تحریر : محمد اسلم لودھی
جیپ پر ایک میجر صاحب کہیں جارہے تھے اچانک جھٹکے سے جنگل بیا بان میں جیپ
رک گئی میجر نے پوچھا کیا ہوا ڈرائیور نے کہا سر پٹرول ختم ہوگیا ہے اب
ہمیں پٹرول پمپ تک پہنچنے کے لیے جیپ کو دھکا لگانا پڑے گا مجبور ی کے عالم
میںمیجرصاحب جیپ کو دھکا لگاکر پٹرول پمپ تک لے آئے ۔میجرصاحب نے ڈرائیورسے
کہا کہ جیپ کے پیچھے لٹکا ہوا اضافی ٹینک بھی پٹرول سے بھروا لو تاکہ
ایمرجنسی میں کام آسکے۔ یہ سن کر ڈرائیور بولا سر وہ تو پہلے ہی بھرا ہوا
ہے اسے تو میں نے ایمرجنسی کے لیے رکھا ہے۔ یہ واقعہ مذاق نہیں بلکہ
پاکستان میں اس وقت عملی صورت دھار چکا ہے ۔ الحمرا ہال میں منتخب نمائندوں
سے خطاب کرتے ہوئے متوقع وزیر اعظم میاں نواز شریف نے فرمایا کہ خزانہ خالی
ہے جبکہ بجلی کا بحران ختم کرنے کے لیے 500 ارب کی ضرورت ہے ۔سمجھ نہیں
آرہی کہ عوام کو بجلی فراہم کرنے کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا ۔ جس شام نواز
شریف نے یہ کہا تھا اس سے اگلے دن اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ وفاقی
حکومت نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے 183 ارب روپے جاری کردیئے ۔یہ
مذاق نہیں حقیقت ہے اگر یقین نہ آئے تو منگل 21 مئی کے اخبارات اٹھاکر
دیکھا جا سکتا ہے ۔اس لمحے جبکہ پورے میں ملک بجلی کی لوڈشیڈنگ 22 گھنٹے تک
پہنچ چکی ہے دیہاتوںمیں بجلی آتی ہی نہیں ۔ نہ پینے کا میسر ہے اور نہ ہی
دیگر انسانی ضرورت کے لیے بجلی موجود ہے ہسپتالوں میںآپریشن نہیں ہوپارہے
طالبہ کی تعلیم متاثر ہورہی ہے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوسکتا ۔ لاہو ر جیسے
شہر میںبھی اب تین تین گھنٹے بجلی بند رہتی ہے مچھروں سے دست بدست جنگ کرتے
ہوئے فٹ پاتھوںپر بیٹھے رات گزر جاتی ہے دفتروںمیں بھی بجلی کا عذاب پیچھا
نہیں چھوڑتا۔ جس طرح اللہ تعالی نے زندگی اور موت کا نظام قائم کررکھا ہے
اسی طرح جب بجلی آتی ہے تو انسانوں سمیت گھر کی تمام الیکٹرونکس چیزیں زندہ
ہوجاتی ہیں بجلی کے بند ہوتے ہی ایک بارپھر ان پر موت طاری ہوجاتی ۔ ایک
جانب بجلی کی یہ شرمناک لوڈشیڈنگ تو دوسری جانب سورج آگ برسا رہا ہے 50
سنٹی گریڈ سے اوپر درجہ حرارت پہنچ چکاہے پچاس سے زائد لوگ صرف گرمی کی وجہ
سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ہونا یہ چاہیئے تھا کہ ڈویلپمنٹ
پروگرام کے لیے جو 183 ارب روپے جاری کیے ہیں وہی رقم بجلی کے بند یونٹوں
کو چالو کرنے کے لیے خرچ کرکے عوام کو گرمی اور لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات
دلائی جاتی اگر زندہ رہے تو ڈویلپمنٹ پروگرام پھر بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لمحے
جبکہ نواز شریف خلوص دل سے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں
میں ان سے یہی گزارش کروں گا کہ اگر خزانہ خالی ہے تو ڈویلپمنٹ پروگرام کے
لیے 183 ارب روپے کہاں سے نکل آئے۔ ابھی تو 47 ارب کے فنڈ بھی خرچ نہیں
ہوئے جو راجہ پرویز اشرف نے اپنے حلقہ کے لیے جاری کیے تھے اور سپریم کورٹ
نے ان پر پابندی لگارکھی ہے ۔اگر پھر بھی بات نہیں بنتی تو 1965 کی جنگ میں
بھی اس وقت کے صدر ایوب خان" ٹیڈی پیسہ ایک ٹینک" کا نظریہ پیش کرکے فنڈ
کیا تھا اور گلی محلوں اور بازاروں میں غلے رکھوا دیئے تھے جس میں غیور
پاکستانیوں میں اپنی بیویوں کے زیور تک ڈال دیئے تاکہ پاکستان کوضرورت کے
مطابق فنڈ میسر آسکیں اب بھی اگر عوام کو یقین ہوجائے کہ ان کے دیئے ہوئے
پیسے حکمران ہڑپ نہیں کرجائیں گے تو وہ اپنا سب کچھ قربان کرسکتے ہیں ۔
بیرون ملک پاکستانیوں کے دل وطن عزیز کے لیے تڑپتے ہیں وہ بھی پاکستان
کومسائل سے نکالنے کے لیے اپنا تن من دہن قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں ان
سے بھی عطیات وصول کیے جاسکتے ہیں۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں ڈالر بانڈ
متعارف کروا کر غیرملکی کرنسی میں سولر انرجی یونٹوںکی خرید کے لیے سرمایہ
جمع کیاجاسکتا ہے۔۔بزنس کیمونٹی میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو کھرب پتی
ہیں اور وہ درجنوں فیکٹریوں کے مالک ہیں اگر وہ دو تین ارب روپے بجلی فنڈ
میں جمع کروادیں تو ان کے لیے بھی آسانی ہوجائے گی ۔کسی ناگہانی آفت کی
آمدکے بعد حکومت تمام وفاقی اورصوبائی سرکاری و نیم سرکاری ملازمین اور بنک
ملازمین کی ایک دن کی تنخواہ کاٹتی رہی ہے اگر بجلی فنڈ میں چھوٹے ملازمین
کی ایک دن اور گزٹیڈافسروں کی پانچ دن کی تنخواہ جمع کرلی جائے تو پچاس ارب
سے کم پیسے جمع نہیں ہوں گے ۔فرض کرتے ہیں اٹھارہ کروڑ عوام اگر پانچ سو
روپے فی کس فنڈمیںجمع کرواتے ہیں تو 90 ارب روپے جمع ہوتے ہیں اگر ہر
پاکستانی کو یقین ہو کہ ایک ہزار روپے دینے کے بعد اسے ہمیشہ کے لیے بجلی
کی لوڈشیڈنگ سے نجات مل جائے گی تو وہ ایک ہزار روپے فی کس بھی دینے کو
تیار ہوگا چنانچہ 180 ارب روپے اس طرح بھی جمع ہوسکتے ہیں ۔ سٹیٹ بنک کے
پاس 12 ارب ڈالر کے جو محفوظ ذخائر ہیں۔ایک ارب ڈالر 100 ارب روپے کے برابر
ہے اگر تین ارب ڈالر بجلی کے لیے استعمال کرلیے جائیں تو 300 ارب روپے
اکٹھے ہوسکتے ہیں ملاجلا کر یہ رقم ایک ہزار ارب سے بھی زیادہ بن جاتی ہے ۔جون
میں اگلے سال کا بجٹ پیش کیا جارہاہے جس کے لیے ایف بی آر نے 12 سو ارب
روپے کے ٹیکس جمع کررکھے ہیں جون شروع ہونے میں صرف ایک ہفتہ باقی ہے اگر
ضرورت کے مطابق بجٹ میں سے حاصل کرلی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ یہ وہ
طریقے ہیں جہاں سے آپ کو بجلی فنڈ کے لیے ایک ہزار ارب روپے میسر آسکتے ہیں۔
اگر پھر بھی پیسے پورے نہیں ہوتے تو خسارے میں چلنے والی پی آئی اے ٬ سٹیل
ملز اور ریلوے کو بھی فروخت کرکے فنڈ حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔ اس لیے پریشان
ہونے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ کام جس قدر دیانت داری اور شفاقیت مانگتا ہے
اسے فراہم کرنا حکومت کا کام ہے کیونکہ لوگ پہلے سے ڈسے ہوئے ہیں اس لیے وہ
جلد کسی پر اعتبار نہیں کرتے ۔سٹیٹ بنک کے مطابق 225 ارب روپے کے قرضے معاف
کروائے جاچکے ہیں بزنس کیمونٹی سے اگر یہ رقم رضاکارانہ طور پر واپس لے لی
جائے تو تمام معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اس وقت 35 فیصد بجلی پانی سے حاصل
ہورہی ہے لیکن پاکستانی دریاﺅںکا پانی بھارت نے روک کر 35 فیصد بجلی کی
پیداوار ختم کرنے اور پاکستانی زراعت کو بھی تباہ کرنے کا مصمم ارادہ
کررکھا ہے بھارت سے دوستی کے ہم مخالف نہیں ہیں لیکن کشمیر میں استصواب
رائے اور پاکستانی دریاﺅں کا پانی واپس ملنے کے بعد پائیدار دوستی ہوسکتی
ہے ۔ اب آتے ہیں بجلی کی کھپت کی طرف ۔ پاکستان میں فائیو سٹار ہوٹلوں ٬
شادی گھروں اور بنک برانچوں کی تعداد 10 ہزار سے زائد بنتی ہے ان تمام
بجلی0 500 میگاواٹ سے زیادہ بجلی خرچ ہوتی ہے کیونکہ یہ تمام کے تمام
سنٹرلی ائیرکنڈیشنڈ ہیں حکومت ان تمام کو سولر انرجی پر کو منتقل کرنے کا
حکم دے تو5000 میگاواٹ بجلی کا فرق تو یہی ختم ہوجاتا ہے جب تک بجلی کی
کھپت ٬ پیداوار کے برابر نہیں ہوجاتی ۔ رات کو کرکٹ ٬ ہاکی اور فٹ بال میچ
کھیلنے پر پابند ی لگا دی جائے تو بغیر کچھ کیے لوڈشیڈنگ ختم ہوسکتی ہے ۔پھر
ایوان صدر سے لے کر تمام سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں فوری طور پر
ائیرکنڈیشنر چلانے پر پابندی لگا دی جائے فالتو بتیاں بند اور سرکاری
افسران کو لامحدود بجلی کے بل کی ادائیگی پر پابندی لگ جائے تو ا ن کے
گھروں میں چو بیس چوبیس گھنٹے جو مال مفت دل بے رحم کی طرف دس دس
ائیرکنڈیشنڈ چلتے ہیں وہ بند ہوجائیں ۔
تمام کمپنیوں لیسکو ٬ پپکو٬ کیسکو٬ پیسکوکو ختم کرنے سے ہی انتظامی اخراجات
میں 50 فیصد کمی ہوجائے گی اور واپڈا یہی رقم پاور پراجیکٹ کو ادا کرنے کے
قابل ہوجائے گالیکن یہ کام اسی وقت نہایت شفافیت سے انجام پا سکتا ہے جب
پہلے کی طرح لیفٹیننٹ جنرل(ر) ذوالفقار علی خان کو ایک بار پھر واپڈا کا
بااختیار چیرمین بنا دیا جائے تاکہ وہ گفت و شنید سے بجلی کی پیداواری لاگت
کو کم کرکے عوام کی قوت خرید کے مطابق نیچے لے آئیں اور سرکلر ڈیٹ کامسئلہ
ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے ۔نوائے وقت نے بطور خاص جب لیفیٹننٹ جنرل (ر)
ذوالفقار علی خان کو بجلی کی موجودہ صورت حال پر گفتگو کرنے کے لیے مدعو
کیا تو انہوںنے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ حکومت اگر چاہے تو صرف 100 دنوں میں
بجلی کی کمی پر قابوپایا جاسکتا ہے اس کے لیے کوئی راکٹ سائنس نہیں چاہیئے
حکومت جو پیسے گیس بجلی کے دینے ہیں وہ واپس گھوم کر حکومت کے پاس ہی آ
جائیں گے حکومت ایک ماہ میں 100 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ اکٹھا کرسکتی اس کے
بعد 25 ارب روپے آئیل اینڈ گیس کو دے دیں 50 ارب آئی پی پیز کو دے دیں 25
ارب سے سسٹم کو اپ گریڈیشن پر لگا دیں تو ایک ماہ میں لوڈشیڈنگ کم ہوکر دو
سے تین گھنٹے رہ جائے گی 6 ہزار میگاواٹ کے شارٹ فال میں چار سے پانچ ہزار
میگاواٹ سسٹم میں آجائے گی جس سے لوڈشیڈنگ 100دن میںصرف دوگھنٹے کی رہ جائے
گی انہوںنے مزید کہا کہ دنیا کے تمام ممالک میں انرجی کے لیے وزارت ہوتی ہے
پاکستان میں پٹرولیم اور واٹر اینڈ پاور کی دو الگ الگ وزارتیں ختم کرکے
اگر ایک ریگولیٹر اتھارٹی بنا دی جائے تو معاملات بہت حد درست ہوسکتے ہیں
انہوںنے کہا کہ اس وقت پاور سیکٹر میں دو بڑے مسئلے ہیںایک پاور شارٹیج
کاہے اور دوسرا مسئلہ بجلی مہنگی ہونے کا ۔ اگر ہماری کاسٹ آف پروڈکشن
زیادہ ہوگی تو تو ہمارا مال دنیا میں کون خریدے گا اس کے لیے پوری اور سستی
بجلی کے لیے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبوں کے علاوہ سیاسی انتظامی کمٹمنٹ
کی ضرورت ہے ۔مسئلہ آسانی سے حل ہوسکتا ہے ۔ واپڈا کے سسٹم میں کرپشن اور
نااہلیت کی وجہ سے ریکوری نہیں ہورہی پندرہ فیصد رقم اہم اور بااثر افراد
نہیں دے رہے جس سے واپڈا کا سرکلر ڈیٹ 360 ارب روپے کا ہوگیا ہے اس میں سے
210 پبلک سیکٹر اور 150 ارب روپے پرائیویٹ سیکٹر کے ذمے ہیں ۔ خود واپڈا نے
320 ارب روپے دینے ہیں اسے 100 دن کے اقدامات سے موثر طریقے سے کنٹرول
کیاجاسکتا ہے سب سے پہلے لائن لاسز جو اس وقت تقریبا 25فیصد ہیں انہیں فوری
اقدامات کم کرکے 10 فیصد پر لایاجاسکتا ہے ایک فیصد لائن لاسز سے تقریبا چھ
سے سات ارب روپے کا نقصانہوتا ہے دوسرا بجلی کے محکمہ میںابہام پیدا
کردیاگیا ہے پیپکو بنا دی گئی پرائیویٹائزیشن کاعمل شروع کردیاگیا جس سے
میرٹ پر پوسٹنگ ٹرانسفر بند گئی میرے پر ترقیاں رک گئیں سفارش پر تقرریاں
تبادلے پوسٹنگ ہونے سے سسٹم تباہ ہوچکاہے ۔پانچ سال میں چھ سیکرٹری تبدیل
ہوچکے ہیں واپڈا کا سب کچھ لاہور میں ہے جبکہ پیپکو اسلام آباد میں ہے کسی
کو کچھ بھی پتہ نہیں کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہے ۔
طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت فرنس آئل کی بجائے کوئلے کو بجلی بنانے کے
لیے استعمال کیاجاسکتا ہے امریکہ میں 70 فیصد بجلی گھروںمیں کوئلہ استعمال
ہوتا ہے برادر ملک چین تھرکول سے بجلی بنانے میں ہماری مدد کرسکتا ہے ان سے
مدد لے کر ایک سال میں ہم تقریب پانچ سے دس ہزار میگا واٹ بجلی بنا سکتے
ہیں ۔انہوں نے کہاکہ بھاشا ڈیم صرف چین ہی بنا سکتاہے اسے چین کوہی دے دینا
چاہیئے اور کوئی ملک اس کے لیے رقم نہیں دے گا ۔
بھارت نے دریائے چناب کا پانی روکنے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے جس سے پاکستان
کو پانی اور بجلی دونوں امور میں نقصان ہوگا انہوںنے کہا کہ اگر پاکستان
بیرون ملک بجلی کا بحران ختم کرنے کے لیے بانڈ متعارف کرواتا ہے تو دوسرے
ملکوں میں رہنے والے پاکستانی اپنے ملک کی بہتری کے وہ بانڈ خرید کر
پاکستان کو بجلی کے بحران پر قابو پانے میں مدد دے سکتے ہیں ۔سب کچھ ہوسکتا
ہے اگر نیت صحیح ہو بروقت اور موثر اقدامات کرلیے جائیں تو ۔وگرنہ اس وقت
بجلی کے شعبے کی جو حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔
مایوس ہونے والوں کے لیے ایک اور خوشی کی خبر یہ بھی سعودی حکومت نے
نوازشریف حکومت کو بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے 15 ارب ڈالر دینے پر
آمادگی ظاہر کردی ہے یہ رقم پٹرول اور فرنس آئل کی صورت میں بھی دی جاسکتی
ہے جس سے امید پیدا ہوگئی ہے کہ اللہ تعالی نے اگر چاہا اور میاں نوازشریف
نے خلوص نیت سے اقدامات کیے تو چند مہینوں میں ہی پاکستان توانائی کے مسائل
سے چھٹکارا حاصل کرلے گا ۔ان شااللہ
علاوہ ازیں تھرکول پراجیکٹ کی رفتار تیز کریں سائنس دانوںکی ایک کمیٹی بنا
کر سولرانرجی یونٹ اور وائنڈ انرجی یونٹ ملک کے اندر تیار کرکے زرمبادلہ
بچایا جاسکتا ہے ۔فرنس آئل پر چلنے والے بجلی گھروںکو کوئلے یا گیس پر
منتقل کریں سعودی عرب کویت٬ایران سے مفت تیل بھی آپ لے سکتے ہیں مزید
پاکستان میں تیل اور گیس کی مزید تلاش کا کام تیز کردیں تاکہ نئے ذخائر
تلاش کیے جاسکیں۔ یہ اقدامات کرکے دیکھیں کہ آپ کے پاس نہ صرف بجلی وافر
ہوجائے گی بلکہ خالی خزانہ بھی بھر جائے گا ۔میری اور میری طرح لکھنے اور
سوچنے والوں کی تحریریں اور تجزیئے اس وقت دم توڑ دیتے ہیں جب آپ تک ہماری
تجاویز پہنچ ہی نہیں پاتیں ۔اول تو آپ کو خود قابل ذکر اخبارات جن میں
نوائے وقت ٬ جنگ ٬ ایکسپریس شامل ہیں ان میں شائع ہونے والے اداریے اور
تجزیے خود پڑھنے چاہیئیں کیونکہ اخبارات میں انہی لوگوں کی تحریریں شائع
ہوتی ہیں زمین کی تہوں میں چھپی ہوئی چیزوں کو اپنی اسسمنٹ سے نکال باہر کر
تے ہیں اور آسمان پر کمند ڈالنے والوں کے عزائم سے باخبر ہوتے ہیں ان کی
باتوں اور تجزیوں میں بہت قیمتی رائے اور اثر موجود ہوتا ہے اس لیے اگر آپ
خود پڑھ سکیں تو بہت اچھا وگرنہ چند وفادار اور باصلاحیت لوگوں کو اس کام
پر معمور کیاجاسکتا ہے جو اخبارات کے اداریوں اور تجزیﺅں کو پڑھ کر ان میں
خاص خاص نکات کی تفصیل بنا کر آپ کو پیش کریں ان پر فیصلہ کرنے میں آپ کو
یقینا آسانی ہوگی۔
کوئی انسان عقل کل نہیں ہوتا اللہ تعالی نے ایک سے بڑھ کر ایک انسان
پیداکیے ہیں اس لیے فیصلہ کرتے وقت ممتاز کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں کی
رائے کو بھی مدنظر رکھیں اس میں آپ اور پاکستان دونوں کابھلا ہے ۔ ایک بار
پھر کہوں گا کہ میاں صاحب اللہ تعالی نے پاکستان کو ہر نعمت سے نوازا ہے
صرف خلوص دل سے جستجو کرنے کی ضرورت ہے ۔
کچھ ایسی ہی مثال آج کل ایل ڈی اے پلازہ کی بھی ہے جہاں گزشتہ دنوں اس شدت
سے آگ لگی اسے اس لیے بجھایا نہیں جاسکتا کہ فائربریگیڈ کے پاس اتنی بلندی
پر پہنچنے اور آگ بجھانے کے آلات ہی نہیں تھے لیکن اب جبکہ 28 سے زیادہ
زندہ انسان آگ میں جل کر راکھ ہوچکے ہیںاور درجنوں زخمی ہیں اب ایل ڈی اے
کے پانچویں فلور کی تعمیر مرمت پر 48 کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے۔کہنے
کامقصد یہ ہے کہ اگر یہی 48 کروڑ سے آگ بجھانے اور کثیرالمنزلہ عمارتوں تک
رسائی کی الیکٹرک سیڑھی خرید لی جاتی تو اتنی جانیں اور قیمتی ریکارڈ تو
ضائع نہ ہوتا ۔ اب 48 کروڑ روپے پانچویں فلور کی تعمیر پر خرچ کردیئے جائیں
گے لیکن فائربریگیڈ کے پاس سیڑھی اور آگ بجھانے کا سامان پھر بھی نہیں آئے
گا۔یہ ہمارا قومی مزاج بن چکاہے مرنے کے بعد لواحقین کو دس دس لاکھ روپے
اداکردیئے جاتے ہیںلیکن زندگی بچانے کے لیے کسی انسان کو ایک پیسہ بھی نہیں
دیا جاسکتا ۔گزشتہ پانچ سالوں میں سانحات اور حادثات پر مرنے والوں کے
لواحقین کو اربوں روپے ادا کیے جاچکے ہیں حادثات اور سانحات ہوتے ہیں
لواحقین کو لاکھوں روپے فی کس کے حساب اداکردی جاتی ہے اللہ اللہ خیر سلا ۔
وہ خود بھی اخبار پڑھا لیا کریں بے شمار کالم نگار اور تجزیہ نگار اپنے
کالموں میں بجلی کے بحران سمیت پاکستان کو درپیش دیگر بحرانوں سے نجات حاصل
کے لیے روزانہ قابل عمل تجاویز دیتے ہیں لیکن آپ تک ان تجاویز کا نہ پہنچنا
بھی تکلیف دہ بات ہے آپ اور آپ کے نمائندوں سے موبائل پر رابطہ کرنا تو اب
ممکن ہی نہیں رہا ۔اگر آپ کے پاس اتنا وقت نہیں ہے تو چند ذمہ دارافراد کو
یہ فریضہ سونپ دیں کہ وہ اخبارات کے اداریوں اور کالموں کو پڑھ کر اہم نکات
کی ایک فہرست بنا کر آپ کو پیش کردیا کریں۔ کوئی بھی انسان عقل کل نہیں
ہوتا اگر ایک شخص کو مسئلے کا حل نہیں ملتا تو دوسرے کے ذہن میں بھی بہتر
حل موجود ہوسکتا ہے ۔ جو آپ کو پسند آجائے اور پاکستان بجلی کی قلت کے عذاب
سے نکل آئے ۔ میں آپ سے یہی کہنا چاہتا ہوں- |