11مئی کی شام بڑی عجیب تھی۔ الیکشن کے زرلٹ آنا شروع تھے۔ بچے ہی نہیں میں خود بھی
پریشان تھا۔ نتائج خصوصاً لاہور کے نتائج توقع سے بہت مختلف آرہے تھے۔ الیکشن میں
ہار جیت تو ہوتی ہی ہے۔ الیکشن کا رزلٹ تو عوام کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اُسے ہر فریق کو
خوش دلی سے قبول کرنا ہوتا ہے۔ مگر یہ عوام کا فیصلہ نہیں لگتا تھا۔ کافی حد تک
ووٹروں کا مزاج اور دن بھر کی پولنگ سٹیشنوں کی صورتحال ہر چیز قبل از وقت واضع کر
دیتی ہے۔ نوجوان صبح سے قطاروں میں ایک جذبہ لیے کھڑے تھے۔ دن بھر بھاگ دوڑ میں
مصروف تھے۔ تبدیلی کا جذبہ اور کچھ کر گزرنے کا جنون کیا مسلم لیگ(ن) کے لیے تھا۔
وہ خواتین جنہوں نے کبھی ووٹ ڈالنے کا سوچا بھی نہ تھا کیا تحریک انصاف کی ہار کے
لیے کام کر رہی تھیں۔ دن بھر کی تمام محنت پر کس طرح پانی پھیرا گیا۔ یہ سوال ہر
ذہن میں مچل رہا تھا۔ فیس بک پر نوجوان بہت سے سوالات کا جواب چاہتے تھے۔ اُن سوالا
ت کے جواب میں فیس بک پر میں نے لکھا۔
میں نے ووٹ تحریک انصاف کو دیا ہے اور مجھے اس پر فخر ہے۔ اس لیے کہ میں نے بہت سوچ
کر اپنے ضمیر کو مطمئن دیکھ کر ووٹ دیا ہے۔ تبدیلی میرا ایمان ہے اور میرا ایمان
کبھی متزلزل نہیں ہو سکتا۔ میری ہمت میں کوئی کمی نہ ہے باقی رب العزت پر چھوڑتا
ہوں یہ پیغام فوری طو رپر بچوں نے شیئر کرنا شروع کر دیا اور قدرے مطمئن ہو گئے۔
مگر اس کے باوجود ہارنے والے پریشان ہیں اور جیتنے والے حیران۔ کیونکہ اس جیت میں
کچھ نہ کچھ انجیرنیرڈ بھی ہے۔ لاہور کے بعض حلقوں میں جیتنے والوں کو بھی پتہ ہے کہ
یہ جیت اُن کی ہیرا پھیری کی مرہون منت ہے مگر بے حیائی اور ڈھٹائی زندہ باد، بڑی
بے باکی سے اپنا اور اپنی کرتوتوں کا دفاع کر رہے ہیں۔ انہیں سوچنا ہو گا کہ
صورتحال بگڑی رہی ہے او ریہ بگاڑ کسی بھی وقت اُن کے لیے عذاب کی شکل اختیار کر
سکتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) مطمئن ہے کہ الیکشن جیت لیا۔ لیڈروں کے گرد مفاد پرستوں کا گھیرا اس
طرح ہو ہو جائے گا کہ انہیں سوچنے کی مہلت ہی نہ دی جائے گی۔ تقریباً ایسی ہی
صورتحال 1977ءمیں پاکستان پیپلز پارٹی اور ذولفقار علی بھٹو کی تھی۔ اُس وقت بھی
شکایت صرف بیس بچیس سیٹوں کے بارے میں تھی اب بھی تقریباً اتنی ہی سیتیں ہیں جن پر
لوگوں کو بے شمار شکایات ہیں۔ ان شکایات کا تفصیلی جائزہ لینا۔ اُن کا ازالہ کرنا
چاہیے گنتی دوبارہ کرنا پڑے اور لوگوں کو مطمئن کرنا ضروری ہے اور اس وقت آسان بھی۔
صورتحال بگڑ گئی تو اُس کی بھاری قیمت بھی مسلم لیگ (ن) کو ہی چکانی ہوگی۔ خواجہ
سعد رفیق کا کردار 1977ءمیں قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے والے محترم ملک اختر سے
ملتا جلتا ہے۔ بہتر ہے کہ میاں برادران خود آگے بڑھ کر صورتحال کو بگڑنے سے بچائیں۔۔
ایک دو سیٹوں کی قربانی بڑی مصیبت سے بچائے گی بھی اور اُن کے وقار میں بھی اضافہ
کرے گی۔
اس سارے الیکشن اور انتخابی عمل میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر جناب
فخر الدین جی ابراہیم ایک انتہائی کمزور آدمی ہیں۔ سپریم کورٹ ، فوج اور دیگر عوامل
کا دباﺅ اگر نہ ہوتا تو صحیح اور شفاف الیکشن اپں کے بس کی بات نہ تھی۔ اب بھی
متنازعہ معاملات میں اُن کا رویہ چیف الیکشن کمشنر کے شایان شان نہیں۔ دوسرے ممبران
کے بارے میں بھی لوگوں کو تحفظات ہیں کہ اُن کا جھکاﺅکسی نہ کسی سیاسی پارٹی کی طرف
تھا اور ہے اور وہ اپنے عہدے سے وفاداری کی بجائے اُن پارٹیوں سے وفاداری نبھا رہے
ہیں۔ چونکہ ان لوگوں کا سابقہ تعلق عدلیہ سے ہے اس لیے بہتر ہے کہ وہ اپنے اور
عدلیہ کے وقار کی خاطر اپنے عہدوں سے متثنیٰ ہو جائیں اور بہتر لوگوں کے لیے جگہ
خالی کر دیں۔
پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار شرمندگی کے بحر بے کراں میں گم ہیں۔ وہ
کیا کہیں۔ عوام اور خصوصاً جیالوں نے آصف علی زرداری کو بھٹو اور بے نظیر کے جانشین
کے طور پر قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ الیکشن سے چار پانچ دن پہلے ایک نوجوان
جیالے سے ملاقات ہوئی۔ لاہوری میں پارٹی کی صورتحال کے حوالے سے مایوس تھا مگر اُسے
امید تھی کہ بعض امیدوار اپنی ذاتی حیثیت میں بہتر نتائج دیں گے اور ہو سکتا ہے کہ
جیت بھی جائیں۔ میں نے سن کر کہا کہ تم جن کی جیت کی اُمید لگائے ہو۔ شاید ضمانت
بچا پائیں باقی کوئی ضمانت بھی نہ بچا سکے گا۔ لوگ تو زرداری کے نام کو سن کر منہ
پھیر لیتے ہیں۔ تم ووٹ ی امید لگائے ہو۔ پھر میں نے مذاق میں پوچھا کہ تم خود کسے
ووٹ دے رہے ہو۔ اس نے بڑے جوشیلے انداز میں جواب دیا میں پیپلز پارٹی ہوں میں پارٹی
کا مستقبل ہوں۔ زرداری کون ہے۔ اُس کا دور ختم ہو رہا ہے۔ اب میرا دور شروع ہو رہا
ہے۔ پارٹی کو ووٹ کم ملیں یا زیادہ ۔ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔ میرا ووٹ پارٹی
کا ہے اور میں کسی دوسرے کو ووٹ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
مئی کی ام میں نے اُسے فون کیا اور اُس کے علاقے کی صورتحال پوچھی۔ بہت اداس تھا۔
بتانے لگا کہ جس سکول میں اس نے ووٹ ڈالا۔ وہاں ووٹوں کی کل تعداد چھ ہزار کے لگ
بھگ تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو فقط سات ووٹ ملے جن میں سے پانچ اُس کے گھر والوں
کے تھے۔
دو دن پہلے ایک دوست نے صوبائی اسمبلی کے حلقے PP-154کا سرکاری نتیجہ بھیجا۔ مسلم
لیگ جس نے الیکشن جیتا کو 36736ووٹ ملے۔ دوسرے نمبر پر تحریک انصاف کے امیدوار کو
21265ووٹ ملے۔ تیسرے نمبر پر جماعت اسلامی کو 15487ووٹ ملے۔ پاکستان پیپلز پارٹی
چوتھے نمبر رہی اور اُسے فقط 1646ووٹ ملے۔ اس نتیجے کے حوالے سے دو باتیں میرے لیے
دلچسپ تھیں۔ پہلی جماعت اسلامی کے پندرہ ہزار سے زےادہ ووٹ ۔ عام طورپر یہ تاثر ہے
کہ کسی بھی صوبائی حلقے میں جماعت اسلامی کے اوسطاً تین چار ہزار ووٹ ہوتے ہیں اور
کسی حد تک یہ تاثر ٹھیک بھی ہے مگر اس حلقے میں پندرہ ہزار ووٹ لینا یقینا جماعت
اسلامی کے امیدوار سید احسان اللہ وقاص کی انتھک محت ، بے مثال کاوش ، حلقے کے عوام
سے مسلسل رابطہ اور ہما وقت خدمت کا صلہ ے۔ سید وقاص مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ایسے
کارکن کسی بھی جماعت کا بیش قیمت اثاثہ ہوتے ہیں اور جماعت کو ایسے کارکنوں پر ناز
ہوتا ہے۔ دوسری دلچسپ بات پاکستان پیپلز پارٹی کو عملاً کوئی ووٹ نہ ملنا۔ فیصل میر
انتہائی نفیس آدمی ہے۔ اس کا ایک اچھا خاصہ حلقہ احباب ہے۔ مگر لتا ہے زرداری کے
حوالے اس کے اپنوں نے بھی اس سے منہ موڑ لیا ہے۔ 1646ووٹ تو ایک مذاق ہے۔ نوجوان
اگر آزاد الیکشن لڑتا تو اُس کی اپنی شناسائی ، لوگوں سے میل جول اور خاندانی حوالہ
اُسے اس سے بہت زیادہ ووٹ دلا دیتا۔ یہ اتنے کم ووٹ اُس کی خوبصورت شخصیت کے حوالے
سے نہیں زرداری کی نفرت کے حوالے سے ہیں۔ افسوس نوجوان تو فقط پیپلز پارٹی کا ٹکٹ
حاسل کرنے کی سزا پایا ہے۔ |