نیا پاکستان وجود میں آگیا

مطالعہ کا ذوق رکھنے والا شاید ہی کوئی شخص ہو جو سعادت حسن منٹو کے نام سے واقف نہ ہو۔ سعادت حسن منٹو اردو ادب کے عظیم افسانہ نگار اور خاکہ نویس ہوگزرے ہیں۔ ان کی تحریریں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہےں۔ سعادت حسن منٹو نے اپنی 42 سال 8 ماہ اور 9 دن کی زندگی میں بے شمار افسانے،خاکے اور ڈرامے لکھے۔ وہ اپنی ننگی آنکھوں سے زندگی کی تلخ ،بے رحم سچائی اور حقیقت کو افسانے کا موضوع بنا کرہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنی تصنیف”جدیدیت کے بعد“ میں سعادت حسن منٹو کے افسانوی ادب کے ضمن میں اپنے خیا لات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے: ”منٹو Doxa کا نقاب اسی لیے نوچ پھینکتا ہے کہ وہ اشرافیہ کو ننگا کر سکے۔“

”نیا قانون“ سعادت حسن منٹو کا پہلا شاہکار افسانہ ہے ۔ یہ افسانہ ان کے افسانوں کے مجموعے ”منٹو کے بہترین افسانے“ سے ماخوذ ہے۔منٹو کے یہاں ان کی سیاسی شعور کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔” نیا قانون“ بھی اسی نوعیت کا افسانہ ہے، جو ہمیں دعوتِ فکر دیتا ہے۔ ”استادکوچوان منگو“ اس افسانے کا مرکزی کردار ہے۔جس کے اِرد گرد کہانی گھومتی ہے۔ وہ ایک محب وطن شہری ہے جو اپنے مرتبے کے لوگوں میں بہت دانشور سمجھا جاتا ہے۔ اس کا سیاسی شعور بیدار ہے اور یہ احساس کہ وہ ایک غلام قوم کا فرد ہے اس کے دل میں نفرت کا سمندر بن چکا ہے۔ اسے انگریزوں سے شدید نفرت ہے۔ کوچوان منگو مظلومیت کا شکار ایک محنت کش غریب انسان ہے۔ دن رات وہ تانگا چلاتا اور اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ کوچوان منگو اپنی سواریوں کی گفتگو بڑے غور سے سنتا اور اس سے جو کچھ اخذ کرتا، وہ اپنے ساتھیوں کو بھی سناتا ہے۔ ایک دن ٹانگے کی سواریوں کی گفتگو سے اسے نئے قانون یعنی انڈیا ایکٹ کے نفاذ کا علم ہوتا ہے ۔استاد منگو ”نیا قانون“ کی خبر سن کر یہ خبر دوسروں تک پہنچانے کے لیے بے قرار نظر آتا ہے۔ اسے یہ سن کر بے انتہا خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ”پہلی اپریل“ کو اس نئے قانون کے نفاذ کے نتیجے میں وہ اور اس کا ملک آزاد ہوجائیں گے۔اس کا خیال ہے کہ نیا قانون ظالموں کے لیے کھولتا ہوا پانی ہوگا۔ اس خبر کے ساتھ اس کے ذہن میں ایک خوشگوار انقلاب کا تصور انگڑائیاں لینے لگتا ہے۔

آخر یکم اپریل کا سورج اس کے تصورکے مطابق حریت کے متوالوں کے لیے نویدِ سحر لے کر طلوع ہوتا ہے۔ وہ اپنے حسین تصورات میں گم اپنے ٹانگے پر شہر والوں کی بدلی کیفیات دیکھنے کے لیے نکلتا ہے، مگر اسے کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی۔ گھومتے گھومتے وہ ایک جگہ سواری کی تلاش میں رک جاتا ہے۔ایک انگریز سواری اسے آواز دیتی ہے۔ قریب پہنچ کر وہ اسے پہچان لیتا ہے کہ ایک بار پہلے بھی اس کی تکرار اس انگریز سے ہوچکی تھی۔ وہ اس سے بہت حقارت بھرے لہجے میں پوچھتا ہے: ”کہاں جانا ہے؟“انگریز منگو کے اس رویے کو زیادہ دیر تک برداشت نہ کرسکا اور اس نے منگو کو چھڑی کے اشارے سے تانگے سے نیچے اترنے کے لیے کہا۔ انگریز کا فرعون صفت رویہ منگو کے دل میں آگ لگا دیتا ہے۔ اس نے انگریز کو تانگے سے اتر کر بے تحاشا پیٹنا شروع کردیا۔ متحیر و ششدر گورے نے ادھر ادھر سمٹ کر منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی اور زور زور سے چلانا شروع کردیا۔ اسی چیخ و پکار نے منگو کا کام اور تیز کردیا جو گورے کو جی بھر کر پیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ کہتا جارہا تھا:پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں۔ اسے پتہ نہیں تھا کہ قانون میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس بات کا احساس اسے تب ہوا جب استاد منگو کو پولیس کے سپاہی گورے کو پیٹنے کے جرم میں تھانے لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر استاد منگو ’نیا قانون‘، ’نیا قانون‘ چلاتا رہا، مگر کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔ ”نیا قانون“ نیا قانون کیا بک رہے ہو۔ قانون وہی ہے پرانا۔“....اور اس کو حوالات میں بند کر دیا جاتا ہے۔“

اگر سعادت حسن منٹو کے افسانے ’نیا قانون‘ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میں ہمیںاپنے ملک میں موجودہ دور کے ساتھ کافی حد تک مشابہت نظر آتی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میںکوچوان منگو کا کردار ملک کا ہر باشندہ ادا کررہا ہے۔ عوام ایک عرصے سے مصائب کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ملک میں پھیلے مسائل نے ان کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ انہیں کرپشن کا اژدھا ڈس رہا ہے۔ مہنگائی کا عفریت منہ کھولے ہڑپ کرنے کو تیار ہے۔ بے روزگاری سے تنگ عوام خودکشیا ں کرنے پر مجبور ہیں۔ غریب کا چولہا دن بدن بجھتا جارہا ہے جبکہ امیر ہر دن کے ساتھ امیری کی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے۔ بدامنی کی وجہ سے عوام کا چین و سکون چھن چکا ہے اور امریکی غلامی سے یہ عوام بری طرح دوچار ہے۔ پاکستانی قوم ایک عرصے سے ان تمام مسائل کا شکار ہے اوران مصائب کے خلاف ان کے دل میں نفرت کا سمندر ٹھاٹیں ماررہا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ کسی طرح بھی ممکن ہو ان مسائل سے چھٹکارا مل جائے، لیکن کچھ کر نہیں سکتے۔

حالیہ دنوں ملک میں انتخابات ہوئے۔ انتخابات کی گہما گہمی کے دوران تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ ہم نیا پاکستان بناکر دم لیں گے۔ 11مئی کی شام عوام نئے پاکستان کا جشن منائیں گے۔ پرانے پاکستان میں کرپشن کی حکومت ہے، مہنگائی کی اجارہ داری ہے، بدامنی کا راج ہے اور ہمار ملک امریکی کالونی بن چکا ہے۔ لہٰذا ہم نیا پاکستان بنائیں گے، جس میں ان میںسے کوئی بھی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نے بھی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان میرا ساتھ دیں، نیا پاکستان ہم بنائیں گے، آپ لوگ گیارہ مئی کو نئے پاکستان کا جشن منانا۔ پرانے پاکستان میں بہت سے مسائل ہیں، جن کو ختم کیے بغیر عوام کو سکون نہیں مل سکتا۔ لہٰذا ہم نیا پاکستان بنائیں گے تو عوام کو ہر قسم کے مسائل سے چھٹکارا مل جائے گا۔ عوام چونکہ پہلے سے ہی بے شمار مسائل سے دوچار تھے،انہوں نے سوچا واقعی نیا پاکستان تمام مسائل کے لیے کھولتا ہوا پانی ہوگا۔ان کے ذہن میں ایک خوشگوار انقلاب کا تصور انگڑائیاں لینے لگا۔جس جس نے بھی سنا کہ ایک نیا پاکستان بننے جارہا ہے سب خوشگوار حیرت میں ڈوب گئے اور اپنے جاننے والوں اور دوستوں کو بتانے لگے کہ گیارہ مئی کو ایک نیا پاکستان بن جائے گا، جس کے بعد ہم سکون کی زندگی گزار سکیں گے۔ مہنگائی ہوگی نہ بے روزگاری۔ کرپشن ہوگی نہ ہی امریکی غلامی۔ دہشت گردی ختم ہوجائے گی، خود کش بمبار میرا ملک چھوڑ دیں گے، بدامنی کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہوگا۔ کراچی کے لوگ بھی سکھ کا سانس لیں گے۔ انہیں بھی ٹارگٹ کلنگ سے خلاصی مل جائے گی۔ ڈرون حملے رک جائیں گے، میرے ملک میں تعلیم کا معیار بلند تریں ہوجائے گا۔ چور اچکوںکو الٹا لٹکا دیا جائے گا، بھتہ مافیا کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ بلوچستان کے حالات بھی ٹھیک ہوجائیں گے۔ عوام نے عمران خان اور میاں نواز شریف کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تمام مسائل سے پاک ایک نئے پاکستان کے لیے بڑھ چڑھ کر محنت کی۔ بالآخر 11 مئی آیا، انتخابات ہوئے اور ایک نیا پاکستان وجود میں آگیا۔ اب یہاں کا ہر باسی استاد منگو کی طرح یہی سمجھ رہا ہے کہ نیا پاکستان بننے کے بعد ہمیں ہر قسم کی مصیبت سے نجات نصیب ہوجائے گی، بدامنی، کرپشن، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری اور امریکی غلامی سے ہمیشہ کے لیے جان چھوٹ جائے گی۔ استاد منگو کی طرح پاکستانی عوام خوشگوار امید میں مبتلا ہے۔

انتخابات کے نتائج منظر عام پر آچکے ہیں، جس کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے مرکز میں بھاری اکثریت کے ساتھ میدان مارا ہے اور تحریک انصاف بھی ایک بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ یہ فیصلہ اب نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والے ان رہنماﺅں کوکرنا ہے کہ پاکستانی قوم کو حقیقت میں نیا پاکستان دینا ہے یا پھر استاد منگو کی طرح انہیں ’نیا قانون‘ جیسا نیا پاکستان دینا ہے۔ اگر حزب اقتدار اور حزب اختلاف مل کر قوم کو ایک ایسا نیا پاکستان دینا چاہیں جس میں عوام کو ہر قسم کی غلامی سے آزادی ہوتو یہ ہرگز ناممکن نہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701593 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.