مخالفت (Opposition) اور تصادمات(Clashes) کے بغیر انسانی ذات میں استحکام
پیداا نہیں ہوسکتا یہ یوں کہیے کہ اس کی قوت و استحکام کا امتحان(Test)
نہیں ہوسکتا۔نہر کی مسلسل روانی کےلئے ٹھوکر (Fall) کا ہونا نہایت ضروری ہے
دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کیا ٹھوکر کے پتھر ، نہر کے پانی کےلئے بند بن کر
اُسے جوئے رواں سے جوہڑ بنا دیتے ہیں یا نہر کا پانی اپنے زور دروں سے ان
پتھروں کو پھاند کر آگے نکل جاتا ہے ؟ ایسے راستے کی تلاش اور اختیار کرنا
جن میں پتھر نہ ہو اپنی خودی کی روانی کو اپنے ہاتھوں ختم کرلینا خود فریبی
کہلائی جاتی ہے ۔اپنے اپنے اذہان کے مطابق اپنی لئے ایسے نظام کو مد نظر
رکھتے ہیں جس میں فروعی مفادات کی بنا ءپر معاشرتی زندگی کے اجتماعی نظام
کے بڑے عمیق حقائق کو نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں۔
عمومی طور تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عوام تو ٹھیک ہوتے ہیں لیکن ارباب ِ
اختیار اور اعیان دولت و ثروت کا طبقہ اشرافیہ مکمل بگڑا ہوا ہوتا ہے۔ اُن
کے بگاڑ کی وجہ سے ہی سارا نظام نچلی سطح سے لیکر اوپری سطح تک تہس نہس کا
شکار ہوجاتا ہے ۔ مملکت کے مرکزیت کی کمزوری کی بنا ءپر نوار بابِ اقتدار
کی تتبع سے ساری قوم میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے ۔اگر اِن نو اصلاح کردی جائے
تو قوم میں پیدا شدہ خرابیوں کا ازخود سدباب پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے لیکن
جب اکابرین ِ قوم کے بگاڑ کی تقلید کو عوام اپنا لے تو بد عنوانی کے ساتھ
قوم بھی اُس ماحول میں خودکو رچ بسا لیتی ہے۔عوام ، اکابرین کی تقلید کرتے
ہیں۔اگر وہ بد عنوان تو عوام میں بھی بد عنوانی کا عنصر پکڑ کے خوف نہ ہونے
سبب پیدا ہوجاتا ہے۔اگر اربابِِ اختیار کے نقش ِ قدم درست راستے پر ہوں تو
قوم بھی ا‘ن راستوں پر ازخود چلنا شروع ہوجاتی ہے۔
معاشرے میں اکابرین کی تقلید کے علاوہ ایک شکل ارباب ِ اختیار کے ظلم اور
استبداد کی کی کسی حد کا متعین نہ ہو نا ہوتا ہے جس میں قوم کےلئے
لاقانونیت کا راستہ اختیار کرنے والوں کی تقلید کا دوسرا عمل بھی ناقابل
برداشت بن جاتا ہے اور اس ردعمل کے نتیجے میں عوام بھی لاقانونیت پر اُتر
آتے ہیں اور اس باہمی تقلید نظام کے ہاتھوں مملکت کے تمام نظم و نسق تباہ
ہوجاتا ہے۔ہمارے سامنے مغربی جمہوریت کی مختلف اشکال ہیں۔ اس ڈیما کریسی کی
مختلف شاخیں اپنی توجہیات اوردلائل کے ساتھ سینکڑوں سال سے ارتقائی منازل
سے گزر رہے ہیں جس میں عوام کی آرا ءکو چانچنے کے تمام پیمانوں پر کسی بھی
فریق کی شکست کی صورت میں فتح کو بہت کم پایا جاتا ہے۔ہم انسان کے ابتدائی
ادوار کو دور جاہلیت کا نام دیکر خود کو ترقی یافتہ دینے کی کوشش کرتے ہیں
لیکن ہم اس بات کا جواب نہیں دے پاتے کہ جہاں حکومت کی علمداری نہ ہو وہاں
فریقین کے درمیان تنازعات کے حل کےلئے کیسے ثالث بنایا جائے ، یہی ثالثی
نظریہ ِحکمران بن کرقبائلی نظام سے جدیدےت کیجانب روبہ گامزن ہوا لیکن دور
جاہلیت کی سوچوں سے نکلنے کےلئے اب بھی انسان نظریاتی طور پر قبائلی نظام
نظریات سے جڑا ہوا ہے جس میں مورث ، اعلی کو اس قدر واجب الاحترام سمجھ لیا
جاتا تھا کہ اس کے کسی حکم سے سرتابی سے وہ ڈرنے اور کانپنے لگ جاتا تھا آج
بھی ترقی پزیر ممالک میں محکوم و مفلس عوام کی جرات نہیں ہوتی کہ نظام کی
تبدیلی کےلئے اپنے ہاتھوں کئے جانے والوں فیصلوں کی اہمیت کو سمجھیں۔مقام
المیہ یہی رہا ہے کہ حکومت چاہے بزور طاقت ہو ، یا بذریعہ ووٹ ، یا باشاہت
اسے اپنے اقتدار کو دوائم بخشنے کےلئے تھیا کریسی کی ہمیشہ ضرورت رہتی رہی
ہے۔مذہبی پیشوائیت کے بغیر امور اقتدار پر قائم رہنا کسی بھی نظام مملکت
کےلئے ناممکن ہے۔مذہبی پیشوائیت اپنی کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کی کرسی کے
گرد احاطہ بنانے میں کامیاب رہی ہے ۔ مذہب کی تقلید انسانی فطرت کا نتیجہ
ہے کہ ایسے ناقابل فہم توجہیات کو سمجھنے کےلئے ایسے نظریات کی ضرورت رہتی
ہے ۔
اکابرین کی تقلید میں اب بھی دنیا کے بعض ممالک میں باشاہوں ، مذہبی پیشواﺅں
نے باہمی سمجھوتے کے تحت ایک ایسا نظام واضح کر رکھا ہے جیسے انسان کی عملی
زندگی میں دوائر اقتدار بانٹنے سے تشبہہ دی جاسکتی ہے کہ مذہبی دائرے میں
مذہبی پیشوائیت اور دنیاوی معالات میں بادشاہت۔انداز و اسالیب حکومت کے
انداز چاہے کسی بھی شکل میں تبدیل ہوں لیکن اس کےلئے ایک نظریہ شروع تا
اخیر موجود رہتا ہے اور وہ نظریہ" انسان کی انسانوں پر حکومت کا"۔ اس
نظرئےے کو سیکولر انداز ِ حکومت کے متصادم بھی قرار جاتا ہے کہ انسان کی
ذاتی زندگی کے مذہبی اور دنیاوی معاملات کو اُس کی منشا کے مطابق چھوڑ دیا
جائے۔ انسانوں کی انسانوں پر حکومت کے تابع حکمرانوں کے ہاتھوں انسانیت جس
وحشت و بر بریت کا شکار ہوئے اس کے تصور سے ہی انسانیت کی روح کانپ اٹھتی
ہے۔جس کے خلاف ردعمل میں کچھ مفکرین نے" نظریہ میثاق "کے نام سے ایک ایسا
معائدے کا تصور دنیا کے سامنے رکھا کہ ہر انسان اپنی آزادی کو برقرار رکھنا
چاہتا ہے ۔لیکن تمدنی زندگی میں یہ مشکل امر ہے لہذا حکومت افراد کے
نمائندگان پر مشتمل ہو نی چاہیے اور اگر نمائندوں میں اختلاف پیدا ہوجائے
تو فیصلہ اکثرےت پر چھوڑ دیا جائے ۔ اس عمل کو ڈیما کریسی یا جمہوریت کہتے
ہیں۔
شخصی حکومتوں کے ڈَسے عوام نے ایسے نعمت سمجھ ستائش کے قصائد نشید کئے اور
اس کے نفاذ پر مسرت اور شادمانی کے جشن منا کر سمجھ لیا گیا کہ انسانیت نے
آزادی کے گم گشتہ کو پھر سے پالیا گیا ہے۔دنیا کی قریب قریب تمام اقوام نے
اس نظام کا خیر مقدم کرتے ہوئے بڑھکر استقبال کیا اور کرہ ارض جمہوریت
جمہوریت کے نعروں سے گونج اٹھا۔لیکن اس طرز نظام نے اپنے نظریہ کی فریب
انگیزی سے انسانوں پر انسانوں کی حکومت کے تصور سے زیادہ نقصان دیا اور
عوام کو اقتداراعلی کامنبع سمجھنے کی تقلید نے اکثریت کے اُن تمام فیصلوں
کو بھی درست قرار دیا جاتا ہے جو کہ زمینی حقائق کے برخلاف ہوں۔
ہمیں اکابرین کی تقلید میں یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ اقتدار اعلی کا تصور کیا
یہ ہے کہ کسی ایک جماعت کے ہاتھ میں اختیارات کے بھاگ دوڑ دے دی جائے جیسے
عوام کی مجموعی اکثریت مسترد کرچکی ہے ؟۔کیا یہ بات درست نہیں ہے کہ اقتدار
کی کرسی پر بیٹھنے والی جماعت کے مقابلے میں عوام کیجانب سے مخالفت میں
ڈالے جانے والے ووٹوں کی تعداد کئی زیادہ ہوتی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم
جمہوریت کے اس اصول کو پہلے ہی مرحلے میں اس لئے مسترد کردےتے ہیں کیونکہ
قوم کی تقسیم سیاسی ، مذہبی بنیادوں پر بنائے جانے والی پارٹیوں میں تقسیم
ہو گئی ہے۔ مذہب کے نام پر خود ساختہ نظریات کی تھیا کریسی زہر قاتل ہے۔
شخصی حکومت کے اثرات عوامی جذبات کے آئینہ بردار نہیں بن سکتے ، ملوکیت اور
بادشاہت کے نظرئے میں سیکولر طرز حکومت میں جمہوریت کی بازگشت سوائے خود
فریبی کے فسوں سے بڑھ کر کچھ نہیں۔تو پھر ایسا کیا کیا جائے کہ اس پر آشوب
دور میں عوام اپنی مرضی کے کس نظام ہائے حیات کو ڈھالے جس بنا ءپر زندگی کے
تفکرات کے مضمرات سے نجات ممکن ہو اور راحت کے لمحات میسر ہوں۔یقینی طور پر
ہر مذہب کا ماننے والا اپنے مذہب کی تشریح میں دلائل اور مجادلہ کو اپنا کر
خود کو درست اور دوسروں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرے گا ۔ لیکن صرف انسان
بطور انسان یہ سمجھنے کےلئے خود کو تیار کرلے کہ حق ِ حاکمیت اُسی کا ہے جس
کی زمین ہے اور جس کی زمیں و فلک ہیں تو نظام حیات بھی اُسی کا ہو اور اِس
کارواں میں اپنی حیثیت اس عمل کی ہو جس کےلئے اس کی حدود متعین کردہ ہیں تو
پھر معاشرے میں کوئی بھی بگاڑ پیدا نہیں ہوسکتا ۔ لیکن یہ ناممکن ہے کہ
ایسا ہوجائے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالی کو اپنے دئےے گئے آفاقی
نظام میں انحراف کرنے والوں کی غلطیوں کی درستگی کےلئے انبیا ءاور رسولوں
کو مختلف اقوام میں بار بار بھیجنا نہیں پڑتا۔اللہ کی زمیں پر اللہ کا نظام
ہی واحد ذریعہ نجات ہے لیکن اس کی خودساختہ ، مطالب اور تشریح کےلئے خود
ساختہ جذباتی عناصر سے بے اعتنائی کے بعد ہی ممکن ہے کہ ہم اجتہاد کے راستے
پر چل کر درست قدم اٹھائیں۔فی الوقت جو بھی نظام حکومت میسر ہے اس میں عوام
کا اصل کردار یہ ہو کہ وہ اپنے جیسے اپنے نمائندوں کو منتخب کرکے اکابر کی
تقلید کے سحر کے منفی جمود کو توڑدیں۔ |