مولانا صاحب! ذرا دیکھ کے چل

 2013کے انتخابات تمام تر خدشات اور دہشتگردوں کی وا ردا توں سے پیدا ہو نے والے خوف و ہراس کے با وجود مکمل ہو گئے ہیں اور انتخابی نتائج نے سب کو حیران بھی کر دیا ہے کیونکہ تو قع یہ کی جا رہی تھی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف کے حاصل کردہ سیٹوں میں کو ئی نمایاں فرق نہیں ہو گا۔مگر تجزیہ کا روں اور اندا زے لگانے وا لوں کا حساب کتاب غلط ثابت ہوا، اور نواز شریف کو پنجاب میں توقع سے زیا دہ سیٹیں مل گئیں۔اگر چہ الیکشن کمیشن، حکومت اور قا نو ن نا فذ کرنے والے اداروں کی تمام تر کو ششوں کے باوجود ملک گیر سطح پر انٹخابات کا عمل پوری طرح پر سکون،صاف،شفاف اور توقعات پر پورا نہیں اتر سکا۔با ایں وجہ کئی سیاسی جماعتوں کے کارکن تا دمِ تحریر سڑ کوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔مگر ایک بات جو سب کو اچھی لگی اور جس کی تعریف نہ کرنا بڑی زیادتی ہو گی، وہ صوبہ خیبر پختو نخواہ کی عوام کی آ زادانہ اور غیر متعصبا نہ سوچ ہے۔۱۱ مئی کو انتخابات کے جو نتائج صوبہ خیبر پختونخوا میں سامنے آئے ہیں۔ وہ پختونوں کی سمجھ بوجھ اور عقل و دانش کا واضح ثبوت ہیں۔ بڑے خو بصورت طریقے سے انہوں نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر د یا ہے۔

انتخابات جمہوری عمل کو رواں دواں رکھنے کے لئے ایک لازمی اور اہم مرحلہ ہوتاہے ۔ مگر یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ انتخابات کے بعد جیتنے والی سیاسی جما عتوں کا اصل امتحان انتخابات کے بعد ہی شروع ہوتا ہے۔جس میں پہلا مر حلہ اکثریت حا صل کرنے والی پارٹی کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا بھی شامل ہے۔اگر کسی سیا سی پا رٹی کی قیادت دوسری سیاسی پارٹی کی مینڈیٹ کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کرتے ہو ئے خود اقتدار میں گھسنے کی کو شش کرے تو یقینا ایسا کرنا جمہور ی عمل کو سبو تاژ کرنے کی کو شش تصور کی جائیگی۔ جے یو آئی کے قائد جناب مولانا فضل ا لرحمن صاحب نے انتخابات کے فورا بعد گٹھ جوڑ کا آغاز کرتے ہو ئے اعلان کیا کہ ہم ن لیگ اور آفتاب شیرپاﺅ کے ساتھ مل کر صوبہ خیبر پختو نخواہ میں مخلو ط حکو مت بنا ئینگے،پھر اس کے لئے عملا سر گرم ہو گئے اور سابق وزیرِ اعلی اکرم خان درانی کو خصوصی طور پر یہ ٹاسک سونپ دیا کہ وہ جوڑ توڑ اور وزارتوں کا لا لچ دے کر کسی طرح آزاد اراکین ،قو می وطن پارٹی کے اراکین اور ن لیگ کے اراکین کو قفسِ دام میں گھیر لے، حالانکہ ایسا کرنا جمہوری عمل کے با لکل خلاف بات ہے۔کیونکہ ایسا کر نے کا مطلب یہ ہے کہ صوبے کے عوام کے اصل مینڈیٹ کو بھاڑ میں جھونک دیا جائے اور صوبے کے سب سے بڑی پالیمانی قوت بن جانے والی قوت یعنی تحریکِ انصاف کو واضح بنتی حکومت سے محروم کیا جائے۔ مولانا صاحب اگر چہ اقتدار کی شدید خواہش رکھنے کے لئے پورے ملک میں شہرت رکھتے ہیں ۔جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ انتخابات کے فورا بعد انہوں نے خیبر پختو نخواہ کے مینڈ یٹ کو تلپٹ کرتے ہو ئے اقتدار کے حصول کی مچلتی تمنا کو آ شکارا کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ یہ تو بھلا ہو، نواز شریف کا اور ملک کے دیگر سرکردہ منتخب قائدین کا جنہوں نے پختونخواہ کی عوام کی مینڈیٹ کو سبو تاژ کرنے کے عمل کو جمہوری عمل کے خلاف گردانتے ہو ئے صوبہ کے پی کے میں تحریکِ انصاف کی حکومت قائم کرنے پر زور دیا،جس کی وجہ سے امید واثق ہے کہ بہت جلد صوبہ خیبر پختونخواہ میں تحریکِ انصاف جماعتِ اسلامی اور قومی وطن پارٹی کے ساتھ مل کر حکو مت بنا دیگی۔ اور مولانا فضل ا لرحمن ہاتھ ملتے رہ جا ئینگے۔بلکہ شنید ہے کہ اس مر تبہ مرکز میں بھی انہیں چارہ نہیں دالا جا ئیگا،کیونکہ ن لیگ میں شامل بہت سارے اراکینِ اسمبلی اس بناءپر ان کی مخالفت کر رہے ہیں کہ مولا نا صاحب چونکہ شدید قسم کا ہوسِ زر اور ہوسِ اقتدار رکھتے ہیں لہذا انہیں اپنے ساتھ شامل نہ کرنا ہی ملک و قوم کے لئے بہتر ہوگا۔

قصہ مختصر،مولا نا صاحب سے یہ گزارش کر نی مقصود ہے کہ جناب مولانا صاحب ! ذ را دیکھ کے چل، اگر آپ کا وطیرہ یہی رہا اور اپنی خواہشِ اقتدار پر قا بو نہ پا سکے تو اگلے انتخابات میں آپ کا حال بھی اسفند یا ر ولی جیسا ہو گا۔پھر ہاتھ ملتے ہی رہ جاو گے۔جمہو ریت کے معروف اصول ہیں ،جس سے آپ جیسا با علم شخص بے خبر نہیں ہو سکتا، لہذا آپ کے لئے بہتر یہی ہوگا کہ جمہوری اور اخلاقی ا صولوںکو مدِ نظر رکھتے ہو ئے سیا ست کریں تاکہ ملک و قوم کا بھی فا ئدہ ہو اور سیاست کے میدان سے آپ کے اخراج کا اندیشہ بھی نہ ہو۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315815 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More