دھاندلی ،کوئی نئی بات نہیں

الیکشن ہارنے والوں کی طرف سے جیتنے والوں پردھاندلی کے الزامات کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ رسم ہمیشہ سے چل رہی ہے کہ ہر اُمیدوار الیکشن جیتنے کے لئے ہر قسم کے ہتھ کنڈے استعمال کرتا ہے ،الیکشن جتنے والوں کو چاروں طرف ایمانداری ،صاف شفاف اور غیر جانبدرانہ ماحول نظر آتا اور ہارنے والوں کو ہر طرف دھاندلی نظر آنے لگتی ۔ یہ کہنا کہ الیکشن2013ءکے موقع پر دھاندلی نہیںہوئی باکل غلط ہوگا لیکن یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ صدر زرداری ،نگران حکومت ، الیکشن کمیشن اورکسی بھی پارٹی کی قیادت نے دھاندلی نہیں کی ،جہاں جہاں دھاندلی ہوئی وہ خالصتا مقامی اُمیدواروں کی ذاتی کارستانیاں رہیں ۔میں تو یہ کہوں دھاندلی الزام وہ لگائے جس نے خوددھاندلی نہ کی ہویا دھاندلی کرنے کی کبھی کوشش نہ کی ۔جوانتہائی دھاندلی کرنے کے باوجود الیکشن ہار گیا اُسے کیا پہنچتا ہے کہ دوسروں پر دھاندلی کے الزامات لگائے ؟یہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہونے والے الیکشن کی تاریخ دھاندلیوں سے بھری بڑی ہے ۔الیکشن 2013ءمیں بھی دھاندلی ہوئی لیکن پہلے سے کم۔ابھی مسلم لیگ ن کی حکومت بنی نہیں کہ ماضی کی طرح کچھ دانشور یہ کہہ رہے ہیں میاں نواز شریف کی حکومت سال دوسال سے زیادہ نہیں چلے گی ۔نجانے میرے وطن کے دانشوروں کی دانش کوکون سا دیمک لگ گیا ایک طرف تو جمہوریت پسندی کا دعوہ ٰکرتے ہیں ،جمہوریت کے حق میں گیت گنگناتے ہیں اور دوسری طرف عوام کے مینڈیٹ کا احترام نہیں کرتے ،اِن سے کوئی پوچھے عوام کے مینڈیٹ کا احترام کئے بغیر کون سی جمہوریت قائم ہوتی ہے؟ خیرکہنے والے گزشتہ پانچ سال بھی یہی کہتے رہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ایک دو ماہ سے زیادہ نہیں چلے گی لیکن ہم نے دیکھاکہ جمہوری حکومت اپنے پانچ سال پورے کئے اور تاریخ میںپہلی مرتبہ جمہوری حکومت اپنی مدت معیاد پوری ہونے پر اقتدر دوسری منتخب حکومت کے حوالے کرنے جارہی ہے ۔میں سمجھتا ہوں مسلم لیگ ن کی منتخب حکومت بھی پیپلزپارٹی کی طرح اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اور یہی ملک و قوم کے حق میں بہتر ہے ۔مجھے قوی یقین ہے کہ میاں نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوکر ملکی وسائل بروکار لاکردرپیش مسائل کوترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے۔اگر مسلم لیگ ن کی منتخب حکومت عوامی توقعات پر پوری نہ اُتر سکی تو عوامی موڈ بتا رہاہے کہ آنے والا دور پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ ن کی بجائے کسی اور کا ہوگا۔ ایک طرف مسلم لیگ ن کی حکومت سے وابستہ ہزاروں عوامی اُمیدیں اور دوسری طرف ہزاروں مسائل کی چکی میں پسی قوم ہے۔اگر عام پاکستانی کے ذہن سے سوچا جائے جو اس وقت مہنگائی ،بے روزگاری ،لوڈشیڈنگ ،دہشتگردی،ناانصافی سب سے بڑھ کر حقیقی لیڈرکے فقدان کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا اصل شکار ہے تو کچھ اس طرح خیالات سامنے آئیں گے ۔ ملک میں جمہوریت پھل پھول رہی ہے ،عدلیہ آزاد اور خود مختار ہے ،پولیس کے ساتھ ساتھ دیگر ادارے بھی ریاستی قانون کی بالا دستی قائم کرنے میں مصروف عمل ہیں ،پہلی مرتبہ جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرکے پُرامن الیکشن کروا چکی ،عدلیہ کے حکم پر سابق وزیراعظم بھی نااہل ہوچکا لیکن اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ آج بھی عوام انصاف نہ ملنے کی شکایت کیوں کرتے ہیں ؟آخر انصاف ہے کہاں؟اگر عدلیہ آزاد اور خودمختار ہے تو پھر لوگ اپنے پیاروں کی نعشیں سڑکوں پر رکھے انصاف کے منتظر کیوں ہیں ؟الیکشن میں دھاندلی پر ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک لوگ سڑکوں پر دھرناکیوں دئے بیٹھے ہیں؟آج بھی جیلوں میں ہزاروں حوالاتی عدالت کا ٹائم ملنے کے منتظر کیوں ہیں ؟پوری قوم سے معذرت کاساتھ اگر یہی آزاد اور خودمختار عدلیہ ہے تو پھر مجھے تو انصاف کی اُمید نہیں ،اگر اسی کو جمہوریت کہتے ہیں جس میں صرف امیروں کوجینے کا حق ہے توپھر اس جمہوریت اور قوم کا خُدا ہی حافظ ۔ آزاد اور غیرجانبدار الیکشن کمیشن کی موجودگی میں ہونے والے الیکشن2013ءمیں دھاندلی کی سینکڑوں شکایات اور اُن پردھاندلی کا ثابت بھی ہوجاناالیکشن کمیشن کی آزادی اور غیرجانبداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جہاں جمہوریت اور عدل انصاف کی حکمرانی ہووہاں لوگ اپنے حقوق کی جنگ سڑکوں پر نہیں عدالتوں میں لڑتے ہیں ،جب عدالتوں میں انصاف نام کی کوئی چیز دستیاب نہ ہوتوعوام کے پاس ا حتجاج اور دھرنوں کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا ۔آج میرے وطن میں بجلی یا گیس کے میٹر کی خرابی دور کروانے کے لئے رشوت کے ساتھ ساتھ سفارش کی بھی ضرورت پڑتی ہے ۔عدالتوں کے اندر انصاف کی خریدوفروخت ہوتی ہے ۔جمہوریت کے محافظ ہی جمہوریت کی عزت کو تارتار کرتے ہیں ۔ووٹ کسی کوملتا ہے نتیجہ کسی کے حق میں سنایا جاتا ہے ۔یہی قانون ہے تو میں ایسے قانون کو نہیں مانتا۔اگر یہی عدل ہے تو میں ایسے انصاف کو نہیں مانتا اور اگر یہی جمہوریت ہے تو میں ایسی جمہوریت کو نہیں مانتا۔نہیں مانتا میں ایسے نظام کو جو ملک میں چند لوگوں کو تو جنت کا سا ماحول فراہم کرتا ہے اور اکثریت کو سخت گرمی کے موسم میں ٹھنڈا پانی پینے کے لئے بازار سے برف تک نہیں ملتی ۔

Rao Nasir Ali Khan
About the Author: Rao Nasir Ali Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.