدہ ہو جاتا۔تھوڑے ہی عرصہ میں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں نے آپ کی صحبت کیمیا اثراورآپ کے عظیم اخلاق وکردارکے باعث اسلام قبول گیا۔چنانچہ ایک مشہورروایت کے مطابق تقریباًنوے لاکھ (90لاکھ) غیر مسلم اسلام کی دولت سے فیض یاب ہوکرمسلمان ہوئے۔

ہندوستان میں اسلام کی روشن کرنیں
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ کے مقام و منصب کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ کو با ر گاہِ رسالت مآب ﷺ سے ’’قطب المشائخ‘‘کا لقب عطا ہوا۔آپ نے دین حق کی تبلیغ کا مقدس فریضہ نہایت شاندار طریقے سے سر انجام دیا۔ آج ہندوستان کا گوشہ گوشہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اﷲ علیہ کے فیوض و برکات سے ما لامال ہے ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنے مریدین و معتقدین کو اشاعت اسلام اور رشد و ہدایت کی مشعل روشن کر نے کے لئے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں روانہ کیاتا کہ ہندوستان کا گوشہ گوشہ اسلام کی ضیاء پا شیوں سے روشن و تاباں ہو جائے ۔ آپ نے اپنے عظیم کر دار اور اچھے اخلاق سے بہت جلد غیر مسلموں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور وہ فوج در فوج اسلام قبول کر نے لگے اور یوں انتہائی قلیل مدت میں اجمیر شریف اسلامی آبادی کا عظیم مر کز بن گیا اور آپ کے حسنِ اخلاق سے آپ کی غریب نو ازی کا ڈنکا چہار دا نگِ عالم بجنے لگا۔ یہ تھا ایمان ویقین اور علم و عمل کا وہ کرشمہ اور کرامت جو ایک مر د ِ مو من نے سر زمینِ ہند پر دکھا ئی اور جس کی بدولت اس ملک میں جہاں پہلے ’’نا قوس ‘‘ بجا کر تے تھے ، اب وہاں جگہ جگہ ’’صدائے اﷲ اکبر‘‘ گونجنے لگی ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنی اثر آفرین جدو جہد سے اس وسیع و عریض ملک کے با شندوں کو کفر و شرک اور گمراہی و ضلالت کے زنداں سے آزاد فر ما یا ۔ تبلیغ دین حق کے لئے آپ سراپا عمل بن کر میں میدان میں آئے اور محکم استقامت کا بے نظیر ثبوت دیا اور لو گوں کو اسلام ، حق و صداقت اور علم و عمل کی دعوت دی ، لا کھوں افراد آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اُن کے دل درست عقائد، عملِ صالح اور پا کیزہ اخلاق کے نشیمن بن گئے اور اصلاحِ معاشرہ کی تحریک کو روز افزوں استحکام نصیب ہوا۔ یوں تو ہزاروں کرامتیں آپ سے ظہور پذیر ہوئیں اور آفتاب و مہتاب بن کر نمایاں ہوئیں لیکن آپ کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ کے انقلاب آفرین جدو جہد اور اثر آفرین تبلیغ اسلام کے طفیل ہندوستان میں دین ِ اسلام کی حقانیت و صداقت کا بو ل با لا ہوا۔سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اﷲ علیہ کی ابدی سلطنت نے اجمیر شریف کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بہشتِ عقیدت اور جنت ِمعرفت بنا دیا۔ آپ کے فیضِ با طنی سے اسلام کا آفتاب ہندوستان میں طلوع ہوا تو لاکھوں غیر مسلم آپکی توجہ سے مشرف بہ اسلام ہوئے ۔تقریباً 45برس تک آپ اجمیر شریف میں حیات ظاہری کے ساتھ مخلوقِ خدا کو فیض یاب فر ما تے رہے ۔

ہندوستان میں اشاعتِ اسلام اور رشد وہدایت کی شمع روشن کر نا آپ کا سب سے تاریخی او ر عظیم کا ر نا مہ ہے ۔ رسو ل اﷲ ﷺ نے دعوت وتبلیغ کی اہمیت اور اس پر اجروثواب کو اس طرح اجاگر اور واضح فرمایا ہے۔رسول اﷲ ﷺ نے ارشادفرمایا:
من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فعمل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا۔
ترجمہ: جس نے اسلام میں کسی نیک کا م کی ابتداء کی اوراس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے نامہ اعمال میں بھی اس طرح اجر لکھ دیا جائے گا جیسا کہ عمل کرنے والے کے اعمال نامہ میں لکھاجائے گا‘‘۔(صحیح مسلم، کتاب العلم)

چنانچہ فرمانِ رسول ﷺکے مطابق آپ کی دعوت وتبلیغ، سیرت و کردار اور کے قدومِ میمنتِ لزوم کی برکت سے دنیامیں جس قدر مسلمان ہو ئے اور آئندہ قیامت تک جتنے مسلمان ہوں گے اور اُن مسلمانوں کے ہاں جو مسلمان اولاد پیدا ہو گی، اُن سب کا اجر و ثواب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ کی روحِ پر انوار کو پہنچتا رہے گا،کیونکہ یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے کہ جس کا اجروثواب قیامت تک ملتا رہے گا۔

اجمیر شریف آمداورپرتھوی راج کی مخالفت
سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتیرحمتہ اﷲ علیہلاہورسے دہلی تشریف لے گئے،جہاں اس دورمیں ہر طرف کفرو شرک اورگمراہی کادوردورہ تھا۔حضرت خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمتہ نے یہاں کچھ عرصہ قیام فرمایااورپھراپنے خلیفۂ خاص حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمتہ اﷲ علیہ کو مخلوق کی ہدایت اورراہنمائی کے لئے متعین فرماکرخودحضور سیدعالمﷺکے فرمان کے مطابق اجمیرجانے کاقصد فرمایا،آپ کی آمدسے نہ صرف اجمیربلکہ پورے ہندوستان کی قسمت جاگ اٹھی ۔

جب سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ اجمیر شریف رونق افروز ہوئے تواُن دنوں وہاں پرہندوراجہ پرتھوی کی حکمرانی تھی۔آپ کی آمدپروہاں کاحاکم راجہ پرتھوی راج اور ہندوجوگیوں اورجادوگروں نے سخت مزاحمت کی کہ آپ اجمیرکواپنامرکزو مسکن نہ بنائیں،لیکن آپ کوتوبہ طورِ خاص اسلام وہدایت کی شمع روشن کرنے کیلئے یہاں بھیجاگیاتھا،پھرآپ اپنے عظیم مقصداورمقدس مشن سے کیسے بازآسکتے تھے۔ آپ کی مخالفت ہوتی رہی اور مقابلہ بھی ہوتارہا،بدسے بدتراورسخت سے سخت تربھی سامنے آتے رہے لیکن آپ اپنے عظیم مقصدومشن میں لگے رہے اوربالآخر کامیابی نے آپ ہی کے قدم چومے۔چنانچہ کچھ ہی عرصے میں راجہ پرتھوی راج کے سب سے بڑے مندرکا سب سے بڑا پجاری ’’سادھورام‘‘سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوا۔اس کے بعد اجمیرکے مشہور جوگی’’جے پال‘‘نے بھی اسلام قبول کرلیااوریہ دونوں بھی دعوتِ اسلام وہدایت اوراسلامی وروحانی مشن کی تبلیغ واشاعت میں خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمتہ کے ساتھ ہوگئے۔

راجہ پرتھوی راج کاانجام
اجمیرکاراجہ پرتھوی راج روزانہ نت نئے طریقوں سے حضرت والاکو تکلیف پہنچانے اور پریشان کرنے کی کوششیں کرتارہتالیکن اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کی ہرتدبیرالٹی ہوجاتی۔آخر تھک ہارکرپرتھوی راجہ نے نہایت ناشائستہ انداز و الفاظ میں18ہزارعالمین کامشاہدہ کرنے والے سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ کواجمیرسے نکل جانے کا کہاتو حضور خواجہ غریب نوازرحمتہ اﷲ علیہ بے ساختہ مسکرادیئے اورجلال میں آکر فرمایا کہ:
’’میں نے پرتھوی راج کوزندہ سلامت لشکراسلام کے سپردکردیا‘‘۔

چنانچہ آپ کافرمان درست ثابت ہوااورتیسرے ہی روزفاتح ہند سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اﷲ علیہ نے ہندوستان کوفتح کرنے کی غرض سے دہلی پرزبردست لشکرکشی کی۔راجہ پرتھوی راج لاکھوں کا لشکر لے کرمیدان جنگ میں پہنچااورمعرکہ کارزارگرم کردیا۔کفرواسلام اورحق وباطل کے درمیان زبردست معرکہ جاری تھا اوردست بہ دست لڑائی اپنے عروج پرتھی کہ سلطان غوری نے پرتھوی راج اوراس کے لشکرکوشکستِ فاش دے کرپرتھوی راج کوزندہ گرفتارکرلیا اوربعدازاں وہ قتل ہوکرواصلِ جہنم ہوگیا۔راجہ پرتھوی کے عبرت ناک قتل اور ذلت آمیزشکست اور سلطان غوری ولشکراسلام کی عظیم الشان اور تاریخی فتح کے نتیجے میں ہزاروں لوگ فوج درفوج اسلام قبول کرنے لگے۔یوں اجمیر شریف میں سب سے پہلے اسلامی پرچم سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ نے نصب فرمایا۔

سلطان شہاب الدین غوری کاشرفِ بیعت
فاتح ہندسلطان شہاب الدین غوری بہ صدعجزوانکسارسلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ کی خدمت عالیہ میں حاضرہوا اورآپ سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔چنانچہ روایت ہے کہ دہلی فتح کرنے کے بعدجب سلطان شہاب الدین غوری اجمیرشریف میں داخل ہوئے تو شام ہوچکی تھی۔ مغرب کاوقت تھا،اذانِ مغرب سنی تودریافت کرنے پرمعلوم ہواکہ ایک درویش کچھ عرصے سے یہاں اقامت پذیرہیں۔ چنانچہ سلطان غوری فوراًمسجد کی طرف چل پڑے۔جماعت کھڑی ہوچکی تھی اور سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ مصلیٔ امامت پرفائزہوکرامامت فرما رہے ہیں ۔ سلطان غوری بھی جماعت میں شامل ہوگئے۔

جب نمازختم ہوئی اوراُن کی نظر خواجہ غریب نوازرحمتہ اﷲ علیہ پرپڑی تویہ دیکھ کرآپ کوبڑی حیرت ہوئی کہ آپ کے سامنے وہی بزرگ جلوہ فرماہیں، جنہوں نے آپ کوخواب کے اندر’’فتح دہلی‘‘ کی بشارت دی تھی۔سلطان شہاب الدین غوری فوراًآگے بڑھے اورخواجہ غریب نوازکے قدموں میں گرگئے اور آپ سے درخواست کی کہ حضور!مجھے بھی اپنے مریدوں اورغلاموں میں شامل فرمالیں ۔چنانچہ حضرت خواجہ غریب نوازرحمتہ اﷲ علیہ نے آپ کی اس خواہش کو شرف ِقبولیت بخش کرآپ کودولت بیعت سے نوازکر اپنامرید بنالیا۔

یہ وہی سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اﷲ علیہ ہیں جن کے نام نامی اسم گرامی سے ہمارے پیارے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سپرپاور اسلامی ایٹمی میزائل’’غوری میزائل‘‘موسوم ہے،جوپاکستان کے عظیم فرزند،قومی ہیرو، محسن قوم ڈاکٹرعبدالقدیر خان اور آپ کے دیگرسائنس داں ساتھیوں نے تخلیق کیاہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان سلطان شہاب الدین غوری کے عظیم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

خواجہ غریب نوازکافیض عام
کون خواجہ اجمیری!!!جو آفتابِ طریقت بھی تھے اور ماہتابِ شریعت بھی۔۔۔جو پاسبانِ حقیقت بھی تھے اور صاحبِ نسبت بھی۔۔۔جورہبرِ گمگشتگانِ راہ بھی تھے اور شبستانِ ہدایت بھی۔۔۔جو آلِ رسول بھی تھے اور بدرِ ولایت بھی۔۔۔کون خواجہ اجمیری!!!جس کی زندگی سادہ تھی،لباس پیوند دار تھا۔ خوراک سوکھی روٹی تھی،رہنے کیلئے ایک جھونپڑی تھی مگر بڑے بڑے اولوالعزم شاہانِ زمانہ آپ کے آستانہ پر حاضر ہو کر آپ کی قدم بوسی کو اپنے لئے سب سے بڑی سعادت اور اعزاز سمجھتے تھے۔سلطان شہاب الدین غوری آپ کی قدم بوسی کیلئے آیا۔کبھی سلطان شمس الدین التمش نے آپ کے سامنے سر ارادت جھکایااور یہ سلسلہ صرف ظاہری حیات میں ہی نہیں بلکہ بعد میں بھی جاری رہا۔ کبھی سلطان محمود خلجی آپ کے روضہ انوار پر حاضرہو کر فتح کی دعا مانگتا ہے تو فتح یاب ہوتا ہے اور کبھی اکبر بادشاہ آپ کی درگاہِ عالیہ میں اولاد کی درخواست پیش کرتا ہے تو بامراد لوٹتا ہے۔ کبھی جہانگیر اپنی شفایابی پر سرِ دربار آپ کا حلقہ بگوش غلام ہو جاتا ہے۔

اس وقت سے لے کر آج تک ہندوستان کے سارے حکمران بلا امتیاز عقیدہ و مسلک، اس آستانہ عالیہ پر اپنا سر نیاز جھکاتے آئے ہیں اور آپ کے تصدق اور آپ کے قدومِ میمنتِ لزوم کے صدقہ میں سر زمینِ ہند رشکِ آسمان بنی رہے گی۔۔۔اولیاءِ کرام آپ کے دربار کی خاک کو چوم کر اپنے قلب و روح کو مجلّٰی کرکے عروج پاتے ہیں۔ آج بھی آپ کی شانِ غریب نوازی کار فرما ہے۔ آپ کا پیغامِ محبت فضائے عالم میں گونج رہا ہے۔آپ کی محبت پھولوں کی خوشبو کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔صاحب دل،اہلِ محبت اور اہلِ طریقت آپ کے حسنِ باطن اور عشقِ حقیقی کے تصرفات سے آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ آپ کے نورِ ولایت کا آفتاب آج بھی چمک اور دمک رہا ہے۔ آپ کا قلبی نور آج بھی ضیاء بخش عالم ہے۔آپ کی آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو آج بھی آبِ حیات اور بارانِ رحمت کی طرح فیض رساں ہیں۔

نامورخلفاء کرام
حضرت خواجہ خواجگان، قطب الاقطاب، سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒسے حسب ِ ذیل جلیل القدر ہستیوں کو بھی خلافت حاصل ہوئی:
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت بابا فرید گنج شکر، حضرت علاؤ الدین علی بن احمد صابر کُلیری، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب ِالٰہی، حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ شامل ہیں۔۔۔یہ برگزیدہ اور عظیم المرتبت بزرگ اپنے وقت کے ولیٔ کامل اور باکرامت اولیاء اﷲ ہوئے۔ ان حضرات نے حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی جلائی ہوئی شمعِ توحید سے نہ صرف خود روشنی حاصل کی بلکہ کروڑوں لوگوں کو اس شمعِ توحید کی ضیاء پاشیوں سے فیض یاب کیا، جس کی بدولت آج چہار عالم روشن و تاباں ہیں۔۔۔ چناں چہ خانقاہِ چشتیہ سلیمانیہ تونسہ شریف، گولڑہ شریف، سیال شریف،مکھڈشریف، چشتیاں شریف وغیرہ کی خانقاہوں کے چراغ اسی شمع کی بدولت روشن ہیں اور دوسروں کو بھی نور ایمان و ایقان اور نورِ علم و معرفت سے روشن کر رہے ہیں۔

وصال مبارک
تاجدارعلم ومعرفت، آفتابِ رشدوہدایت، قطب المشائخ، سلطان الہند،خواجہ غریب نوازحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اﷲ علیہ ایک طویل مدت تک مشارق ومغارب میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کرتے رہے۔ رشدوہدایت کی شمع جلاتے رہے۔ علم ومعرفت کوچہارسوپھیلاتے رہے۔ لاکھوں افراد کومشرف بہ اسلام کیا۔ لاتعدادلوگوں کو صراطِ مستقیم پر گامزن کیا۔ ہزاروں کو رشدوہدایت کا پیکر بنایا۔ الغرض یہ کہ آپ کی ساری زندگی امربالمعروف ونہی عن المنکرپر عمل کرتے ہوئے گزری۔بالآخریہ عظیم پیکرعلم وعرفاں، حامل سنت وقرآں، محبوبِ یزداں،محب سروروکون ومکاں،شریعت وطریقت کے نیرتاباں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اﷲ علیہ 6رجب المرجب633ھ/1236ء کو غروب ہو کرواصلِ ربِّ دوجہاں ہوگیا۔

روایات میں آتا ہے کہ جس وقت آپ کا وصال ہوا،آپ کی پیشانی مبارکہ پرنورانی خط میں تحریرتھا……مَاتَ حَبِیْبُ اللّٰہ،فِیْ حُبِّ اللّٰہ……یعنی اﷲ کا دوست، اﷲ کی محبت میں وصال فرماگیا۔

خواجہ غریب نوازحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اﷲ علیہ کا مزارپرانوار اجمیر شریف(انڈیا) میں مرجع خلائق ہے ۔آپ کے مزارِ پر انوار پر صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے بھی لا کھوں افراد بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ حاضر ہو تے ہیں ۔ اجمیر شریف میں آپ کی درگاہِ عا لیہ آج بھی ایمان و یقین اور علم و معرفت کے نو ر بر ساتی ہے اور ہزاروں خوش نصیب لو گ فیض یاب ہو تے ہیں۔

آپ کا عرس مبارک ہر سال نہ صرف اجمیرمیں بلکہ پورے پاک وہند میں پورے عقیدت واحترام اورتزک واحتشام کے ساتھ منایاجاتا ہے۔ علم و فضل کے عظیم پیکر،تاجدارِ معرفت اوررشدو ہدایت کے اس عظیم سورج کو غروب ہوئے کئی سوسال گزرچکے ہیں مگراس کی گرمی وحرارت سے آج بھی طالبانِ علم و معرفت اسی طرح فیض یاب ہو رہے ہیں، جس طرح آپ کی حیاتِ مبارکہ میں ہوتے تھے۔

چھٹی صدی ہجری کا وسط نہ صرف ہندوستان بلکہ تمام عا لم اسلام کیلئے نہا یت ہی ابتلاء اور آزمائش کا دور تھا۔ مجموعی طور پر یہ جنگوں، شور شوں اور فتنہ کا زما نہ تھا۔ مذہبی حالت بڑی نا گفتہ بہ تھی ۔ بے شمار خانقاہوں او رمر اکز علم کو مسمار کر دیاگیا ۔ ہندوستان کے حالا ت بڑے خطر نا ک رُخ اختیار کر گئے تھے ، بعض علا قوں میں جہاں اسلام کی مد ہم سی شمع روشن تھی، با طل پرست فر قے اسے بجھا نے کے لئے طرح طرح کی سازشیں کر رہے تھے ۔ عام طور پر بت پر ستی کا تسلط تھا ۔ ہر طرف قدیم ہندو مذہب کے پیر و آباد تھے ۔اور یہاں کے متعصب ہندو راجاؤں نے متعدد بے گناہ مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا ۔ایک طرف تکبر و تمرد سے بھرے راجاؤں کا نصب العین اسلام کو تبا ہ و بر با کر نا تھا۔ تو دوسری طرف فرقۂ با طلہ و ملحدین شعائر اسلامی کو ختم کر نے میں کو ئی دقیقہ فر و گذاشت نہیں کر رہے تھے ۔ الغرض یہ کہ ضلالت و گمراہی اپنی انتہاء کو پہنچ گئی تھی ایسے میں وہ مردِ خدا ہندو ستان میں جلوہ گر ہوا جو ہ امیر تھا اور نہ سلطان ……جس کے پاس نہ دولت تھی ، نہ ظاہری جاہ و جلال ……نہ فوج تھی ، نہ لشکروسپاہ اور نہ ہی کسی امیر و بادشاہ کی حمایت و مدد ……اس کا بھروسہ صرف اورصرف اﷲ تعالیٰ کی ذات پر تھا…… راہِ حق میں جہاد اس کا مشن تھا اس نے قدم صرف رضاءِ الہی کے لئے اٹھا یا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نظر اسبا ب پر نہیں بلکہ مسبّب اسباب پر تھی ……وہ عظیم الشان قوتِ ارادی کے ساتھ چند درویشوں کو لے کر تبلیغ اسلام او رشدو ہدایت کے لئے نکل کھڑا ہو تا ہے …… اس بے سرو سا ما نی کے عالم میں وہ ہندو ستان ایسی شرک زار میں ……لا الہٰ الا اﷲ…… کی گونج پید ا کر تا ہے …… کفار و مشرکین کے نرغے میں پہنچ کر اعلانِ حق و دعوت ِ تو حید بلندکرتا ہے ……اس نے اسلام کی راہ میں حائل با طل پرستوں اور بڑے بڑے ہندؤں کا تختِ تکبر و تمر دالٹ دیا تھا …… اس مر دِ خدانے راہِ حق میں آنے والی مشکلات و مصائب کا بڑی جو ان مردی سے مقابلہ کیا اور وہ سب کچھ کر دکھا یا جو اسلام اس سے چا ہتا تھا…… اس قدر عظیم اور شاہ کا رکا ر نا مے انجام دینے وا لا اور ہندوستان میں اسلام پھیلانے وا لا وہ مردِ حق، شناس ہے ……جسے آج دنیا سُلطانُ الہند ، خواجہ غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ کے نام سے یا د کر تی ہے ۔
Moulana Nasir Khan Chishti
About the Author: Moulana Nasir Khan Chishti Read More Articles by Moulana Nasir Khan Chishti: 58 Articles with 180838 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.