جیالوں کی حکومت کے اﷲ اﷲکرکے پانچ سال پورے ہوئے۔وزیرمشیرسب اپنے گھروں کی
طرف عازمِ سفرہوئے۔تین ماہ کے مہمانوں نے اسلام آباد اورچاروں صوبوں کے
صدرمقام میں ڈیرے ڈال لئے۔وہاں اسلام آباد میں بیٹھے فخرو بھائی ایک دبنگ
انداز میں دعوے کرتے رہے ۔11مئی کو الیکشن ہر حال میں ہونگے۔اور ہونگے بھی
صاف وشفاف۔یہ بلند وبانگ دعوے نہ صرف فخرو بھائی کررہے تھے بلکہ نگران
مہمان بھی اپناقدبڑھانے میں کسی سے پیچھے نہ تھے۔اسی دوران سندھ کی
معتبرسیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن سندھ کے کردار پر انگشت نمائی کی۔ووٹر
لسٹوں میں گھپلوں سمیت الیکشن کمیشن پر کراچی کی خودساختہ نمائندہ جماعت کی
بی ٹیم کے الزامات لگائے گئے۔جب حقائق اورثبوت مرکزی الیکشن کمیشن کو پیش
کئے تو فخرو بھائی نے الیکشن کمشنر سندھ سونو خان کا تبادلہ صوبہ خیبر
پختونخوا کرنے میں عافیت جانی۔لیکن موصوف جانے سے پہلے اپنی خدمت سے سابقہ
حکمران اتحادی جماعت کے لئے گراؤنڈ بناچکے تھے۔
11مئی کو الیکشن کا ڈول ڈالا گیاتو دیکھنے والوں نے دیکھا کہ یہ الیکشن ضیا
الحق اور مشرف کے ریفرنڈم کا پارٹ ٹو ثابت ہوئے۔نام نہاد سکروٹنی کی چھلنی
کو ضرورت سے زیادہ طول دی گئی۔من پسند سیاسی جماعتوں کو کھل کھیلنے کے لئے
ہر میدان میں معاونت فراہم کی گئی۔سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کراچی سے اینٹی
ایم کیو ایم ووٹ ،ووٹرز کی اجازت کے بغیر غیر متعلقہ علاقوں میں پھینکے
گئے۔اس پر مستزاد یہ کہ پولنگ اسکیم لسٹ اور ووٹر لسٹ سیاسی جماعتوں کو
دینے میں لیت ولعل سے کام لیا گیا۔الیکشن سے صرف اٹھارہ دن قبل سیاسی
جماعتوں کو ووٹرلسٹوں کی فراہمی الیکشن کمیشن کی کارکردگی اور غیرجانبداری
پر سوالیہ نشان ہے۔کیوں کہ من پسند جماعتوں کو ووٹر لسٹیں بہت پہلے خفیہ
طریقے سے ٹرانسفر کی جاچکی تھیں۔
اپنے مدعاکے ثبوت کے طور پر چندسطروں میں الیکشن کمیشن،انتظامیہ اورخفیہ
اداروں کی کارکردگی قارئین کے سامنے رکھوں گا تاکہ وہ اصل اور جعلی مینڈیٹ
میں امتیاز کرسکیں۔20اپریل2013کوپولنگ اسکیم لسٹ اور22اپریل2013کوووٹر لسٹ
امیدواروں کو فراہم کی گئی۔ان ہر دو لسٹوں میں سے NA-239اورPS-90کی لسٹوں
پر ہم نے تحقیقی کام کیا ۔ان ہر دو لسٹوں میں کمال کی ہیراپھیری کی گئی
تھی۔الیکشن کمیشن کی طرف سے پرنٹ،الیکٹرونک میڈیا،امیدواروں اور دیگر
متعلقہ اداروں کو جو اعدادوشمار فراہم کئے گئے تھے وہ اصل اعدادوشمار سے
انتہائی کم تھے۔ مثلاًPS-90کے کل ووٹ2,03,306ظاہر کئے گئے تھے جب ہم نے اس
کا تقابل ووٹر لسٹ میںووٹرز کی اصل تعداد2,21,241 ظاہر ہوئی اس طرح کل
17935 ووٹ کا فرق ظاہر ہوا۔
پھر ایک اور زاوئیے سے ہم نے اس فرق کا جائزہ لیاکہ یہ ووٹ کس علاقے میں کس
شرح سے کم ہورہے ہیں۔تب ہم پر یہ حقیقت افشاں ہوئی کہ وہ علاقے جس میں
سابقہ حکمراں اتحادی جماعت کا ووٹ بینک ہے وہاں کے ووٹ پولنگ اسکیم میں اصل
ووٹ سے زائد ظاہر کئے جارہے ہیںجبکہ جس علاقے میں ان کا ووٹ بینک نہ ہونے
کے برابر ہے پولنگ اسکیم میں وہاں ووٹ بہت بڑی تعداد میں کم ظاہر کئے جارہے
ہیں۔ہم نے اس سازش سے امیدواروں کو آگاہ کیا۔اس انکشاف پرNA-239کے
امیدوارقاضی فخرالحسن اورPS-90کے امیدوارمولانا عمرصادق صاحب جوجے یوآئی کے
ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے تھے نے صوبائی الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا ۔الیکشن
کمشنرسندھ نے انہیں اعدادوشمار درست کرنے کی یقین دہانی کروائی اور اس کے
بعد پولنگ اسکیم کی نئی لسٹ فراہم کی گئی جسے درست کردیا گیا تھا۔وفد نے
الیکشن کمیشن کو پولنگ اسٹیشن پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا لیکن یہ
پولنگ اسٹیشن تبدیل نہیں کئے گئے کیوںکہ یہاں سے من مانے نتائج حاصل کرنے
کا جو پلان تھا اسے کامیاب بھی تو بنانا تھا۔
مثلاًاس حلقے میں UC-2اتحاد ٹاؤن کا ووٹ بینک تقریباً52000سے متجاوز ہے اور
یہاں کی اکثریتی آبادی جے یو آئی کی حامی ہے۔اس یوسی میں نواب کالونی، محمد
بن قاسم کالونی اور خالدبن ولید کالونی میں ایک بھی پولنگ اسٹیشن قائم نہیں
کیا گیا بلکہ ان سب علاقوں کے لئے قائم خانی کالونی میں ان سکولز میں پولنگ
اسٹیشنز قائم کئے گئے کہ جن کے مالکان سابقہ حکمران اتحادی جماعت کے حلف
یافتہ کارکن ہیں۔اس کے علاوہ ٹیکنیکل طور پر جے یو آئی کو ناک آؤٹ کرنے کے
لئے ایسے ایسے حربے اختیار کئے گئے کہ جیتنا تو کجا جیتنے کا خواب دیکھنا
بھی ممکن نہ رہا۔تمثیل کے طور پر یہ دیکھئے PS-90کی اسکیم کے پولنگ اسٹیشن
نمبر130,136,138اور138کے لئے ایک ہی پرائیویٹ سکول منتخب کیا گیااس سکول کا
نام ہے نیو اتحاد پبلک سیکنڈری سکول۔یہ دو چھوٹی عمارتوں پر مشتمل سکول ہے
۔یہاں کل 8980ووٹ کاسکٹ ہونے تھے۔پولنگ والے دن ان میں دو پولنگ اسٹیشن کا
عملہ (بوجوہ) نہ پہنچ سکا اس طرح چار کی بجائے یہ دو پولنگ اسٹیشن ڈکلئےر
ہوئے اور ان میں چار بوتھ بنائے گئے۔اب کوئی عقل کا اندھا یہ بتاسکتا ہے کہ
نا کافی سہولیات کے باوجود کیا یہاں 8980ووٹ کاسٹ ہونا ممکن ہیں۔یہ اور اس
کے علاوہ بیسیوں مثالیں ہیں کہ جن کی بناءپر پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ
اس حلقے میں قبل از انتخاب دھاندلی کے ذریعے علاقے کی عوام کے آئینی حق پر
دن یہاڑے ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔
اب پولنگ والے دن کی روداد بھی سن لیں ۔الیکشن والے دن PS-90کو تین زون میں
تقسیم کیا گیا تھا۔ایک زون سابقہ حکمران جماعت کے مسلح ونگ کے حوالے کیا
گیا تھا ،دوسراسابقہ حکمران اتحادی جماعت کے مسلح ونگ کے حوالے تھا جبکہ
تیسرازون سیکورٹی اداروں کی تحویل میں تھا۔PS-90کی پولنگ اسکیم لسٹ کے
پولنگ اسٹیشن نمبر1سے 29اور38تا43سابقہ حکمران جماعت کے زیرکنٹرول تھے جبکہ
پولنگ اسٹیشن نمبر48تا65سابقہ حکمران اتحادی جماعت کے مکمل کنٹرول میں
تھے۔پہلے دو زونز میں کسی سیاسی جماعت کو پولنگ کیمپ لگانے اور پولنگ ایجنٹ
بٹھانے کی اجازت نہ تھی ۔ایک دو مقامات پر اگر دلیری دکھاکر کچھ پولنگ
ایجنٹ بیٹھے تو دوپہر دو بجے کے بعد یرغمال بنادئےے گئے اور آیندہ انھوں نے
پولنگ ایجنٹ بننے سے توبہ کرلی۔دن بھر دونوں سابقہ اتحادی جماعتوں میں
زیادہ سے زیادہ ٹھپے لگانے کا مقابلہ عروج پر رہا۔پولنگ عملہ ہر پولنگ
اسٹیشن میں ان دو جماعتوں کے معاون ومددگار کے طور پر کام کرتا رہا۔حتیٰ کہ
دوسری سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ رزلٹ دینا بھی گوارا نہ کیا
اور ایک سادہ کاغذ پر انھیں ٹرخایا گیا یا دھونس دھمکی کے ذریعے بھگادیا
گیا۔
الیکشن کا تیسرا مرحلہ الیکشن کمیشن کی طرف سے نتیجے کا اعلان تھا۔نتائج
جاری کرنے سے انکار کیا گیا اور بتایا گیا کہ ابھی 47پولنگ اسٹیشن کے نتائج
آنا باقی ہیں۔آخرکا ر من مانے نتائج کے لئے مزید ووٹوں سے بھرے تھیلے
پہنچتے رہے اور 57گھنٹے کے صبر آزما انتظار کے بعد دونوں سیٹیں ایم کیو ایم
کی جھولی میں ڈال دی گئیں۔ہماری اس ذومعنی بات کو گذشتہ بالا حقائق کی
روشنی میں آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ یہ ایک غیر فطری اور غیر منطقی نتیجہ ہے
کیوں کہ مذکورہ جماعت کا ووٹ بینک جتنا ظاہر کیا گیا ہے اس کا مطلب ہے کہ
ان علاقوں میں 95%ٹرن آؤٹ رہا جو کہ حقائق کے برخلاف ہے۔
یہ تو تھی صرف ایک حلقے کی عمومی صورتحال کی مختصر روداد۔اگر مکمل تفصیل
لکھوں تو ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے۔وطن عزیز میں کہاں کہاں انتخابی ڈاکے
ڈالے گئے ہوں گے۔ہر حلقے کی عوام کا فرض ہے کہ وہ حقائق جمع کریں اور میڈیا
کے ذریعے اپنی آواز طاقتور حلقوں تک پہنچائیں تاکہ مستقبل میں عوام کے حق
پر سرکاری اور غیر سرکاری ڈاکوؤں کو ڈاکہ ڈالنے سے روکا جاسکے۔
درج بالا حقائق کی روشنی میں بڑے وثوق سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ حالیہ
الیکشن جھرلو پن کا شاہکار الیکشن تھے۔جیتنے والے حیران،ہارنے والے پریشان
ہیں۔حقائق کی ٹھوہ میں سرگرداں طالب علموں کے لئے اس الیکشن میں کوئی خوش
گوارحقیقت برآمد نہ ہوسکی۔الیکشن کمیشن،انتظامیہ اور خفیہ طاقتوںنے چند
مخصوص اور من پسند جماعتوں کو الیکشن جتوانے کا فریضہ سرانجام دیا۔پاکستانی
عوام ابھی تک انگشت بدنداں ہے کہ فئیر اینڈفری الیکشن ایسے ہوتے ہیں؟
بڑاشورسنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تواک قطرہِ خوں نکلا |